Popular Posts

Sunday, August 30, 2020

جماعت نہم اردو سبق لہو اور قالین پیراگراف نمبر9 تشریح


 سبق: لہو اور قالین۔

پیراگراف 9۔ آخری۔


اقتباس:

وہ پہلے کی طرح مفلس نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی کیا حالت ہوگی؟


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:     لہو اور قالین

مصنف کا نام:      مرزا ادیب

          صنف:         ڈرامہ

          ماخذ:       لہو اور قالین


   خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

   

   مفلس ۔۔۔۔۔۔۔ نادار، غریب۔

   تکلیف ۔۔۔۔۔۔ پریشانی، اذیت۔

  پریشان ۔۔۔۔۔۔ دکھی، غم زدہ۔

  کیفیت ۔۔۔۔۔۔۔ حالت۔

  عوض ۔۔۔۔۔۔۔۔ بدلہ، صلہ۔

 سونپ دینا۔۔۔۔۔ حوالے کرنا، سپرد کرنا۔

  تکلیف دہ۔۔۔۔۔۔ اذیت دینے والا۔

  مستحق ۔۔۔۔۔۔۔ حق دار۔


    سیاق و سباق:

                   

                    تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین" کے آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ مصور اختر، تجمل کو آگاہ کرتا ہے کہ اوّل انعام کی مستحق قرار پانے والی تصویر اس نے اپنے غریب مصور دوست نیازی سے لی تھی۔ اختر کہتا ہے کہ نیازی اپنی بنائی ہوئی  تصویریں مجھے دے کر مجھ سے گزر بسر کےلیے چند سکے لیتا تھا۔اس طرح آپ کو فن کی قدر افزائی اور مصور نوازی کا احترام میسر آتا تھا۔ اب جب نیازی کو اس کی تصویر کو ملنے والے اول انعام کے بارے پتا چلے گا تو اس پر کیا گزرے گی۔ اس پر تجمل اختر پر خفا ہو کر کہتا ہے کہ تم نے اپنی نالائقی چھپا کر مجھے سراسر دھوکا دیا اور میں نے تمھیں اتنی آسائشیں بےکار مہیا کی تھیں۔


      تشریح:

                 

              میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں زندگی کے  تمام اہم پہلوؤں کو اجاگر کیاگیا ہے۔" لہو اور قالین ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے عوامل بےنقاب ہوتے ہیں۔

                          تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ مصور اختر اول انعام کی حق دار قرار پانے والی تصویر کے متعلق تجمل کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ تصویر اختر نے خود نہیں بنائی تھی بلکہ اس کے غریب مصور دوست نیازی نے اسے دی تھی اور اس کے بدلے میں اپنے گھر کے گزر اوقات کےلیے چند پیسے لیے تھے۔

اختر، تجمل سے  کہتا ہے کہ نیازی کی غربت اور بےبسی دیکھ کر میں ایسا کرنے پر مجبور تھا اور میرے اس کام سے نیازی کو جو رقم ملتی تھی اس سے اس کا اچھا گزر بسر ہونے لگا اور وہ مفلسی اور ناداری کی حالت سے باہر نکل آیا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنی بہن کی شادی بھی کر لی تھی۔ اب اسے اشیائے خوردونوش کے حوالے سے بھی کسی قسم کی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اب وہ جس کرائے گھر میں رہتا تھا اس کا مالک بھی اسے کرائے کےلیے تنگ نہیں کرتا تھا کیونکہ اسے بروقت کرایہ مل جاتا تھا۔

                            اس سب کے باوجود اس کے دل کی حالت کا اتنا اندازہ نہیں لگا سکتے جتنا کہ مجھے ہے کیونکہ ایک غریب کے دل کو غریب ہی بہتر جان سکتا ہے۔ ایک صاحبِ دولت اس غریب کی خودداری اور مفلسی کا کرب کیا محسوس کرے گا جس کی اولاد چند پیسوں کےلیے دوسرے کی محتاج ہو کر رہ گئی ہو اور دوسرے سے کچھ ملنے کی آس پر اپنے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کی امیدوں پر زندہ ہو۔ ان حالات میں جب نیازی کو معلوم ہوگا کہ آج اس کی تخلیق کردہ تصویر کو ہی اول انعام ملا ہے تو اس کے دکھ ، کرب اور بےبسی کا کیا عالم ہوگا اور وہ اس عالم میں کیا سوچتا ہوگا اور اس کی کیا حالت ہوگی اس کا آپ اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔ بقول حالی؛


