Popular Posts

Tuesday, October 29, 2019

جماعت نہم اردو سبق " امتحان" تشریح پیراگراف نمبر5

سبق: امتحان
پیراگراف نمبر5

اقتباس:
بعض وقت ایسا ہوا کہ لیمپ بھڑک................ان کے دلوں پر سکہ بٹھا رکھا تھا۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
بھڑک.......تیز شعلہ
سیاہ........کالی
محویت.....مصروفیت
نتیجہ......صلہ،حاصل
نقشہ کھینچنا........سمجھانا, منظر کشی کرنا
شبانہ روز....... دن رات
سکہ بٹھانا...... رعب دبدبہ قائم کرنا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " امتحان " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف " لا کلاس" کے امتحان کی تیاری کی بجائے گھر میں الگ کمرے میں لیمپ روشن کرکے آرام سے سات بجے سو جاتا اور والدین کو دھوکے میں رکھتا اور پھر امتحان قریب آنے کے بعد وہ فیل ہونے کے خوف سے والدین سے کہتا کہ وہ خود کو ابھی امتحان کے قابل نہیں سمجھتا۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ  اردو کے نامور ادیب ہیں۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پر لطف ہوتا ہے۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات ،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش ہونے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔
      تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ جب " لا کلاس" کے امتحان کا زمانہ قریب آیا تو میں الگ کمرے میں لیمپ روشن کرکے آرام سے سات بجے سو جاتا تھا۔ لیمپ کے مسلسل جلتے رہنے کی وجہ سے بعض اوقات ایسا ہوتا کہ لیمپ سے تیز شعلہ نکلتا جس کے دھویں سے اس کی چمنی کالی ہوجاتی تھی اور گھر والے اس کو دیکھ کر سمجھتے کہ میں محنت اور لگن سے پڑھائی میں مصروف رہتا ہوں حالانکہ یہ سب دھوکا تھا۔ بقول شاعر

احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پر خوشی سجا رہا ہوں

چناں چہ بعض اوقات والدین مجھے اتنی محنت کرنے سے منع بھی کرتے تھے مگر میں ان کو بتاتا تھا کہ دنیا ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور آپ مجھے زیادہ محنت کرنے سے روکتے ہیں۔اگر میں محنت نہیں کروں گا تو ترقی کیسے کروں گا۔ جیسا کہ قول ہے:

"محنت کامیابی کی کنجی ہے"
اس طرح میں اپنے والدین کو خوش کر دیتا تھا۔
      والدین کو دھوکے میں رکھ کر امتحان کی تیاری کی مشکل سے تو آسانی سے جان چھڑا لی مگر جب امتحان کا زمانہ قریب آگیا تو گھر والوں کے سامنے اصلیت بےنقاب ہونے کا خطرہ پیش آگیا کیونکہ

" سراب اور دھوکا دو ایسی خوش کن چیزیں ہیں جن کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی"۔
چناں خود کو بچانے کے واسطے میں نے گھر والوں کو باور کرایا کہ میں ابھی امتحان کےلیے اتنی تیاری نہیں کرسکا جتنی مجھے کرنی چاہیے تھی۔مگر گھر والے یہ بات ماننے کو تیار نہ تھے کیونکہ " لاکلاس " کےلیے میری دن رات کی محنت سے وہ مرعوب ہوچکے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ میری پڑھائی کی تیاری مکمل ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔کسی دانا کا قول ہے:
" دوسروں کو دھوکے میں رکھنے والا دراصل خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے"۔

