Popular Posts

Saturday, June 22, 2019

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح آخری پیراگراف نمبر8

سبق "کاہلی" تشریح آخری پیراگراف نمبر8

اقتباس:
 غرض کہ کسی شخص کے دل..............بہتری کی توقع کچھ نہیں  ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کانام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
بےکار: بےفائدہ
فکروکوشش: سوچ بچار اور جدوجہد
انجام کرنا: مکمل کرنا، پورا کرنا
فکر: سوچ،خیال
مستعدی: چستی٬ہوشیاری،
آمادگی
بہتری: اچھائی۔

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کا اختتامی پیراگراف ہے۔ سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنے کا نام ہی کاہلی نہیں بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار  چھوڑنے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان  صفت ہو جاتا ہے جبکہ قوم سے اس وقت تک بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی جب تک کہ وہ کاہلی چھوڑ کر دلی قوی کو استعمال میں نہیں لاتی۔

تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں برصغیر کے مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اوران کی اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی اور ان کی تہذیبی زندگی سنوارنے کےلیے اصلاحی مضامین لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح اور ناصح کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا ایسا اصلاحی مضمون  ہے جس میں وہ برصغیر میں رہنے والوں کو سستی چھوڑنے اور دلی قوی سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف بحیثیت  ایک قوم ہم میں سے ہر فرد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دل اور دماغ کی صلاحیتوں کو بےکار اور بےمقصد نہ چھوڑے کیونکہ ایسا کرنے سے انسان کاہل اور سست ہوکر وحشت پنے کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔اس لیے ہر شخص کےلیے ضروری ہے کہ وہ سستی اور کاہلی کو ترک کرتے ہوئے خود کو کسی نہ کسی کام میں مشغول  رکھے کیونکہ جب ایک انسان خود کو اپنے کاموں میں مصروف رکھتا ہے تو وہ بہت سی فضول اور لایعنی باتوں سے بچ جاتا ہے۔
                 ایک مقولہ ہے کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے اس لیے جب ایک انسان خود کو نکما اور کاہل رکھے گا تو اس کے دل و دماغ کو فضولیات کے علاوہ کچھ نہیں سوجھے گا لیکن اگر وہ خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھے گا تو وہ نہ صرف احسن طریقے سے زندگی گزار سکے گا بلکہ اپنی ضروریات زندگی کو بھی خوش اسلوبی  سے پورا کرسکے گا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کاموں کو خود کرنے کی عادت بنائیں کیونکہ اسی طریقے سے ہی ہم سستی اور کاہلی سے بچ سکتے ہیں اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں۔
          چناں چہ ہم بحیثیت قوم جب تک کاہلی اور سستی کو ترک کرتے ہوئے اپنی دلی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال میں نہیں لاتے اس وقت تک خود میں بہتری پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔اس لیے ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ کاہلی چھوڑ کر ہمت اور جواں مردی سے کام کرے اور محنت کو اپنا شعار  بناتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کرے کیونکہ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تب تک ہم ایک بہتر  قوم نہیں بن سکتے کیونکہ بقول حالی

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر7

سبق" کاہلی "پیراگراف نمبر 7
اقتباس
مگر ہم اپنے ہم وطنوں۔..................  قصور کیونکر رفع ہو۔

حوالہ متن
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسیدا حمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