                  ؎   تھکتے ہیں وہ اور چین پاتی ہے دنیا

                        کماتے  ہیں  وہ  اور   کھاتی   ہے دنیا

Saturday, August 29, 2020

جماعت نہم اردو سبق آرام و سکون پیراگراف نمبر1 تشریح۔


 سبق: آرام و سکون۔

پیراگراف نمبر1

اقتباس :

جی نہیں بیگم صاحبہ تردد کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کے شوہر غالباً کام بہت زیادہ کرتے ہیں۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان:      آرام و سکون

 مصنف کا نام :    سید امتیاز علی تاج۔

صنف:       ڈرامہ          

خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

تردد ۔۔۔۔۔۔۔۔تذبذب، فکر،پریشانی۔

معائنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔جائزہ، جانچ پرکھ۔

 تکان ۔۔۔۔۔۔۔۔تھکن، تھکاوٹ۔

حرارت ۔۔۔۔۔۔۔تپش، گرمی۔

غالباً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید۔

سیاق و سباق:

              تشریح طلب اقتباس درسی سبق " آرام و سکون " کا ابتدائی پیراگراف ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ اشفاق میاں کی خرابیٔ صحت پر ڈاکٹر اس کا معائنہ کرتے ہوئے اس کی بیوی کو بتاتا ہے کہ آپ کے خاوند کام زیادہ کرتے ہیں اس وجہ سے انھیں تھکان اور حرارت ہے مگر پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔بیوی ڈاکٹر کو بتاتی ہے کہ ان کا ہمیشہ یہی حال ہوتا ہے کہ بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔صبح دس بجے دفتر جاکر شام سات بجے واپس آتے ہیں۔

               تشریح:

                    سید امتیاز علی تاج کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نویسوں میں ہوتا ہے۔ ان کی تحریر سادہ اور بےتکلف ہوتی ہے اور ان کے ڈراموں کے کردار جاندار اور متحرک ہوتے ہیں۔ چستی،برجستگی اور بےساختگی ان کے ڈراموں کا خاصا ہیں۔" آرام و سکون" بھی ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں وہ آرام کرنےکی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔

            تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اشفاق میاں کی خرابیٔ صحت پر اس کا معائنہ کرتے ہوئے اس کی بیوی سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ آپ کو اپنے میاں کی صحت کے حوالے سے پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے ان کی صحت کے متعلق اچھی طرح جانچ پرکھ کر لی ہے۔ یہ تھکاوٹ کا شکار ہیں اور شدید تھکن کی وجہ سے انھیں گرمی بھی لگ گئی ہے۔انسان زیادہ تھکاوٹ کا شکار اس وقت ہوتا ہے جب وہ بہت زیادہ کام کرتا ہے اور اپنے آرام کا خیال بالکل بھی نہیں رکھتا۔                       آپ کے شوہر بھی شاید بہت زیادہ کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تھکن کا شکار ہوگئے ہیں اور ان کو گرمی لگ گئی ہے۔بہت زیادہ کام سے آدمی کا آرام ختم ہوجاتا ہے اور زیادہ کام انسان کو تھکا کر نڈھال کر دیتا ہے۔ بقول شاعر؛