جماعت نہم اردو سبق "امتحان"تشریح پیراگراف نمبر9

سبق : امتحان پیراگراف نمبر9

اقتباس:
خیرآمدم برسرمطلب.........اللہ دے بندہ لے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
خیرآمدم........ خیر سے آتے ہیں
برسرمطلب.......مطلب کی طرف
خیرآمدم برسر مطلب...........خیر سے مطلب کی طرف آتے ہیں۔اصل مدعا کی طرف آتے ہیں
پونے دس......نو بج کر پینتالیس منٹ
بسم اللہ کہنا.......اللہ کے نام سے شروع کرنا
خلیق.......خوش اخلاق، مہربان
ہنس مکھ.......ہنستا مسکراتا چہرہ،خوش مزاج
بیڑہ بار ہونا.......مقصد پورا ہونا،کامیابی ملنا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف امداد غیبی اور پرچوں کی الٹ پھیر سے امتحان میں کامیابی کی توقع رکھتے ہوئے جب امتحانی کمرے میں آیا تو  اسے ہنس مکھ نگران کاروں کو دیکھ کر ان سے امداد کی توقع ہوئی۔جب پرچہ تقسیم ہوا  تو اس نے سرسری پڑھ کر میز پر رکھ دیا۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پر لطف ہوتا ہے۔"امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔
     تشریح طلب اقتباس میں مصنف امتحانات میں امداد غیبی اور پرچوں کی الٹ پھیر پر تفصیلی بات کرنے کے بعد کہتا ہے کہ خیر میں اب اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں کہ نوبج کر پینتالیس منٹ پر گھنٹی بھی اور ہم اللہ کا نام لے کر کے کمرے میں آگئے۔ جب ہم کمرے کے اندر داخل ہوئے تو اندر بہت سے امتحان کےلیے مقررکیے گئے نگران موجود تھے۔ان میں سے ایک نگران بہت ہی مہربان اور شفیق تھے۔خوش اخلاقی  اور ہر وقت مسکراہٹ  ان کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے۔مجھے اپنی جگہ تلاش کرنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔جب میں نے ان سے اس حوالے سے مدد طلب کی تو وہ بھی میری جگہ کی تلاش کے لیے میرے ساتھ چل پڑے۔
       انھوں نے مجھے جگہ ڈھونڈ  دی اور میرے ساتھ تو کافی دیر مسکرا کر بات چیت بھی کرتے رہے۔ان کی اس خوش اخلاقی کو دیکھ کر میں بھی خوش ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اچھا نگران کار بھیج دیا ہے جوکہ شفیق بھی ہے اور خوش اخلاق بھی۔
انسان اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے"۔"

اب میں ضرور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس خوش خلق نگران کو میرے لیے نعمت بنا کر بھیجا ہےتو اس سےضرورفائدہ اٹھاؤں گا۔
بقول شاعر
کس توقع سے کس کو دیکھیں
کوئی تم سے بھی حسیں کیا ہوگا۔

Saturday, October 12, 2019

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر6

سبق: امتحان
پیراگراف نمبر6

اقتباس:
میں نے تقدیر اور تدبیر.............منظور ہوگئی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
تقدیر........قسمت
تدبیر.........سوچ بچار،فہم و فراست
لکچر......... درس، سبق
ثابت کرنا...........ثبوت دینا،
قصہ.........کہانی، واقعہ
مختصر.......چھوٹا،تھوڑا
درخواست شرکت......شامل ہونے کی گزارش

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ مجھے والد صاحب نے ہدایت کی کہ امتحان کی تیاری کی ہے تو اس میں شریک ہو جاؤ۔ کامیابی اور ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اس پر میں نے امتحان میں شرکت کی درخواست دی جوکہ منظور ہوگئی اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ ہم امتحان دینے مقام امتحان پہنچ گئے۔

تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہونے کے ساتھ ساتھ مزاح کی چاشنی سے بھرا ہوتا ہے۔"امتحان" بھی ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں امتحان کے اثرات ،اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
        تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے " لاکلاس" کے کورس کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب میرے والد نے امتحان میں شریک ہونے کی ہدایت کی اور کہا کہ کامیابی اور ناکامی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو اس پر میں نے ان کے سامنے تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا درس دینا شروع کر دیا۔میں نے اپنے اس درس میں یہ ثابت کیا کہ سب کچھ تقدیر سے ہوتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہماری قسمت اور نصیب میں جو لکھ دیتا ہےوہ ہوکر رہتا ہے اور اس کے آگے ہم جتنے بھی منصوبے اور تراکیب بناتے رہیں سب ناکام رہتے ہیں کیونکہ

" انسان اپنی تدبیر سے بہتر سے بہتر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہوتا وہ ہے جو مشیت الٰہی چاہتی ہے".
     چناں چہ ہماری تمام تر
سوچ بچار اور تدابیر قسمت اور تقدیر کے ہاتھوں بےبس رہتی ہیں کیونکہ دنیا کے تمام کام اللہ تعالیٰ کی منشا سے چلتے ہیں نہ کہ ہماری سوچ اور خواہشات کے مطابق۔ یہ تقدیر ہی کے کھیل ہیں کہ بقول احمد فراز

