Popular Posts

Sunday, November 17, 2019

جماعت نہم اردو سبق ملکی پرندے اور دوسرے جانور تشریح پیراگراف نمبر8

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر8

اقتباس:

دن بھر الو آرام کرتا ہے............ غالباً حس مزاح سے محروم ہے۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کانام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں

خط کشیدہ الفاظ کے معانی

آرام......سکون،راحت

مصلحت.......حکمت عملی،دوراندیشی

پوشیدہ.......چھپا ہوا، پنہاں

قیاس...... اندازہ

صحیح....درست،ٹھیک

وظیفہ......ورد، ذکر

خود پسندوں.....خود ستائش،اپنی تعریف چاہنے والے

ہزاردرجہ......بہت حدتک

شوخ.......شرارتی

باتونی......زیادہ باتیں کرنے والا

حس مزاح .......مذاق کی سوجھ بوجھ

محروم ہونا.......کھو دینا،ضائع کرنا،بےبہرہ ہونا

محض......صرف

ذی فہم.......عقل مند،سوچ بچار والے

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور " کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ الو بردبار اور دانش مند پرندہ ہے مگر پھر بھی الو ہے۔ وہ کھنڈروں میں رہتا ہے۔اسے صرف وہی پسند کرتا ہے جو حد سے زیادہ فطرت کا مداح ہو۔یہ دن بھر آرام کرتا ہے جبکہ مادہ الو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔

تشریح:

اردو کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف الو کی عادات اور خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ الو ایک عقل مند پرندہ ہے جو سارا دن آرام و سکون کرتا رہتا ہے اور سوتا رہتا ہے مگر جوں ہی رات ہوتی ہےتو یہ اپنی مخصوص آواز میں ہوہو کرنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دن کام کاج کےلیے جبکہ رات سونے اور آرام کرنے کے لیے بنائی ہے مگر الو کی عادت اس کے برعکس ہے۔ الو کی اس عادت میں کیا حکمت عملی چھپی ہوسکتی ہے اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔

        اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ الو رات کو تو ہی تو کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے۔ اگر لوگوں کی اس بات میں سچائی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الو خودستائی کرنے والا اور مغرور پرندہ نہیں ہے۔ الو کی یہی وہ خوبی ہے جو اسے ان لوگوں سے ممتاز بناتی ہے جو خودستائی اور مغروریت کا شکار ہوکر ہروقت میں ہی میں کا وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں اور اپنی انا کے خول میں مگن رہتے ہیں کیونکہ وہ میں میں کی انا پرستی کی بجائے تو تو کرکے دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ تو ہی ہے۔

ایک قول ہے: 

" دوسروں کو خودپر فوقیت دینا راحت کا باعث ہوتا ہے"

 اور بقول  شاعر 

میں اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں

میں،میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں

شرارتی اور زیادہ باتیں کرنے والے پرندے  الو کو بہت باعزت مقام سے نوازتے ہیں کیونکہ یہ خاموش طبع پرندہ ہے اور شاید ہنسی مذاق کی سوجھ بوجھ سے بھی محروم ہے۔کہاجاتا ہے کہ خاموشی عقل مندوں کی نشانی اور ان کی خوبی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک دانا کا قول ہے

"انسان کی عقل مندی اس کی زبان کے پیچھے پوشیدہ ہے"۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ باشعور اور فہ۔ و فراست کے حامل سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ خاموش رہتے ہیں اور مسکرانے کی بجائے سنجیدہ رہتے ہیں۔

جماعت نہم اردو سبق ملکی پرندے اور دوسرے جانور تشریح پیراگراف نمبر7

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر7


اقتباس:

بھینس اگر ورزش کرتی.............. وہ انسان سے زیادہ خوش نصیب ہے۔


حوالہ متن: 

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کانام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

ورزش......کثرت کرنا

چھریری.....دبلی پتلی

بعض......کچھ، چند

احتیاط..... بچاؤ، محتاط ہونا

مشغلہ......شغل، شوق

جگالی.....چارہ چباتے رہنا

نیم باز ......آدھی کھلی

افق...... آسمان کا کنارہ جو زمین سے ملتا دکھائی دیتا ہے

تکنا......غور سے دیکھنا، گھورنا

قیاس آرائیاں کرنا.......اندازے لگانا، گمان کرنا

حافظہ......یادداشت

خوش نصیب.....خوش قسمت


سیاق و سباق:

 تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بھینس کے بارے میں بتاتا ہے کہ بھینس بھدی ہوتی ہے اور اس کا دور سے پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ آرہی ہے یا جارہی ہے۔ بھینس غذا کا خیال نہیں رکھتی۔ بھینسوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہےاور بھینس کا مذکر بھینسا بالکل نکما ہوتا ہے۔



تشریح: 

اردوکے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری سے کام لینے کی بجائے سادہ مگر مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے ۔

      تشریح طلب اقتباس میں مصنف بھینسوں کے متعلق بڑے واضح اور مفصل اور مزاحیہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ بھینس اگر اپنی صحت کے متعلق سوچتی، اپنی صحت کا خیال رکھتی ،ورزش کرتی اور دیگر جسمانی سرگرمیاں انجام دیتی اور اپنی خوراک کا بھی مناسب خیال رکھتی تو موٹی ہونے کی بجائے دبلی پتلی ہوسکتی تھی۔ طبیبوں کا بھی  قول ہے کہ


" خوراک کی کثرت اور بداحتیاطی جسم کو فربا کر دیتی ہے".


چونکہ بھینس اپنی صحت کے متعلق کچھ کر نہیں سکتی اس لیے وہ پتلی نہیں ہوسکتی اور اگر وہ خود کو دبلا پتلا رکھنے کےلیے کچھ کرتی بھی تب بھی کچھ واضح نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خود کو دبلا پتلا کرنے میں کامیاب ہوپاتی یا نہیں کیونکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی صحت کے حوالے سے مکمل  احتیاط کرتے رہتے ہیں پھر بھی وہ موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی احتیاط کوئی فائدہ نہیں دیتی۔

     مصنف بھینس کے متعلق مزید کہتا ہے کہ جگالی کرنا یعنی ہروقت خوراک کو چباتے رہنا اور پانی کے تالاب میں پڑے رہنا بھینس کا مشغلہ اور شوق ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی ادیب نے مزاقا بجا ہی کہا ہے:


" شادی والے گھر سے اپنی عورت اور پانی کے تالاب سے بھینس کو نکالنا بڑا مشکل ہوتا ہے".


بھینس آدھی کھلی آنکھوں سے آسمان کو گھورتی رہتی ہے۔ اس پر کچھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ بھینس کچھ سوچتی رہتی ہے حالانکہ یہ ان کا گمان ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ بھینس کچھ نہیں سوچتی۔ اگر بھینس نے اپنے بارے میں خود سوچنا ہوتا تو ہمیں اس کی فکر کرنے اور ہروقت اس کی ضروریات کا خیال رکھنے کا رونا رونے کی کیا ضرورت تھی۔ 

    بھینس کی صحت مندی کی ایک وجہ اس کی یادداشت کی کمزوری بھی ہے کیونکہ اسے کل کی بات اگلے دن یاد نہیں رہتی اور نہ ہی وہ اس بارے کچھ فکر کرتی ہے اس لیے یہ اس لحاظ سے انسان سے بہت زیادہ خوش قسمت ہے کیونکہ انسان کو نہ تو فکر چھوڑتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی تلخ یادوں کو بھلا  پاتا ہے بلکہ ساری زندگی سوچ سوچ کر کڑھتا ہے ۔ بقول شاعر


یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔

Saturday, November 16, 2019

جماعت نہم اردو سبق ملکی پرندے اور دوسرے جانور تشریح پیراگراف نمبر6

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر6


اقتباس:

بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے........اس طرف جا رہی ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کا نام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

محبت......الفت،لگاؤ

شکایت......گلہ، شکوہ

گیراج......گاڑی کھڑی کرنے کی عمارت

بھدی....بدصورت، بری

مشکل......دشوار، کٹھن


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور  کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کا سیاق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے اور اس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال اور ددھیال دونوں پر جاتے ہیں۔ بھینس سے ہماری محبت پرانی ہے۔ دور سے بھینس کا پتا نہیں چلتا کہ وہ آ رہی ہےیا جا رہی ہے۔ بھینس اگر ورزش کرے تو چھریری ہوسکتی ہے۔


تشریح:

اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔

         تشریح طلب اقتباس میں مصنف بھینس کے بارے میں دلچسپ انداز میں بتاتا ہے کہ بھینس ایک ایسا جانور ہے جس سے ہم انسانوں کی دلچسپی اور محبت بہت پرانی ہے۔ یہ محبت اس وقت سے ہے جب دور بہت سادہ ہوتا تھا اور کھیتی باڑی کرکے روزی روٹی حاصل کی جاتی تھی اور دودھ جیسی نعمت کےلیے بھینسوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:


" ہم نے جانوروں کو انسان کے فائدے کےلیے پیدا کیا ہے".


