Popular Posts

Wednesday, September 30, 2020

پیراگراف نمبر 9 تشریح سبق نظریۂ پاکستان


 سبق: نظریۂ پاکستان

پیراگراف نمبر9
اقتباس:
اگر ہم نے نظریہ پاکستان کو پیش نظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پُر عظمت بنانے میں پوری طرح کامیاب ہوں گے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:  مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
پیشِ نظر ۔۔۔۔۔ مدِنظر، آنکھوں کے سامنے۔
سیرت ۔۔۔۔۔ زندگی۔
کردار ۔۔۔۔۔ عمل، خصائل۔
ڈھالنا ۔۔۔۔۔ ہیت تبدیل کرنا، مائل کرنا۔
توانا ۔۔۔۔۔ طاقت ور۔
مستحکم ۔۔۔۔۔ مضبوط۔
شان دار ۔۔۔۔۔ شان و شوکت والا۔
امتیاز ۔۔۔۔۔ فرق، پہچان، برتری۔
پُرعظمت ۔۔۔۔۔ شان و شوکت والا۔
 سیاق و سباق:
                    تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریۂ پاکستان" کا آخری پیراگراف ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ نظریۂ پاکستان کا مقصد ملک کو اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا ہے۔ ہم نے  تمام تر گروہ بندی سے بالاتر ہو کر ملک اور پاکستان کی فلاح کےلیے کوشش کرنی ہے اور نظریۂ پاکستان کو فروغ دینا ہے۔
تشریح:
                ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان"  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
                       تشریح طلب اقتباس میں مصنف ہمیں نظریۂ پاکستان کے حوالےسے  اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہم سب پاکستانیوں نے اپنی زندگی اور اپنے اعمال کو نظریۂ پاکستان کے عین مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو ہم نہ صرف کامیابی کی طرف چل پڑیں گے بلکہ دوسری ترقی یافتہ قوموں کے ہم پلہ بھی ہو جائیں گے۔ ترقی اور کامیابی میں ان پر برتری حاصل کرکے امتیازی مقام بھی پالیں گے۔
                 ہمیں چاہیے کہ اسلامی اصولوں کو اپنا کر اور انھیں اپنے لیے مشعل راہ بنا کر آگے بڑھیں اور ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کےلیے کام کریں۔ اگر ہم اپنے عمل سے ایسا کریں گے تو بہت جلد ہم وطنِ عزیز پاکستان کو ترقی یافتہ، خوش حال بنانے کے ساتھ ساتھ اس کےمستقبل کو بھی عظیم سے عظیم تر بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ جیساکہ شاعر کہتا ہے؛
   ؎  وطن کی خاک  ذرا ایڑیاں رگڑنے دے 
        مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا

پیراگراف نمبر8 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 سبق: نظریۂ پاکستان