     کس نے سکون پایا دنیا میں   ؎

زندگانی کا سامنا کرکے

Friday, August 28, 2020

پیراگراف5 تشریح دہم سبق مرزا محمد سعید


          سبق: مرزا محمد سعید

      پیراگراف نمبر5
        اقتباس:
       پچاس ساٹھ سال پہلے دلی کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرے پروفیسر مرزا محمد سعید ۔
      حوالۂ متن:
      سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
     مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
            صنف:           خاکہ نگاری
           ماخذ:        گنجینۂ گوہر
            خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
    شرفا ۔۔۔۔۔۔۔ شریف کی جمع، معزز لوگ، شریف لوگ۔
       نظریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصول، نصب العین، مقصد۔
        اصلاح ۔۔۔۔۔۔درستی۔
علمی حلقے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اہلِ علم و ادب۔
    نمود ۔۔۔۔۔۔۔ شہرت، ناموری، نمائش
     سیاق و سباق:
          تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ مرزا صاحب دلی کے شریف اور متمول خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سرسید احمد خان اور منشی ذکاءاللہ سے ان کی عزیزداری تھی۔ مرزا صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی ۔انھوں نے اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی جب انگریزی تعلیم کے حصول کو مسلمان گھرانوں میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان کے استادوں میں علامہ اقبالؒ بھی شامل تھے جن سے ان کے مخلصانہ تعلقات تھے۔ 
         تشریح:
                     شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                                    تشریح طلب اقتباس میں مصنف گزشتہ ادوار کے متعلق بتاتے ہیں کہ تقریباً پچاس ساٹھ سال پہلے برصغیر میں انگریزوں کے غاصبانہ تسلط کی بدولت مسلمان انگریزوں کو اپنا کھلا دشمن تصور کرتے تھے اس لیے دہلی میں مقیم وہ بااثر اور معزز مسلمان جنھیں مسلم معاشرے میں بہت عزت و احترام حاصل تھا،انگریزی تعلیم کو کچھ اہمیت نہ دیتے تھے بلکہ اسے نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتے تھے اور مسلمانوں کو انگریزی تعلیم سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔
                                سرسید احمد خان نے جب دیکھا کہ انگریزی تعلیم کے حوالے سے مسلمانوں کا طرز عمل اور رویہ کافی جذباتی ہے اور مسلمانوں کو اس طرزعمل کی وجہ سے ہر لحاظ سے نقصان ہو رہا ہے تو انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے حوالے سے اس غلط نظریے کی اصلاح اور درستی کرنے کی کوشش شروع کر دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ علم سیکھنے کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی سے مخالفت کی وجہ سے علم سے دوری اختیار کی جاسکتی ہے۔اسلام میں تو حصولِ علم کی بہت ترغیب دی گئی ہے اور حضوراکرمﷺ  نے غزوۂ بدر میں اس شرط پر دشمن قیدیوں کو رہا فرمایا کہ وہ مسلمان بچوں کو علم سکھائیں اور حدیث مبارکہ بھی ہے:
" علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے"۔
اور بقول شاعر:
   وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو
  اٹھو تہذیب سیکھو ، صنعتیں سیکھو ، ہنر سیکھو
                                   چناں چہ سرسید احمد خان کی کوشش سے مسلمانوں کے نظریے اور رویوں میں انگریزی تعلیم کے حوالے سے کچھ نہ کچھ  بہتری آئی ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمانوں کی ممانیت کے باوجود اس زمانے میں دہلی کے دو نوجوانوں پروفیسر مشتاق احمد زاہدی اور پروفیسر مرزا محمد سعید نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے علم و ادب کے مراکز میں کافی شہرت حاصل کی اور ان کو علمی میدان میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور انھیں یہ شہرت اور عزت کٹھن دور میں علم کے حصول کی بدولت ملی تھی۔ اس لیے کسی شاعر نے خوب کہا:
                تعلیم وہ خوب ہے جو سکھائے ہنر
              اچھی ہے وہ تربیت جو روحانی ہے


پیراگراف 4 تشریح دہم سبق مرزا محمد سعید


 