         بھینسوں سے یہ محبت تب سے چلی آرہی ہے۔ اب یہ حالت آگئی ہے کہ ہمارا بھینس کے بغیر گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔ بھینس چونکہ محبت اور احساس جیسے جذبوں سے بےنیاز ہوتی ہے اس لیے وہ ہمارے بغیرتو گزارہ کرسکتی ہے اور ہمارے بغیر رہ سکتی ہے لیکن ہم اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

         آج کل لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ اگر شہر میں گھر لیا جائے تو ایسی جگہ ضرور ہونی چاہیے جہاں پر بھینس باندھی جاسکے اس لیے ایسے گھر پسند ہی نہیں کیے جاتے جہاں بھینس کو باندھنے کی جگہ نہ ہو۔

        مصنف بھینسوں کی وضع قطع اور بناوٹ کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اتنی موٹی اور حجم میں بڑی ہوتی ہے کہ اس کے جسم اور چہرے کا پتا نہیں چلتا اور دور سے اسے دیکھا جائے تو معلوم ہی نہیں پڑتا کہ بھینس ہماری طرف آ رہی ہے یا دوسری طرف جارہی ہے۔ جیسا کہ داغ دہلوی کہتے ہیں:


رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

جماعت نہم اردو سبق "ملکی پرندے اور دوسرے جانور تشریح پیراگراف نمبر5

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر5


اقتباس:

ماہرین کا خیال ہے.........اسے خاموش کراسکتے ہیں۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کا نام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

 ماہرین.......ماہر کی جمع، تجربہ کار

خیال..... گمان، سوچ

غمگین...... افسردہ، پرغم

خانگی.....گھریلو

محظوظ......لطف اندوز

راگ......گیت، نغمے

موسیقار......موسیقی اور گانے بجانے والے

الاپ ......تان،سر

بےسری......بھدی آواز والی

بہانے ......حیلے


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان میں سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ننھا سا پرندہ ہے جوکہ پروں سمیت چند انچ ہوتا ہے۔ بلبل اپنی غمگین خانگی زندگی کی وجہ سے گاتی ہے اور یہ زیادہ سفر نہیں کرتی۔


تشریح:

اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔

          تشریح طلب اقتباس میں مصنف بلبل کے نغمے گانے کی اصل وجہ آشکارا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ماہرین کے مطابق بلبل کے نغمے اور گیت گانے کی اصل وجہ اس کی غم زدہ گھریلو زندگی ہے کیونکہ بلبل ایک ایسا پرندہ ہے جسے ہروقت اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی اور اپنی خواہشات کی فکر رہتی ہے اور اسی فکر میں وہ ہروقت پرغم نغمے گاتی رہتی ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:


کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بےاثر

پردہ میں گل کے لاکھ جگر چاک ہوگئے

  

       مصنف مزید کہتا ہے کہ بلبل کسی کو خوش کرنے کےلیے ہرگز نہیں گاتی بلکہ  اس کے گانے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی فکر میں مگن رہتی ہے اور اس کے نغموں میں آواز کے اتار چڑھاؤ اور لب و لہجہ میں پختگی ہو یا نہ ہو مگر وہ اپنی مشکلات اور اپنی فکرمندی کی وجہ سے راگ گاتی رہتی ہے۔

         چناں چہ اپنی اس خوبی کی وجہ سے بلبل ان موسیقاروں سے بہت بہتر ہے جو مختلف قسم کے آلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دھن بناتے ہیں اوراس دھن کے ساتھ کافی دیر تک تان لگائے رکھتے ہیں اور بہانے بھی تراشتے ہیں جبکہ بلبل اپنے دکھوں کی ستائی ہوئی اپنے غم میں راگ گاتی ہے اور اگر اس کی سر درست نہ بن پائے تو نام نہاد موسیقاروں اور گلوکاروں کی طرح یہ بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔وہ درست ساز نہیں بجا رہے یا آج میرا گلہ خراب ہے درست گا نہیں سکتی بلکہ وہ اپنے دکھ کو کم کرنے کےلیے جیسے بھی آتا ہے راگ گاتی رہتی ہے۔ بقول برکن ہیڈ


"ہر ذی روح اپنے دکھ کا اظہار کرتا ہے جبکہ بلبل کے دکھ کا اظہار اس کے نغمے میں ہوتا ہے".

Friday, November 8, 2019

جماعت نہم اردو سبق " ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر4




جماعت نہم اردو سبق "ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر4




سبق : ملکی پرندے اور دوسرے جانور ۔پیراگراف نمبر4 ۔

اقتباس: 

عام طور پر بلبل کو آہ و زاری...................... نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا.

 حوالہ متن:

 سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور.

مصنف کانام: شفیق الرحمن

 ماخذ: مزید حماقتیں

 صنف: مضمون

 خط کشیدہ الفاظ کے معانی.

 آہ وزاری .......گریہ زاری , رونا پیٹنا

 اکسانا......ابھارنا, جوش دلانا

مضحکہ خیز .......عجیب و غریب, مزاق کے قابل

 افواہ ..........بےپرکی

 نالہ و شیون.......... گلہ شکوہ , آہ و زاری


: سیاق و سباق

 تشریح طلب اقتباس "شفیق الرحمن" کے لکھے ہوئے مضمون " ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیاگیا.اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ ایک روایتی پرندہ ہے جو ہرجگہ موجود ہے۔ہرخوش گلو پرندہ بلبل نہیں ہوتا اور اصلی بلبل ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی۔بلبل کو رات کے وقت عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔بلبل پروں سمیت چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ 


 تشریح:

 اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار " شفیق الرحمان" کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں. وہ الفاظ کی بازی گری سے کام لینے کی بجائے سادہ مگر موثر انداز میں مضامین لکھتے ہوئے اپنا اصلاحی مدعا بیان کر جاتے ہیں جو قارئین کے دل موہ لیتا ہے.. " ملکی پرندے اور دوسرے جانور " ان کی مزاح نگاری کا عمدہ مرقع ہے جو ان کی کتاب " مزید حماقتیں" سے اخذ کیاگیا ہے.تشریح طلب اقتباس میں مصنف بلبل کی اہمیت اور خصوصیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل غمگین نغمے گاتا ہے اور اس کی وجہ اس کی غم زدہ گھریلو زندگی ہے.اپنے ان غمزدہ نغموں کی وجہ سے اسے آہ و زاری اور گریہ زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے پرغم نغمے گانے کے ساتھ ساتھ رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے.. رونا پیٹنا فطرتا کسی کو پسند نہیں ہوتا کیونکہ یہ دکھ اور درد کی علامت ہوتا ہے اور دکھ درد اور تکالیف کسی کےلیے کسی طور پسندیدہ نہیں ہوسکتے اس لیے بلبل بھی اسی قدرتی امر کے تحت رونے پیٹنے اور گریہ زاری کرنے کو کسی طور پسند نہیں کرتا..مصنف کے نزدیک بلبل ہونا کافی عجیب و غریب، مضحکہ خیز  اور قابل تمسخر ہے کیونکہ اس کی درست حقیقت سے بڑے بڑے محروم ہیں اور اس کے بارے میں بہت کچھ ابھی واضح نہیں.. یہ ایسا عجیب پرندہ ہے کہ بہت سے مصنف اور شعرا اسے مذکر بھی ظاہر کرتے ہیں اور مونث بھی گردانتے ہیں ..بہت سے شعرا کرام نے اپنی شاعری میں بلبل کا باغ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود گلاب کے پھولوں کے ساتھ بھی گہرا تعلق جوڑا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انھوں نے رات کے کسی پہر بلبل کو گلاب کی کسی شاخ پر آہ و زاری اور گریہ زاری کرتے دیکھ لیا تھا۔کم از کم  ان کا خیال یہ تھا کہ گلاب کے پودے پر بیٹھا وہ پرندہ ہی بلبل ہے اور اس کی وہ خوب صورت آواز اس کا دکھ بھرا گیت اور نالہ تھا۔  جیسا کہ اقبال کہتے ہیں :

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

 بلبل  تھا کوئی  اداس  بیٹھا

Thursday, November 7, 2019

جماعت نہم اردو سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر3

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
بلبل ایک روایتی پرندہ ہے.........کوہ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں ہوتے

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
مصنف: شفیق الرحمن
صنف: مضمون
ماخذ: مزید حماقتیں

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
روایتی..... قدیم، رسمی
خوش گلو......اچھی آواز والا
یقیناً........سچ مچ،واقعی
قصور.......جرم، خطا،غلطی
اصلی......حقیقی
کوہ ہمالیہ.......ہمالیہ کے پہاڑ
دامن......گود، جھولی

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کی خصوصیات سے آگاہ کرنے سے پہلے کوے کے متعلق بتاتا ہے کہ اگر آپ کوؤں سے نالاں ہیں تو وہ بھی آپ سے نالاں ہوتے ہیں جبکہ بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جسے آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے۔

تشریح:
اردو کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف ایک ننھے پرندے بلبل کی اہمیت اور اس کی خصوصیات کے متعلق ہمیں آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل ایک قدیم دور کا پرندہ ہے جس کے بارے میں ہم بہت پہلے سے سنتے آئے ہیں۔یہ ایسا عجیب پرندہ ہے جو پایا تو ہر جگہ جاتا ہے مگر ہمیں دیکھنے کو بہت کم ملتا ہے اور یہ ایسی جگہ موجود ہوتا ہی نہیں جہاں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ موجود ہو اور ہم اس کو دیکھیں۔اس لیے اسے جہاں ہونا چاہیے وہاں یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس نے چڑیا گھر یا باہر کہیں بلبل کو دیکھا ہوا ہے تو وہ بالکل غلط سمجھتا ہے کیونکہ اس نے ضرور بلبل کی بجائے کوئی اور چیز دیکھی ہوگی۔ بلبل کا دکھائی دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور کسی خوش قسمت ہی کو دکھائی دیتی ہے۔
          ہم کسی بھی اچھی آواز والے پرندے کی خوب صورت آواز سنتے ہیں تو اسے بلبل سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ ہی بلبل ہو۔ اس میں غلطی ہماری نہیں بلکہ ہمارے ادب کی ہے کیونکہ ہمیں ادب ہی سے معلوم ہوا ہے کہ بلبل اچھی آواز میں گاتی ہے اور ہمارے ادبی شعرا کرام اپنی شاعری میں بھی بلبل کے نغموں کو اکثر بیان کرتے رہتے ہیں حالانکہ انھوں نے بھی نہ بلبل دیکھی ہوتی ہے اور نہ کبھی اس کی آواز سنی ہوتی ہے پھر بھی اس کی خوب صورت آواز کو اپنی شاعری کا حصہ بنائے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہوجائے
کلی کی آنکھ کھل جائے،چمن بیدار ہوجائے

      مصنف کا خیال ہے کہ اصلی بلبل تو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی کہیں دکھائی دیتی ہے لیکن ہمارے شعرا کرام نے اسے دیکھے سنے بغیر ہی اپنی شاعری کا حصہ بنا لیا۔
      سننے میں آیا ہے کہ شمالی پہاڑی علاقے کوہ ہمالیہ کی وادیوں میں کہیں کہیں بلبل تو پائی جاتی ہے لیکن وہاں شعرا موجود نہیں ہوتے۔اس لیے بلبل کے متعلق شعرا کے خیالات فرضی ہوتے ہیں۔

جماعت نہم اردو سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر3

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
بلبل ایک روایتی پرندہ ہے.........کوہ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں ہوتے

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
مصنف: شفیق الرحمن
صنف: مضمون
ماخذ: مزید حماقتیں