پیراگراف نمبر8
اقتباس: 
نظریۂ پاکستان کا مقصد پاکستان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظریۂ پاکستان کو فروغ دینا ہے۔
حوالہ متن: 
سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:       مضمون
خط کشیدہ الفاظ کےمعانی؛
فلاحی ۔۔۔۔۔ خوشحال، کامیابی والی۔
فلاحی مملکت ۔۔۔۔۔۔ کامیاب و خو شحال ریاست۔
شرمندہ ۔۔۔۔۔ شرمسار ہونا۔
گروہ بندی ۔۔۔۔۔ فرقہ واریت۔ 
فلاح و بہبود ۔۔۔۔۔ ترقی و خوشحالی۔
مفاد ۔۔۔۔۔ فائدہ۔
بالاتر ۔۔۔۔۔ بلند، اونچا۔
فروغ ۔۔۔۔۔ بڑھوتری، ترقی۔
سیاق و سباق:
                  تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریۂ پاکستان کا اختتامی حصہ ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ہندوؤں کی رکاوٹ کے باوجود پاکستان کا وجود عمل میں آگیا اور اس کا شمار دنیا کے اہم ممالک میں بھی ہونے لگا۔ اب ہم نظریۂ پاکستان کو پیشِ نظر رکھ کر پاکستان کو مستحکم بنا سکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنی عملی زندگی کو نظریۂ پاکستان کے مطابق ڈھال لیں تو ہمیں دنیا کی دوسری قوموں میں امتیاز حاصل ہوگا اور ہم پاکستان کو پُرعظمت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
     تشریح:
                   ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان"  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
                  تشریح طلب اقتباس میں مصنف ہمیں نظریۂ پاکستان اور اس کے مقاصد کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریۂ پاکستان دراصل نظریۂ اسلام ہی ہے۔ اس لیے نظریۂ پاکستان کا بنیادی مقصد بھی پاکستان میں  اسلامی اصولوں کو رواج  دے کر اسے  کامیابی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ جیسا کہ قائداعظمؒ نے فرمایا؛
 " پاکستان کا مطالبہ صرف اس لیے نہیں کہ ہم صرف زمین کا ٹکڑا چاہتے ہیں بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ چاہتے ہیں جہاں اسلامی اصولوں کو اپنایا جاسکے"۔
                         چناں چہ نظریۂ پاکستان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کی مکمل پاسداری کریں اور دیانت داری سے اپنے فرائض سرانجام دیں اور ایسے کاموں سےمکمل اجتناب کریں جن کی وجہ سے روز محشر ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ  کے سامنے  شرمسار ہونا پڑے۔ ہماری تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں وطن عزیز پاکستان کی ترقی اور اس کی بقا کےلیے صرف ہونی چاہئیں۔ ہماری زندگی موت ملکِ پاکستان کےلیے ہونی چاہیے اور ہمیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کےلیے کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ بقول شاعر؛
    ؎ اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
         تیرے بیٹے تیرے جاں باز چلے آتے ہیں 
          ہمارے پیارے وطن اور نظریۂ پاکستان کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کو جب بھی ہماری ضرورت ہو تو ہمیں اپنے انفرادی اور ذاتی فائدوں کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے مفاد کو ترجیح دینی چاہیے اور ملک کی حفاظت کےلیےہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ اپنے ملک میں ہر طرح کی تقسیم اور فرقہ واریت کی مکمل حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر تمام پاکستانی بھائیوں کی سلامتی ،ترقی اور بھلائی کےلیے خلوص نیت سے کام کرنا چاہیے کیونکہ اسی طرح ہی اسلامی نظریے اور نظریۂ پاکستان کو عروج  حاصل ہوگا اور یہی اسلامی تعلیمات اور اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے؛
" اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ میں مت پڑو"۔
اسی طرح حدیث مبارکہ ہے؛
" مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم کرب میں رہتا ہے"۔
 

Saturday, September 26, 2020

پیراگراف نمبر7 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 سبق: نظریۂ پاکستان

پیراگراف نمبر7
اقتباس
پاکستان نے قیام سے اب تک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مستحکم اور شان دار بنا سکتے ہیں۔
حوالہ متن: 
سبق کا عنوان:  نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام:  ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:        مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
ترقی ۔۔۔۔۔ عروج۔
پیشِ نظر ۔۔۔۔۔ نظر کے سامنے۔ مدِنظر۔
بدولت ۔۔۔۔۔ سبب، وجہ۔
مستحکم ۔۔۔۔۔ مضبوط۔
شان دار ۔۔۔۔۔ شان و شوکت والا۔
سیاق و سباق:
                  تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریۂ پاکستان " کے آخری حصے سے لیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں یقین، اتحاد اور عملِ پیہم کی وجہ سے الگ وطن حاصل کیا۔ نظریۂ پاکستان کا اصل مقصد پاکستان کو اسلامی اور فلاحی مملکت بنانا تھا۔ اس وجہ سے ہمیں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس کی وجہ سے ہمیں  اللہ اور اس کے رسولﷺ  کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے ۔ ہمیں اپنے ملک کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
    تشریح:
               ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
                                  تشریح طلب اقتباس میں مصنف پاکستان کے قیام کے بعد کی صورت حال بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہمارے ملک نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کافی ترقی کی ہے۔ اس ترقی کے بل بوتے پر دنیا کے اہم ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے مگر ترقی کا سفر جتنا بھی طے کیا جائے وہ کم ہوتا ہے اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم پاکستان کو مزید آگے بڑھائیں اور نظریۂ پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھیں  اور ہمہ قسمی تعصب سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف وطنِ عزیز کی ترقی اور بہتری کےلیے کام کریں کیونکہ اپنی محنت ، جدوجہد اور پُر خلوص کوشش سے ہی ہم اپنے وطن پاکستان کو مضبوط اور توانا بنانے کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کو بھی تابناک بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے؛
   ؎ وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے 
      مجھے یقیں ہے پانی یہیں سے نکلے گا 