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

         الغرض مختصر کہانی یہ ہے کہ میں نے " لاکلاس" کے امتحان میں شمولیت کےلیے درخواست دی جسے منظور کر لیا گیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ ہم امتحان میں شریک ہونے کےلیے امتحان گاہ میں موجود تھے۔

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر4

سبق: امتحان
پیراگراف نمبر4

اقتباس:
ہم بھی بےفکر تھے..............ایک بوڑھے بوڑھی کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
بےفکر ........آزاد خیال، بےغم
آنکھ بند کیے.........پلک جھپکتے،فورا،جلد
صداقت نامہ.........پروانہ، اجازت نامہ
وکالت.......وکیل بننا
سر ہوگئے.......پیچھے پڑ گئے
ذات شریف.......نیک شخصیت
دھوکا.......فریب، دغا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " امتحان " کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ میں نےدوسال میں لاکلاس کا کورس پورا کیا۔شام کو دوستوں کے ساتھ ٹہلنے نکل جاتا اور واپسی پر کلاس میں جھانک آتا۔حاضری مشی صاحب کی وجہ سے لگ جاتی تھی۔والد صاحب خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلا ہے۔امتحان قریب آئے تو میں نے بوڑھے والدین کو دھوکا دیتے ہوئے الگ کمرے کا مطالبہ کردیا۔

تشریح:
مصنف مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔ ان کی تحریر میں مزاح کی چاشنی موجود ہوتی ہے۔" امتحان" بھی ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں امتحان کے اثرات ،اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے" لا کلاس" کے کورس کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ " لاکلاس" کے امتحانات دوسال کے بعد اخیر میں ہوتے ہیں تو میں بےفکر اور بےغم ہوگیا کہ دوسال تک تو کوئی محنت کرنے پر مجبور نہیں کرے گا۔جب امتحانات کا وقت آئے گا تو اس وقت جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ویسےبھی اس وقت تک کےلیے زندگی کا بھروسا بھی نہیں کہ زندگی وفا کرے گی یا نہیں کوئی نہیں جانتا کیونکہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ بقول شاعر

دو گھڑی تم ہو دو گھڑی ہم ہیں
کوئی نہیں ہم میں سدا موجود 

لیکن وقت پر لگا کر اڑ گیا اور دوسال اس طرح گزر گئے جیسے ہوا آتی ہے اور پلک جھپکتے ہمیں چھوتی ہوئی آگے گزر جاتی ہے۔
        گزرتے وقت کے ساتھ ہی مجھے " لاکلاس " یعنی وکالت کے امتحان دینے کی اجازت بھی مل گئی اور میں امتحان دینے کےلیے اہل قرار پایا تو والدین پیچھے پڑ گئے کہ اب امتحان قریب آ چکے ہیں کچھ پڑھ کر اس کی تیاری "کرو مگر مجھ جیسے "نیک "اور "شریف النفس "کےلیے ایک بوڑھی ماں اور بوڑھے باپ کو دھوکا دینا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔اس لیے میں نے انھیں دھوکے میں رکھنے کا فیصلہ کرلیا جوکہ میرے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔
بقول شاعر

احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں۔

جماعت نہم اردو سبق امتحان تشریح پیراگراف نمبر 3

سبق : امتحان
پیراگراف نمبر3 تشریح

اقتباس:
میری سنیے کہ دو سال ..............بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
لا کلاس ...... وکالت کی کلاس
کورس..... نصاب
جھانک.....سرسری دیکھنا، چھپ کر دیکھنا
منشی........وکلا کا ملازم
لکچرار....... پڑھانے والا، سبق کا لکچر دینے والا۔
مستغرق....... مگن، مصروف،غرق
دشواری......مشکل
شریک ہونا.......شامل ہونا
مشغلہ......  شغل، شوق
فرق آنا...... کم ہونا، کمی ہونا
قبلہ........بزرگوار
کان کترنا........ مات دینا، شکست دینا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن میرے اوپر امتحان کا رتی برابر بھی اثر نہیں پڑتا۔میں نے لاکلاس کا کورس دوستوں کے ساتھ بےفکر ٹہلتے ہوئے پورا کیا تھا اور اس مقصد کےلیے بوڑھے والدین کو دھوکا دینا بھی میرے لیے کوئی مشکل نہ بنا۔

