Popular Posts

Sunday, March 22, 2020

کرونا واٸرس سے بچاٶ کے حوالے سے میری دلچسپ مگر موثر تجاویز


اگر منصوبہ بندی ہو اور منظم قوم ہوں، نیک نیتی اور دیانت داری سے کام کرنے کی صلاحیت حکمران سے لے کر عام فرد تک ہرکسی میں موجود ہو اور آپ میں سے ہرفرد کرونا کے حوالے سے تمام احتیاطیں منظم انداز سے جانتا ہو اور نظم و ضبط کے ساتھ اس پر عمل بھی کر رہا ہو تو آپ کرونا واٸرس سے بالکل نہ گھبراٸیں آپ جنگ جیت جاٸیں گے۔۔میں ایک بار پھر اپنے کہے پر قاٸم رہتے ہوٸے اپنے ہم وطنوں کو تجویز دے رہا ہوں ادرک اور لیموں سے بنے قہوے کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں ہر صورت کریں کیونکہ اب دنیا بھر سے کرونا کے حوالے سے ان چیزوں کے موثر ہونے کو مانا جا رہا ہے اور مانا جاٸے گا۔ میں کرونا کے بچاٶ کے حوالے سے احتیاطی تجاویز ربط کے ساتھ بیان کر رہا ہوں جان لیجیے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میں پہلے خود اس پر عمل کرنے کی ہرممکن کوشش کروں گا۔ آپ بھی کریں۔


1: کچھ دنوں کےلیے خود کو قرنطینہ کرلیں۔

2: اگر ضروریات کے حوالے سے باہر جانا مقصود ہو تو ماسک ہو تو ضرور پہنیں بلکہ اگر ایک ربط بنا لیں تو اور بہتر ہوگا کہ مکمل تندرست شخص ماسک کا گہرے رنگ والا حصہ منھ کی طرف اور ہلکے رنگ والا حصہ باہر کی طرف رکھے جبکہ فلو نزلہ زکام یا کسی مرض کا شکار شخص اس کے برعکس ہلکے رنگ والا حصہ منھ کی طرف اور گہرے رنگ والا حصہ باہر کی طرف رکھے۔ یہ نظم ہمیں محتاط ہونے اور منصفانہ طرز اپنانے میں مدد دے گا۔

3: کام کے حوالے سے باہر جانا مقصود ہو تو مصافحہ نہ کرنے کو ہرگز عیب نہ سمجھیں کیونکہ احیتاط کے حوالے سے یہ بات شامل ہے تو احتیاط کے طور ایسا کرنا کوٸی معیوب نہیں۔۔اس سے ایسا ہرگز نہیں کہ باہمی رواداری میں کمی ہوتی ہے۔

4: باوضو رہنا بہت ضروری کرلیں کیونکہ پانی اور صفاٸی کرونا جراثیم کےلیے موت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے گلے کو ہمیشہ پانی سے وقفے وقفے سے تر رکھیں اسے خشک نہ ہونے دیں کیونکہ خشک گلا کرونا کی عظیم سلطنت سمجھا جاتا ہے اور کرونا اس کا وزیراعظم۔ وزیراعظم  چاہے کسی بھی کمزور سلطنت کا ہو اس کو ہٹانے کےلیے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس سے کم از کم آپ پاکستانی تو بخوبی آگاہ ہیں۔ بقول کرونا


میں  یہ  سمجھتا   تھا  کہ  انسان  بلبلہ  ہے  پانی  کا

مگر اک بلبلہ پانی کا سبب ہے میری موت جاودانی کا


5: جو کام اللہ تعالی کی طرف سے فرض کیے گٸے ہیں اس حوالے سے کوٸی کمپروماٸز نہ کریں بلکہ اللہ پر توکل کرکے اسے پورا کریں۔ جیسے باجماعت نماز یا نماز جنازہ پڑھنا۔ اللہ پر یقین رکھیں اس دوران سے آپ کو بیماری سے محفوظ فرماٸے گا کیونکہ عبادات کبھی بھی بیماریوں کے پھیلاٶ کا سبب نہیں بن سکتیں اگر ایساہوتا تو اللہ تعالی انھیں فرض نہ فرماتے۔ بلکہ میرا یقین ہے کہ یہ بیماریوں سے چھٹکارے کا ذریعہ ہیں  اس لیے اس حوالے سے کمزوری ہمیں مزید کمزور دل کرے گی اور کمزور دل اور وہمی کو امراض زیادہ گھیرتے ہیں۔ایران میں اللہ تعالی پر کامل اور تہ دل سے یقین کرنے کی وجہ سے سو سالہ مرد اور نوے سالہ عورت نے کرونا سے نجات پاٸی۔  اس لیےکہاوت ہے " ہمت مرداں مدد خدا"۔