 خط کشیدہ الفاظ کے معانی

ہم وطن: ایک ہی ملک کے رہنے والے
قصور: جرم ، خطا
قوائے دلی: دل کی قوتیں
قوت عقلی: عقل کی طاقت، سوچ بچار کی طاقت
فکر: سوچ، خیال
رفع ہونا: دور ہونا ،ختم ہونا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق "کاہلی "کے اختتامی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے اور اٹھنے بیٹھنے میں سستی کرنا ہی کالی نہیں ہے  بلکہ اصل کاہلی دلی قویٰ کو بے کار چھوڑنے کا نام ہے۔
دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے اور وہ وحشیت پنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں ۔ اگر ہندوستان والوں کو دلی قویٰ کو استعمال میں لانے کے مواقع میسر نہیں آئے تو اس کی وجہ کاہلی ہی ہے جب تک ہم کا ہلی چھوڑ کر دلی قویٰ سے کام نہیں لیتے تب تک ہم ایک بہتر قوم نہیں بن سکتے ۔
تشریح :
سرسید احمد خان اردو ادب ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کے لیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس وجہ سے انھیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا تحریر کردہ ایسا ہی  اصلاحی مضمون ہے  جس میں وہ برصغیر کے مسلمانوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے ملک کے لوگوں سے مخاطب ہوکر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں کوئی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بسنے والوں کو ایسے مواقع میسر نہیں آئے جن سے وہ اپنی دلی قوتوں، سوچ بچار اور فہم و فراست کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فائدہ اٹھاتے اور خود کو ایک کامیاب اور ناقابل تسخیر قوم بناتے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مواقع نہ ملنے کی وجہ ڈھونڈنی چاہیے اور جب ہم اس کی وجہ تلاش کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس کی اصل وجہ ہماری اپنی سستی اور کاہلی ہے کیونکہ بجائے اپنے لیے مواقع پیدا کرنے کے ہم نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا کیااور اپنے جذبوں،دلی صلاحیتوں اور عقلی قوتوں کو بےکار اور مردہ چھوڑ دیا۔
  مصنف اپنے ہم وطنوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں دلی صلاحیتوں اور اورعقلی قوتوں کو اپنے کام میں لانے کے مواقع میسر نہیں آئے تو بجائے ہمت ہارنے اور اپنی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑنے کے ہمیں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مواقع ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اگر ان کو کھونے میں ہماری کوئی غلطی یا کوتاہی ہے تو وہ کیسے دور کی جاسکتی ہے۔انسان اپنی غلطیوں اور خامیوں سے ہی سیکھتا ہے اور انھیں دور کرنے کےلیے مختلف تجربات سے بھی گزرتا ہے اور پھر ان تجربات کی روشنی میں آگے بڑھتا ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے:
" عقل مندی یہ ہے کہ انسان اپنے تجربات کو  محفوظ رکھے اور اس کے مطابق کام کرے"۔
چناں چہ ہم اگر اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے اور اپنی کوتاہیوں کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور اپنی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کبھی بھی ایک کامیاب قوم نہیں بن سکتے کیونکہ
بقول  حالیؒ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
...........................................
یا

چناں چہ ہم اگر اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں اور اپنی کوتاہیوں کو رفع کرنے کی سعی مسلسل کریں اور اپنی صلاحیتوں کو بے کار چھوڑنے کی بجائے ان سے کام لے کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو ہم ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں۔
بقول اقبالؒ

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئ دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
.........................................
یا

چنانچہ اگر ہم میں سے کوئی شخص  اپنی غلطیوں سے سےسیکھنے کی کوشش کرے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی ہمت کرے اور اپنی دلی قوتوں کو بےکار نہ چھوڑے بلکہ ہمت سے کام لے تو وہ خود کو کامیاب شخص بنا سکتا ہے۔
بقول شاعر
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے

زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا۔

Friday, June 21, 2019

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر 6

سبق" کاہلی"  تشریح
پیراگراف نمبر6

اقتباس:
ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان................ پہنچ جاویں گے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسید
احمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 قبول کرنا: مان لینا، تسلیم کرنا
سوائے دلی:دلی قوتیں
قوت عقلی: سوچنے سمجھنے کی طاقت
برخلاف:برعکس
ولایتوں: غیرملک
شوق: ذوق، جذبہ
وحشت پنا: بدتہذیبی، جنگلی پن

