Popular Posts

Saturday, April 18, 2020

آزادی ایک انمول نعمت ہے۔


                     آزادی ایک انمول نعمت ہے ۔

ہوا اور پانی قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ان کےبغیر گویا زندگی کا وجود ہی ناممکن ہے۔ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لینے والا شخص ہی ہوا اور پانی کی قدروقیمت کا زیادہ قریب سے قدردان ہوتا ہے۔وہ گہری سانسیں اور ہچکیاں لیتے وقت ہوا ہی کو اپنے اندر داخل اور باہر خارج کر رہا ہوتا ہے۔اس دوران اگر اس کے منھ پر ہاتھ رکھ کر یہ ہوا اس کے جسم میں داخل نہ ہونے دی جاٸے تو وہ گنتی کی چند سانسیں بھی پوری نہ کرسکے گا اور موقع پر دم توڑ دےگا۔اسی طرح پانی کی قدروقیمت کا اس شخص سےبڑھ کر کس کو پتا ہوگا جو تشنہ لب ہو مگر پانی کا ایک گھونٹ اسے میسر نہ ہو جس سے وہ اپنا حلق گیلا کرسکے اور اس گھونٹ کےلیے وہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی تک قربان کرنے کو تیار ہوگا۔

               آزادی بھی دنیا کی انھیں انمول نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔اس کی قدروقیمت کو اگر جاننا ہے تو اس پرندے  کودیکھ کر جاننےکی کوشش کرو جو کبھی آزاد فضاٶں میں اڑتا اور خوشیوں کے گیت گاتا تھا مگرجب کسی شکاری کے جال میں پھنسا تو اپنی آزادی کھو بیٹھا اور غلامی کے قفس سے اپنی چونچ رگڑ رگڑ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا یا پھر آزادی کی قدرومنزلت اس بادشاہ سے پوچھو جو آزادی کے دنوں میں خوب صورت علاقوں اور دلکش وادیوں کا حکمران تھا لیکن جب کسی کا غلام بنا تو قبر کےلیے دوگز زمین بھی میسر نہ تھی اور بےبسی اور عبرت کا ایسا نمونہ بنا کہ خود ہی کہنے پر مجبور ہوا:


کتنا  ہے  بدنصیب  ظفر ، دفن  کےلیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوٸےیار میں

ایسی بےیارومددگار زندگی کو اور آزادی کی قدر کوکچھ یوں بھی بیان کیاگیا ہے:


فانی  ہم  تو  جیتے  جی  وہ  میت   ہیں   بےگوروکفن

غربت جس کو راس نہ آٸی اور وطن بھی چھوٹ گیا

آزادی کی اہمیت اور قدر پوچھنی ہےتو اس سے پوچھو جوکھانے کا ایک لقمہ تک اپنی مرضی سے نہ لے سکتاہو۔ مگر ہمارے جیسی وہ نوجوان نسل آزادی کی قدرومنزلت کو کیسے جانے گی جس نے آنکھ ہی ایک آزاد اور خود مختار معاشرے میں کھولی ہے۔وہ اس آزادی کےلیے دی گٸی قربانیوں کا تصور ہی کرسکتی ہے ورنہ ہمارےآبا و اجداد نے جس قدر اذیتیں اور مشکلات جھیل کر ہمارےلیے ایک آزاد وطن حاصل کیا اس تک ہمارا گمان بھی نہیں پہنچ سکتا۔اگر آج ہم نے ان سب قربانیوں کی صحیح معنوں میں قدر کی ہوتی تو آج ہمارا ملک یوں زبوں حالی کا شکار نہ ہوتا جیسے آج ہے۔

             آزادی کی اہمیت جاننے کےلیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان بننے سے پہلے انگریزوں اور ہندوٶں کے شکنجوں میں جکڑے ہوٸے مسلمانوں کی داستان کو پڑھیں جنھوں نے آزادی کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا دیا اور بہت بھاری قیمت چکا کر اس ملک کو آزاد کرایا۔ کسی نے کیا خوب ہی کہا ہے:


لہو  میں  ڈوب  کر  پہنچے  جو  کنارے  تک

وہ جانتے ہیں کہ یہ راہ کس قدر تھی کٹھن

سلام  تم   پہ  اے   شہیدان  عرصہ  تقسیم 

کہ  جان  دے  کے  بچاٸی  ہے  آبروٸے وطن


مجھے اپنی آزادی کی تاریخ بتاتی ہے کہ آزادی کےلیے ایک قیمت ہمیں یہ بھی چکانی پڑی کہ 

دل تھام کے سنو نوجوانو کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوٶں کے ظلم و ستم سے بچ جانے والی ایک ماں اپنے شیرخوار بچے کے ہمراہ پاکستان کی آزاد پاک سرزمین پر قدم رکھنے کےلیے بےچین تھی اور ایک طویل سفر کاٹ کر آزادی کی راہ پر گامزن تھی لیکن  اندھیری رات کی درندگی اسے بھٹکا کر ایک گاٶں کے قریب لا پھینکتی ہے اور وہ خونخوار ہندو درندوں کے غول میں بری طرح محصور ہو جاتی ہے۔درندوں کا ہجوم اسے پکڑ کر میدان میں لے آتا ہے۔ڈھول پیٹے جاتے ہیں اور سارا گاٶں تماشے کےلیے جمع ہوجاتا ہے۔وہ ان سب کے وسط میں اپنے معصوم بچے کو اپنے ساتھ سمٹاٸے بت بنی کھڑی ہے۔اس کی روح فنا ہوچکی ہے مگر ممتا کا پیار جاگ رہا ہے۔زبان گنگ ہے لیکن اس کی ملتجی آنکھیں فضاٶں میں قیامت خیز ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ آزاد ملک میں دونمبری کرنا اور رشوت لے کر  ملک کےلیے قربانیوں کو آج یکسر بھلا دینا آسان ہے مگر قربانیوں کے ان مناظر کو آج تصور کے ساتھ ہی اپنے ساتھ جوڑنا  درد ناک اذیت دیتا ہے۔زمین و آسمان نے آزادی کے حصول کی خاطر سراپا مظلومیت کی ایسی تصویر بہت ہی کم دیکھی ہوگی جو اس ماں اور اس کے معصوم بچے کی بنی ہوٸی تھی۔جب شورو شعب بڑھتا ہے تو ایک درندہ صفت ہندو شخص اس بے یارومددگار ماں پر جھپٹتا ہے اور اس کے لخت جگر کو چھین کر آزادی کے حصول کی سخت سزا دینا چاہتا ہے۔ہجوم فرط مسرت سے دیوانہ ہوتا ہے، ڈھول روز روز سے بجنے لگتے ہیں اور بےبس مامتا پتھراٸی ہوٸی آنکھوں سے اپنے لخت جگر کی آزادی اور اس کی زندگی کی بھیک مانگتی ہے لیکن وہ درندہ غراتے ہوٸے بچے کو ماں کی آغوش سے کچھ فاصلے پر لے کر اس کی شہ رگ کو کاٹ دیتا ہے۔یوں ایک ماں کو آزادی کی اہک بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے

             آزادی کی حقیقی اہمیت اور قدروقیمت وہی لوگ جانتے ہیں جنھوں نے خون کا آخری قطرہ تک قیمت میں دے کر اس کو حاصل کیاہے۔اس آزادی کے حصول کے جرم میں پندرہ لاکھ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح ہندوٶں نے کاٹا۔ایک لاکھ سے زاٸد مسلمان عورتوں اور دوشیزاٶں کو اپنی عزت و آبرو کی قربانی دینا پڑی لیکن آج ہمیں اس بات کا معمولی سا بھی احساس نہیں کہ جن درندوں سے آزادی کے حصول کےلیے ہم نے بہت کچھ گنوایا آج انھیں کم ظرفوں کے آگے جھکتے چلے جا رہے ہیں اور ان کی غلامی کا طوق اپنے ہاتھوں سےاپنے  گلے میں ڈال کر ان معصوم اور بےگناہوں کی لاشوں کا سودا کرنے جا رہے ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کو تو کٹا دیا لیکن غلامی کی زنجیریں پہننے سے انکار کردیا۔

               آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کے حصول کےلیے سرگرم لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور ہم ان ظالموں اور درندہ صفت وحشیوں سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ایسی قوم آزادی کی قدروقیمت کیا جانے گی جو اپنی ماٶں،بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کے لٹیروں کے ساتھ مضبوط تعلقات قاٸم کرکے  مساٸل کے حل تلاش کرنا چاہ رہی ہے اور اپنی  بقا شروع دن سے گجرال، واچپاٸی،من موہن سنگھ اور اب نریندر مودی کو خوش کرنے میں سمجھ رہی ہے کہ ان سے اچھے تعلقات سے ہی ہم کامیاب ہوں گے اور انھوں نے ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری سمجھ کر پورے کشمیر کو جیل بنا دیا اور ہم بےبسی کے ساتھ اپنے مسلمان بہن بھاٸیوں کا تماشا دیکھتے رہے۔ کاش کہ ہم آزادی کی قدروقیمت کو جان سکتے اور اس بات کو سمجھتے کہ واچپاٸیوں، سنگھوں،سکھوں ،گجرالیوں ،مودیوں اور لارڈ بیٹنوں نے آزادی ہمیں تھالیوں اور طشتریوں میں رکھ کر پیش نہیں کی تھی بلکہ اس کے حصول کےلیے مسلمانوں نے اپنی جان اور اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا تھا تب جاکر آزادی ہمارے ماتھے کا جھومر بنی تھی۔

                 کیا ہے آزادی ، کوٸی سمجھتا ہی نہیں،جانتا ہی نہیں،سوچتا ہی نہیں کہ شاید اس واسطے کہ یہ ہمیں مل گٸی ،اپنے آباواجداد سے اور مل گیا ہمیں ایسا چمن جو لگایا کسی نے تھااور اس کا ثمر ہم بڑے شوق سے اور قربانیوں سےبےنیاز ہوکر کھارہے ہیں مگر یہ سمجھتے ہیں اور نہ سوچتے ہیں کہ اس چمن کے گل و رنگ و بو کےلیے کتنے افراد نے اپنے دامن کی خوشیوں کے خون کیے تھے،کتنی ماٶں کے لخت جگر کٹ گٸے تھے،کتنے مدفن بنے ،تھے،کتنی عصمتیں لٹ گٸی تھیں،خون کے دریا بہے تھے ۔کتنی ماٶں کے لخت جگر کٹ گٸے تھے، آرزوٶں کے کتنے محل جلے تھے اور ان کا دھواں ہرطرف پھیل کر یاس و حسرت کی اک داستان بن گیا تھا،اک زباں بن گیا تھا اور سب اپنا سب کچھ لٹاکر ایک منزل کی طرف چلے تھے اور اک آزاد وطن کی طرف بڑھے تھے اور ایک ہم ہیں کہ کچھ جانتے ہی نہیں اور کچھ سوچتے ہی نہیں۔

                  ہمارے جیسے نوجوان آزادی کی قدروقیمت کو سمجھ ہی نہیں سکتے کیونکہ ہم نے غلامی کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہی نہیں ۔آزادی کے تقدس  کو اگر ہم نے دیکھنا ہے تو فلسطین، کشمیر،چیچنیا،افغانستان  اور عراق جاکر دیکھو ۔ فلسطین میں جاٶ اور دیکھو کتنی عزتیں اور جانیں یہودیوں سے آزادی کی خاطر لٹ چکی ہیں اور کتنی نظریں حسرت و یاس کے ساتھ صلاح الدین ایوبی کو تلاش کر رہی ہیں۔چیچنیا میں جاٶ اور دیکھو کتنے مسلمان ہیں جو روسی جارحیت کا شکار ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں سے پوچھو کہ آزادی کا نعرہ انھیں کتنا مہنگا پڑ رہا ہے۔افغانی اور عراقی عوام سے جاکر پوچھو کہ آگ اورخون کا کھیل رچا کر گوروں نے کس طرح ان کی آزادی کو سلب کر رکھا ہے۔