6: ٹھنڈی جگہ اور ٹھنڈی چیزیں کرونا واٸرس کی انتہاٸی فین ہیں بلکہ ایسی چیزیں کرونا کو  اپنا ہیرو بنا کر اس سے آٹوگراف لینے دوڑ پڑتی ہیں۔ اس لیے ٹھنڈے مشروبات، قفلیوں اور ان سے منسلک تمام چیزوں سے لازمی پرہیز کریں۔

7: وہ حضرات جنھیں معتدل موسم میں بھی ٹھنڈی ہوا یا اے سی کے بغیر سکون نہیں ملتا وہ کچھ عرصہ اس کے بغیر گزارہ کریں کیونکہ عارضی بےسکونی کرونا والی داٸمی بےسکونی سے بہتر ہے۔اس حوالے سے میں پہلے  واضح کر چکا ہوں کہ ٹھنڈ کرونا واٸرس کی فین ہے اور اسے اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔

8: جب میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ آجکل کی تیز دھوپ کرونا مریضوں کو ضرور لگواٸیں تو یقین کریں یہ ستر فیصد کرونا کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ آپ گھر میں ہیں یا کسی اور مقام پر، کرونا سے متاثر ہیں یا نہیں مگر روز آدھا گھنٹہ دھوپ میں ضرور بیٹھیں۔ دھوپ اور کرونا ایک دوسرے کے متعلق ایسے ہیں جیسے انڈیا پاکستان کے درمیان کسی بھی میچ کا فاٸنل ہو۔

9: آپ کرونا کے مریض ہیں یا نہیں جب تک اس وبا میں واضح کمی نہیں ہوتی آپ چاٸے یا قہوے میں ادرک کا استعمال کرکے  گرم گرم ایک کپ روز  ضرور پیٸیں بلکہ کرونا کے خلاف ثواب سمجھ کر پیٸیں۔ اس سے میں وثوق سے کہتا ہوں کہ نزلہ زکام اور گلے کی تمام بیماریاں رفوچکر ہوں گیں۔ یاد رکھیے کہ کرونا  جسم کی باقی سلطنت پر قابض ہونے سے پہلے دارالحکومت گلے میں پہلے اپنا تخت بناتا ہے اور سانس روکنے کی کوشش کرکے ہمیں کمزور کرتا ہے پھر آگے بڑھتا ہے۔

10: قہوے یا گرم پانی میں لیموں یا لہسن کا استعمال کرنا ادرک کے استعمال سے بھی زیادہ مفید ہے۔ آپ روزانہ ایک کپ اس کا بسم اللہ اور درود شریف پڑھ کر استعمال کریں اور تصور کریں کہ اس سے آپ کرونا کی چیخیں نکلوا رہے ہیں تو آپ کا تصور پل میں حقیقت بن رہا ہوگا۔

11: صابن اور اچھے محلول سے ہاتھوں کو ہر دس منٹ بعد دھونا یقینی بنالیں۔

12: ناقص خوراک کی بجاٸے چند دن کنجوسی چھوڑ کر صحت مندانہ اور قوت مدافعت بڑھانے والی خوراک کر استعمال کریں جمع شدہ پیسوں پر سانپ نہ بنیں۔ سیب انار کا استعمال زیادہ کر دیں۔ اگر آپ کے پیسے ختم ہوگٸے تو یقین رکھیں مشکل وقت میں پاکستانی قوم ایک دوسرے کا ساتھ ضرور دیتی ہے آپ کو بھی بھوکا نہیں مرنے دے گی۔ باقی ایک نصیحت اور بھی یاد رکھیں پیسے جمع کرنے سے مالدار نہیں بنا جاتا بلکہ پیسوں کو گردش میں رکھنے سے مالدار بنا جاتا ہے۔ آپ اپنے پیسے پر سانپ نہ بنیں اسے کاروبار اور اپنے بچوں کی صحت پر ضرور خرچ کرتے رہیں۔اس سے مالدار بنو گے بلکہ دوسروں کا سہارا بھی بنوگے۔۔