       سبق: مرزا محمد سعید
     پیراگراف نمبر4
       اقتباس:
    مرزا صاحب دلی کے شرفا کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی قرابت داری ہوگئی تھی۔
      حوالہ متن:
     سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
     مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
    صنف: خاکہ نگاری
    ماخذ: گنجینۂ گوہر
        خط کشیدہ الفاظ کے معانی: 
   شرفا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شریف کی جمع، معزز لوگ۔شریف لوگ۔
    متمول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مال دار، دولت مند
       چشم و چراغ۔۔۔۔۔۔۔ پیارا بیٹا، آنکھوں کا تارا۔
    تراہا۔۔۔۔۔۔۔ وہ مقام جہاں سے تین راستے نکلتے ہیں۔
    سیدھا ہاتھ۔۔۔۔۔ دایاں ہاتھ۔
      نکڑ۔۔۔۔۔۔ کونا، گوشہ۔
      آبائی۔۔۔۔۔۔۔ باپ دادا کی۔
      قدیم۔۔۔۔۔۔ پرانا
       عزیزداری۔۔۔۔۔۔۔۔ تعلق داری، دوستی۔
      قرابت داری۔۔۔۔۔۔ تعلق داری، دوستی۔
            سیاق و سباق :
                                   تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ مصنف ، مرزا صاحب کے علمی کارناموں کو اجاگر کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیے کام کرتے تھے اس وجہ سے انھوں نے لاہور کے پبلشر کی آفر ٹھکرا دی اور اس کےلیے لکھنے سے انکار کر دیا۔ ان کے ادبی کارناموں میں ان کی کتاب" مذہب اور باطنیت" کا بہت بڑا مقام ہے۔ انھوں نے پچاس ساٹھ برس پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جب انگریزی تعلیمی کا حصول معیوب سمجھا جاتا تھا اور علامہ اقبالؒ کا شمار ان کے استادوں میں ہوتا تھا۔
              تشریح: 
                                  شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                             تشریح طلب اقتباس میں مصنف شاہداحمد دہلوی اپنے استاد محترم پروفیسر مرزا محمد سعید کے علمی کارناموں کو بیان کرنے کے بعد ان کے خاندان اور عزیز دوستوں کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ مرزا صاحب ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی میں رہنے والے ایک شریف اور مال دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے گھر والوں کےلیے ہر دل عزیز اور ان کی آنکھوں کا تارا تھے۔ جیسا کہ قول ہے:
" نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔"
                   دہلی میں ایک مقام جہاں سے تین راستے نکلتے تھے " تراہا بیرم خان" کے نام سے مشہور تھا۔ ان تینوں راستوں میں سے ایک راستہ دائیں طرف مڑ جاتا تھا اور اس راستے کے کونے میں ہی مرزا صاحب کا مکان تھا اور یہ مکان انھیں وراثت میں ملا تھا کیونکہ ان کے باپ دادا بھی اسی مکان میں رہتے تھے۔ سرسیداحمد خان بھی اسی علاقے میں ہی رہتے تھے اور ان کا بھی اس علاقے میں اپنا مکان تھا جوکہ کافی پرانا ہو چکا تھا۔اسی قربت کی وجہ سے مرزا صاحب کی سرسید احمد خان سے گہری وابستگی اور دوستی ہوگئی تھی۔
                               نامور مؤرخ، مترجم اور معلم منشی ذکاءاللہ بھی دہلی ہی کے رہنے والے تھے۔سرسید احمد خان کے ان سے دیرینہ تعلقات اور ان سے گہری دوستی تھی۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:
" دوست کا دوست بھی آپ کا دوست ہوتا ہے۔"
چونکہ مرزا صاحب کی سرسید احمد خان سے گہری وابستگی تھی اور منشی ذکاءاللہ سرسید احمد خان کے گہرے دوست تھے اس وجہ سے مرزا صاحب کی بھی منشی ذکاءاللہ سے تعلق داری اور دوستی قائم ہوگئی تھی۔ بقول شاعر:
      ؎       رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
                 لوگ  تھے  رفتگاں  میں کیا کیا کچھ



                             
                             


Thursday, August 27, 2020

پیراگراف نمبر3 تشریح دہم سبق مرزا محمد سعید


 

