Popular Posts

Monday, April 15, 2019

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف نمبر8 تشریح

اقتباس:
تشریف آوری کی خبر مدینہ میں پہلے ہی پہنچ چکی تھی................................تمام شہر تکبیر کی آواز سے گونج اٹھا.

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کانام: مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
تشریف آوری: آمد ,تشریف لانا
ہمہ تن : مکمل طور پر, سب کا سب
چشم انتظار: انتظار والی آنکھ
فخر: ناز
جوش: جذبہ, ولولہ
حسرت: ناامیدی ,یاس
تڑکے: صبح سویرے
قرائن: قرینہ کی جمع, قیاس , اندازے , نشانیاں
گونج اٹھا: شور برپا ہوا
تکبیر: اللہ اکبر کی صدا

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس  مولانا شبلی نعمانی کے تحریر کردہ سبق " ہجرت نبوی" کا آخری حصہ ہے.اس سبق میں مولانا کہتے ہیں کہ اسلام دشمنی میں کفارمکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ قتل کرنے کی غرض سے گھرکے گھیراؤ سے لے کر غار کے دہانے تک کی تلاش میں ناکام ہوئے.بالاخر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گرفتاری کےلیے سو اونٹ انعام مقرر کیا..سراقہ بن جعشم اس لالچ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا مگر اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا اور اس نے فرمان امن لکھوا کر بھاگنے میں عافیت جانی..مدینہ والے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کرتے اور ایک دن یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا اور مدینہ والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بارے میں آگاہ کیا تو تمام شہر تکبیر کی آواز سے گونج اٹھا..

تشریح:
مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے نامور ادیب تھے..انھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی..سبق " ہجرت نبوی " بھی اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے جس میں مولانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں بیان کرتے ہیں.
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ کے سفر پر روانہ ہوچکے تھےاور اہل مدینہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کی خبر مل چکی تھی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی آمد کی اطلاع پا کر بےحد خوش تھے..پورے مدینہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں آنکھیں بچھائے ہوئے تھے اور سب لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کاشرف حاصل کرنے کےلیے بےقرار تھے..
معصوم بچے فخر اور جوش وجذبے کے ساتھ کہتے پھر رہے تھے کہ ہمارے ہاں اللہ کے پیغمبر تشریف لا رہے ہیں..ان کے شوق انتظار کا یہ عالم تھا کہ وہ روزانہ صبح سویرے مدینہ منورہ سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوپہر تک انتظار کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی امید ختم ہو جاتی تو مایوس ہوکر لوٹ جاتےجاتے..کئی دن تک ان کا یہی معمول رہا..
                 ایک دن مدینہ والے معمول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرکے مایوسی کے عالم میں واپس جاچکے تھے  .ایک یہودی جس نے تورات اور انجیل میں آخری پیغمبر کی آمد کے بارے میں اور ان کی نشانیوں کے بارے میں پڑھ رکھا تھا اپنے قلعےمیں موجود تھا اور اس نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  تشریف لاتے ہوئے دیکھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  نشانیوں سے پہچان لیا اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ عرب والو ! مبارک ہو ' جس ہستی  کا تم روزانہ بےتابی سے انتظار کرتے تھے وہ ہستی تشریف لا رہی ہے..
         جوں ہی یہ آواز لوگوں کے کانوں میں پڑی تو سب فرط جذبات سے دوڑ پڑے اور پورا مدینہ شہر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا اور سبھی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کے جذبے سے سرشار ہوکر آپ صلی اللہ  علیہ وسلم کا استقبال کرنے لگے..
بقول شاعر

ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب
چودھویں کا چاند کیا نکلا ہے خوب

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف نمبر7 تشریح

اقتباس:
صبح قریش کی آنکھیں  کھلیں...........................آہٹ پاکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غم زدہ ہوگئے

حوالہ متن :
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام: مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ سیرت النبی.

 خط کشیدہ الفاظ کے معانی

حرم: خانہ کعبہ
محبوس رکھنا:  قید رکھنا
دہانہ: منھ ,سرا
آہٹ: قدموں کی چاپ

سیاق وسباق

تشریح طلب اقتباس  درسی سبق " ہجرت نبوی " کے درمیان سے اخذ کیاگیا جسے مولانا شبلی نعمانی نے لکھا ہے.
اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ اسلام دشمنی میں کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا .آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے منصوبوں سے مکمل آگاہ تھے..اللہ تعالی نے کفار مکہ کو بےخبر  کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بےخبری میں چھوڑ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ ہجرت فرما گئے اور تین دن غار ثور میں قیام فرمایا..صبح قریش غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلے..ناکامی پر انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گرفتاری پر ایک خون بہا کے برابر سو اونٹ انعام مقرر کر دیا...