13: اللہ تعالی کے دیے رزق میں سے مستحق کےلیے صدقہ خیرات ضرور نکالیں کیونکہ صدقہ تمام مصیبتوں بیماریوں کو ٹال دیتا ہے۔ صدقہ خیرات درست طریقے سے مستحق کےلیے نکالیں کاروں پر چڑھنے والے اور بھاری جیبوں والوں کو بلا کر چاول یا روٹی کھلا دینا  کہ یہاں سے پیٹ بھر جانے کے بعد گھر  میں اس کےلیے پکی روٹی سوکھا دی جاتی ہے ۔یہ محض دکھاوا اور ریاکاری  ہے صدقہ خیرات ہرگز نہیں۔

میرے خیال میں ایسے صریح انداز سے منظم احتیاطی تدابیر آپ کو اور کہیں سے پڑھنے کو نہیں ملی ہوں گیں۔ مگر یہ سب کچھ عمل کرنے سے ہوگا۔

اللہ سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین۔

Saturday, March 21, 2020

کورونا واٸرس کا پاکستان میں پھیلاٶ۔ اب مکمل نیک نیتی اور منصفانہ طرز عمل کا وقت آگیا ہے۔


بدقسمتی سے ایران سے کثیر تعداد میں کرونا کے متاثرین کو پاکستان لاتے وقت کوٸی سنجیدہ حکمت علمی اور ذمہ داری حکومت کی طرف سے نہیں دکھاٸی گٸی۔اس کا اعتراف سپریم کورٹ بھی کر رہی ہے اور اسے حکومت کی نااہلی قرار دے دی ہے۔ ایران سے ہزاروں افراد کی بےترتیبی اور غیر ذمہ داری سے آنے والوں سے پہلے پاکستان میں کرونا کے صرف دو مریض تھے جو فروری کے مہینے میں پرکھ لیے گٸے تھے اور وہ بھی غیر ملک سے آٸے تھے۔ کاش ایران سے آنے والوں میں سے ایک ایک فرد کو حکومت ایمانداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوٸے قرنطینہ کر دیتی اور انھیں زچ اور ذلیل کیے بغیر مناسب سہولیات دیتی اور بہت  سوں کو چیک کیے بغیر نہ جانے دیتی تو مسٸلہ اس نہج تک نہ جاتا کہ کرونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا۔ میڈیا ذراٸع سے بعض شکایات یہ بھی آٸیں کہ تندرست مریضوں کو زبردستی کرونا کا مریض بنانے کی دھمکی سے رشوت بٹوری گٸی اور بعض کو رشوت لے کر ٹیسٹ کیے بغیر ہی جانے دیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ وہ ہماری روایتی بےحسی، بددیانتی ، غیرذمہ داری اور نتاٸج کی پروا کیے بغیر وہ ذاتی مطلب پرستی ہے جس کی جڑیں پچاس سال سے ہم میں مضبوط ہوگٸی ہیں اور ملک کا ایک ایک فرد اس چیز سے کھلا آگاہ پہلے بھی تھا اور آج  بھی ہے  اور روزمرہ زندگی کے ہر شعبے میں یہ چیزیں ہمارا معمول بھی بن چکی ہیں اور میں بچوں کو پڑھاتے ہوٸے انھیں التجا کے طور پر کہتا بھی رہا ہوں کہ بچو بس اب بہت ہوگٸی یہ دو نمبری اور بددیانتی۔ اس کو دیکھ دیکھ کر سن سن کر ہم عاجز آگٸے ہیں۔اب ہمیں اس سے باز آ جانا چاہیے ورنہ یہ ہمیں کسی دن لے ڈوبے گی۔ بار بار اس طرف التجا کرنے کے باوجود بھی ہر بندہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر آجکل کام ہوتا ہی نہیں۔ حکومت کے اعلی عہدے داروں سے لے کر چپڑاسی تک بےحسی ،بددیانتی، غیرذمہ داری ،مطلب پرستی اور لوٹ کھسوٹ کےلیے دونمبری  ہمارا مرقع بن چکی ہے اور اس حوالے سے روزمرہ کے واقعات سن سن کر میرا دل کڑھتا ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ چیزیں آخر کب ختم ہوں گیں اور اگر ختم نہ ہوں گیں تو آخر ایک وقت نے آنا ہے کہ جب ہم اس کا شکار ہوکر ذلیل ہوں گے کیونکہ شریعت ان چیزوں کو ظلم تصور کرتی ہے اور ظلم نے چاہے صدیوں بعد سہی اپنا حساب ضرور  دینا ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہی وہ ظلم ہے جس نے چند دنوں میں پاکستان کو کرونا کے دو مریضوں کو لگ بھگ چھے سو مریضوں میں بدل دیا اور بحیثیت حکومت اور عوام ہمیں پتا ہی نہیں کہ اس حوالے سے ہمیں کون کون سی ذمہ داریاں دیانت داری سے نبھانا ہوں گیں کیونکہ یہ چیزیں ہم نے کبھی پریکٹیکل زندگی میں اپناٸی ہی نہیں اس کے باوجود بھی ہم نہ اس سے کچھ سیکھ رہے ہیں اور نہ سبق یا عبرت حاصل کر رہے ہیں۔اسی لیے میں برملا باور کراتا ہوں کہ ابھی بھی وقت ہے کہ حکمران خود کو نیک نیتی سے عوام کی فلاح کےلیے وقف کردیں اور ہمیشہ بغیر کسی عالمی مصلحت کےصرف اور صرف اپنے ملک و قوم کو اہمیت دیتے ہوٸے ان کے سکون کےلیے کام کرنے کا عہد کریں۔ ملک کے ایک ایک فرد کو ملک کا اثاثہ سمجھیں اور اس کے مستقبل اور اس کے ضروری مفادات کے تحفظ کاعہد کریں اور اس پر محنت کریں پھر عوام کو بھی  چاہیے کہ اپنے حکمرانوں پر کھلا اعتماد کرکے ان کی بات مانیں۔ کوٸی مانے یا نہ مانے یہاں بڑا مسٸلہ یہی ہے کہ حکمران کبھی عوام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے  اور کبھی ان کے ریلیف کےلیے کام نہیں کرتے اور عوام کبھی حکمرانوں کو قابل بھروسا نہیں سمجھتے بلکہ سب اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہنگامی حالات میں ہر بندہ فرداً فرداً اپنے مفاد کےلیے کوشش کرتا ہے اور ہرجگہ دونمبری اور ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے کیونکہ ہر فرد کو پتا ہوتا ہے کہ اس دوران وہ جس طریقے  سے بھی ممکن ہو اگر اپنے لیے خود کچھ نہیں کرے گا تو کوٸی اور بھی مشکل میں کام نہیں آٸے گا۔آج کرونا واٸرس کے پھیلاٶ کے بعد پاکستان پر امتحان کی گھڑی آن پہنچی ہے اور اب بھی اگر ہم اپنے سابقہ طور طریقوں اور سابقہ روش پر رہے یا اوپر بیان کردہ روایتی غیر مہذب طریقے اپناٸے رکھے تو خوب جان لینا چاہیے کہ ہمارا ظلم  پر مشتمل اور غیر منصفانہ طرز عمل اپنی موت آپ مرنے والا ہے۔ اس لیے میں اپنے حکمرانوں اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ آپ ایک پیج پر آ جاٸیں۔ میڈیا کا دور ہے حکمران آج میڈیا کے ذریعے محض لفاظی کے طور پر نہیں عملی طور پر دیانت داری کا اعلی نمونہ بن کر قوم کے  مستقبل کے تحفظ اور انھیں روزمرہ کے حوالے سے ہر ضروری آساٸش پہنچانے کا عہد کریں اور اس کے بعد قوم پر لازم ہے کہ  ان پر اندھادھند اعتماد کرے۔ کرونا کے حوالے سے سب مل کر ایک بہترین حکمت عملی مرتب کریں۔ اگر اس مسٸلے کا حل قوم کا مخصوص عرصے کےلیے قرنطینہ اختیار کرنے میں ہے تو اس میں دیر قطعی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی عوام کے مساٸل اور ان کی ضروریات کے حوالے سے منصوبہ بندی کیے بغیر ان پر گھر سے نکلنے پر نتاٸج کی پروا کیے بغیر پابندی لگانی چاہیے کہ کسی  کی ضرورت پوری ہوتی ہے  یا نہیں بس ان کو گھروں میں قید کرلو بلکہ حکومت عین ذمہ داری اور قومی فریضہ سمجھتے ہوٸے گھر گھر میں ضروریات زندگی پہنچانے اور باعزت طریقے سے پہنچانے کی حکمت عملی مرتب کرنے کے بعد اسے قوم کے سامنے پیش کرکے انھیں بھرپور اعتماد میں لے پھر بھلے لاک ڈاون کرلیں کوٸی اس سے انکار نہیں کرے گا اور نہ ہی کرناچاہیے بلکہ مخصوص عرصے کےلیے یہ کرنا ہی آخری حل نظر آ رہا ہے تو مزید وقت ضاٸع کیے بغیر نیک نیتی دیانت داری اور فرض شناسی کو اپنا شعار بناتے ہوٸے فوری اس پر حکمت عملی مرتب کرلیں۔۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر حکومت حسب سابق اپنی من مانی کرے گی اور عوام اپنی کیونکہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں حکمران اور عوام کا ایک دوسرے پر نہ اعتماد ہے اور نہ ایک دوسرے پر بھروسا اور یقین ہے کیونکہ  کسی بھی مسٸلے پر عوام کا رخ ہمیشہ ملک اور اصول کے ساتھ ہوتا تھا اور حکمرانوں کا رخ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے تحت عوام کو ناجاٸز بوجھ سے رگڑنے کی طرف ہوتا تھا۔ یہی وجہ حکومت اور قوم کے بیچ بڑا خلا حقیقت کے روپ میں موجود ہے جسے ختم کیے بغیر کسی مسٸلے پر قابو پانا مشکل ہے اور سابقہ روش کے تحت کام کرکے کرونا پر قابو پانا کسی طور آسان نہیں اور اتنا کچھ لکھنے کے باوجود بھی میں کیا سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ مکمل بیان کرنا بھی میرے لیے آسان نہیں۔مگر یہ ضرور ہے کہ تجربہ کار اور دور رس اور ملکی حالات پر شروع سے سنجیدگی سے غور رکھنے والا شخص سب کچھ  سمجھ ضرور گیا ہوگا۔ البتہ اتفاق کرنا یا نہ کرنا اس کا حق ہے۔