              سبق:مرزا محمد سعید

                      پیراگراف نمبر3

                                                            اقتباس:

                                            عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صلے کی پروا سے بےنیاز ہوکر۔

                                                         حوالہ متن:

                                                               سبق کا عنوان:                                  مرزا محمد سعید
                                                               مصنف کا نام:                                  شاہد احمد دہلوی
                                                                      صنف:                                     خاکہ نگاری
                                                                        ماخذ:                                    گنجینۂ گوہر

                                                  خط کشیدہ الفاظ کے معانی:

                                                                         عالِم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علم رکھنے والا۔
                                                                        عالَم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہان۔
                                                               رخصت ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوت ہو جانا، دنیا سے چلے جانا۔
                                                              عدم موجودگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیرموجودگی
                                                                        گھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   زخم
                                                                      واقف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جاننے والے، پہچاننے والے۔
                                                                    شہرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشہوری، ناموری۔
                                                                    ستائش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   تعریف۔
                                                                      تمنا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آرزو، خواہش۔
                                                                      صلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بدلہ، عوض
                                                                      پروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فکرمندی۔
                                                                    بےنیاز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بےفکر۔

                              سیاق و سباق:

                                                                    تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔ مصنف مرزا محمد سعید کے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی وفات کی خبر اخبارات کے ذریعے ملی اور ان کی وفات کا ان کے قدر دانوں تک کو کچھ معلوم نہ ہوا۔ مرزا صاحب جیسی شخصیت سے غفلت برتنے کی سزا ہمیں یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے ایکا ایکی ان کو ہم سے چھین لیا۔ مرزا صاحب کبھی فرمائشی کام نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنی تسکین کےلیے لکھتے اور اس وقت لکھتے جب ان کا جی چاہتا۔کسی کو خوش کرنے کےلیے ہرگز نہیں لکھتے تھے۔

                                    تشریح:

                                                                       شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                             تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مرزا محمد سعید کی وفات اور ایک صاحبِ علم شخصیت کے دنیا سے رخصت ہو جانے سے ہونے والے نقصان کے متعلق آگاہ کرتے ہیں کہ ایک عالم جب اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو علم و عمل کا ایک پورا جہان بھی اس کے ہمراہ رخصت ہو جاتا ہے اور ان کے پیچھے دنیا میں ایک خلا رہ جاتا ہے جس کو کسی صورت پُر نہیں کیا جاسکتا۔
 جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:

" ایک عالم کی موت ایک مصیبت ہے جس کی تلافی ممکن نہیں، ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں ہوسکتا اور ایک ایسا ستارہ ہے جو موت کی وجہ سے بے نور ہوجاتا ہے۔"

                           مرزا محمد سعید جیسی صاحبِ علم شخصیت کے اس دنیا سے چلے جانے سے جو نقصان  علمی دنیا کو ہوا اسے کبھی پورا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صرف وہ خود اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے بلکہ علم کا بڑا سمندر بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ ان کی یادیں اور ان کے بچھڑنے کا رنج و غم ہمیں بےچین کرتے رہیں گے اور ہم ان کو بھولے سے بھی نہ بھول پائیں گے۔ بقول اقبالؒ
                                                                        ؎      آئے عشاق    ،  گئے وعدۂ فردا  لے کر
                                                                            اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
                               مصنف، مرزا صاحب کے خصائل بیان کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ وہ خاموش طبع انسان تھے اور دنیاوی رنگینیوں میں پڑے بغیر خاموشی سے الگ تھلگ ہوکر اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ ان کی زندگی اس قدر خاموش تھی کہ ان کے ہم عصر لوگ بھی ان کے ان کارموں کے متعلق کچھ نہیں جانتے تھے جو انھوں نے علم و ادب کے میدان میں سر انجام دیے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مرزا صاحب اپنا کام کسی بھی شہرت اور نمود و نمائش کےلیے نہیں کرتے تھے بلکہ وہ شہرت اور نمود کےنام سے ہی پریشان ہوجاتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی مقامات اور عوامی اجتماعات میں شریک ہونے سے گریز کرتے تھے۔ وہ اپنا علمی و ادبی کام ناموری، دولت، شہرت اور اپنی تعریف کے حصول کےلیے کرنے کی بجائے اپنے شوق،  دلی سکون اور اپنی راحت کےلیے کرتے تھے اور ان کا یہ کام ہمیشہ بے لوث ہوتا تھا۔ بقول  شاعر:
                                                                            ؎      حرصِ دولت کی نہ عِز و جاہ کی
                                                                                   بس    تمنا    ہے     دلِ   آگاہ   کی
                                                                                                 یا  
                                        بقول غالبؔ :
                                                                     ؎      نہ    ستائش    کی    تمنا    نہ    صلے   کی    پروا
                                                                          گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