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق" کاہلی کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے٬اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنے کا نام ہی کاہلی نہیں بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے۔ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں۔اگر ہندوستان والوں کو دلی قوی کو استعمال میں لانے کے مواقع کم میسر آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی کاہلی ہی ہے۔جب تک کاہلی چھوڑ کر دلی قوی سے کام نہیں لیا جاتا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کےلیے انھوں  نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔ سبق "کاہلی" بھی ان کا ایسا اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر کے لوگوں کو عام فہم اور سادہ انداز میں کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
        تشریح طلب اقتباس
میں مصنف اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان میں بسنے والوں کو ایسے کام کاج میسر نہیں جنھیں وہ اپنی دلی صلاحیتوں،عقل و شعور اور فہم و فراست کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر سرانجام دے سکیں اور خود کو باوقار اور ترقی یافتہ قوم بنانے کی کوشش کرسکیں کیونکہ ہندوستانی طویل عرصہ انگریزوں کے محکوم رہے جس کی وجہ سے انھیں ایسے مواقع سے محروم رکھا گیا جنھیں کام میں لاکر وہ اپنے آپ کو کامیاب بنا سکتے۔
          اس کے برعکس انگلستان نے اپنے لوگوں کےلیے ایسے مواقع پیدا کیے حتی کہ ہندوستان میں بھی انھوں نے مقامی لوگوں کی بجائے اپنی انگریز قوم کےلیے سہولیات پیدا کیں اور ہندوستان کو سونے کی چڑیا گردانتے ہوئے انھوں نے یہاں کے وسائل سے بھرپور فایدہ اٹھایا اور یہاں کے بسنے والوں کو ان وسائل سے مکمل محروم رکھنے کی کوشش کی۔
         چناں چہ ہندوستانیوں کی بنسبت انگریزوں کو ایسے بےشمار مواقع میسر آئے جنھیں انھوں نے دلی صلاحیتوں اور عقلی قوتوں کے ذریعے استعمال میں لا کر خوب ترقی کی اور آج بھی وہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں لیکن اگر انھیں بھی محنت اور جدوجہد کا شوق نہ ہوتا اور وہ اپنی دلی صلاحیتوں سے کام لینے کی بجائے انھیں بےکار چھوڑ دیتے جیسے آج کل وہ بھی اس جانب راغب ہیں تو وہ بھی جلد درندگی کی صفت پاکر وحشی ہو جائیں گے اور ان کی صلاحیتیں بھی آہستہ آہستہ معدوم ہو جائیں گیں اور ان کی حرکتیں معاشرے میں انتہائی سطح تک گری ہوئی ہوجائیں گیں جو کسی حد تک گرتی ہوئی دیکھی بھی جاسکتی ہیں۔
بقول حالی
 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو میسر نہیں انساں ہونا

جماعت نہم سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر5

سبق " کاہلی " تشریح
پیراگراف نمبر5

اقتباس:
ایک ایسے شخص کی حالت................ایک وضع دار وحشی ہوتا ہے۔

حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کانام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
اخراجات: خرچے
مناسب:بہتر
چنداں: اس قدر،کچھ
ملکیوں: ملکیت رکھنے والے،جاگیردار
لاخراج دار: محصول نہ دینے والے
بےکار: بےفائدہ
وحشیانہ: غیر مہذب،بدسلیقہ
مائل ہونا: راغب ہونا
مزے دار: لذیذ
قمار بازی: جوا کھیلنا
تماش بینی: کھیل تماشے دیکھنا
پہواڑ/پھوہڑ: بدسلیقہ

سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے اور اس سے بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔

تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کےلیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح کہا جاتا ہے۔ سبق " کاہلی"  بھی ان کا ایسا اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر میں بسنے والے لوگوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
          تشریح طلب  اقتباس میں مصنف ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شخص کی حالت کو اپنے تصور میں لائیں جس کی آمدنی زیادہ مگر خرچے بہت کم ہوں اور اسے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کےلیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑتی ہو بلکہ اسے ہر چیز اس کی بہتر آمدنی کی وجہ سے وافر اور فراوانی سے میسر ہو تو ایسا شخص تساہل پسند ہوگا اور اپنی دلی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑ کر عیش و عشرت کی طرف مائل ہو جائے گا اور اس کی حالت ہمارے ہندوستان میں رہنے والے سرمایہ داروں٬ جاگیر داروں اور ان مال داروں جیسی ہو جائے گی جو دولت کے نشے میں مست رہتے تھےاور قانونی طور پر محصول دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور وہ اپنی صلاحیتوں کوبےکار چھوڑ کر اخلاقی زوال کا شکار ہوگئے اور غلامانہ زندگی گزارنے پر بھی مجبور ہوگئے۔
           امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے
" زیادہ دولت اور زیادہ غربت انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے". اسی طرح بےکار اور خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مال دار اور آسودہ حال لوگ دولت کے نشے میں آکر برائی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور اپنی دلی اور دماغی صلاحیتوں کو مردہ اور بےلگام چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے شوق انتہائی گھٹیا اور کم تر ہو جاتے ہیں اور وہ وحشی اور بدسلیقہ ہو جاتے ہیں۔جوا کھیلنا اور کھیل تماشوں میں زندگی گزارنا ان کی زندگی کا اصل مقصد بن جاتا ہے۔
         معاشرے میں رہنے والے ان جیسے دیگر بھائی بند جو ان جیسی صفات کے حامل ہوتے ہیں اور ان سے کم حیثیت ہونے کی وجہ سے انتہائی بدسلیقہ اور غیر مہذب تصور کیے جاتے ہیں جبکہ یہ دولت مند بھی انھیں کی طرح ہی بدسلیقہ،اجڈ،
غیر مہذب اور وحشی ہوتے ہیں مگر ان کی دولت ان کے عیبوں کو چھپائے ہوتی ہے اور وہ ظاہری رکھ رکھاؤ والے قدرے مہذب وحشی بن چکے ہوتے ہیں جسے شاعر کچھ یوں بیان کرتا ہے۔

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر4

سبق "کاہلی" تشریح
پیراگراف نمبر4

اقتباس:
انسان بھی مثل اور حیوانوں کے ایک حیوان ہے.....ان کو بےکار نہ چھوڑے.

 حوالہ متن
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسید احمد خان
ماخذ: مقالات سرسید حصہ پنجم
صنف: مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
مثل ۔۔۔۔۔۔ مانند، کی طرح۔
حیوان ۔۔۔۔۔۔ جانور، بدتہذیب۔
دلی قویٰ ۔۔۔۔۔۔ دل کی طاقت، جسمانی صلاحیت۔
تحریک ۔۔۔۔۔۔  جوش، جذبہ ، اشتعال۔
سست ہونا ۔۔۔۔۔۔ ڈھیلا پڑ جانا، کم ہوجانا۔
خصلت ۔۔۔۔۔۔ عادت، طور طریقہ
حیوانی خصلت ۔۔۔۔۔۔۔ جانوروں جیسی عادت۔
جسمانی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے من کے مطابق، من چاہی۔
مشغول ہونا ۔۔۔۔۔۔ مصروف ہونا۔
 صفت ۔۔۔۔۔۔ خوبی، اچھائی۔
لازم ۔۔۔۔۔۔ ضروری۔
اندرونی قویٰ ۔۔۔۔۔۔۔ جسمانی جذبہ,  اندر کی طاقت۔
بےکار ۔۔۔۔۔۔۔ بےفائدہ، نکما۔

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کے درمیان سے لیا گیا ہے..اس سبق میں سرسید احمد خان کاہلی کے متعلق کہتے ہیں کہ اصل کاہلی ہاتھ پاؤں سے کام نہ کرنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنے کا نام نہیں بلکہ دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کا نام ہے.لوگ پڑھتے ہیں اور پڑھنے میں ترقی بھی کرتے ہیں مگر وہ اپنی تعلیم اور اپنی عقل کو ضرورتا کام میں نہیں لاتے اور دلی قوی کو بےکار چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انسانی صفت کھو کر حیوان صفت ہو جاتے ہیں..یہی حال ملکیوں اور لاخراج داروں کا ہے جو اپنے قوائے قلبی کو بےکار چھوڑ کر قمار بازی اور تماش بینی جیسے کاموں میں پڑ کر پھوہڑ اور بد سلیقہ ہو جاتے ہیں اس لیے قوم جب تک کاہلی نہ چھوڑے گی اس سے تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی..