Sunday, March 1, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ تشریح پیراگراف نمبر 8


سبق : مرزا غالب کے عادات و خصاٸل

پیراگراف نمبر8


اقتباس:

مرزا کی نیت آموں سے کسی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت کا جی نہیں بھرتا تھا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل

مصنف کا نام:  مولانا الطاف حسین حالی

صنف:  سوانح نگاری

ماخذ:  یادگار غالب


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

نیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔خواہش۔

سیر ہونا۔۔۔۔۔۔ بھرنا

تحفتاً۔۔۔۔۔۔۔ تحفے کےطور پر۔

سوغات۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحفہ، انعام۔

جی بھرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رغبت ختم ہونا، لگاٶ نہ رہنا۔

ناقل۔۔۔۔۔۔۔۔ نقل کرنا، روایت کرنا

صحبت۔۔۔۔۔۔۔۔ محفل۔

دیگر۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے

احباب۔۔۔۔۔۔حبیب کی جمع، دوست۔

نسبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متعلق، تعلق سے۔

راٸے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجویز۔

خوبیاں۔۔۔۔۔۔خوبی کی جمع، اچھاٸیاں۔

حاضرین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضر کی جمع، شرکاء۔


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ کا اختتامی پیراگراف ہے۔ مصنف مرزا غالب کے متعلق بتاتے ہیں کہ آم ان کا مرغوب پھل تھا اور ان کے دوست انھیں تحفے کے طور پر آم بھجواتے تھےاور وہ خود بھی آم منگواتے تھے۔


تشریح:

   مولانا الطاف حسین حالی نامور  مصنف، شاعر ،نقاد اور سوانح نگار تھے۔ ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ مدلل عبارت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری " یادگار غالب "کے نام سے لکھی۔درسی سبق" مرزا غالب کے عادات و خصائل" اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے جس میں وہ مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست سے بیان کرتے ہیں۔ 

                تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مرزا غالب کے پسندیدہ پھل کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ مرزا غالب آم بہت پسند کرتے تھے اور آم کے حوالے سے وہ بہت حریص واقع ہوٸے تھے کیونکہ ان کا دل کبھی بھی آم کھانے سے نہیں اکتاتا تھا۔ بقول شاعر


آم    کی    بہار    آگٸی

ذوق غالب جواں ہوگیا


              مرزا غالب کو شہر بھر سے آم تحفے کے طور پر بھیجے جاتے تھے۔ بعض اوقات وہ خود بھی بازار سے آم منگوا لیتے تھے۔اس کے علاوہ دور دراز  سے بھی ان کے دوست تحفے کے طور پر انھیں آم بھیجا کرتے تھے اور وہ ان آموں کو لینےسے کبھی انکار نہ کرتے اور نہ ہی آم کھانے سے ان کا جی بھرتا تھا۔ بقول شاعر