تشریح:

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان  کے نامور ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی..سبق " ہجرت نبوی  اسی کتاب سے  اخذ کیا گیا ہے..اس میں مولانا شبلی نعمانی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت  مدینہ کا واقعہ جامع انداز میں بیان کیا.
            تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ ہجرت کی رات قریش کے مقرر کردہ افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعوذ باللہ قتل کے ارادے سے گھر کا محاصرہ کیے کھڑے تھے..جب رات کافی گزرگئی تو اللہ تعالی نے انھیں بےخبر کردیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم  انھیں غفلت میں پڑے ہوئے  پاکر گھر سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے..
              وہ صبح جوں ہی غفلت سے بیدار ہوئے تو انھوں نے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو موجود پایا..یہ دیکھ کر وہ  غصے میں آگئے اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکڑ لیا اور خانہ کعبہ کی چاردیواری میں قید کرکے انھیں زد و کوب کیا لیکن کچھ دیر بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے انھیں خاطرخواہ جواب نہ ملا تو انھوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا..اس کے بعد وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے ..وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے  غار ثور کے بالکل قریب پہنچ گئے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پناہ لے رکھی تھی..
              حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب ان کے قدموں کی چاپ سنی اور آپ رضی اللہ عنہ کو ان کی موجودگی کا احساس ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ پریشان ہوگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر ان لوگوں نے نیچے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو یقینا ان کی نظر ہم پر بھی پڑ جائے گی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تسلی دی اور فرمایا:
گھبراؤ نہیں بےشک اللہ ہمارے ساتھ ہے" .سورت توبہ :40
کفار مکہ وہاں سے بھی ناکام و نامراد واپس ہوئے اور وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کچھ بال بیکا نہ کرسکے..
بقول شاعر

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے.


اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف نمبر6 تشریح

کفار نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا....................................یہ غار آج بھی بوسہ گاہ خلائق ہے.
حوالہ متن :
سبق کا عنوان:  ہجرت نبوی
مصنف کانام: مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی

محاصرہ : گھیراؤ
بےخبر: غافل
عزیز: پیارا
فرزند: بیٹے
قرارداد: عہد معاہدہ
عہد و پیماں
جبل: پہاڑ, کوہ
پوشیدہ: چھپا ہوا,پنہاں
بوسہ گاہ خلائق: لوگوں کے بوسہ دینے کی جگہ

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس  سبق " ہجرت نبوی" کے درمیان سے لیا گیا ہے ..اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ
اسلام دشمنی میں کفار مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے آپ کے گھر کا گھیراؤ کرلیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادے کی خبر ہوچکی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ لوگوں کی امانتوں کی فکر تھی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امانتوں کےلیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پلنگ پر سلایا اور خود کفار مکہ کو غافل پاکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینے کی طرف ہجرت فرما گئے اور تین دن غار ثور میں پوشیدہ رہے..اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے, بیٹی اور غلام مسلسل حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مامور رہے..

تشریح:

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے نامور ادیب تھے..انھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی..سبق " ہجرت نبوی"  بھی اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے جس میں مولانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں  بیان کرتے ہیں..
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ دعوت اسلام دینے کے بعد قریش کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر دشمنی ہوگئی تھی کہ ہجرت کی رات ان کے مقرر کردہ افراد تلواریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے..اگرچہ کفارمکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن بنے ہوئے تھے مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور صداقت کے مکمل قائل تھے..وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیانت داری اور امانت داری کے متعلق نہ صرف بہت زور دیا بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی امانتوں کی نہ صرف فکر کی بلکہ ان کی حفاظت بھی فرمائی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بابت فرمایا
"جس میں ایمانداری نہیں اس میں ایمان نہیں".
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی ایمانداری تھی اور خود بھی ایمانداری اور دیانت داری کا عملی نمونہ تھے اس وجہ سے اہل قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی امانتیں بےخوف و خطر اور مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ رکھواتے تھے..یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کا تمام تر سازو سامان بطور امانت پڑا رہتا تھا..
 مشکل کی اس گھڑی میں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےلیے بےحد فکر مند تھے.اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے ناپاک ارادوں اور عزائم کے متعلق خبر ہوچکی تھی پھر بھی  اپنی جان کی بہ نسبت امانتوں کی فکر تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امانتوں کو اپنے اوپر بھاری ذمہ داری سمجھتے تھے... بقول شاعر

سہل   کیا   بار   امانت    کا    اٹھانا    ہے   فلک
میں سنبھلتا ہوں میرے ساتھ سنبھلتی ہے زمین
-------------------------------------------------------------

Sunday, April 14, 2019

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف 5 تشریح.