                آج افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ جس مقصد کےلیے ہم نے آزادی حاصل کی تھی اسے ہم بھول چکے ہیں اور جن کی ثقافت اور تہذیب سے ہم نے چھٹکارا پایا تھا آج اسی کے دلدادہ بنے ہوٸے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ ہم نے آزادی جیسی نعمت کو پہچانا ہی نہیں ہے اور اگر پہچانا ہے تو پھر ہم نے آزادی کےحصول کےلیے گرنے والے خون اور لٹنے والی عصمتوں کا سودا کیا ہوا ہے۔آج ہم آزادی حاصل کر چکنے کے باوجود بھی غلام ہیں تو ان درندوں کی تہذیب و ثقافت کے غلام ہیں جنھوں نے مسلمانوں پر عرصہ دراز تنگ کر رکھا ہے۔

                   آزادی جیسی انمول چیز کو حاصل کرنے کےلیے مسلمان فاتحین نے ان گوری چمڑی والوں سے مقابلہ کیا جن کی غلامی میں آج ہم خودبخود جھکتے چلے جا رہے ہیں۔ٹیپو سلطان نے حصول آزادی کےلیے جس طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔اس نے آزادی کی منزلت کو پہچانا اس لیے اس کا نام شیر میسور کے نام سےتاریخ کے سنہری حروف میں لکھا ہوا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کو آج بھی مسجد اقصی پکار رہی ہے اور ہماری بےبسی کا رونا رو رہی ہے۔مسجد اقصی اور بابری مسجد اپنی آزادی کی بقا کےلیے کسی مرد جری کی آس لیے راہ تک رہی ہیں لیکن ہمارے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی ہے۔آج ہم نے انگریزوں سے حاصل کی گٸی آزادی کو جسے ہمارے اجداد نے خون کی ندیاں بہا کر سیراب کیا تھا اسے پھر انگریزوں کے آگے گروی رکھ رہے ہیں۔ 

ہم نے ڈالروں کی چمک دیکھ کر اپنے ملک کو اغیار کے کہنے پر دہشت گردی اور بدامنی کی اماج گاہ بنانے کی سعی لاحاصل کی۔میں قوم کو باور کرا دینا چاہتا ہوں کہ ملک کی آزادی وخودمختاری کو ڈالروں کی چمک سے داٶ پر لگانے سے کبھی نہ ملک آگے بڑھا کرتے ہیں اور نہ افراد ترقی پاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج میر جعفر اور میر صادق جیسے ملک فروشوں کا نام سنہرے حروف میں لکھا جاتا مگر  انگریزوں کی غلامی میں اپنی نجات سمجھنے والے ان غداروں کا انجام تو سب کے سامنے ہے ہی مگر ” کلاٸیو کے گدھے“ جیسا خطاب بھی رہتی دنیا کےلیے ان کے سر کا تاج رہے گا اور علامہ اقبال ایسے ملک فروشوں کو یوں اوقات دکھاتے ہیں

جعفر از بنگال،صادق از دکن

ننگ دیں، ننگ ملت،ننگ وطن


         آزادی ایک انمول نعمت ہے۔اس کی خاطر لڑنے والا تاریخ میں انمول رہاہے اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت لینے والا ہمیشہ غدار بن کر ذلیل اور رسوا  ہوا ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حقیقی معنوں میں آزادی کی قدر عطا فرماٸے اور ملک پاکستان کوہمیشہ ہمیشہ کےلیے  ہمارے لیے آباد اور خوشحال رکھے۔ آمین


پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...