نامہ   نہ   کوٸی   یار   کا   پیغام   بھیجیے

اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے


           نواب مصطفی خان شیفتہ ،مرزا غالب کے قریبی دوست تھے۔وہ روایت کرتے ہیں کہ ایک محفل میں مولانا فضل حق اور دیگر دوست احباب مرزا غالب کے ہمراہ موجود تھے۔ بات آم کے متعلق چل پڑی تو محفل میں موجود تمام لوگ آم کے متعلق اپنی اپنی آراء بیان کر رہے تھے اور ساتھ آموں کی خوبیاں بھی بیان کر رہے تھے۔ جب تمام لوگ اپنی اپنی بات مکمل کرچکے تو مولانا فضل حق نے مرزا غالب کی آموں کے متعلق راٸے جاننے کی کوشش کی اور مرزا سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ بھی اپنی راٸے بیان کریں۔ مرزاغالب نے حاضر جوابی اور برجستگی کا مظاہرہ کرتے ہوٸے جواب دیا کہ میرے نزدیک آم میں صرف دو باتیں ہونی چاہییں، اول یہ کہ آم بہت میٹھا ہو اور دوم یہ کہ آم اتنا ہو کہ ختم ہونے کا نام نہ لے۔مرزا کے اس جواب پر محفل میں موجود تمام افراد ہنسے بغیر نہ رہ سکے۔ بقول شاعر


ہیں  اور  بھی  دنیا  میں  سخن ور بہت اچھے 

کہتے   ہیں  کہ  غالب  کا  ہے  انداز   بیاں   اور

جماعت نہم اردو سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ تشریح پیراگراف نمبر7



سبق: " مرزا غالب کے عادات و خصائل "
پیراگراف نمبر7

اقتباس:
فواکہ میں آم ان کو بہت مرغوب تھا.......................بہنگیعمدہ عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوا دی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان:  مرزا غالب کے عادات و خصائل
مصنف کانام:  مولانا الطاف حسین حالی
صنف: سوانح نگاری
ماخذ: یادگار غالب

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
فواکہ ....... پھل۔
مرغوب.........پسندیدہ ہونا٬ رغبت والی۔
تقاضا.......طلب٬ مانگنا
مرحوم........جس پر رحمت ہو٬ وفات شدہ۔
پیڑ.......درخت
رنگ برنگ .........مختلف رنگوں 
کے٬ رنگین۔
سلاطین........سلطان کی جمع٬ بادشاہ۔
بیگمات.........بیگم کی جمع٬ بیویاں
میسر ہونا .......ملنا، دستیاب ہونا،فراہم ہونا۔
ہاتھ باندھ کر.......ادب کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ ۔
بہنگی.........ٹوکری۔

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" مرزا غالب کے عادات و خصائل" کے آخری حصے سے لیاگیا ہے۔ اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ مرزا غالب دوستوں سے میل ملاپ رکھنے والے انسان تھے۔ان کا کوئی دوست ان کے پاس سے ملے بغیر گزرتا  تو انھیں ناگوار گزرتا تھا۔انھیں آم بہت پسند تھے اور وہ اپنے دوستوں سے آم  فرمائش کرکے منگواتے بھی تھے اور ان کی نیت آموں سے کبھی سیر نہ ہوتی تھی۔

تشریح:

   مولانا الطاف حسین حالی نامور  مصنف، شاعر ،نقاد اور سوانح نگار تھے۔ ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ مدلل عبارت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری " یادگار غالب "کے نام سے لکھی۔درسی سبق" مرزا غالب کے عادات و خصائل" اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے جس میں وہ مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست سے بیان کرتے ہیں۔
                تشریح طلب اقتباس میں مصنف٬مرزا غالب کے من پسند کھانے کے متعلق آگاہ کرتے ہیں کہ مرزا غالب پھلوں میں آم کھانا پسند کرتے تھے کیونکہ آم ان کا پسندیدہ پھل تھا اور آم کے ساتھ ان کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ بقول شاعر

آم     کی    بہار    آگئی
ذوق غالب جواں ہوگیا

         مرزا غالب کا حلقہ احباب چونکہ بہت وسیع تھا اس لیے جب آموں کا موسم آتا تو ان کے دور دور سے تعلق رکھنے والے دوست ان کےلیے آم بھیجا کرتے تھے۔وہ خوددار اور ثابت قدم تھے اس لیے کسی سے مانگنا گوارا نہیں کرتے تھے مگر جب بات آموں کی آتی تو اس پھل کے اس قدر دل دادہ تھے کہ وہ اپنے دوستوں سے فرمائش کرکے آم منگواتے تھے۔ بقول شاعر