      

پیراگراف نمبر6 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 پیراگراف نمبر6

اقتباس:
پاکستان قائم کرنے کا فیصلہ ہندوؤں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
           صنف:  مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
ناگوار ۔۔۔۔۔ ناپسند۔
پُر خلوص ۔۔۔۔۔ مخلص۔
عمل پیہم ۔۔۔۔۔ مسلسل عمل۔
شان دار ۔۔۔۔۔ شان و شوکت والا۔
اکثریت ۔۔۔۔۔ کثیر تعداد میں، تعداد میں زیادہ ہونا۔
معرض وجود ۔۔۔۔۔ قائم ہونا،بننا۔
قیام ۔۔۔۔۔ وجود میں آنا۔ قائم ہونا۔
پیش نظر۔۔۔۔۔ نظر کے سامنے۔
کوشش ۔۔۔۔۔ جدوجہد، سعی۔
حق ۔۔۔۔۔ سچ۔
مبنی ۔۔۔۔۔ مشتمل
سیاق و سباق:
                تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریہ پاکستان " کے آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مسلمانوں نے جس نظریۂ پاکستان کے تحت الگ وطن حاصل کرنے کا فیصلہ کیا وہ اصل میں نظریۂ اسلام ہی تھا۔ہندوؤں کو مسلمانوں کا یہ فیصلہ ناگوار گزرا اور انھوں مسلمانوں کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کی۔ چونکہ نظریۂ پاکستان کا مقصد ایک اسلامی، فلاحی اور مثالی مملکت قائم کرنا تھا۔ اس لیے اب ہمیں اپنے اس مقصد کو یاد رکھتے ہوئے پاکستان کے استحکام کےلیے کام کرنا ہے۔
         تشریح:
             ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
            تشریح طلب اقتباس میں مصنف پاکستان کے قیام کے حوالے سے مسلمانوں کی جدوجہد اور ہندوؤں کے تعصب اور تنگ نظری کو اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے رنگ و نسل اور چھوت چھات کے تعصبات سے پاک ایک الگ ملک پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس کےلیے اپنی جدوجہد بھی تیز کردی تو مسلمانوں کا یہ فیصلہ متعصب اور تنگ نظر ہندوؤں کو بالکل بھی پسند نہ آیا اور انھوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زرور لگانا شروع کر دیا۔ وہ دولت اور افرادی قوت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ جیساکہ مہاتما گاندھی کہتا تھا؛
" ہندوستان ہماری ماتا ہے اور ہم اپنی ماتا کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے"۔
                 قیامِ پاکستان کا مطالبہ برصغیر کے مسلمانوں کا حق  اور انصاف پر مبنی مطالبہ تھا کیونکہ وہ کسی طور انگریزوں اور ان  ہندوؤں کی غلامی برداشت نہیں کرسکتے تھے جن کا رویہ اپنے سے نیچ ہندوؤں کے ساتھ بھی مناسب نہیں تھا۔ فتح ہمیشہ حق اور سچ کی ہوتی ہے اور باطل نے ایک نہ ایک دن مٹنا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ فرماتے ہیں؛
" اور کہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل نے تو مٹنا ہی تھا"۔( اِلاسراء) ۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز قیادت میں ہندوؤں کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ قائد اعظمؒ  نے اپنی بےلوث خدمات کے ذریعے منتشر مسلمانوں کی قیادت سنبھالی، انھیں ہمت دی اور انھیں اتحاد و یکجہتی ، یقین اور جہد مسلسل کے ذریعے آگے بڑھایا۔ مجدد الف ثانیؒ کا قول ہے ؛
" جدوجہد کے بغیر غلامی سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوتا ہے"۔
اور بقول اقبال؛
   ؎  یقیں   محکم،   عمل پیہم،   محبت فاتحِ عالم
      جہاد زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں
                   چناں چہ مسلمانوں کی قائداعظمؒ کی قیادت میں شبانہ روز جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی حکومت نے 23 جون 1947ء کو برصغیرکی تقسیم کا اعلان کیا اور بالآخر مسلمانوں کی جدوجہد رنگ لائی اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آگیااور ہندو اپنی مسلم دشمنی میں تو آگے رہے مگر مسلمانوں کو اپنے مشن میں کامیابی سےنہ روک سکے۔ بقول اقبالؒ
     ؎    نشاں یہی ہے  زمانے  میں زندہ قوموں کا 
           کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں



پیراگراف نمبر 5 تشریح سبق نظریۂ پاکستان


 سبق: نظریۂ پاکستان

پیراگراف نمبر5
اقتباس:
ہمیں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثالی مملکت کا نمونہ فراہم کرنا ہے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:         مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
ذہن نشین ۔۔۔۔۔ یاد کرنا۔
اخوت ۔۔۔۔۔ بھائی چارہ۔
خدا ترسی ۔۔۔۔۔ رحم دلی۔
فروغ ۔۔۔۔۔ بڑھوتری، پھیلاؤ۔
ترویج ۔۔۔۔۔ رواج دینا، پھیلانا۔
اشاعت ۔۔۔۔۔ شائع کرنا۔
ترویج و اشاعت ۔۔۔۔۔۔ پھیلانا ، آگے پہنچانا۔
نمونہ ۔۔۔۔۔ مثال۔
تصور ۔۔۔۔۔ خیال۔
مساوات ۔۔۔۔۔ برابری ، یکسانیت۔
عظمت ۔۔۔۔۔ بڑائی، بلندی۔
عظمتِ کردار ۔۔۔۔۔ کردار کی بلندی۔
محض ۔۔۔۔۔ صرف۔
اہلِ عالَم ۔۔۔۔۔ دنیا والے۔
سیاق و سباق:
                     تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریہ پاکستان" کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نظریۂ اسلام اور اپنے آزاد تشخص کی بقا کےلیے ذات پات ، چھوت چھات اور بت پرستی میں جکڑے عناصر کی غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ایک آزاد اور خودمختار مملکت پاکستان قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔یہ فیصلہ ہندوؤں کو ناگوار گزرا اور انھوں نے پوری کوشش کی کہ یہ مملکت قائم نہ ہونے پائے۔
      تشریح:
                  ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان  اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان " ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
                               تشریح طلب اقتباس میں مصنف ہمیں نظریۂ پاکستان کے متعلق باور کراتا ہے کہ نظریۂ پاکستان دراصل  نظریۂ اسلام ہی سے وابستہ ہے اور اسی کی بنیاد پر ہی پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ جیسا کہ قائداعظم نے فرمایا؛
" نظریہ پاکستان اصل میں نظریۂ اسلام  ہی ہے"۔
نظریۂ پاکستان میں اسلامی زندگی اور اسلامی قدروں کا تصور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام ہمیں بھائی چارے، باہم برابری و مساوات ، ایمان داری، رحم دلی، انسانیت سے ہمدردی اور کردار کی بلندی جیسی سنہری تعلیمات دیتا ہے اور ان پر عمل کرنے کا درس دیتا ہے۔ ان سنہری تعلیمات کو سامنے رکھ کر ہی نظریۂ پاکستان کو فروغ دیا گیا۔ اس لیے نظریۂ پاکستان کامقصد صرف یہ نہیں تھا کہ مسلمان ایک الگ حکومت بنانے میں کامیاب ہوں کیونکہ مسلمان تو پہلے ہی براعظم ایشیا اور براعظم افریقہ میں حکومتیں بنائے ہوئے تھے بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان ایک ایسی مملکت کا قیام عمل میں لائیں جہاں اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو اپنایا جائے اور ان تعلیمات کو آگے بھی پھیلایا جائے اور اسلامی طرز معاشرت کو اپنا کر ایک ایسی اسلامی اور فلاحی حکومت قائم کی جائے جو پوری دنیا کےلیے ایک مثال ہو۔ جیسا کہ قائداعظمؒ نے فرمایا تھا؛
" پاکستان کا مطالبہ صرف اس لیے نہیں کہ ہم زمین کا ٹکڑا حاصل کرلیں بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ چاہتے ہیں جہاں اسلامی اصولوں کو اپنایا جاسکے"۔
           