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
روایتی..... قدیم، رسمی
خوش گلو......اچھی آواز والا
یقیناً........سچ مچ،واقعی
قصور.......جرم، خطا،غلطی
اصلی......حقیقی
کوہ ہمالیہ.......ہمالیہ کے پہاڑ
دامن......گود، جھولی

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کی خصوصیات سے آگاہ کرنے سے پہلے کوے کے متعلق بتاتا ہے کہ اگر آپ کوؤں سے نالاں ہیں تو وہ بھی آپ سے نالاں ہوتے ہیں جبکہ بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جسے آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے۔

تشریح:
اردو کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف ایک ننھے پرندے بلبل کی اہمیت اور اس کی خصوصیات کے متعلق ہمیں آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل ایک قدیم دور کا پرندہ ہے جس کے بارے میں ہم بہت پہلے سے سنتے آئے ہیں۔یہ ایسا عجیب پرندہ ہے جو پایا تو ہر جگہ جاتا ہے مگر ہمیں دیکھنے کو بہت کم ملتا ہے اور یہ ایسی جگہ موجود ہوتا ہی نہیں جہاں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ موجود ہو اور ہم اس کو دیکھیں۔اس لیے اسے جہاں ہونا چاہیے وہاں یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس نے چڑیا گھر یا باہر کہیں بلبل کو دیکھا ہوا ہے تو وہ بالکل غلط سمجھتا ہے کیونکہ اس نے ضرور بلبل کی بجائے کوئی اور چیز دیکھی ہوگی۔ بلبل کا دکھائی دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور کسی خوش قسمت ہی کو دکھائی دیتی ہے۔
          ہم کسی بھی اچھی آواز والے پرندے کی خوب صورت آواز سنتے ہیں تو اسے بلبل سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ ہی بلبل ہو۔ اس میں غلطی ہماری نہیں بلکہ ہمارے ادب کی ہے کیونکہ ہمیں ادب ہی سے معلوم ہوا ہے کہ بلبل اچھی آواز میں گاتی ہے اور ہمارے ادبی شعرا کرام اپنی شاعری میں بھی بلبل کے نغموں کو اکثر بیان کرتے رہتے ہیں حالانکہ انھوں نے بھی نہ بلبل دیکھی ہوتی ہے اور نہ کبھی اس کی آواز سنی ہوتی ہے پھر بھی اس کی خوب صورت آواز کو اپنی شاعری کا حصہ بنائے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہوجائے
کلی کی آنکھ کھل جائے،چمن بیدار ہوجائے

      مصنف کا خیال ہے کہ اصلی بلبل تو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی کہیں دکھائی دیتی ہے لیکن ہمارے شعرا کرام نے اسے دیکھے سنے بغیر ہی اپنی شاعری کا حصہ بنا لیا۔
      سننے میں آیا ہے کہ شمالی پہاڑی علاقے کوہ ہمالیہ کی وادیوں میں کہیں کہیں بلبل تو پائی جاتی ہے لیکن وہاں شعرا موجود نہیں ہوتے۔اس لیے بلبل کے متعلق شعرا کے خیالات فرضی ہوتے ہیں۔

جماعت نہم اردو سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر3

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
بلبل ایک روایتی پرندہ ہے.........کوہ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں ہوتے

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
مصنف: شفیق الرحمن
صنف: مضمون
ماخذ: مزید حماقتیں

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
روایتی..... قدیم، رسمی
خوش گلو......اچھی آواز والا
یقیناً........سچ مچ،واقعی
قصور.......جرم، خطا،غلطی
اصلی......حقیقی
کوہ ہمالیہ.......ہمالیہ کے پہاڑ
دامن......گود، جھولی

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کی خصوصیات سے آگاہ کرنے سے پہلے کوے کے متعلق بتاتا ہے کہ اگر آپ کوؤں سے نالاں ہیں تو وہ بھی آپ سے نالاں ہوتے ہیں جبکہ بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جسے آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے۔

تشریح:
اردو کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف ایک ننھے پرندے بلبل کی اہمیت اور اس کی خصوصیات کے متعلق ہمیں آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل ایک قدیم دور کا پرندہ ہے جس کے بارے میں ہم بہت پہلے سے سنتے آئے ہیں۔یہ ایسا عجیب پرندہ ہے جو پایا تو ہر جگہ جاتا ہے مگر ہمیں دیکھنے کو بہت کم ملتا ہے اور یہ ایسی جگہ موجود ہوتا ہی نہیں جہاں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ موجود ہو اور ہم اس کو دیکھیں۔اس لیے اسے جہاں ہونا چاہیے وہاں یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس نے چڑیا گھر یا باہر کہیں بلبل کو دیکھا ہوا ہے تو وہ بالکل غلط سمجھتا ہے کیونکہ اس نے ضرور بلبل کی بجائے کوئی اور چیز دیکھی ہوگی۔ بلبل کا دکھائی دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور کسی خوش قسمت ہی کو دکھائی دیتی ہے۔
          ہم کسی بھی اچھی آواز والے پرندے کی خوب صورت آواز سنتے ہیں تو اسے بلبل سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ ہی بلبل ہو۔ اس میں غلطی ہماری نہیں بلکہ ہمارے ادب کی ہے کیونکہ ہمیں ادب ہی سے معلوم ہوا ہے کہ بلبل اچھی آواز میں گاتی ہے اور ہمارے ادبی شعرا کرام اپنی شاعری میں بھی بلبل کے نغموں کو اکثر بیان کرتے رہتے ہیں حالانکہ انھوں نے بھی نہ بلبل دیکھی ہوتی ہے اور نہ کبھی اس کی آواز سنی ہوتی ہے پھر بھی اس کی خوب صورت آواز کو اپنی شاعری کا حصہ بنائے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہوجائے
کلی کی آنکھ کھل جائے،چمن بیدار ہوجائے

      مصنف کا خیال ہے کہ اصلی بلبل تو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی کہیں دکھائی دیتی ہے لیکن ہمارے شعرا کرام نے اسے دیکھے سنے بغیر ہی اپنی شاعری کا حصہ بنا لیا۔
      سننے میں آیا ہے کہ شمالی پہاڑی علاقے کوہ ہمالیہ کی وادیوں میں کہیں کہیں بلبل تو پائی جاتی ہے لیکن وہاں شعرا موجود نہیں ہوتے۔اس لیے بلبل کے متعلق شعرا کے خیالات فرضی ہوتے ہیں۔

جماعت نہم اردو سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمںر2

سبق: " ملکی پرندے اور دوسرے جانور
پیراگراف نمبر2

اقتباس:
بارش ہوتی ہے تو کوے نہاتے ہیں...........یہ بھی آپ سے نالاں ہیں۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
مصنف کانام: شفیق الرحمن
صنف: مضمون
ماخذ: مزید حماقتیں

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
حفظان صحت.......صحت کی حفاظت
اصول..... قاعدہ، طور طریقہ،
سوچ بچار.......فکر، فہم و فراست
عقیدہ.......ایمان، یقین
فکر کرنا.........غور کرنا، سوچنا
اعصابی......جسمانی نسوں کا کمزور پڑنا
سنجیدگی........متانت
شرط لگانا......بازی لگانا
فکر معاش......روزی روٹی کی فکر
کھونا......گم کرنا، ضائع ہونا
نالاں.......ناراض، ناخوش

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور " کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف  کہتا ہے کہ کوا گرامر میں مذکر استعمال ہوتا ہے۔ برفانی کوا ڈیڑھ فٹ لمبا ہوتا ہے۔ کوے بندوق چلنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان کی اڑان بالکل سیدھی ہوتی ہے۔

تشریح:
اردو کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کوے کی عادات اور خصویات بیان کرتا ہے کہ بارش سے کوے لطف اٹھاتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو یہ اس میں خوش ہوکر نہاتے ہیں۔بارش کے پانی میں نہانا بعض اوقات صحت کو نقصان دیتا ہے لیکن کوے صحت کی حفاظت کو مدنظر رکھے بغیر بارش کے پانی میں نہاتے رہتے ہیں۔
      کوا زیادہ سوچتا نہیں کیونکہ اس کا اس بات پر یقین ہے کہ  زیادہ سوچنے اور فکر کرنے سے بیماریوں کے لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ زیادہ فکر مندی اعصاب پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ بقول شاعر

فکر مندی فضول ہوتی ہے
کوشش دل قبول ہوتی ہے

کوے کی زندگی میں ہمارے لیے بہت سے سبق موجود ہوتے ہیں جن سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔اس میں ایک سبق یہ ہے کہ کوا بڑے باوقار طریقے سے نظم و ضبط کے ساتھ بالکل سیدھا اڑتا ہے۔ کوؤں کو اڑتا ہوا دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ان میں باہم کسی مقابلے کی شرط لگی ہوئی ہے۔یہ روزی کی تلاش میں دور دور مقامات پر چلے جاتے ہیں مگر کبھی گم نہیں ہوتے بلکہ شام ہوتے ہی کہیں نہ کہیں سے یہ واپس آ جاتے ہیں۔ چونکہ کوے بےشمار ہوتے ہیں اس لیے آپ کےلیے پہچاننا مشکل ہوگا کہ یہی وہ کوے ہیں جو گم ہونے کی بجائے واپس آئے ہیں یا کوئی اور کوے ہیں۔ یہ ان کی جگہ دوسرے کوے بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ سب کوؤں کی الگ الگ شناخت نہیں رکھی جاسکتی۔
      اگر ہم انسانوں میں سے کوئی کوے کو ناپسند کرتا ہے اور اس سے ناخوش رہتا ہے تو کوے بھی ایسے کو تیسا پر عمل کرتے ہوئے اس سے ناخوش رہتے ہیں۔ اسی لیے مجدد الف ثانی نے فرمایا:
" اگر تم خوش رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کو خوش رکھو".