نامہ   نہ   کوئی    یار   کا   پیغام  بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے

                ایک مرتبہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر آموں کے موسم میں اپنے  چند دوستوں کے ہمراہ جن میں خود مرزا غالب  بھی شامل تھے آگرہ کے تاج محل  کے گردا گرد واقع باغ حیات بخش  یا مہتاب باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے اور باغ میں موجود  آموں  کے درخت مختلف انواع و اقسام کے رنگ برنگے آموں سے لدے ہوئے تھے۔بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے یہاں کے آم صرف مختلف ممالک کے بادشاہوں اور اپنی بیگمات کےلیے مختص کر رکھے تھے اس وجہ سے یہ آم کسی دوسرے فرد کو میسر نہیں تھے۔آم چونکہ مرزا غالب کی کمزوری تھے اس وجہ سے مرزا صاحب بار بار آموں کی طرف دیکھتے اور دل میں ان کے ملنے کی خواہش  رکھتے تھے۔ بادشاہ نے مرزا صاحب کے دل کی خواہش کو بھانپ لیا اس لیے مرزا صاحب سے پوچھ لیا کہ آموں کی طرف اس قدر توجہ سے کیا دیکھتے ہو؟ اس سوال کے جواب میں مرزا غالب نے عاجزی اور ادب کے ساتھ ہاتھ  باندھے اور حاضر دماغی سے جواب دیتے ہوئے کہاکہ میں  ان آموں کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ان میں میرے اور میرے باپ دادا کے نصیب والے آم موجود ہیں کہ نہیں جو ہمیں مل سکیں۔ بادشاہ، مرزا کی خوش طبعی اور حاضر جوابی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسکرائے اور اسی دن انھوں نے مرزا کےلیے بہترین آموں سے بھری  ٹوکری اس کے گھر بھجوا دی۔ 

جماعت نہم اردو سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ تشریح پیراگراف نمبر6


سبق: ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“

پیراگراف نمبر 6


اقتباس:

باوجودیکہ مرزا کی آمدنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ان کے مکان پر ضرور جاتے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  مرزا غالب کے عادات و خصاٸل 

مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی

صنف:  سوانح نگاری

ماخذ:  یادگارغالب


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

باوجودیکہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے باوجود۔

مقدور۔۔۔۔۔۔۔۔ مقدر میں لکھا ہوا، استطاعت، بساط۔

خودداری۔۔۔۔۔۔۔عزت نفس،غیرت مندی۔

حفظ وضع۔۔۔۔۔۔۔ وضع داری کی حفاظت، مرتبے کا لحاظ۔

امرا ۔۔۔۔۔۔۔ امیر کی جمع، دولت مند۔

عماٸد ۔۔۔۔۔۔ عمید کی جمع، سردار، جاگیردار۔

پالکی۔۔۔۔۔۔۔ ڈولی، فینس، پینس۔

ہوادار۔۔۔۔۔۔۔ ڈولی، پالکی، پینس، فینس۔


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ”  مرزا غالب کےعادات و خصاٸل“ کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب میں ظرافت اور خوش طبعی کوٹ کوٹ کر بھری ہوٸی تھی۔وہ خودداری اور حفظ وضع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔وہ دوستوں کے ہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ایک روز وہ کسی سے مل کر نواب مصطفی شیفتہ کے گھر ان سے ملنے تشریف لے گٸے 

تشریح:

مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب کے نامور مصنف اور شاعر تھے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی جامع اور مدلل ہوتا تھا۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری تھی۔ وہ اپنی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کاخاص خیال رکھتے تھے۔مرزا غالب سے ان کی دوستی نواب مصطفی شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری ” یادگارغالب “ کے نام سے لکھی۔ سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست پسندی سے بیان کیا ہے۔

           تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مرزا غالب کی عزت نفس اور ان کی وضع داری کے بارے میں بتاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا کی آمدن بہت کم تھی اور مقدر نے ان کو جو مال و دولت عطا کر رکھا تھا اس سے وہ بمشکل گزارا کرتے تھےاور ہمیشہ اسی پر صابر و شاکر رہے مگر جب مسٸلہ عزت نفس، وضع داری اور رکھ رکھاٶ کی حفاظت کا ہوتا تو وہ اپنی کم آمدنی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ دریا دلی کا مظاہرہ کرتے تھےبلکہ دل کھول کر خرچ کرتے تھے اورانھیں نمایاں خصوصیات کی وجہ سے ان کا میل ملاپ دولت مند لوگوں کےساتھ بھی تھا۔وہ دلی شہر کے تمام دولت مندوں، بڑے بڑے سرداروں اور جاگیرداروں کے ساتھ برابری کی سطح پر ملتے تھے۔ بقول شاعر