اس بنا پر جناب امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا...........................قتل گاہ فرش گل تھا.
حوالہ متن
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام: مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
اوڑھ کر: پہن کر
خطرہ: ڈر خوف
ارادہ: قصد ,نیت
فاتح خیبر: خبیر کا قلعہ فتح کرنے والا مراد حضرت علی
قتل گاہ: وہ جگہ جہاں قتل ہوں
فرش گل: پھولوں کا فرش

سیاق و سباق:

اسلام دشمنی میں کفار مکہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادے کی خبر ہوچکی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ لوگوں کی امانتوں کی فکر تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امانتوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمایا اور خود کفار مکہ کو بےخبر پاکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور تین دن غار ثور میں پوشیدہ رہے..اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ, غلام اور آپ رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسما حضور کی خدمت میں مامور رہے..

تشریح:
 مولانا شبلی نعمانی اردو کے نامور ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی.سبق ہجرت نبوی بھی اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے جس میں مولانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں بیان فرمایا.
                 تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ قریش مکہ نے اسلام دشمنی میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ مارنے کےکیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ کرلیا تھا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے ناپاک عزائم  کی پہلے ہی خبر ہوگئی تھی..چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالی کی طرف سے مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم ہوچکا ہے..اس لیے میں آج مدینہ کی طرف روانہ ہو جاؤں گا..آپ رضی اللہ عنہ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سوجائیں تاکہ آپ رضی اللہ عنہ صبح ہوتے ہی لوگوں کی امانیں ان کے اصل مالکوں کے سپرد کردیں..
               حضرت علی رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ قریش کے ارادے ناپاک ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  قتل کرنا چاہتے ہیں تو ایسے موقع پرخود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی جان کا خطرہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوئے ہونے کی وجہ سے قریش ان پر بھی حملہ کرسکتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام فرمانے کا بستر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا تھا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بےمثل محبت اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی..خیبر کے قلعے کو فتح کرنے والے اور شیرخدا حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر اس طرح سوگئے جیسے پھولوں کے بستر پر آرام فرما ہوں اور کہیں سے بھی یہ ظاہر نہ ہوا کہ وہ اپنی جان کےلیے فکر مند ہوں کیونکہ بقول شاعر.

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جاں کا زیاں ,سو ایسا زیاں نہیں..

Saturday, April 13, 2019

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف 4 تشریح

رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کو اس درجہ عداوت تھی..............................ارادے کی پہلے خبر ہو چکی تھی.

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام : مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی

اس درجہ:  اس قدر
عداوت: دشمنی، عناد
دیانت: امانت داری
اعتماد: بھروسہ
امانتیں: امانت کی جمع ،سونپی ہوئی چیزیں
ارادہ: قصد
خبر:اطلاع

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق" ہجرت نبوی" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار مکہ کو اسلام کی دعوت دی گئی تو کفار نے مخالفت شروع کر دی..انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ مارنے کی منصوبہ بندی بھی کرلی اور اس مقصد کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ کرلیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہو چکی تھی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ اہل قریش کی امانتوں کی فکر تھی..چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلایا تاکہ وہ لوگوں کی امانتیں ان سے پہنچا سکیں..حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر خواب جوکہ قتل گاہ کی زمین تھا فرش گل بن چکا تھا..