تشریح:.
سرسید احمد خان کی علمی اور ادبی خدمات سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا..انھوں نے ہمیشہ اصلاحی اور مسلمانوں کی حقیقی تعلیم و تربیت کے حوالے سے مضامین لکھے اس لیے انھیں قوم کا مصلح کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا.
"کاہلی " بھی ان کا تحریر کردہ ایسا ہی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر کے مسلمانوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
           تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ بلاشک و شبہ انسان بھی دوسرے حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے اور اسے معاشرتی جانور بھی کہا جاتا ہے.دوسرے حیوانوں اور انسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ انسان عقل و شعور , فہم و فراست , علم کی دولت  اور قوت گویائی سے نوازا گیا ہے جس سے دوسرے حیوان محروم ہیں لیکن جب انسان اپنی دلی قوتوں کو استعمال میں نہیں لاتا  اور انھیں بےکار چھوڑ دیتا ہے تو اس کی تحریک سست ہو جاتی ہے اور اپنی داخلی خوبیوں اور قابلیت کو بےکار چھوڑ دیتا ہے تو اس کا علم اور شعور اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا اور وہ حیوانی خصلت میں پڑ جاتا ہے اور اس کی خصوصیات جانوروں جیسی ہو جاتی ہیں..وہ جسمانی باتوں اور ضرورتوں میں مصروف ہو کر وہ کام کرتا ہے جس کا زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہوتا..وہ محض کھاتا پیتا اور آرام کرتا ہے اور جانوروں کی طرح دوسروں کا محتاج رہتا ہے..چنانچہ انسان کےلیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی اندرونی قوتوں اور صلاحیتوں کو زندہ رکھنے کےلیے بھرپور کوشش کرے اور دلی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑ کر اسے زنگ آلود نہ کرے کیونکہ بقول مولانا الطاف حسین حالی

وہ لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ
جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ

اسی میں ہے عزت خبردار رہنا
بڑا دکھ ہے دنیا میں بےکار رہنا..
...................................
دونوں میں سے کوئی ایک شعر لکھ سکتے ہیں جو آسان لگے...

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر3

سبق "کاہلی" تشریح
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
یہ سچ ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں............... وحشی ہو جاتا ہے

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
ضرورتاً: ضرورت کے طور پر
عارضی : وقتی ناپائدار
وحشی : بدتہذیب،غیر مہذب
منتظر : انتظار کرنے والا
دلی قوی : دل کی قوت

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس ب
سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کانام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہےاور وہ وحشت پنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں۔اگر ہندوستان والوں کو دلی قوی کو استعمال میں لانے کے مواقع کم میسر آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی کاہلی ہی ہے۔جب تک کاہلی چھوڑ کر دلی قوی سے کام نہیں لیا جاتا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

 تشریح:
سر سید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔ انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کےلیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا ایسا ہی اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر کے لوگوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنی پڑھائی کے دوران مختلف درجے طے کرکے اعلی تعلیم یافتہ بن جاتے ہیں۔اگر یہ لوگ اپنی اس تعلیم اور اپنے شعور کو اپنی ضرورت کے وقت کام میں لائیں تو وہ ایک کامیاب اور پروقار زندگی گزار سکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ان ہزاروں تعلیم یافتہ اور صاحب علم لوگوں میں سے شاید ہی کسی شخص کو یہ موقع میسر آتا ہوگا کہ وہ اپنی تعلیم اور عقل وشعور کو ضرورت کے تحت کام میں لائے ورنہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کو تعلیم اور عقل شعور کو استعمال میں لانے کا موقع ہی میسر نہیں آتا۔
       داناؤں کا قول ہے " ہر علم عمل کے بغیر بےکار ہے"۔اس لیے جو شخص علم رکھتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا یا اسے عمل کرنے کا موقع میسر نہیں آتا تو وہ اس بیمار کی طرح ہے جس کے پاس دوا تو ہے مگر علاج نہیں کرتا۔اگر انسان کا علم اور اس کا شعور اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ علم کو علم کی ضرورت کے طور پر حاصل نہیں کرتا بلکہ اسے اپنی وقتی ضروریات  کو پورا کرنے کے ذریعے کے طور حاصل کرتا ہے اور جب ایک انسان کے پیش نظر اس کی وقتی اور عارضی ضروریات ہوں تو وہ اپنی دلی قوتوں اور عقلی صلاحیتوں سے مکمل فایدہ نہیں اٹھاتا بلکہ انھیں بےکار چھوڑ کر انتہائی سست اور نکما ہو جاتا ہے اور یہ سستی اور نکماپن اس کے اندر عیاش پرستی اور وحشت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ یہ عالم گیر سچائی ہے کہ ایک انسان اگر اپنی خوبیوں اور علم و عمل کی صلاحیتوں سے کام نہیں لیتا تو وہ حیوانیت کی طرف  مائل ہوکر وحشی صفت ہو جاتا ہے
کیونکہ بقول اقبال۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں  نوری ہے نہ ناری۔

