Popular Posts

Sunday, March 1, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ تشریح پیراگراف نمبر7



سبق: " مرزا غالب کے عادات و خصائل "
پیراگراف نمبر7

اقتباس:
فواکہ میں آم ان کو بہت مرغوب تھا.......................بہنگیعمدہ عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوا دی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان:  مرزا غالب کے عادات و خصائل
مصنف کانام:  مولانا الطاف حسین حالی
صنف: سوانح نگاری
ماخذ: یادگار غالب

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
فواکہ ....... پھل۔
مرغوب.........پسندیدہ ہونا٬ رغبت والی۔
تقاضا.......طلب٬ مانگنا
مرحوم........جس پر رحمت ہو٬ وفات شدہ۔
پیڑ.......درخت
رنگ برنگ .........مختلف رنگوں 
کے٬ رنگین۔
سلاطین........سلطان کی جمع٬ بادشاہ۔
بیگمات.........بیگم کی جمع٬ بیویاں
میسر ہونا .......ملنا، دستیاب ہونا،فراہم ہونا۔
ہاتھ باندھ کر.......ادب کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ ۔
بہنگی.........ٹوکری۔

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" مرزا غالب کے عادات و خصائل" کے آخری حصے سے لیاگیا ہے۔ اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ مرزا غالب دوستوں سے میل ملاپ رکھنے والے انسان تھے۔ان کا کوئی دوست ان کے پاس سے ملے بغیر گزرتا  تو انھیں ناگوار گزرتا تھا۔انھیں آم بہت پسند تھے اور وہ اپنے دوستوں سے آم  فرمائش کرکے منگواتے بھی تھے اور ان کی نیت آموں سے کبھی سیر نہ ہوتی تھی۔

تشریح:

   مولانا الطاف حسین حالی نامور  مصنف، شاعر ،نقاد اور سوانح نگار تھے۔ ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ مدلل عبارت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری " یادگار غالب "کے نام سے لکھی۔درسی سبق" مرزا غالب کے عادات و خصائل" اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے جس میں وہ مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست سے بیان کرتے ہیں۔
                تشریح طلب اقتباس میں مصنف٬مرزا غالب کے من پسند کھانے کے متعلق آگاہ کرتے ہیں کہ مرزا غالب پھلوں میں آم کھانا پسند کرتے تھے کیونکہ آم ان کا پسندیدہ پھل تھا اور آم کے ساتھ ان کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ بقول شاعر

آم     کی    بہار    آگئی
ذوق غالب جواں ہوگیا

         مرزا غالب کا حلقہ احباب چونکہ بہت وسیع تھا اس لیے جب آموں کا موسم آتا تو ان کے دور دور سے تعلق رکھنے والے دوست ان کےلیے آم بھیجا کرتے تھے۔وہ خوددار اور ثابت قدم تھے اس لیے کسی سے مانگنا گوارا نہیں کرتے تھے مگر جب بات آموں کی آتی تو اس پھل کے اس قدر دل دادہ تھے کہ وہ اپنے دوستوں سے فرمائش کرکے آم منگواتے تھے۔ بقول شاعر

نامہ   نہ   کوئی    یار   کا   پیغام  بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے

                ایک مرتبہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر آموں کے موسم میں اپنے  چند دوستوں کے ہمراہ جن میں خود مرزا غالب  بھی شامل تھے آگرہ کے تاج محل  کے گردا گرد واقع باغ حیات بخش  یا مہتاب باغ میں چہل قدمی کر رہے تھے اور باغ میں موجود  آموں  کے درخت مختلف انواع و اقسام کے رنگ برنگے آموں سے لدے ہوئے تھے۔بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے یہاں کے آم صرف مختلف ممالک کے بادشاہوں اور اپنی بیگمات کےلیے مختص کر رکھے تھے اس وجہ سے یہ آم کسی دوسرے فرد کو میسر نہیں تھے۔آم چونکہ مرزا غالب کی کمزوری تھے اس وجہ سے مرزا صاحب بار بار آموں کی طرف دیکھتے اور دل میں ان کے ملنے کی خواہش  رکھتے تھے۔ بادشاہ نے مرزا صاحب کے دل کی خواہش کو بھانپ لیا اس لیے مرزا صاحب سے پوچھ لیا کہ آموں کی طرف اس قدر توجہ سے کیا دیکھتے ہو؟ اس سوال کے جواب میں مرزا غالب نے عاجزی اور ادب کے ساتھ ہاتھ  باندھے اور حاضر دماغی سے جواب دیتے ہوئے کہاکہ میں  ان آموں کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ان میں میرے اور میرے باپ دادا کے نصیب والے آم موجود ہیں کہ نہیں جو ہمیں مل سکیں۔ بادشاہ، مرزا کی خوش طبعی اور حاضر جوابی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسکرائے اور اسی دن انھوں نے مرزا کےلیے بہترین آموں سے بھری  ٹوکری اس کے گھر بھجوا دی۔ 

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...