تشریح:

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے نامور مصنف اور ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر ایک کتاب سیرت النبی لکھی..سبق" ہجرت نبوی" بھی  اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے..اس سبق میں مولانا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں بیان کیا ہے
           تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ دعوت اسلام دینے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کی دشمنی اس قدر ہو چکی تھی کہ ہجرت کی رات ان کے مقرر کردہ افراد تلواریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گیراؤ کیے ہوئے تھے.اگرچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن بنے ہوئے تھے پھر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور صداقت کے مکمل قائل تھے.وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے  اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف امانت داری کا درس دیتے تھے بلکہ عملی طور پر بھی لوگوں کی امانتوں کی فکر کرتے تھے..
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے
" جس میں ایمانداری نہیں اس میں ایمان نہیں"
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی ایمانداری اور دیانت داری تھی اور خود بھی اس کا عملی نمونہ تھے تو اہل قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی امانتیں بےخوف و خطر اور مکمل اعتماد کے ساتھ رکھواتے تھے..مشکل کی اس گھڑی بھی میں جب کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کی بہت سی امانتیں جمع تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فکرمند تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جانتے ہوئے بھی کہ کفار مکہ اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں لوگوں کی امانتوں کے بارے میں فکرمند تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امانتوں کو اپنے اوپر بھاری ذمہ داری سمجھتے تھے..بقول شاعر

سہل    کیا   بار    امانت   کا    اٹھانا   ہے   فلک
میں سنبھلتا ہوں میرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں

Friday, April 12, 2019

اردو نہم ..سبق ہجرت نبوی پیراگراف 3 تشریح

اقتباس
اس صورت میں ان کا خون .............یہ فرض ادا کیا جائے.
 حوالہ متن
سبق کا عنوان: ہجرت نبو ی
مصنف کا نام : مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 قبائل :قبیلہ کی جمع گروہ
آل ہاشم:حضور کا خاندان بنو ہاشم
اخیر: آخری
رائے: تجویز
اتفاق ہونا:  متفق ہونا, اتحاد ہونا
 جھٹ پٹے: سرشام,سورج غروب ہونے کے  بعد آستانہ مبارک:  گھر مبارک ,کاشانہ اقدس
معیوب: عیب والا.برا
گھسنا: داخل ہونا

 سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق "ہجرت نبوی کے درمیانی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ
جب کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے اور مسلمانوں نےالل کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کردی تو مدینہ میں مسلمانوں کا طاقت پکڑنا قریش کو ہضم نہ ہوا اور انھوں نے ابوجہل کی رائے کے مطابق آپ کو مارنے کےلیے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا جبکہ حضور صل اللہ علیہ وسلم اس خطرے کے موقع پر بھی لوگوں کی امانتوں کے بارے فکر مند تھے اور اس مقصد کےلیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر مبارک پر سونے کا حکم فرمایا..

تشریح:
مولانا شبلی نعمانی اردو  زبان کے مایہ ناز ادیب تھے.انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی.اسی کتاب سے درسی سبق ہجرت نبوی اخذ کیا گیا ہے جس میں مولانا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ جامع انداز  میں بیان فرمایا.
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے .ایسے میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو اکثر صحابہ مدینہ ہجرت کرگئے اور نبوت کے تیرھویں سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ ہجرت کا قصد فرمایا..
اہل قریش نے جب دیکھا کہ مسلمان مدینہ جاکر طاقت پکڑ رہے ہیں تو انھوں نے اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کفار سے تجاویز لینا شروع کر دیں ..لوگوں نے مختلف تجاویز دیں اور سب سے آخر میں ابوجہل نے  خطرناک رائے دی کہ تمام قبائل سے ایک ایک شخص کو چنا جائے اور سب مل کر آپ کو نعوذ باللہ مار ڈالیں اس طرح آپ کا خون تمام قبائل کے ذمہ لگ جائے گااور آپ کا خاندان بنو ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھ سکے گا....
اس آخری رائے پر کفار نے اتفاق کرلیا .دراصل وہ اس ناپاک منصوبے کے ذریعے اسلام کو مٹانا چاہتے تھے..
اس زمانے میں عرب والے اس گھر میں داخل     ہونا برا سمجھتےتھے جس میں کوئی خاندان رہائش پذیر ہو..کفار مکہ اگرچہ اسلام کے دشمن تھے مگر گھر کی چادر اور تقدس کا احترام کرتے تھے اس لیے وہ آپ کے گھر میں داخل ہونے کی بجائے باہر کھڑے ہوگئے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلیں گے تو وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا سکیں..اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے آپ کو کفار کے اس منصوبے کی خبر دے دی اور آپ اس سے مکمل طور پر آگاہ تھے  جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے"
ادھر وہ چال چل رہے تھے اور ادھر اللہ تعالی تدبیر فرما رہے تھے بےشک اللہ تعالی بہتر تدبیر
.(فرمانے والے ہیں" (سورت الانفال
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکمت اور بصیرت سے کفار کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا..بقول شاعر
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے.
....................................................