 

Thursday, September 24, 2020

پیراگراف4 تشریح سبق نظریۂ پاکستان


 پیراگراف نمبر4

اقتباس:
مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بت پرستی کے بندھنوں میں جکڑی ہوئی تھی۔
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:   مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
قومیت ۔۔۔۔۔ قوم کا بننا۔
نظریاتی ۔۔۔۔۔ نظریہ رکھنے والا۔
نمایاں ۔۔۔۔۔ واضح۔
ماتحت ۔۔۔۔۔ زیرنگیں۔
ملت ۔۔۔۔۔ قوم۔
جکڑا ہونا ۔۔۔۔۔ بندھا ہونا۔
پہلو ۔۔۔۔۔ گوشہ، کونا۔
حقیقت ۔۔۔۔۔ سچائی۔
بندھن ۔۔۔۔۔ رشتہ، تعلق۔
سیاق و سباق:
              تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریہ پاکستان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق وسباق یہ ہے کہ قومیت کی دو بڑی بنیادیں ہیں۔ ایک وہ بنیاد جو مغربی مفکرین نے قائم کی اور یہ رنگ و نسل اور وطنی قومیت پر مشتمل ہے جبکہ دوسری بنیاد مسلمانوں کی ہے جو کلمہ طیبہ پر قائم ہے۔اسی وجہ سے نظریۂ پاکستان میں اسلامی زندگی اور قدروں کا تصور بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اخوت، مساوات ، عدل ، انسانی ہمدردی اور عظمتِ کردار کے بغیر نظریۂ پاکستان کو فروغ نہیں ہوسکتا۔
تشریح:
             ڈاکٹر غلام مصطفی اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان " ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔ 
                     تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کے حوالے سے وضاحت کرتا ہے کہ مسلمان قوم ایک نظریے کے تحت وجود میں آئی ہے اور وہ نظریہ اسلام ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔مسلمان قوم کسی طور پر بھی مغربی قوموں کی طرح رنگ و نسل اور وطن کی بنیاد پر وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کا خاص نظریہ اور عقیدہ ہے جو دین اسلام سے جڑا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اسے ملت کہا گیا اور علامہ اقبالؒ اسے یوں بیان کرتے ہیں؛
؎   دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں؟
   اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ملت عربی میں شریعت یا دین کو کہتے ہیں  جبکہ قوم کے معنیٰ عورتوں اور مردوں کی جماعت کے ہیں۔اس لیے ملت ایک ایسی امت کا نام ہے جو ایک عقیدے اور ایک نظریے سے منسلک ہے جس میں  رنگ و نسل، ثقافتی اور قبائلی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛
  " کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے"۔
اور بقول اقبال؛
؎   بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
   نہ   تورانی  رہے   باقی   نہ  ایرانی   نہ  افغانی
چناں چہ برصغیر کے مسلمانوں میں ہر نسل، رنگ اور مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے مختلف ثقافت کے حامل لوگ شامل تھے مگر ان کا نظریہ اور عقیدہ ایک تھا جو ان کی وحدت کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔ اس وجہ یہ یہ مسلمان کسی طور پر بھی بت پرست ،رنگ و نسل ، ذات پات اور چھوت چھات میں بٹی ہوئی قوموں کے زیرنگیں اقلیت کے طور پر رہنا قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے  جداگانہ نظریے کے تحت اپنی الگ شناخت چاہتے تھے۔ جیسا کہ اقبالؒ نے فرمایا؛
؎  اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
 خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ

Saturday, September 19, 2020

پیراگراف نمبر3 تشریح سبق نظریۂ پاکستان


 سبق: نظریۂ پاکستان

پیراگراف نمبر3

اقتباس:

یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجبور اقلیت بن جاتے۔

حوالہ متن: 

سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان

مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان

           صنف:          مضمون

خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

قومیت ۔۔۔۔۔ شہریت۔

تشکیل ۔۔۔۔۔ بناوٹ، قائم ہونا۔

وسعت ۔۔۔۔۔ پھیلاؤ۔

استوار کرنا ۔۔۔۔۔ قائم کرنا، بنانا۔

وطنی قومیت ۔۔۔۔۔وطن کی بنیاد پر بننے والی قوم۔

اقلیت ۔۔۔۔۔ تعداد میں کم ہونا۔

مفکرین ۔۔۔۔۔مفکر کی جمع، دانش ور، غوروفکر کرنےوالے۔

جغرافیائی حدود ۔۔۔۔۔ زمینی حد تک۔

بخوبی ۔۔۔۔۔ اچھی طرح۔

تحفظ ۔۔۔۔۔ حفاظت۔

سیاق و سباق:

                    تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریہ پاکستان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے تسلط کے بعد مسلمانوں نے ان سے آزادی حاصل کرنے کےلیے جدوجہد شروع کر دی۔ 1930ء میں علامہ اقبالؒ نے الگ ملک کا تصور پیش کیا اور 1940ء میں قراردادِ پاکستان میں مسلمانوں نے آزاد اور خود مختار حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلمانوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ مسلمان مغرب کے رنگ و نسل اور وطنی قومیت کی بنیاد والے تصور کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی۔

   تشریح:

                  ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔

                           تشریح طلب اقتباس میں مصنف قوموں کے وجود کی بنیادیں اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کے وجود میں آنے کےلیے دو بنیادیں قائم ہیں۔ایک بنیاد وہ ہے جو مغربی دانش وروں اور مفکرین نے قائم کی ہوئی ہے جوکہ خاندانی، نسلی اور قبائلی بنیادوں کو تھوڑا وسیع کرکے علاقائی حد بندیاں قائم کرکے بنائی گئی اور کہا گیا کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ اگر وطن ہے تو اس کی اپنی قوم بھی ہے جیسے جاپان سے جاپانی قوم اور چین سے چینی قوم۔ اقبالؒ نے اسے یوں بیان کیا؛

؏  ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار

 قوم کے وجود کے حوالے سے مغرب کے غلط نظریے کی وجہ سے دنیا میں دو عالمی جنگیں وقوع پذیر ہوئیں کیونکہ یہ وطن پرستی اور وطنی قومیت کا جذبہ ہی تھا جس کی بنا پر جرمنی، جاپان ، امریکہ اور فرانس وغیرہ کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئیں۔