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر2

: سبق " کاہلی" تشریح
پیراگراف نمبر2

اقتباس:
ہاتھ پاؤں کی محنت................ بالکل حیوان صفت ہو جاتے ہیں۔
 حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 ہاتھ پاؤں کی محنت: جسمانی کام کاج
اوقات بسر کرنا: زندگی گزارنا
پیٹ بھرنا: کھانے پینے کی ضرورت پوری کرنا
بہ مجبوری: مجبوری کے طور پر
کاہلی: سستی
بسراوقات : وقت گزارنا
کاہل: سست، نکما
طبیعت ثانی: پختہ عادت
حاجت: ضرورت
دلی قوی: دل کی قوت
صفت: خوبی،اچھائی

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا  ہے۔اس سبق میں مصنف سرسیداحمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کانام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو کر وحشت پنے کا شکار ہو جاتاہے۔ ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں۔اگر ہندوستان والوں کو دلی قوی کو استعمال میں لانے کے مواقع کم میسر آئے تو اس کی وجہ کاہلی ہی ہے۔جب تک کاہلی چھوڑ کر دلی قوی سے کام نہیں لیا جاتا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
: تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کےلیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔سبق " کاہلی" بھی ان کا ایسا ہی اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر کے لوگوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ انسان کےلیے زندگی گزارنے اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کےلیے جسمانی طور پر کام کاج کرنا پڑتے ہیں اور اس مقصد کےلیے ہاتھ پاؤں کو کام میں لانا اور جسمانی مشقت کرنا نہایت ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے اسے بےشمار فوائد میسر آتے ہیں۔اس سے اس کی گزراوقات اچھی ہوتی ہے اور ساتھ میں وہ لایعنی اور فضول باتوں  سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ویسے بھی یہ دنیا کا دستور ہے کہ یہاں بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے آسانی سے ضروریات زندگی پورا نہیں ہوتیں بلکہ اس کےلیے  کچھ نہ کچھ محنت ضرور کرنا پڑتی ہے اور سستی اور کاہلی ترک کرنا پڑتی ہے کیونکہ اسی طریقے سے ہی انسان نہ صرف اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے میں  کامیاب ہوتا ہے بلکہ معاشرے  میں باعزت مقام  بھی پاتا ہے جبکہ ایک مقولہ ہے
"  نکما انسان تو خدا کو بھی پسند نہیں ہوتا"
بقول حالی
مشقت کی ذلت جنھوں نے اٹھائی
جہاں میں ملی ان کو آخر بڑائی
              مصنف کہتے ہیں کہ روزمرہ زندگی میں عموما یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو لوگ محنت مزدوری کرکے اپنی زندگی کے اوقات بسر کرتے ہیں وہ بہت کم سات اور کاہل ہوتے ہیں بلکہ انھیں محنت کے بغیر سکون ہی نہیں ملتا اور وہ سخت محنت کو اپنا شعار بنا کر خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو اس طرح مصروف رکھنا ان کی پختہ عادت بن چکی ہوتی ہے اور وہ جانتے ہوتے ہیں کہ اس کے بغیر انھیں دنیا میں عزت اور کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ ایک قول ہے