جماعت نہم اردو سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر1

سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر1


اقتباس: 

کوا باورچی خانے کے پاس مسرور...........مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کانام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس  درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ کوا گرامر میں مذکر استعمال ہوتا ہے اور یہ کائیں کائیں کرتا ہے جس کا کوئی معنی نہیں۔پہاڑی کوا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ کوے کی نظر تیز ہوتی ہے۔ بارش میں نہاتے ہوئے کوے حفظان صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتے۔


تشریح:

اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔وہ الفاظ کی بازی گری سے کام لینے کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔

       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کوے کی عادات و خصوصیات مزاحیہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ کوا باورچی خانے کے قریب رہتے ہوئے بہت خوشی محسوس کرتا ہے کیونکہ وہاں اسے کھانے پینے کےلیے کوئی نہ کوئی چیز گری ہوئی مل جاتی ہے اور وہ باورچی خانے کے پاس سے ہر لمحہ کے بعد آکر کوئی نہ کوئی چیز اٹھا کر دور کہیں اپنے دوستوں یا اپنے بچوں کے پاس چھوڑ آتا ہے۔

       چونکہ کوے کو ادھر ادھر سے کھانے کو کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے تو وہ کھانے کی ان چیزوں کو بعض اوقات دور پھینک آتا ہے اس لیے وہ اپنی زندگی سے خوب لطف اٹھاتا ہے اور درخت پر بیٹھ کر اپنی اس خوش گوار اور خوب صورت زندگی سے  فرحت محسوس کرتا ہے اور  درخت پر بیٹھ کر اپنی اس خوش گوار زندگی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی بہت حسین اور پیاری ہے کیونکہ اس کے نزدیک زندگی کا اصل مزہ یہ ہے کہ روزانہ نئے نئے کھانے کھائے جائیں اور یہی احساس اسے اڑائے رکھتا ہے۔

      کسی علاقے میں اگر کوئی بندوق چلائے تو کوے بندوق کی آواز سن کر اسےاپنی اہانت سمجھتے ہیں۔


" توہین ایک ایسا فعل ہے جسے  کوئی  اپنی ذات کےلیے پسند نہیں کرتا اور توہین کا شکار اپنا ردعمل ضرور دیتا ہے".


اس لیے کوے بھی بندوق کی آواز کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے اور اس پر احتجاج کرتے ہوئے اچانک لاکھوں کی تعداد میں اکٹھے ہوکر شور مچاتے ہیں جس سے بندوق چلانے والا  اپنے کیے پر پچھتاتا  رہتا ہے۔


"پچھتاوا ایک ایسا پرغم لمحہ ہوتا ہے جو غلط اقدام اٹھانے کے  بعد پیش آتا ہے". 


        چناں چہ بندوق چلانے کو اپنے پچھتاوے کے بعد اپنے کیے پر بہت شرمندگی رہتی ہے جس کا احساس اسے مہینوں تک رہتا ہے۔

Tuesday, November 5, 2019

جماعت نہم اردو سبق " لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر8

سبق: لہو اور قالین
پیراگراف نمبر8 آخری

اقتباس:
اور آپ کہ بھی کیا سکتے ہیں............. شخصیت کو جگمگانے کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: لہو اور قالین
مصنف کا نام: میرزا ادیب
صنف: ڈرامہ
ماخذ: لہو اور قالین

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
حقیقت......سچائی
حیثیت....... مقام، درجہ،مرتبہ
احساس........لحاظ
اہلیتوں.......
صلاحیتوں
برف کی تہ جمنا........معدوم ہوجانا،ختم ہو جانا
شرارہ......چنگاری
سوہان روح......روح کو تکلیف دینے والی
شمع........دیا، چراغ،موم بتی
شاندار.......عالی شان،خوب صورت
شخصیت......ذات

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" لہو اور قالین" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصور اختر تجمل کو باور کراتا ہے کہ تم مجھے اپنی نمودونمائش اور شہرت کےلیے اپنے ہاں لائے اور میرے فن کو استعمال کیا۔آپ کا یہ کام میرے لیے سوہان روح ثابت ہوا کیونکہ کوئی فنکار یہ نہیں چاہتا کہ وہ محض کسی اور کےلیےشہرت کا ذریعہ بن کر استعمال ہو۔

تشریح:
میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے۔" لہو اور قالین" ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے قبیح عوامل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
      تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ اختر تجمل سے مخاطب ہو کر اس  کواس کی اصلیت سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی شہرت کےلیے میرے اور میرے فن کا استعمال کیا اور اب آپ میری اس بات کو جھوٹ گردانتے ہو اور آپ اس سچ کو جھوٹ سمجھنے کے علاؤہ اور کہ بھی کچھ نہیں سکتے اور نہ ہی آپ جذبات میں آکر اور محض اونچی آواز میں بول کر میری بتائی گئی سچائی کو بدل سکتے ہیں۔
            آپ کے ہاں میری حیثیت اور میرا مقام اتنا ہی تھا کہ اپنی شہرت کےلیے میرے اور میرے فن کا استعمال کیا جائے۔مجھے جب اس بات کا احساس ہوا کہ آپ اپنی ذات کےلیے ہی میرا استعمال کر رہے ہیں تو اس احساس سے میں کرب میں مبتلا ہوگیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میری صلاحیتیں ختم ہوگئی ہوں۔ آپ کے اس طرح کے کام سے میرے سینے میں کام کرنے کی لگن، جوش جذبہ تک باقی نہ رہا اور آپ کے ہاتھوں اپنے استعمال ہونے کا احساس میری روح کو تڑپا رہا ہے کہ میں نے اپنے جس فن اور ہنر کے جس دیا کو اب تک جس محنت کے جذبے کے تحت روشن رکھا وہ آپ کے عالی شان بنگلے اور آپ کی ذات کی تشہیر اور اسے روشن رکھنے کے علاؤہ اور کوئی کام نہ دے سکی۔
بقول شاعر
میری غربت نے اڑایا ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں

جماعت نہم اردو سبق" لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر7

سبق: لہو اور قالین

پیراگراف نمبر7


اقتباس:

جس طرح بڑی دکانوں کے دروازوں پر.........میرے فن کا استعمال کر رہے تھے۔



حوالہ متن:

سبق کا عنوان: لہو اور قالین

مصنف کا نام: میرزا ادیب

صنف: ڈرامہ

ماخذ: لہو اور قالین


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

 شفاف.......صاف ستھرا

حسین و جمیل.....خوب صورت

اعلی ذوق........عمدہ شوق

شان و شوکت........ قدرومنزلت

مرعوب ہونا ........رعب دبدبے میں آنا، اثر لینا

امارت......امیری، دولت مندی

شخصیت.......ذات

نمائش....... دکھاوا، نمود

فن........ہنر، کاری گری


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین  کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصور اختر نے تجمل کے تمام تر احسانات کا ذکر کے بعد اس کی اصلیت بتاتے ہوئے کہا کہ تم نے اپنی ذاتی تشہیر کےلیے میری مفلسی اور غربت کو ذریعہ بنایا اور تم معاشرے کو دکھانا چاہتے تھے کہ میں غریب نواز ہوں۔تمھارے اس کردار سے میری اہلیتوں پر برف کی تہ جم گئی۔


تشریح:

میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں زندگی کے  تمام اہم پہلوؤں کو اجاگر کیاگیا ہے۔" لہو اور قالین ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے عوامل بےنقاب ہوتے ہیں۔

   تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ اختر تجمل کے سامنے اپنی ساری روداد رکھتا ہے کہ کس طرح  تجمل اسے اپنے ہاں مصوری کےلیے لے آیا تھا۔اختر تجمل کو باور کراتا ہے کہ تم نے معاشرے میں اپنے نام اور مقام کےلیے میرا اور میرے فن کا استعمال کیا۔تم نے اپنی ذاتی تشہیر اور ناموری کےلیے مجھے جس طرح استعمال کیا اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جس طرح شہروں میں بڑی بڑی کپڑے کی دکانوں پر انسانی مجسموں کو خوب صورت اور عمدہ ملبوسات سے مزین کرکے شیشے کی خوب صورت الماریوں میں سجاوٹ کے طور پر رکھا جاتا ہے جولوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ جس سے لوگ اس خوب صورتی کو دیکھ کر خریداری کےلیے کھینچے چلے آتے ہیں کیونکہ  ان مجسموں کو سجانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگ ان خوب صورت اور اعلی پہناوں  سے مزین مجسموں کو دیکھ کر،دکان اور دکانداروں کے عمدہ ذوق و شوق اور انکی شاندار قدرومنزلت سے متاثر ہوکر اس طرف کھینچے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح میری ذات کی حیثیت بھی ایک سجے سجائے مجسمے جیسی تھی جسے آپ نے اپنے گھر کے کمرے میں لاکر سجا رکھا تھا اور اس کا مقصد تجمل صاحب, محض اتنا تھا کہ آپ اپنی امیری،دولت مندی اور عیش و عشرت سے مزین ذات کی نمودونمائش اور دکھاوے کےلیے میرا اور میرے فن کا استعمال کر رہے تھے۔

بقول شاعر

میری غربت نے اڑایا ہے میرے فن کا مذاق

تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں۔

جمماعت نہم اردو سبق" لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر6

سبق:لہو اور قالین
پیراگراف نمبر6

اقتباس:
میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے سلوک نے.............ساری دنیا کا دردسمایا ہوا ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: لہو اور قالین
مصنف کا نام: میرزا ادیب
صنف:ڈرامہ
ماخذ: لہو اور قالین

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
سلوک.......برتاؤ
اثر ڈالنا......متاثر کرنا
درجہ....... رتبہ، مقام٬ مرتبہ
دولت مند........مال دار
پہلو......کونا، گوشہ،
دھڑکنا...... دھک دھک کرنا
انسانیت نواز ........انسانوں کی خدمت کرنے والا٬ خدمت گزار
درد.........دکھ،تکلیف
سمایا........بسا ہوا، سمویا ہوا۔

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف بتاتا ہے کہ مصور اختر نے تجمل کو اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے غربت کدے سے نکال کر اپنے ہاں لے آئے اور مجھے تمام ضروریات سے بےنیاز کر دیا تو آپ کے اس سلوک نے مجھے بہت متاثر کیا۔آپ نے ہی میری تصویروں کو شہرت دلائی۔آپ مجھے فرشتہ کے روپ میں نظر آئے۔