وقت  کے  ساتھ  بدلنا  تو  بہت  آساں  تھا

مجھ سے ہروقت مخاطب رہی غیرت مندی


              مرزا غالب خودداری اور طرح داری کی حفاظت اس انداز سے کرتے تھے کہ بغیر پالکی، پینس یا کسی اور سواری  کے کبھی بازار ہی نہیں جاتے تھے اور شہر کے تمام امیروں اور دولت مندوں میں سے جو بھی مرزا غالب کے مکان پر ان سے ملنے کےلیے آتا تو مرزا غالب اس سے تعلقات کو ہمیشہ برقرار رکھتے ہوٸے اس کے مکان پر اس سے ملنے ضرور جاتے تھے۔

جیسا کہ ایک قول ہے:

”اعلی ظرف ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے تعلقات کو ہمیشہ نبھاتے ہیں“۔


جماعت نہم اردو سبق ” مرزا غالب کے عادات وخصاٸل “تشریح پیراگراف نمبر5


سبق : ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“

پیراگراف نمبر5


اقتباس:

ایک صحبت میں مرزا،میر تقی میر کی تعریف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوداٸی ہیں۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات وخصاٸل

مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی

صنف: سوانح نگاری

ماخذ: یادگار غالب


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

صحبت۔۔۔۔۔۔محفل۔

تعریف۔۔۔۔۔۔۔ ستاٸش۔

ترجیح ۔۔۔۔۔۔۔۔ فوقیت، اولیت۔

میری۔۔۔۔۔۔۔۔ میر تقی میر کا چاہنےوالا۔

سوداٸی۔۔۔۔۔۔۔۔دیوانہ، مجنوں۔


سیاق وسباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” مرزا عالب کے عادات و خصاٸل کے درمیان میں سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب میں ظرافت مزاجی اور خوش طبعی کوٹ کوٹ کر بھری ہوٸی تھی اور وہ خودداری اور حفظ وضع کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔


تشریح:


مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب کے نامور مصنف اور شاعر تھے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی جامع اور مدلل ہوتا تھا۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری تھی۔ وہ اپنی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کاخاص خیال رکھتے تھے۔مرزا غالب سے ان کی دوستی نواب مصطفی شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری ” یادگارغالب “ کے نام سے لکھی۔ سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست پسندی سے بیان کیا ہے۔

           تشریح طلب اقتباس میں مصنف،مرزا غالب کی خوش طبعی، ان کے پرمزاح مزاج اور ان کی حاضر جوابی کو اجاگر کرتے ہوٸے کہتا ہے کہ مرزا غالب میر تقی میر کی عظمت کے قاٸل تھے اور انھیں بہت بڑا سخن ور سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر و بیشتر ان کی اور ان کے کلام کی تعریف کرتے رہتے تھے اور خود ہی کہتے ہیں:


ریختے  کے   تمھی   استاد   نہیں   ہو   غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوٸی میر بھی تھا


                ایسے ہی کسی محفل میں مرزا غالب، میر تقی میر کی عظمت کو بیان کرتے ہوٸے ان کی تعریف کر رہے تھے اور اس محفل میں ان کے استاد شیخ ابراہیم ذوق بھی موجود تھے۔جب مرزا غالب نے میر تقی میر کی تعریف کی تو شیخ ابراہیم ذوق نے مرزا غالب  کی بات سےاختلاف کرتے ہوٸے مرزا رفیع سودا کو میر تقی میر سے بہتر قرار دیا اور میر تقی میر کے مقابلے میں مرزا رفیع سودا کو فوقیت دی۔ شیخ ابراہیم ذوق کی بات سن کر مرزا غالب کی رگ ظرافت پھڑکی اور حاضر جوابی کےساتھ ابراہیم ذوق سے فرمایا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ آپ بھی میر تقی میر کی تعریف کرکے خود کو ” میری“ کہلواٸیں گے مگر آپ نے تو مرزا رفیع سودا کی تعریف کرکے خود کو ” سوداٸی“ یعنی دیوانہ اور مجنوں ثابت کر دیا ہے۔

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...