Thursday, April 11, 2019

اردو نہم ..ہجرت نبوی.. پیراگراف 2 تشریح

اقتباس:
نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا....................تلواروں سے ان کا خاتمہ کردیں.
 حوالہ متن
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام: مولانا شبلی نعمانی
صنف : سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
وحی الہی: اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغام
عزم ..ارادہ
رائیں:رائے کی جمع ،تجاویز
جلاوطن:وطن سے نکالنا
انتخاب:چناؤ
خاتمہ کرنا: مارنا,
 قتل کرنا
قبائل: قبیلہ کی جمع, گروہ
آل ہاشم:حضور کا خاندان
مقابلہ کرنا: نمٹنے کی کوشش کرنا.
نبردآزما ہونا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق "ہجرت نبوی" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے جسے مولانا شبلی نعمانی نے تحریر کیا
اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قریش کو اسلام کی دعوت دی تو وہ آپ کے بدترین دشمن بن گئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگے..
نبوت کے تیرھویں سال آپ نے اللہ کے حکم سے مدینہ ہجرت کا قصد فرمایا تو کفار مکہ مدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہوگئے اور انھوں نے آپ کو شہید کرنے کی غرض سے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا..

:تشریح

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے مایہ ناز ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی.اسی کتاب سے درسی سبق" ہجرت نبوی "اخذ کیا گیا ہےجس میں مولانا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ جامع انداز سے بیان فرمایا..
 تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے.ایسے میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو اللہ کے حکم سے اکثر صحابہ مدینہ ہجرت کر گئے اور نبوت کے تیرھویں سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے حکم سے مدینہ کا قصد فرما لیا..مدینہ منورہ کی سرزمین مسلمانوں کےلیے سازگار بن چکی تھی اور اسلام وہاں تیزی سے پھیل رہا تھا..
قریش کےلیےمدینہ میں اسلام پھیلنا اور مسلمانوں کا طاقت پکڑنا ناقابل قبول اور پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا.انھیں اپنی اجارہ داری خطرے میں نظر آرہی تھی..اس لیے انھوں نےمدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی طاقت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے طور پر روکنے کی حکمت عملی تیار کی ۔انھوں نے اکٹھے ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منصوبہ بندی شروع کی اور لوگوں سے اس حوالے سے مختلف آرا اور تجاویز طلب کیں..لوگوں میں سے ایک شخص نے رائے دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈال کر مکان میں قید کر دیا جائے..دوسرے نے رائے دی کہ آپ کو ملک عرب سے نکال دیاجائے تاکہ آپ لوگوں کو اپنے دین کی دعوت نہ دے سکیں..ابوجہل جس کا اصل نام عمر بن ہشام تھا اور اس نے جہالت کی زندگی گزاری اور ہدایت نصیب نہ ہونے کے باعث ابوجہل کے لقب سے نوازا گیا، شاطرانہ ذہن کا حامل شخص تھا..اس نے رائے دی کہ عرب میں موجود مختلف قبیلوں میں سے ایک ایک شخص چنا جائے اور سب مل کر پوری طاقت سے آپ پر تلواروں سے حملہ کرکے آپ کو مار دیں ..اس صورت میں آپ کے قتل کا جرم کسی ایک فرد پر عائد نہ ہوگا بلکہ تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور تمام قبائل اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے تو آپ کا خاندان بنو ہاشم تن تنہا تمام قبیلوں کے ساتھ ٹکر نہ لے سکے گا..اس طرح ہمارا مقصد بھی پورا ہوگا اور ہمارا بال بیکا بھی نہ ہوسکے گا..چنانچہ سب نے ابوجہل کی تجویز کو مٶثر جانتے ہوئے آپ کو مارنے کا منصوبہ تیار کر لیا..قرآن مجید میں اس واقعے کو یوں بیان کیا"
گیا ہے"
اور جب کافر لوگ تمھارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کردیں یا جان سے مار ڈالیں یا وطن سے نکال دیں..وہ اہنی چال چل رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے " ..
(سورة الانفال)
 کفار مکہ نے اپنی چال کے تحت آپ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا مگر وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوئے... بقول شاعر

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
..........................



پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...