تشریح:
میرزا ادیب کا شمار اردو کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے ڈراموں میں زندگی کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔" لہو اور قالین ان کا تحریر کردہ ایسا ہی ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریا کاری جیسے قبیح عوامل سے آگاہ کیا گیا ہے۔
        تشریح طلب اقتباس میں  مصنف کہتا ہے کہ اختر تجمل سے مخاطب ہوکر اس  کی احسان مندی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ مجھے غربت کدے سے نکال کر اپنے ہاں لے آئے اور مجھے ضروریات زندگی سے بےنیاز کر دیا۔
     آپ کے اس حسن سلوک نے مجھ پر بہت  زیادہ اثر ڈالا اور آپ میری نظر میں اعلی پائے کے انسان کے طور پر سامنے آئے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ  بہت زیادہ دولت مند ہونے کے باوجود انسانیت کی خدمت کرنے والے ہیں اور نرم دل رکھتے ہیں جس میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ آپ کی خدمت صرف مجھ تک محدود نہیں بلکہ آپ پوری دنیا کے دکھی لوگوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں اور ان کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔گویا تمام دنیا کا درد آپ کے دل میں ہے۔
بقول امیر مینائی

خجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

جماعت نہم اردو سبق " لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر5

سبق: لہو اور قالین

پیراگراف نمبر5


اقتباس:

میں اپنے ہزاروں ہم پیشہ بھائیوں کی طرح.........مجھے زندگی کی ضروریات سے بےنیاز کردیا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: لہو اور قالین

مصنف کا نام: میرزا ادیب

صنف: ڈرامہ

ماخذ: لہو اور قالین


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

ہم پیشہ........ایک ہی شعبے سے منسلک

اصرار ....... ضد کرنا

غربت کدہ........غریب خانہ

وقف کرنا........... مخصوص کرنا

بےنیاز........بےپروا،

بےفکر۔

اطمینان........ تسلی،آرام و سکون


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق"لہو اور قالین" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ تجمل نے اختر سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنا مکمل حال بتانا شروع کر دیا کہ آپ دوسال پہلے مجھے خستہ حال گھر سے نکال کر اپنے ہاں لے آئے اور مجھے غربت کدے سے نکال کر زندگی کی تمام ضرورتوں سے بےنیاز کردیا اور آپ میرے لیے دیوتا بن کر آئے۔


تشریح:

میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔" لہو اور قالین ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے قبیح عوامل اجاگر ہوتے ہیں۔

    تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ اختر تجمل کو اپنا حال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس طرح میری طرح کے بےشمار غریب اور کنگال مصور غربت زدہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے بالکل اسی طرح میں بھی غربت اور عسرت کی چکی میں پس رہا تھا اور میری یہ حالت کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ آپ نے میری اس حالت کا اندازہ لگا لیا کہ مجھ جیسا انسان آسانی کے ساتھ آپ کے کام آسکتا ہے۔اس لیے آپ نے بار بار ضد کی کہ میں اپنے خستہ حال گھر سے نکل کر آپ کے پاس آجاؤں تاکہ آپ کے ہاں اطمینان اور سکون سے فن مصوری کی خدمت کر سکوں۔

      آج بھی میں یہ بات تسلیم کر رہا ہوں کہ آپ نے میرے فن مصوری کےلیے ایک کمرا مخصوص کر دیا جس میں ضرورت کی تمام اشیا مجھے میسر تھیں اور میں ضروریات زندگی سے بےفکر ہوکر اپنے فن کی خدمت میں مگن ہوگیا۔

بقول شاعر 

سدا   روپوش    رہتے    ہیں   وہ   پتھر

عمارت جن کے کاندھوں پر تعمیر ہوتی ہے

جماعت نہم اردو سبق" لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر4

سبق : لہو اور قالین
پیراگراف نمبر4

اقتباس:
آپ سب کچھ سمجھ جائیں گے۔ یہ کوئی معما نہیں ہے...............میں ایک مفلس ،قلاش اور گمنام مصور ہوں۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: لہو اور قالین
مصنف کا نام: میرزا ادیب
صنف: ڈرامہ
ماخذ: لہو اور قالین

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
معما.......مسئلہ، پیچیدہ بات
تنگ و تاریک.......چھوٹی اور اندھیرے والی
خستہ.........بدحال بدنما........بد صورت،
مفلس........ نادار، تنگ دست
قلاش......مفلس،نادار
مصور.........تصویر بنانے والا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ اختر کی تصویر کو اول انعام ملنے کے بعد تجمل نے اسے مبارک باد دی تو وہ خوش ہونے کی بجائے تجمل کے ہاں سے اپنے گھر جانے پر بضد ہوگیا۔تجمل کے سمجھانے کے باوجود بھی اختر اپنی بات سے ٹس سے مس نہ ہوا۔بالاخر تنگ کر تجمل نے اس سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس پر اختر نے اپنا مکمل حال تجمل کے سامنے دہرا دیا۔


تشریح:
میرزا ادیب کا شمار اردو کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کو اجاگر کیاگیا ہے۔" لہو اور قالین" ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریا کاری جیسے قبیح عوامل اجاگر ہوتے ہیں۔
          تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ جب تجمل نے اختر سے اس کی پریشانی اور ڈاکٹر کو نہ بلانے دینے کی وجہ پوچھی تو اختر نے تجمل سے عرض کی کہ میں جو بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ کوئی اتنی پیچیدہ بات نہیں جسے آپ سمجھ نہ سکیں بلکہ آپ سب کچھ اچھی طرح سمجھ جائیں گے بس میری بات کو تسلی سے سنیے۔
            یہاں آنے سے دو سال پہلے میں ایک چھوٹی سی اور اندھیرزدہ گلی کے ایک پرانے گھر میں رہتا تھا جوکہ انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور دیکھنے میں بھی بھلا نہیں لگتا تھا۔
        وہاں مجھے لوگ زیادہ نہیں جانتے تھے اور جو کم لوگ مجھے جانتے بھی تھے تو انھیں محض اتنا معلوم تھا کہ میں ایک غربت، مسکینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے والا مصور ہوں۔

بقول شاعر
میری غربت نے اڑایا میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں

جماعت نہم اردو سبق" لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر 3

سبق: لہو اور قالین

پیراگراف نمبر3


اقتباس:

آپ ابھی تک اسے مذاق سمجھ رہے ہیں.............ایک بھی میری نہیں ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: لہو اور قالین

مصنف کا نام: میرزا ادیب

صنف: ڈرامہ

ماخذ: لہو اور قالین


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

مذاق......... مزاح

نارمل......... ذہنی طور پر ٹھیک

رخ........پہلو، شکل

بھیانک........ خوف ناک

خوف ناک........خوف زدہ کرنے والی، بھیانک

تصورات........ تصور کی جمع، خیالات

زمین بوس ہونا........ختم ہونا،فنا ہونا


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" لہو اور قالین" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ اختر کی بنائی گئی تصویر کو اول انعام ملا تو تجمل نے اختر کو اس کی خوش خبری سنائی تو اختر خوش ہونے کی بجائے وہاں سے جانے پر بضد ہوگیا۔ تجمل نے اختر کو سمجھا بجھا کر روکنے کی کوشش کی تو اس نے تجمل کو اصل صورت حال بیان کی۔ جس پر تجمل نے کہا کہ معاملہ اس قدر آگے چلا جائے گا یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔


تشریح:

میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے۔" لہو اور قالین " بھی ان کا تحریر کردہ ایسا ہی ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے قبیح عوامل اجاگر ہوتے ہیں۔

      تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ جب تجمل نے اختر کو اس کی بنائی گئی تصویر پر ملنے والے اول انعام کی خوش خبری سنائی تو اختر کو ذرا بھر بھی خوشی نہ ہوئی اور اس نے وہاں سے واپس گھر جانے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ تجمل نے اختر پر واضح کیا کہ وہ ایسے پاگل پن کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔ مگر اختر اپنی بات پر بضد رہا تو تجمل نے اختر سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تجھے دورہ پڑ گیا ہے مجھے ڈاکٹر کو فون کرنا چاہیے۔

            اختر نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے تجمل سے کہا کہ آپ ابھی تک میری یہاں سے چلے جانے والی  بات کو غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں حالانکہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے ڈاکٹر کی بھی بالکل ضرورت نہیں ہے۔آپ میری بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی آپ کو مکمل حقائق کا ادراک ہے۔آپ صرف بات کا ایک ہی پہلو دیکھ رہے ہیں کہ ہماری بنائی گئی تصویر کو اول انعام ملا ہے اور آپ اس خوشی میں پھولے نہیں سما رہے ہیں حالانکہ اگر آپ کو بات کا دوسرا پس منظر معلوم ہو جائے تو وہ آپ کےلیے خوفناک ثابت ہوگا اور آپ نے  تصویر کے اول انعام ملنے پر جو بڑے بڑے خواب سینے میں سجا رکھے ہیں وہ سب چکنا چور ہو جائیں گے۔

اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس شاندار محل سے میرے نام سے منسوب جتنی بھی تصویریں باہر بھیجی گئی ہیں ان میں سے میری بنائی  ہوئی ایک بھی نہیں تھی بلکہ وہ کسی اور نے بنائی تھیں۔

بقول شاعر

سدا   روپوش   رہتے    ہیں   وہ   پتھر

عمارت جن کے کاندھوں پر تعمیر ہوتی ہے

جماعت نہم اردو سبق " لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر2

سبق: لہو اور قالین
پیراگراف نمبر2

اقتباس:
تم دنیا سے الگ تھلگ رہ کر مصوری کرتے رہتے ہو.................کیا یہ میری توہین نہیں ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: لہو اور قالین
مصنف کا نام: میرزا ادیب
صنف: ڈرامہ
ماخذ: لہو اور قالین

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
الگ تھلگ..........علاحدہ،
جدا
مصوری.......تصویریں بنانا
واقعہ........ماجرا،قصہ
قلاش.......مفلس،تنگ دست
دکھاوا...... نمود و نمائش
توہین........بے قدری، اہانت، بےعزتی

سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق "لہو اور قالین " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ تصویر کو اول انعام ملنے کے بعد تجمل نے جب مصور اختر کو روکنے کی کوشش کی تو وہ رکنے کی بجائے وہاں سے جانے پر بضد تھا۔ تجمل نے اختر کو سمجھایا کہ تم یہاں سے چلے گئے تو لوگ کیا کہیں گے۔تمھارے جانے میں میری توہین ہے۔

