Popular Posts

Saturday, June 22, 2019

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح آخری پیراگراف نمبر8

سبق "کاہلی" تشریح آخری پیراگراف نمبر8

اقتباس:
 غرض کہ کسی شخص کے دل..............بہتری کی توقع کچھ نہیں  ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کانام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
بےکار: بےفائدہ
فکروکوشش: سوچ بچار اور جدوجہد
انجام کرنا: مکمل کرنا، پورا کرنا
فکر: سوچ،خیال
مستعدی: چستی٬ہوشیاری،
آمادگی
بہتری: اچھائی۔

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کا اختتامی پیراگراف ہے۔ سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنے کا نام ہی کاہلی نہیں بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار  چھوڑنے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان  صفت ہو جاتا ہے جبکہ قوم سے اس وقت تک بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی جب تک کہ وہ کاہلی چھوڑ کر دلی قوی کو استعمال میں نہیں لاتی۔

تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں برصغیر کے مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اوران کی اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی اور ان کی تہذیبی زندگی سنوارنے کےلیے اصلاحی مضامین لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح اور ناصح کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا ایسا اصلاحی مضمون  ہے جس میں وہ برصغیر میں رہنے والوں کو سستی چھوڑنے اور دلی قوی سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف بحیثیت  ایک قوم ہم میں سے ہر فرد کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے دل اور دماغ کی صلاحیتوں کو بےکار اور بےمقصد نہ چھوڑے کیونکہ ایسا کرنے سے انسان کاہل اور سست ہوکر وحشت پنے کی طرف گامزن ہو جاتا ہے۔اس لیے ہر شخص کےلیے ضروری ہے کہ وہ سستی اور کاہلی کو ترک کرتے ہوئے خود کو کسی نہ کسی کام میں مشغول  رکھے کیونکہ جب ایک انسان خود کو اپنے کاموں میں مصروف رکھتا ہے تو وہ بہت سی فضول اور لایعنی باتوں سے بچ جاتا ہے۔
                 ایک مقولہ ہے کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے اس لیے جب ایک انسان خود کو نکما اور کاہل رکھے گا تو اس کے دل و دماغ کو فضولیات کے علاوہ کچھ نہیں سوجھے گا لیکن اگر وہ خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھے گا تو وہ نہ صرف احسن طریقے سے زندگی گزار سکے گا بلکہ اپنی ضروریات زندگی کو بھی خوش اسلوبی  سے پورا کرسکے گا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کاموں کو خود کرنے کی عادت بنائیں کیونکہ اسی طریقے سے ہی ہم سستی اور کاہلی سے بچ سکتے ہیں اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں۔
          چناں چہ ہم بحیثیت قوم جب تک کاہلی اور سستی کو ترک کرتے ہوئے اپنی دلی قوتوں اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال میں نہیں لاتے اس وقت تک خود میں بہتری پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔اس لیے ہم میں سے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ کاہلی چھوڑ کر ہمت اور جواں مردی سے کام کرے اور محنت کو اپنا شعار  بناتے ہوئے مشکلات کا مقابلہ کرے کیونکہ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تب تک ہم ایک بہتر  قوم نہیں بن سکتے کیونکہ بقول حالی

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...