Wednesday, August 26, 2020

پیراگراف نمبر 2 تشریح دہم سبق مرزا محمد سعید


 

سبق : مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر2
اقتباس:
افسوس! اتنا بڑا صاحبِ کمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایکاایکی ہم سے چھین لیا گیا۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کانام:  شاہد احمد دہلوی
    صنف:             خاکہ نگاری
   ماخذ:             گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔ دکھ ، رنج۔
صاحبِ کمال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہر، کمال رکھنے والا
سناؤنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت کی خبر۔
بےخبر۔۔۔۔۔۔۔۔ غافل ، لاعلم۔
شعار۔۔۔۔۔۔۔۔ طور طریقہ، سلیقہ۔
اہلِ کمال۔۔۔۔۔۔۔ مہارت رکھنے والا
غافل۔۔۔۔۔۔۔ لاعلم، بےخبر۔
غفلت۔۔۔۔۔۔ لاپروائی، لاعلمی۔
مجرمانہ۔۔۔۔۔۔۔ جرم کا سبب بننے والی۔
ایکاایکی۔۔۔۔۔۔۔ اچانک۔
چھین لینا۔۔۔۔۔۔۔ ہتھیا لینا۔

سیاق و سباق:
               تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ مرزا محمد سعید کی وفات کے متعلق ان کے دوستوں اور قدردانوں کو خبر تک نہ ہوئی بلکہ تیسرے دن اخبار کے ذریعے ان کی وفات کا معلوم ہوا۔مرزا صاحب جیسے عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے اور ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے سے ہمارا اتنا بڑا نقصان ہوا جس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔
تشریح:

            شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں
                            تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مرزا محمد سعید کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان کی وفات سے  ہمیں دکھ اور کرب تو ملا ہی ہے  مگر بےحد افسوس کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب جیسی علم و عمل پر یقینی رکھنے والی باکمال شخصیت ہم سے جدا ہوگئی لیکن ان کی وفات کی خبر نہ تو ہمیں ملی اور نہ ہی ان کے دوست احباب اور عقیدت مندوں تک اس کی اطلاع پہنچی۔ بقول شاعر:
           زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
           ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
                  
                  مرزا محمد سعید اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک انسان تھے مگر بہت قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ مرزا صاحب جیسی عظیم المرتبہ اور صاحبِ علم شخصیت ہم سے جدا ہوگئی مگر ہم اپنی لاپروائی کی وجہ سے  اس بات سے مکمل بےخبر رہے۔ زندہ اور ہمیشہ امر رہنے والی قومیں کسی طور پر بھی اہلِ علم اور صاحبِ کمال شخصیت سے غافل اور بےخبر نہیں رہتیں بلکہ وہ ہمیشہ ایسی شخصیت سے جڑی رہتی ہیں اور ان کی قدر کرتی ہیں جبکہ جو لوگ اپنے باکمال اور علمی شخصیات کے ساتھ لاپروائی اور عدم توجہ برتتے ہیں ان کا یہ کام قدرت کے نزدیک بہت بڑا جرم ہوتا ہے اور قدرت اس جرم کی سزا غافل معاشرے کو یوں دیتی ہے کہ معاشرے سے اہل علم کو اٹھا لیتی ہے اور دنیا والے ان کے فیوض و برکات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
"  عالم کی وفات کے ساتھ علم بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔"
                 مصنف کہتا ہے کہ مرزا محمد سعید جیسی علمی شخصیت سے لاپروائی اور عدم توجہی برت کر ہم نے بھی یہی بڑی سزا پائی کہ اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو اچانک ہم سے جدا کرکے اپنے پاس بلا لیا۔ بقول اقبال
      آئے  عشاق ، گئے  وعدۂ فردا   لے کر
      اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر


پیراگراف نمبر1تشریح, دہم سبق مرزا محمد سعید


  

سبق نمبر1 
مرزا محمد سعید 
پیراگراف نمبر1:
اقتباس:
صبح اخباروں میں یہ خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانحۂ ارتحال کی خبرتک نہ ہوئی۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
صنف: خاکہ نگاری
ماخذ: گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
دل دھک رہ جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیران و پریشان ہوجانا، مضطرب ہوجانا۔
سوئم۔۔۔۔۔۔۔۔۔وفات کا تیسرا دن۔
علالتِ مزاج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیمار طبیعت۔
مرض الموت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موت کا سبب بننے والی بیماری۔
اطلاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر، آگاہی۔
پرسوں۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ کل سے پہلے کا دن۔
رحلت۔۔۔۔ وفات، موت۔
سیکڑوں۔۔۔۔۔۔ سو سے زائد۔
قدردان۔۔۔۔۔۔۔ چاہنے والے۔
سانحہ۔۔۔۔۔۔۔۔ حادثہ، واقعہ
ارتحال۔۔۔۔۔۔ رحلت، وفات
سانحۂ ارتحال۔۔۔۔۔ وفات کا حادثہ یا واقعہ۔
خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اطلاع۔
سیاق و سباق:
       تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔ مصنف شاہد احمد دہلوی، مرزا محمد سعید کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ہم ان کی وفات سے بےخبر رہے اور ہماری مرزا صاحب سے غفلت برتنے کا ہی نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایکا ایکی ہم سے چھین لیا۔ان کی موت عالَم کی موت ہے۔ان کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے سے جو نقصان ہوا اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔
تشریح:
                    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے استادوں میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں
                                     تشریح طلب اقتباس میں مصنف نامور عالم اور صاحبِ کمال شخصیت مرزا محمد سعید کی وفات کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ صبح سویرے جب اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ پروفیسر مرزا محمد سعید وفات پا گئے ہیں اور آج ان کی وفات کو تیسرا دن ہو چکا ہے تو دل کو بہت دکھ اور رنج ہوا کیونکہ ایسی عظیم اور صاحبِ علم شخصیت کی جدائی بہت بڑے صدمے سے کم نہیں ہوتی مگر موت جیسی حقیقت سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے
"  ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے.
 بقول شاعر:
   ؎   موت سے کس کو رستگاری ہے
 آج  وہ ، کل  ہماری  باری   ہے
                        مرزا محمد سعید بےحد سنجیدہ، کم گو بلکہ خاموش طبع انسان تھے اس لیے انھوں نے اپنی زندگی انتہائی سادگی اور دنیا کی رنگینی سے الگ تھلگ ہو کر گزاری یہاں تک کہ داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔مصنف کہتا ہے کہ ان کی وفات کا صدمہ اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ دو دن پہلے ان کا انتقال ہوگیا مگر ہمیں اور ان کے دوست احباب کو نہ تو ان کی طبیعت کی خرابی کی کہیں سے اطلاع ملی اور نہ ہی ان کی اس بیماری کے بارے میں کچھ آگاہی ملی جس سے ان کی وفات ہوئی۔ان کی وفات کا جس قدر بھی غم کیا جائے وہ کم ہے۔  بقول شاعر:
؎   زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
   ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
                                    یا
 ؎    فضائے شہر اس قدر ہے سوگوار کس لیے
    ہر اک دکھائی دے رہا ہے اشک بار کس لیے




پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...