تشریح:
میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے۔" لہو اور قالین " بھی ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے قبیح عوامل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ جب مصور اختر نے تجمل سے اپنے گھر واپس جانے کی بات کی تو تجمل نے اسے جانے دینے سے انکار کردیا اور اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ تمھاری معاشرے میں لوگوں کے ساتھ وابستگی نہیں ہوتی  اور نہ تم لوگوں سے میل ملاپ رکھتے ہو کیونکہ تم دنیا و مافیا سے لاتعلق ہو کر  اور تنہائی اختیار کرکے تصویر سازی کرتے رہتے ہو اور تم اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے کہ اس طرح کے حالات و واقعات میں لوگ کیا کرتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں۔
             اب تم یہاں سے جانے پر بضد ہو تو اس حوالے سے لوگ جو سوچیں گے اور جو باتیں بنائیں گے وہ تم بالکل بھی نہیں جانتے۔ وہ سب میرے اوپر الزام لگاتے ہوئے کہیں گے کہ میں نے ایک غریب اور تنگ دست مصورکو اس کی خستہ حال جھونپڑی سے نکال کر محض دکھاوے اور نمائش کےلیے اپنے ہاں جگہ دی اور پھر اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد اسے واپس بھیج دیا۔اب تم ہی بتاؤ  کہ جب لوگ تمھارے چلے جانے کے بعد اس طرح کی باتیں بنائیں گے تو کیا اس میں میری تذلیل، بےقدری اور اہانت نہیں ہے۔
بقول شاعر

اپنے ہی سونے پن کا مداوا نہ کرسکے
کہنے  کو   ہم   نے   شہر  آباد  کر  دیا

جماعت نہم اردو سبق " لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر1

سبق " لہو اور قالین"

پیراگراف نمبر1


اقتباس:

سردار تجمل حسین کی کوٹھی"النشاط".............. مصوری کا دوسرا سامان ۔


حوالہ متن:

 سبق کا عنوان: لہو اور قالین

مصنف کانام: میرزا ادیب

صنف: ڈرامہ

ماخذ: لہو اور قالین


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

 کوٹھی......بنگلہ

نشاط........خوشی،

مسرت

وسیع........کشادہ

اسٹوڈیو......وہ کمرہ جہاں فلم یا تصویر سازی ہو۔

اعلی.......عمدہ، شاندار

آراستہ......مزین، سجا ہوا

شاہکار....... عمدہ کارنامے

مجلد........ جلد کیاگیا

کارنیس.........منڈیر،طاق

تپائی......... چھوٹی میز

مزین.......سجا ہوا، آراستہ

گل دان......وہ گملا جس میں پھول رکھے ہوں۔

وسط.....درمیان، مرکز

ایزل...... سٹینڈ، فریم

کینوس....... وہ کپڑا یا کاغذ جس پر تصاویر بنائی جاتی ہیں۔


سیاق و سباق:

 

تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔اس سبق میں مصنف تجمل حسین کی کوٹھی " النشاط" کے ایک کمرے کا منظر بیان کرتے ہیں جس میں غریب اور گمنام مصور اختر تصاویر بناتا تھا۔


تشریح:

میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے۔" لہو اور قالین" ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریا کاری جیسے قبیح عوامل کو اجاگر کیا گیا ہے۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف، سردار تجمل حسین کی کوٹھی کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی کوٹھی کانام " النشاط" ہےاور اس کے ایک وسیع و عریض کمرے کو مصور اختر استعمال کرتا ہے۔ اختر اس کمرے میں تصویر سازی کرتا رہتا ہے۔

       یہ کمرہ  اعلی اور عمدہ فرنیچر سے سجا ہوا ہے جس کے فرش پر قالین بچھا ہوا ہے اور اس کمرے کی دیواروں پر مشہور تصویر سازوں کی بنائی ہوئی عمدہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔کمرے کے ایک طرف سننے کےلیے ریڈیو اور اس کا ساز وسامان رکھا گیا ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر صوفے، گدے اور کرسیاں بچھائی گئی ہیں۔کمرے کی شمالی دیوار کے ساتھ دو الماریاں لگی ہوئی ہیں جس میں جلد شدہ کتابیں رکھی گئی ہیں۔

      کمرے کی دیوار  کی  منڈیر اور کمرے میں رکھی ہوئی چھوٹی میزوں پر گلدان رکھے گئے ہیں جو تازہ پھولوں سے سجے ہوئے ہیں۔کمرے کے دروازوں اور کھڑکیوں پر ریشم کے نرم و ملائم پردے لگائے گئے ہیں جبکہ اس کے مرکز میں ایک بڑے فریم یا سٹینڈ پر تصویر سازی کےلیے  نقاشی والا کپڑا لگایا گیا ہے جو ابھی صاف شفاف تھا اور اس پر کوئی تصویر نہیں بنائی گئی تھی۔

       غرض کوٹھی اور اس کے وسیع کمرے میں اختر کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

بقول شاعر

میسر تھی ہر ضرورت زندگی جس میں

وہ کوٹھی کسی امیر شہر کی تھی۔

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر16

سبق: " امتحان"
پیراگراف نمبر16

اقتباس:
مجھے تعجب تھا کیونکہ میں نے.........آخر کہاں تک بےایمانی ہوگی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
تعجب.......حیرانی
برے.......خراب
تعریف کرنا.......ستائش کرنا، گن گانا
ممتحنوں.......امتحان لینے والے
اشک شوئی کرنا.......آنسو پونچھنا، تسلی دینا
گھبرانا.......پریشان ہونا
آئندہ.........آنے والا
بےایمانی.......بدنیتی
فرصت...... فراغت

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " امتحان" کا آخری پیراگراف ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ جب میں  "لاکلاس " کے تمام مضامین میں بدرجہ اعلی فیل ہوا تو والد صاحب نے ممتحنوں کو برابھلا کہ کر مجھے تسلی دی اور کہا کہ کب تک ایسا ہوگا۔تم ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگے۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔ " امتحان " ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔
     تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے " لاکلاس" کے امتحان کے نتیجے کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں جملہ مضامین میں بدرجہ اعلی فیل ہوا تو مجھے اس پر حیرانی ہوئی کیونکہ میں نے پرچے اتنے بھی برے نہیں کیے تھے اور پرچوں میں جو کچھ میں نے لکھا وہ سب کچھ اپنے والد صاحب کو بھی سنایا۔ انھوں نے اس پر میری تعریف کی کہ تم نے بہت اچھا لکھا ہے اور ساتھ میں ممتحنوں کو برابھلا کہا کہ وہ اپنی ناقص کارکردگی کے ذریعے آپ کا نقصان کرتے ہیں اور ساتھ مجھے تسلی دی اور کہا کہ بیٹا تجھے گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں کیونکہ آج تو تم ممتحنوں کی وجہ سے ناکام ہوئے ہو مگر ہر بار تو ایسا نہیں ہوگا۔ اس سال کامیابی نہیں ملی تو اگلے سال تو مل ہی جائے گی آخر تمھارے ساتھ امتحان میں کب تک بےایمانی ہوگی۔ تم ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگے۔ بقول شاعر

نہ ہوئی گر میرے پرچوں سے تسلی نہ سہی
امتحان اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہی

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر15

سبق: " امتحان"
پیراگراف نمبر15

اقتباس:
کچھ عرصہ کے بعد نتیجہ شائع ہوگیا...........برابر تین گھنٹے لکھا جاتا اور صفر ملتا۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
شائع ہونا......اشاعت ہونا، چھپنا
کم ترین......سب سے کم، معمولی
جملہ مضامین........تمام مضامین
بدرجہ اعلی.......بہترین درجے میں،عمدہ درجے سے
بھلے مانس.......شریف آدمی
ممتحن......امتحان لینے والا
بدمعاش......بدطینت، غنڈاگرد

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے آخری حصے سے لیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ میرے والد مجھے امتحان میں پاس کرانے کےلیے سفارشی چٹھی لے کر ممتحنوں کے پاس گئے تو وہاں سے نادم ہوکر واپس آئے اور دوبارہ کسی کے پاس نہ گئے۔امتحان کا نتیجہ تمام مضامین میں بدرجہ اعلی فیل ہونے کی صورت میں نکلا تو والد صاحب نے ممتحنوں کو برابھلا کہ کر مجھے تسلی دی کہ اس سال نہیں تو آئندہ سال سہی،آخر کب تک بےایمانی ہوگی۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے نامور ادیب تھے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا تھا۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔
    تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے " لاکلاس" کے امتحان کے نتائج کے متعلق کہتا ہے کہ جب کچھ عرصہ کے بعد میرے امتحان کا نتیجہ سامنے آیا تو میں سب سے کم اور معمولی نمبروں کے ساتھ تمام مضامین میں اعلی درجے سے فیل ہوگیا یعنی فیل ہونے والوں میں میرا پہلا نمبر تھا۔صرف ایک شریف النفس ممتحن تھے جنھوں نے شاید ترس کھا کر دو نمبر دے دیئے۔ باقیوں نے صفر نمبر سے آگے بڑھنے کا نام تک نہ لیا۔ بقول شاعر

یونہی وقت سو سو کے ہیں جو گنواتے
وہ خرگوش کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے

       برے نتیجے کا سن کر والد صاحب کو بہت دکھ اور رنج ہوا اور انھوں نے میرے حاصل کردہ نمبروں کی نقل نکلوائی اور آخر میں انھوں نے یہ رائے دی کہ کسی بدبخت چپڑاسی نے ہی پرچے بدل دیے ہوں گے کیونکہ تم میرے سامنے مسلسل تین گھنٹے لکھنے کے بعد امتحانی کمرے سے باہر نکلتے تھے تو اس قدر محنت سے لکھے جانے پر صفر نمبر کیونکر آسکتے ہیں۔اس میں ضرور کسی بدطینت چپڑاسی کی کارستانی شامل ہے۔

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر14

سبق : " امتحان"

پیراگراف نمبر14


اقتباس: 

امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون................ لڑکے سے کہو کہ وہ خود کوشش کرے۔

  

حوالہ متن:

 سبق کا عنوان: امتحان

مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ

صنف: مضمون

ماخذ: مضامین فرحت


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

خون ہونا.......غارت ہونا

سوجھی......خیال آیا،ترکیب آئی

زبردست.......شاندار، بہترین

چٹھی....... رقعہ

سفارش.........مدد، رسائی

اخلاق.......طور طریقے

دریافت کرنا......پوچھنا

عرض کرنا.......کہنا، بات کرنا

خادم زادہ......خادم کا بیٹا

خانہ زاد........تابع دار، فرماں بردار

ممنون.......احسان مند، شکرگزار

ممنون احسان......بھلائی پر شکرگزار

بندہ خدا........اللہ کا بندہ


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق " امتحان" کے آخری حصے سے اخذ کیاگیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ " لاکلاس" کے امتحان میں پرچہ دینے کے بعد میں والد صاحب سے پرچے کی سختی کی شکایت کرتا تو میرے والد صاحب میری تسلی کےلیے ممتحن کو برابھلا کہتے۔امتحان کے دوران تمام امیدوں پر پانی پھر جانے کے بعد میرے والد سفارشی چٹھی لے کر ممتحنوں کے پاس پہنچ گئے جہاں انھیں ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔

 

تشریح:

مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے نامور ادیب تھے۔ ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا تھا۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات، اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔

     تشریح طلب اقتباس کے اندر مصنف اپنے " لاکلاس" کے امتحان کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب میرا امتحان ختم ہوا اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کی پہلی امید "امداد غیبی" اور دوسری امید "پرچوں کی الٹ پھیر " بر نہ آئی بلکہ دونوں امیدیں غارت ہوکر رہ گئیں اور امتحان میں ناکامی واضح نظر آنے لگی تو ہم نے سوچا کہ ممتحنوں کے پاس جاکر سفارش کی کوشش کریں۔ چناں چہ والد صاحب ایک بہترین سفارشی رقعہ لے کر ایک صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے رقعہ دیکھا اور نہایت ادب و احترام سے والد صاحب کو بٹھایا اور اپنے آنے کی وجہ پوچھی تو والد صاحب نے اپنا مدعا بیان کرنا شروع کیا کہ مجھ خدمت گزار کے بیٹے نے اس سال امتحان دیا ہے تو اگر آپ اس سلسلے میں اس کی مدد کرکے اس کےلیے کچھ کوشش کریں تو میں آپ کا تابع دار اور خدمت گزار رہنے کے ساتھ ساتھ آپ کے احسان کا بھی شکرگزار رہوں گا۔

        میرے والد صاحب کی یہ بات سن کر وہ صاحب بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو اس سے ملنے آئے ہوئے تھے کہنے لگے کہ یہ صاحب بڑی عجیب درخواست لے کر میرے پاس آئے ہیں کہ امتحان تو ان کے بیٹے دیا ہے مگر یہ چاہتے ہیں کہ اس کی کامیابی کےلیے کوشش میں کروں۔ ارے اللہ کے بندے اپنے بیٹے سے کہو کہ اگر کامیابی چاہتے ہو تو اس کےلیے تم خود محنت اور کوشش کرو کیونکہ حقیقی کامیابی خود محنت کرنے سے آتی ہے نہ کہ دوسروں کی کوشش سے۔ بقول حالی


محنت کرو عزیزو محنت سے کام ہوگا

کہتے ہیں بخت جس کو آکر غلام ہوگا

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر13

سبق: " امتحان"

پیراگراف نمبر13


اقتباس:

میں تو ہر روز آدھا گھنٹا کے بعد ہی ............ممتحن کو بہت کچھ برابھلا کہتے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: امتحان

مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ

صنف: مضمون

ماخذ: مضامین فرحت


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

مصیبت.....تکلیف، دکھ

صحن......آنگن

رعب......دبدبہ

قہر.......غضب، ظلم

قہر درویش برجان درویش..........اپنے آپ پر غصہ نکالنا

شکایت ........شکوہ،گلہ

تشفی.......تسلی، تسکین

ممتحن.......امتحان لینے والے

برابھلا کہنا.......کوسنا


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ میں نے جب بھی دوران امتحان ادھر ادھر سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی تو گارڈ صاحب اسے ناکام بنانے پر تلے رہے۔مجھے ان سے قلبی نفرت ہوگئی تھی۔پرچہ دینے کے بعد اپنے باپ سے سختی کی شکایت کی تو وہ ممتحنوں کو برابھلا کہتے۔انھیں میری کامیابی کا پختہ یقین تھا۔


تشریح:

مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان "ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔

       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ امتحان کے دوران  امتحانی کمرے میں چھے گھنٹے لگاتار بیٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب کچھ یاد ہی نہ ہو۔میری تو یہ خواہش ہوتی کہ میں کمرے سے آدھا گھنٹے میں ہی باہر نکل آؤں لیکن میں ایسا اس لیے نہیں کرسکتا تھا کیونکہ میرے لیے مشکل یہ تھی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے وہیں پہنچ جاتے اور نیچے آنگن میں بیٹھ کر میرا انتظار کرتے رہتے۔ اگر میں اپنی خواہش کے مطابق جلدی باہر چلا جاتا تو وہ میری نالائقی کو سمجھ جاتے اور دوسال سخت محنت کرنے کا جو تاثر میں نے انھیں دیا ہوا تھا جس سے وہ مرعوب بھی ہوچکے تھے تو وہ سب غارت ہوجاتا۔


" وہ رعب اور دبدبہ جس کی حقیقت اور اصلیت کچھ نہ ہو اپنے لیے درد سر بن جاتا ہے"۔


اس لیے میں اپنی نالائقی کا غصہ خود پر نکالتے ہوئے مجبوراً آخری وقت تک کمرہ امتحان کے اندر بیٹھا رہتا تھا۔ بقول شاعر


احباب کو دے رہا ہوں دھوکا

چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں


         مصنف کہتا ہے  جب پرچہ ختم ہونے کے بعد میں کمرے سے باہر آتا تو والد صاحب سے شکایت کرتا کہ پرچہ بہت سخت اور مشکل تھا اور وہ مجھے تسلی دینے کےلیے امتحان لینے والوں کو کوستے کہ وہ ایسے برے اقدامات کرتے ہیں۔ ضرب المثل ہے۔

" ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا".

Monday, November 4, 2019

جماعت نہم اردو سبق " امتحان" تشریح پیراگراف نمبر12

سبق: " امتحان"
پیداگراف نمبر12

اقتباس:
ان کا مسکرانا پہلے تو اچھا............چھے گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
زہر ہونا...... بھلا نہ لگنا، پسند نہ آنا،
واللہ......اللہ کی قسم
مصیبت ہونا.......تکلیف دہ ہونا
قلبی......دلی طور پر
نفرین....... نفرت
قلبی نفرین.......دلی نفرت
ظالم......جابر،ظلم کرنے والا
مشکل......کٹھن٬دشوار

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " امتحان" کے آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔اس اقتباس کا سیاق و سباق یہ ہےکہ " لاکلاس" کے امتحان کے دوران جب مصنف نے گارڈ سے سوال کا جواب پوچھا تو اس نے بتانے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی مصنف پر کڑی نظر جمالی۔ اس پر مصنف کو اس سے سخت نفرت ہوگئی اور تیاری نہ ہونے کے سبب مصنف کا دل چاہتا تھا کہ وہ آدھے گھنٹے میں کمرہ امتحان سے نکل جائے۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے نامور ادیب تھے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا تھا۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات، اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔
      تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے " لاکلاس" کے امتحان کے دوران کمرہ امتحان کے اندر کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب گارڈ نے مجھے سوال کا جواب بتانے سے انکار کر دیا اور میرے قریب سے ہلنے کا نام تک نہ لینے لگا تو اس کی مسکراہٹ جو پہلے بھلی لگتی تھی اب  مجھے تکلیف دینے لگی اور وہ مجھے ذرا بھی بھلا نہیں لگ رہا تھا۔میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کے انکار کے بعد مجھے زندگی بھر اتنی اور کسی سے دلی نفرت نہیں ہوئی جیسے اس گارڈ سے ہوگئی تھی۔

"کسی سے وابستہ توقع پوری نہ ہو تو دل اس سے مایوس ہوجاتا ہے".

       مصنف کہتا ہے کہ الغرض اس طریقے سے امتحان کے تمام دن گزر گئے کہ نہ خود اچھا لکھ سکا اور نہ گارڈ صاحب کی وجہ سے کسی سے پوچھنے کا موقع مل سکا۔اب آپ ہی میری حالت کو بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ جب لکھنے کو کچھ بھی یاد نہ ہو تو ایسے ظالم وجابر اور سخت آدمی کے ساتھ امتحانی کمرے میں پورے چھے گھنٹے گزارنے میں کتنی مشکل پیش آتی ہوگی۔ بقول شاعر

یونہی وقت سو سو کے ہیں جو گنواتے
وہ خرگوش کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے۔

جماعت نہم اردو سبق" امتحان" تشریح پیراگراف نمبر11

سبق:"امتحان
پیراگراف نمبر11

اقتباس:
جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع...............مگر وہ کب ہٹنے والے تھے، قطب ہوگئے۔

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
توقع........امید، آس
منقطع.......ختم ہونا،تعلق ٹوٹنا
دریافت کرنا......پوچھنا، معلوم کرنا
زور سے...... عروج پر
لحاظ..... شرم، پاسداری
ٹہلنا........چہل قدمی کرنا
قطب ہونا...... جم جانا، نہ ہلنا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیاگیا یے۔اس اقتباس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کی " لاکلاس" کے امتحان کے دوران تیاری نہ ہونے کی وجہ سے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش ناکام ہوئی تو اس نے گارڈ سے پوچھنے کا فیصلہ کرلیا مگر اس نے بھی کچھ بتانے سے انکار کردیا جس سے وہ مصنف کو زہر لگنے لگا اور مصنف اس سے قلبی نفرت کرنے لگا۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے نامور ادیب تھے۔ ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا تھا۔" امتحان " ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔
     تشریح طلب اقتباس کے اندر مصنف اپنے " لاکلاس" کے امتحان کے وقت کمرہ امتحان کے اندر کی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ " اصول قانون" کے پرچے کے دوران گارڈ صاحب نے برابر والے سے پوچھنے کی میری کوشش میں رکاوٹ ڈال دی اور جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع ختم ہوگئی اور مدد کے کوئی آثار باقی دکھائی نہ دیے تو میں نے براہ راست گارڈ صاحب سے ہی سوال کے جواب پوچھنے کی ٹھان لی۔
"
جب کشتی منجھدار میں پھنس جائے اور بچنے کی صورتحال مخدوش ہو جائے تو حالات کا کھل کر مقابلہ کرنا پڑتا ہے".

