Popular Posts

Saturday, January 25, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” قدرایاز“ تشریح پیراگراف نمبر7


سبق: قدر ایاز

پیراگراف نمبر7


اقتباس:

ایک لڑکا تھا جو اپنے گاٶں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ستھن تے کڑیاں پاٶندیاں نیں۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  قدر ایاز

مصنف کانام:  کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی


پراٸمری۔۔۔۔۔۔پنجم جماعت تک کی تعلیم

ٹھیٹھ ۔۔۔۔۔۔ خالص

صافہ۔۔۔۔۔ سر کا کپڑا۔

کرتا۔۔۔۔۔۔۔ بغیر کالر اور بغیر کف والی قمیص

تہمد۔۔۔۔۔۔۔۔ دھوتی،تہبند

ہلکی۔۔۔۔۔۔۔ نرم 

کڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکیاں


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” قدر ایاز“ کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ علی بخش سلیم میاں کی شکایت لے کر مصنف کے پاس گیا تو مصنف نے سلیم اور علی بخش کا معاملہ سنااور ان کے تنازعہ کو معمولی قرار دیتے ہوٸے انھیں ایک دیہاتی لڑکے کا قصہ سنایا جو بہت سادہ اور ٹھیٹھ دیہاتی تھا۔


تشریح:

مصنف کرنل محمد خان اردو کے ممتاز مزاح نگار تھے۔انھوں نے فوج کی ملازمت کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحریر میں جس ماحول کی تصویر کشی کرتے ہیں اس کو پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں محسوس کرتا  ہے۔” قدر ایاز“ ان کی ایسی ہی ایک تحریر ہے جس میں انھوں نے دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کیا ہے۔

               تشریح طلب اقتباس میں مصنف  سلیم میاں اور علی بخش کی باہمی ناراضی اور رنجش کو ختم کرنے کےلیے انھیں ایک دیہاتی لڑکے کا قصہ سناتے ہوٸے کہتا ہے کہ ایک دیہاتی لڑکا اپنے گاٶں سے پنجم جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ہشتم  سے دہم تک کی تعلیم حاصل کرنے کےلیے شہر کے سکول میں جاکر داخل ہوا کیونکہ اس زمانے میں گاٶں میں  جماعت دہم تک کی تعلیم کےلیے سکول موجود نہیں ہوتے تھے۔وہ لڑکا اپنے گاٶں میں ایک چھوٹے سے چودھری کا بیٹا تھا اس وجہ سے یہ خود بھی چودھری کہلایا جاتا تھا اور دیہاتی طرز زندگی گزارنے کی وجہ سے اس کے عادات و خصاٸل بھی خالصتاً دیہاتی تھے۔

              وہ لڑکا جب شہر کے سکول میں پہلے دن اپنی جماعت میں داخل ہوا تو دیہاتی رہن سہن کے مطابق اس نے سر پر پگڑی، جسم پر کرتا اور پاٶں میں پوٹھوہاری کھسہ پہنا ہوا تھا اور ہر زاویے سے مکمل دیہاتی الگ رہا تھا۔

               ماسٹر صاحب نے  سکول کے ماحول کے مطابق اسے تہمد کی جگہ آٸندہ شلوار پہن کر آنے کی تاکید کی تو وہ نرم لہجے میں کہنے لگا کہ اے میرے خدا یہ ماسٹر جی کیا کہ رہے ہیں شلوار کیسے پہن کے آٶں۔ ہمارے دیہات میں شلوار تو لڑکیاں پہنتی ہیں۔ ہم مرد تو یہی لباس پہنتے ہیں۔ بقول شاعر


واہ  رے  دیہات  کے  سادہ   تمدن  کی  بہار

سادگی میں بھی ہے کیا کیا تیرا دامن زرنگار

Wednesday, January 8, 2020

جماعت نہم اردو سبق " قدر ایاز" تشریح پیراگراف نمبر2

سبق : قدر ایاز

پیراگراف نمبر2


اقتباس:

یہ بنگلہ کم و بیش دو ایکڑ .........سرخ و سپید گلاب کے پودے تھے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کا نام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

کم و بیش....تھوڑا اور زیادہ، لگ بھگ

قسام ازل......شروع دن سے قسمت بانٹنے والا مراد اللہ تعالیٰ

دوایکڑ.......سولہ کنال، چار بیگے

خاصا......عمدہ ،بہتر

قطعہ......ٹکڑا

شاہانہ..... شان و شوکت والا، پرعظمت

قطعہ زمین......زمین کا ٹکڑا

طول و عرض ......لمبائی چوڑائی

وسیع......کشادہ، کھلا

چمن......باغ

حاشیہ......کنارہ، کونہ

باڑ....... رکاوٹ

نیزوں......بہت اونچے

پیڑ......درخت

لہلہانا........لہرانا، جھومنا

جابجا... ۔۔۔ہرجگہ، قدم قدم پر

سپید......سفید


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدر ایاز" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ مصنف کو بطور کرنل فوج کی طرف سے ایک سی کلاس بنگلہ ملا۔ اس کے بارے میں مصنف کہتا ہے کہ وہ بنگلہ تمام بنگلوں سے نمایاں حیثیت رکھتا تھا اور کافی وسیع تھا جبکہ بنگلے کے مقابلے میں مصنف کے اثاثے کے تیور خاکسارانہ تھے۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے ممتاز مزاح  نگار تھے۔انھوں نے اپنی فوجی دور کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں قاری خود کو  اسی ماحول میں ہی محسوس کرتا ہے۔" قدرایاز" ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں انھوں نے دیہاتیوں  کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کیا ہے۔