" کامیابی کا تالا محنت سے کھلتا ہے"
اس لیے وہ لوگ محنت مشقت سے کام لے کر اپنی ضروریات زندگی بھی کو بھی پورا کرتے ہیں اور ساتھ میں کاہلی اور سستی کا بھی شکار نہیں ہوتے۔
              اس کے برعکس جو لوگ محنت مشقت نہیں کرتے اور انھیں اپنی روزی روٹی کی فکر بھی نہیں کرنی پڑتی تو وہ اپنی دلی صلاحیتوں کا درست استعمال نہیں کرتے تو وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر حیوانوں جیسی صفات کے حامل ہو جاتے ہیں کہ جس طرح دوسرے حیوان اپنی ضروریات زندگی کےلیے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں اسی طرح  یہ  بھی انھیں جانوروں کی صفات پاکر دوسروں کے محتاج بن کر رہ جاتے ہیں۔
بقول حالی
 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی  کو  میسر  نہیں  انساں  ہونا۔

Friday, June 14, 2019

جماعت نہم سبق "کاہلی" پیراگراف نمبر1. تشریح

سبق " کاہلی" تشریح
پیراگراف نمبر1

اقتباس:
یہ ایک ایسا لفظ ہے..............سب سے بڑی کاہلی ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسیداحمد: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 معنی: مطلب
سستی : کاہلی
دلی قوی: دل کی قوت
بےکار: بےفائدہ

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔اس سبق میں مصنف سرسیداحمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے اور اٹھنے بیٹھنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑ دینے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ دینے سے انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے اور وہ وحشت پنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں۔ اگر ہندوستان والوں کو اپنے دلی قوی کو استعمال میں لانے کے مواقع کم میسر آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی کاہلی اور سستی ہی ہے۔جب تک کاہلی چھوڑ کر دلی قوی سے کام نہیں لیا جاتا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

تشریح:
سرسیداحمد خان اردو  ادب کے  نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی علم و عمل کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کےلیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا ایسا ہی اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ مسلمانوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ لوگ لفظ کاہلی کا مطلب سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔وہ صرف جسمانی محنت مشقت نہ کرنے، روزمرہ کے کاموں میں دلچسپی نہ دکھانے، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنے کو کاہلی سمجھتے ہیں۔اگرچہ یہ بھی ایک طرح کی کاہلی ہی ہے مگر اصل کاہلی دلی صلاحیتوں کے مطابق کام نہ کرنے اور دلی قوتوں کو بےکار چھوڑنے کا نام ہے۔
    انسان کی زندگی ظاہر اور باطن پر مشتمل ہے اور اسے ضروریات زندگی کےلیے دنیا میں ظاہری طور پر جسمانی محنت اور مشقت کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے  لہذا وہ اس مقصد کےلیے محنت مشقت کرتا ہے لیکن اگر وہ اس حوالے سے دلی صلاحیتوں کے مطابق کام نہ کرے اور  انھیں پس پشت ڈال کر آرام طلب بن جائے اور اپنی باطنی صلاحیتوں سے کام نہ لے تو وہ کسی طور پر بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔جیساکہ ایک فلسفی کا قول ہے

"اصل محنت وہ ہے جس میں جسمانی قوی روحانی طاقتوں کے ماتحت کام کرتی ہیں".
      چناں چہ اگر ہم اپنی دلی طاقتوں اور اپنی باطنی صلاحیتوں کو بےکار   چھوڑ دیں تو عملی زندگی میں ہم کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے اور یہی ہماری سب سے بڑی کاہلی اور سب سے بڑی کوتاہی ہے ہے جسے ہم درست طور پر سمجھتے نہیں اور سرسیداحمد احمد خان ہمیں اس کا احساس دلا رہے ہیں اور علامہ اقبال اسے یوں بیان کرتے ہیں۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں  نوری ہے نہ ناری

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...