     چناں چہ اس مقصد کےلیے میں کھڑا ہوگیا۔ گارڈ صاحب میرے پاس آئے تو میں نے ان سے دوسرے سوال کا جواب پوچھ لیا۔اس پر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ مجھے تو اس کا جواب معلوم نہیں۔اس پر میں نے دیدہ دلیری سے کہا کہ میرے پاس والا تو بہت ہی اچھا لکھ رہا ہے آپ اس سے جواب پوچھ دیں اور اگر آپ کو ان سے سوال کا جواب پوچھنے میں عار اور شرم محسوس ہوتی ہے تو آپ میرے سر پر سوار ہوکر کھڑے رہنے کی بجائے ادھر ادھر چہل قدمی کرلیں اور میری راہ میں حائل نہ ہوں تو میں خود اس سے سوال کا جواب پوچھ لوں گا۔ مگر انھوں نے میری بات ماننے سے انکار کر دیا اور ادھر ادھر جانے کی بجائے وہیں میرے قریب جم کر کھڑے ہوگئے تاکہ میں پاس والے سے پوچھنے کی جسارت نہ کرسکوں۔ میری ان سے جو توقع تھی وہ ختم ہوگئی اور وہ مجھے زہر لگنے لگے۔ بقول شاعر

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا انسان سے ہوتا ہے

جماعت نہم اردو سبق " امتحان" تشریح پیراگراف نمبر10

سبق: " امتحان"
پیراگراف نمبر10

اقتباس:
میں نے قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا..........سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
اصول........قاعدہ، قانون
رائے......تجویز
مقنن.......قانون بنانے والا، قانون دان
تجویز.......رائے
پابند کرنا.........لاگو کرنا، عائد کرنا،لازم کرنا
نگاہ.......نظر، دید
تاڑ گئے........تاک گئے،جان گئے
بلا.......مصیبت
ناگہانی.......اچانک آنے والی
بلائے ناگہانی......اچانک آنے والی مصیبت

سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس اقتباس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ امتحانی کمرے میں پرچہ حل کرتے وقت مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ کس چیز کا پرچہ ہے۔گارڈ صاحب نے پرچے کے عنوان پر انگلی رکھی تو معلوم ہوا کہ " اصول قانون" کا پرچہ ہے۔میں نے پرچے کو برابر والے سے پوچھ کر حل کرنے کی کوشش کی جو گارڈ کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ بالآخر میں نے براہ راست گارڈ صاحب سے ہی پوچھنے کا فیصلہ کرلیا۔
 
تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے نامور ادیب تھے۔ ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا تھا۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔
   تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے " لاکلاس " کے امتحان کے وقت امتحانی کمرے کے اندر کی صورتحال بیان کرتا ہے کہ جب مجھے پتا چلا کہ پرچہ " اصول قانون" کا ہے تو میں نے اپنا قلم اٹھایا اور بلا سوچے سمجھے لکھنا شروع کردیا کیونکہ "اصول" کا موضوع ایسا ہے کہ اس کےلیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس مضمون پر ہر شخص اپنی تجویز اور رائے دے سکتا ہے کہ اصول کیوں اور کیسے ہونے چاہییں  اور یہ کہ اصول بنتے ہی ٹوٹنے کےلیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قانون دان ایک اصول معاشرے میں قائم کرکے اسے لاگو کراتا ہے تو دوسرا شخص اسے من و عن تسلیم نہیں کرتا اور اس اصول کو توڑ دیتا ہے اور اس پر اپنی الگ رائے قائم کر لیتا ہے۔
    چناں چہ اسی وجہ سے ہم اپنی تجویز کو کسی دوسرے کی رائے یا تجویز کا پابند نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے میں نے " اصول" کے متعلق خود سے لکھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ والے سے بھی کچھ پوچھنے کی جسارت کی اور نگرانوں اور گارڈ کی نظروں سے محفوظ رہنے کے لیے ادھر ادھر بھی نظر گھماتا رہا۔ کسی دانا کا قول ہے:
"دوسروں کو دھوکا دینے والا درحقیقت خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے".
     وہاں موجود گارڈ صاحب میری تمام کیفیت سے اچھی طرح واقف ہوگئے اوروہ میرے سر پر ایسے کھڑے ہوگئے جیسے بن بلائی مصیبت اچانک ہمارے گلے پڑ گئی ہو۔اس نے ذرا بھی ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش ناکام بنادی اورمیں مصیبت میں پڑگیا۔
 بقول شاعر
یونہی وقت سو سو کے ہیں جوگنواتے
وہ خرگوش, کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے۔

جماعت نہم اردو سبق امتحان "تشریح پیراگراف نمبر 8

سبق: امتحان
پیراگراف نمبر8

اقتباس:
بعض کم حیثیت ملازم ..............ان پر بھروسا کرنا نادانی ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
بعض.......کچھ، چند
حیثیت........درجہ، رتبہ،مقام
باامید.........امید رکھتے ہوئے،آس کے ساتھ
تدبیر.........سوچ بچار،فہم و فراست
تقدیر.....قسمت،نصیب
مسئلہ.......معاملہ
کارروائی.......کارگزاری
صورت......شکل
بھروسا......اعتماد
نادانی......بےوقوفی

سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے امتحانات کے دوران امداد غیبی یا پرچوں کی الٹ پھیر سے کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ بعض شریف ملازم بھی انعام کی لالچ میں پرچہ بدل دیتے ہیں۔اسی امید کے ساتھ مصنف جب امتحانی کمرے میں داخل ہوا تو وہاں اسے ہنس مکھ نگران کار ملے۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات اور اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں.
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف امتحانات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ امتحان میں شریک ہونے والے کی اگر پڑھائی میں تیاری اچھی نہ ہو تو وہ پرچوں کی الٹ پھیر اور امتحانی کمرے میں کتاب کے سہارے سے کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔پرچوں کی الٹ پھیر کے حوالے سے کچھ معمولی درجے کے شریف ملازم بھی مل جاتے ہیں جو انعام کی امید سے پرچہ دوسرے طالب علم کے ساتھ بدل دیتے ہیں۔اس طرح کے کام کرنے سے ایک ایماندار اور محنت سے پڑھنے والے کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا حق سلب ہوجاتا ہے۔

"دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا ظلم ہے"۔

اس اقدام سے محنت کرنے والے کو اس کی محنت کا حقیقی اجر نہیں ملتا۔اس طرح کی سوچ سے کام کرنے والے کی تدبیر اگر کامیاب ہوجائے تو وہ کھرا ہوجاتا ہے لیکن اگر اس کے مقدر میں ایسا ہونا نہ لکھا ہو تو وہ اپنا سا منھ لے کے رہ جاتا ہے۔ قسمت اچھی ہو تو یہ کام آسانی سے ہو جاتا ہے اور اگر قسمت اچھی نہ ہو تو ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ بقول شاعر

جو چل جائے تدبیر بنے جو ٹل جائے تقدیر بنے
اس بات کو اصغر کیا سمجھیں یہ بات نہیں سمجھانے کی

مصنف کہتا ہے کہ امتحان میں پرچوں کی الٹ پھیر اور کتاب کے سہارے کے علاؤہ اور بھی کئی طریقے ہوسکتے ہیں مگر ان پر توکل کرکے امتحان میں جانا سراسر نادانی کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔  بقول شاعر

نہیں آساں منزل تک رسائی

سفر پاؤں کے چھالے مانگتا ہے۔

جماعت نہم اردو سبق "امتحان" تشریح پیراگراف نمبر7

سبق: امتحان

پیراگراف نمبر7


اقتباس: 

شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک..........تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: امتحان

مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ

صنف: مضمون

ماخذ: مضامین فرحت


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

شریک......شامل ہونا

مضمون......موضوع، عنوان

وضاحت.....تفصیل

عرض کرنا......کہنا

ذرا......تھوڑا

امداد غیبی.......غیب سے ملنے والی مدد

اصطلاح...... کسی لفظ کا خاص مفہوم

مدد......امداد، سہارا

نیک ذات...... شریف آدمی

عندالمواقع.......عین موقع پر

الٹ پھیر.........بدلنا،تبدیل کرنا، 

بظاہر......ظاہرا، دیکھنے میں

مشکل.....دشوار، کٹھن

تقدیر...... قسمت


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق "امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کو " لاکلاس " کے امتحان میں امداد غیبی اور پرچوں کی الٹ پھیر سے ہی کامیابی کی توقع تھی اور اس کے ساتھ ساتھ بعض شریف اور کم حیثیت ملازم کے ذریعے پرچہ بدلنے کی آس لیے بیٹھا تھا۔

   

تشریح:

مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان "ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔

    تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ جب وہ قانون کے امتحان کےلیے مقام امتحان پہنچا تو امتحان کی تیاری نہ ہونے کے سبب اسے امتحان میں کامیابی کی امید دو طرح سے تھی۔ ایک غیبی امداد اور دوسری پرچوں کی الٹ پھیر۔

     مصنف کہتا ہے کہ جن لوگوں کو امتحانات سے واسطہ نہیں پڑا اور جنھوں نے کبھی امتحانات دیئے ہی نہیں وہ میری امدادغیبی اور پرچوں کی الٹ پھیر والی بات کو نہ سمجھ سکیں گے۔اس لیے ان لوگوں کی آسانی کےلیے اپنی بات وضاحت سے کہتا ہوں کہ " امداد غیبی" امتحانی نکتہ نگاہ سے وہ مدد ہوتی ہے  جو پرچہ حل کرنے والوں کو ایک دوسرے سے یا کسی اچھی صفت کے حامل نگران سے یا عین موقع کے اوپر کتاب مل جانے سے پہنچ جاتی ہے۔ جس سے سارا پرچہ حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

   مصنف کہتا ہے کہ امتحان کے دوران اگر پرچوں کی الٹ پھیر سے ہی کام چلانا ہو تو ظاہری طور پر یہ کام بہت مشکل دکھائی دیتا ہے کہ نگران ایسا آسانی  سے ہونے نہیں دیتے لیکن جب انسان کی قسمت اچھی ہو اور تقدیر اس کا ساتھ دے رہی ہو تو یہ کام بھی آسان ہونا ہے ورنہ انسان اپنی بدنصیبی کو روتا ہے۔ بقول شاعر


جو چل جائے تدبیر بنے،جو ٹل جائے تقدیر بنے

اس بات کو اصغر کیا سمجھیں یہ بات نہیں سمجھانے کی۔

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...