تشریح:
 مرزا فرحت اللہ بیگ کاشمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پر لطف ہوتا ہے اور ان کی تحریر میں مزاح کی چاشنی موجود ہوتی یے۔" امتحان " ان کا لکھا گیا ایسا ہی مضمون ہے جس میں امتحان کے اثرات، اس کی اہمیت اور دوران امتحان  کے حالات و واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
          تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنی لا کلاس کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے دو سال میں وکیل بننے کےلیے"  لا کلاس " کا کورس مکمل کیا مگر پڑھائی کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دی۔ شام کو اپنے دوستوں کے ہمراہ چہل قدمی کےلیے نکل جاتا اور واپسی پر لا کلاس سے ہو کے آتا تھا ۔یعنی کلاس سے زیادہ توجہ دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے پر تھی۔ کلاس میں حاضری لگوانے کا مسئلہ بھی میرے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا کیونکہ وکلا اساتذہ کی مدد اور ان کے کام کاج  کےلیے وہاں موجود منشی صاحب میرے دوست تھےاور لکچرار صاحب جب پڑھانے میں محو ہوتے تھے تو منشی صاحب کی مدد سے میں اپنی حاضری لگوا لیتا تھا۔میرا یہ کام بغیر کسی مشکل سے انجام پالیتا تھا۔
اب آپ حضرات بتائیں کہ لاکلاس میں توجہ سے بیٹھنے کی بجائے صرف جھانک آنے اور حاضری بھی لگ جانے سے میرے دوسرے مشاغل کو کیا حرف آسکتا تھا اس لیے میرے دوسرے مشاغل بھی جارہی رہے اور مشی صاحب کی بدولت حاضری بھی لگ جاتی تھی۔
         والد محترم بھی اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ میرا بیٹا قانون کی تعلیم حاصل کر رہا ہے تو ایک وقت آئے گا جب یہ قانون کی ڈگری حاصل کرکے بڑے بڑے وکیلوں کا مقابلہ کرے گا اور انھیں اس میدان میں مات بھی دے گا مگر حقائق اس کے برعکس تھے۔
 بقول شاعر

وائے خوش فہمی کہ پرواز یقیں سے بھی گئے
آسماں چھونے کی خواہش میں زمیں سے بھی گئے



جماعت نہم اردو سبق امتحان پیراگراف نمبر2 تشریح

سبق: امتحان
پیراگراف نمبر2

اقتباس:
بندے پر امتحان کا رتی برابر اثر.........شرط اٹھا دی جائے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
رتی برابر....... ذرا سا، معمولی سا
افسوس....... غم،دکھ
امیدوار.......امید رکھنے والا،آرزو مند
مجمع....... ہجوم
عجیب......انوکھا
دل سیر ہونا.......دل بھرنا،جی بھرنا
شرط.....پابندی، لازم قرار دینا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیاہے۔مصنف کہتا ہے کہ لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں حالانکہ  اس میں دو ہی صورتیں ہوتی ہیں،پاس یا فیل۔ میں امتحان سے ذرا بھر بھی نہیں گھبراتا اور میں نے لا کلاس کا کورس یاروں،دوستوں  کے ساتھ ٹہلتے ہوئے پورا کیا۔

تشریح:
مصنف فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا ہی مضمون ہے جس میں امتحان کے اثرات ،اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے حالات و واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف امتحان کے حوالے سے اپنے تصورات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امتحان کے نام سے لوگ گھبراتے ہیں مگر میرے اوپر امتحان کا معمولی سا بھی اثر نہیں پڑتا۔ میرے اوپر امتحان کا اثر نہ تو امتحان کے شروع میں ہوتا ہےاور نہ ہی امتحان کے ختم ہونے کے بعد اس کےگزر جانے کا دکھ ہوتا ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ امتحان ہوتے رہیں کیونکہ اس سے ہمیں امتحان میں شریک ہونے والوں سے ملنے کے مواقع ملتے ہیں،وہاں مختلف خیالات کے حامل لوگ موجود ہوتے ہیں جن سے ملنے اور ان کے عجیب و غریب خیالات سے بہرہ مند ہونے کے مواقع ملتے ہیں اور یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن سےانسان کا دل کبھی نہیں بھرتا اور وہ اس ملنے ملاپ سے نہیں اکتاتا بلکہ دل تو یہ چاہتا ہے کہ ساری زندگی امتحان میں گزر جائے اور ہم اسی طرح دوسروں سے مل کر ان کے خیالات جانتے اور سمجھتے رہیں البتہ امتحان کےلیے نصاب کو پڑھنے اور اسے یاد رکھنے کی شرط ختم کر دی جائے کیونکہ یہی وہ کام ہے جس سے ہمارا دل بےچین ہوتا ہے اور یہ کام ہم بڑی مشکل سے کر پاتے ہیں۔اس کیفیت کو شاعر یوں بیان کرتا ہے۔