         تشریح طلب اقتباس میں مصنف فوج کی طرف سے ملنے والے بنگلے کی خصوصیات اجاگر کرتے ہیں جو انھیں  بطور کرنل خدمات سرانجام دینے پر ملا تھا۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ولسن روڈ پر انھیں ملنے والا بنگلہ لگ بھگ سولہ کنال رقبے پر مشتمل تھا۔دوسرے لفظوں میں یہ بنگلہ بہت وسعت اور شان وشوکت کا حامل تھا۔

       بنگلے کے سامنے وسیع و عریض باغ تھا جس کے گرداگرد منہدی کے سبز پودے اگائے گئے تھے اور ان پودوں کے بالکل آگے سرو اور سفیدے کے اونچے اونچے درخت تھے جو ہمہ وقت ہوا کے جھونکوں سے لہلہاتے نظر آتے تھے۔اس کے علاؤہ اس وسیع باغ کے اندر سرخ اور سفید رنگ کے گلاب کے پھول بھی اگائے گئے تھے جو بنگلے اور باغ کی  خوب صورتی کو جلا بخش رہے تھے۔غرض یہ بنگلہ بہت شان و شوکت والا تھا جو مصنف کے نصیب میں ہی آیا اور یہ اللہ کی عطا تھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

" اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے"۔

Monday, January 6, 2020

جماعت دہم سبق " چغل خور" تشریح پیراگراف ۔



جماعت نہم اردو سبق "قدر ایاز" تشریح پیراگراف نمبر1

سبق: قدر ایاز

پیراگراف نمبر1


اقتباس:

کرنیلوں کو رہائش کے خاصے..............خاص طور پر اپنے لیے بنوایا تھا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: قدر ایاز

مصنف کانام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

کرنیل.....فوجی رجمنٹ کا اعلی افسر

سی کلاس........تیسرے درجے کا

خوش قسمتی...... خوش بختی، خوش نصیبی


بنگلہ........کوٹھی ،محل

انتخاب........چناہوا

امتیاز.......نمایاں حیثیت، خاص مقام حاصل ہونا

بیروں........بیرا کی جمع ،خدمت گزاروں

لاشریک......جس کا کوئی ثانی نہ ہو

رہائش......قیام پذیر ہونا

خاصے عمدہ.........بہترین، بہت اعلی

کلاس  .......درجہ


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" قدرایاز" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔اس میں مصنف محکمہ فوج میں ملازمین کو ملنے والی مراعات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کرنیلوں کو رہائش کےلیے سی کلاس کے عمدہ بنگلے ملتے ہیں تو خوش قسمتی سے مجھے بھی ایسا ہی بنگلہ ملا جسے اللہ تعالیٰ نے شاہانہ طول و عرض بخشا تھا۔


تشریح: 

کرنل محمد خان اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے حوالے سے بہت سے مضامین لکھے۔ان کے طرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں  جس ماحول کی تصویر کشی کرتے ہیں اسے پڑھنے والا خود کو اسی ماحول میں ہی محسوس کرتاہے۔ " قدر ایاز" ان کی ایسی ہی ایک تحریر ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کی سادگی اور رعنائی کو پرخلوص انداز میں بیان کرتے ہیں۔

              تشریح طلب اقتباس میں مصنف محکمہ فوج میں ملازمین کو ملنے والی مراعات کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فوج میں کرنل کا عہدہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اس لیے فوج میں ایک کرنل کو قیام گاہ کے طور پر ایک خوب صورت بنگلہ دیا جاتا ہے جو بہت سی سہولیات سے مزین ہوتا ہے۔مصنف اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے میں بھی فوج میں کرنل کے عہدے پر فائز تھا اس لیے باقی کرنیلوں کی طرح مجھے بھی چھاؤنی میں رہائش کے لیے سی کلاس کا بنگلہ دیا گیا تھا لیکن میری خوش نصیبی یہ ہے کہ مجھے جو بنگلہ دیا گیا تھا وہ باقی کرنیلوں کو فراہم کردہ تمام  بنگلوں سے نمایاں حیثیت اور مقام رکھتا تھا۔

            مصنف اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتا ہے کہ مجھے کرنیلوں میں کوئی خاص امیتاز اور مقام حاصل نہیں تھا کیونکہ مجھ سے کافی زیادہ باصلاحیت اور تجربہ کار کرنیل وہاں موجود تھے اس کے باوجود بھی مجھے جو بنگلہ ملا وہ باقی کرنیلوں کے بنگلوں سے زیادہ شاہانہ تھا۔ 

یہ اللہ تعالیٰ کی دین تھی جسے مصنف فخر کے ساتھ بیان کر رہا تھا۔جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔


" اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے"۔


             مصنف کہتا ہے کہ اس کے بنگلے کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں رہنے والے پرانے خدمت گزار اس کے متعلق بتاتے تھے کہ یہ یادگار اور سب بنگلوں سے زیادہ خوب صورت اور منفرد بنگلہ انگریز دور حکومت میں کسی ولسن نامی انگریز افسر نے خاص طور پر اپنے لیے تعمیر کروایا تھا اسی وجہ سے یہاں سے گزرنے والا روڈ بھی اسی کے نام سے منسوب ہوکر ولسن روڈ کہلایا جاتا ہے۔


جماعت نہم اور دہم کی مزید ایسی تشریحات اور اہم  سوالات کےلیے وزٹ کریں۔

aufsurani.blogspot.com

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...