کچھ پڑھنا ہے، کچھ لکھنا ہے، کچھ رونا ہے
میں سب کام سرشام چکانے میں لگا ہوں۔

جماعت نہم اردو سبق امتحان پیراگراف نمبر 1 تشریح

سبق: امتحان
پیراگراف نمبر1 تشریح

اقتباس:
لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں..........اتنی سی صورت نکل  آتی تھی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
گھبرانا.....پریشان ہونا
ہنسی......مسکراہٹ
امتحان...... جائزہ،جانچ پرکھ
صورتیں.....شکلیں، حالتیں
کامیاب......کامران
آئندہ......آنے والا
جوں جوں......جیسے جیسے
حواس...... اوسان ،ہوش
مختل ....... بگڑا ہوا، درہم برہم، خلل زدہ

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درس سبق امتحان کا ابتدائی پیراگراف ہے۔ اس میں مصنف کہتا ہے کہ لوگ امتحان سے گھبراتے ہیں لیکن میرے اوپر امتحان کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان چیزوں سے میرا دل ہی سیر نہیں ہوتا۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تمام عمر امتحان ہو جائے۔

تشریح:
مصنف مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے اور ان کی تحریر میں مزاح کی چاشنی موجود ہوتی ہے۔" امتحان" ان کا لکھا گیا ایسا ہی مضمون ہے جس میں امتحان کے اثرات، اس کی اہمیت اور دوران امتحان کے حالات و واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف امتحان کے حوالے سے اپنے تصورات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے ہے کہ جب امتحان کا زمانہ آتا ہے تو لوگ امتحان کا نام سنتے ہی پریشان ہوجاتے ہیں اور ان کی سٹی گم ہوجاتی ہے لیکن میں امتحان سے  قطعی پریشان نہیں ہوتا بلکہ مجھے تو امتحان سے گھبرانے والوں پر ہنسی آتی ہے ہے۔ ہمیں امتحان سے پریشان ہونے کی ضرورت بھی نہیں کہ اس میں ہمارے لیے کوئی مصیبت تو ہوتی نہیں ہے بلکہ اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ ہم پاس ہوں گے یا فیل ۔کامیابی اور ناکامی تو زندگی کا حصہ ہیں ان سے  انسان کو سبق سیکھنا چاہیے  نہ کہ ان سے پریشان ہوکر اپنی زندگی اجیرن کرے۔
جیسا کہ ایک مقولہ ہے

 "ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے".
یہ
اس لیے اپنی ناکامی سے پریشان ہونے کی بجائے ہمیں آئندہ سال کامیابی کےلیے کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ بقول شاعر

کبھی ناکامیوں کا اپنی ہم ماتم نہیں کرتے
مقدر میں جو غم لکھے ہیں ان کا غم نہیں کرتے

           مصنف کہتا ہے کہ امتحان کے دن جیسے جیسے قریب آتے جاتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ میرےدوست اور میرے ہم جماعت حواس باختہ نظر آتے ہیں اور ان کے دل و دماغ پریشان ہوتے ہیں اور وہ ہمہ وقت امتحان کو اپنے سروں پر سوار کرکے پھر رہے ہوتے ہیں۔ان کی شکل و صورت کا رنگ امتحان کے خوف سے فق پڑ چکا ہوتا ہے اور ان کے چہروں پر اڑتی ہوائیاں صاف پڑھی جاسکتی ہیں۔ بقول شاعر

جگر کا خون پیتے ہیں یہ سارے امتحان ظالم
کبھی سہ ماہی،کبھی ششماہی،کبھی کم بخت سالانہ

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...