اسی نظریے کے تحت ہی برصغیر میں انگریزوں نے قدم جمائے ۔ان کی وطنی قومیت کا تصور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہا کیونکہ مسلمان اس نظریے کے تحت اقلیت بنا دیئے گئے۔ اس لیے برصغیر کے مسلمانوں نے اس نظریے کو قبول نہ کیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی قومیت کی بنیاد کا تصور وہ تھا جو حضوراکرمﷺ نےدیا جس کا رنگ و نسل یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر قائم ہے کہ مسلمان دنیا کے جس کونے میں بھی ہیں وہ ایک قوم ہیں اور جسد واحد ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛

" مسلمان ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم کرب محسوس کرتا ہے"۔

اور بقول اقبالؒ؛

  ؎   اپنی ملت پہ  قیاس اقومِ مغرب  سے نہ کر

        خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیﷺ

پیراگراف نمبر2 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 سبق: نظریہ پاکستان

پیراگراف نمبر2

اقتباس:

    چناں چہ 1857ء کی جنگ آزادی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احساس کمتری دور کرنے کی کوشش بھی کی۔

حوالہ متن:

 سبق کا عنوان: نظریہ پاکستان

مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان

           صنف: مضمون

خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

اقتدار ۔۔۔۔۔ بادشاہت، حکمرانی۔

مستحکم ۔۔۔۔۔ مضبوط، طاقت ور۔

قدم جمانا ۔۔۔۔۔ قبضہ کرنا، تسلط قائم کرنا۔

غنیمت ۔۔۔۔۔ کافی،خوش قسمتی۔

احساس کمتری ۔۔۔۔۔ پست اور کم تر ہونے کا احساس، خود کو کم تر سمجھنا۔

مجبوراً ۔۔۔۔۔ مجبور ہوکر، ناچار۔

باہمی سمجھوتا ۔۔۔۔۔ آپس میں مفاہمت کرنا۔

تہذیبی ۔۔۔۔۔ تمدنی، اخلاقی۔

اصلاح ۔۔۔۔۔ درستی۔

سیاق و سباق:

                       تشریح طلب اقتباس سبق " نظریہ پاکستان" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد شاہ ولی اللہ دہلوی، ان کے پوتے شاہ اسمٰعیل اپنے مرشد سید احمد بریلوی کے ساتھ اسلامی اصولوں کو دوبارہ رائج کرنے کی کوشش کرتے رہے۔1885ء میں ہندوؤں نے کانگریس کی بنیاد ڈالی تو سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے تحفظ کےلیے جدوجہد شروع کردی۔

    تشریح:   

             ڈاکٹر غلام مصطفی اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔

                            تشریح طلب اقتباس میں مصنف جنگ آزادی کے بعد سرسید احمد خان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہےکہ برصغیر پر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جب انگریزوں نے اقتدار پر قبضہ جمایا تو مسلمانوں  نے اس تسلط کو قبول نہ کیا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے ان کے خلاف 1857ء کی جنگ آزادی لڑی تاکہ مسلمان انگریزوں کو اقتدار سے نکال کر دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں مگر اس وقت انگریز اقتدار میں کافی قوت حاصل کر چکا تھا اور اس کے قدم مضبوط ہوگئے تھے اس وجہ سے مسلمانوں کو اس جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

                        ایسی نازک صورتِ حال میں سرسید احمد خان نے حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا اور نئی حکمتِ عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ بقول حکیم بطلیموس؛

" بہترین حکمتِ عملی قوتِ بازو سے زیادہ کام کرتی ہے"۔

اس حکمتِ عملی کے تناظر میں سرسید احمد خان اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان قوت اور جنگ و جدال سے انگریزوں کو اب نہیں دبا سکتے اور اس کےلیے انھیں برداشت اور مفاہمت کا راستہ نکالنا چاہیے۔ چناں چہ سرسید نے حالات کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو انگریزوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اخلاقی ، تہذیبی اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کےلیے بھی تعلیمی اور رفاہی کام شروع کر دیئے تاکہ مسلمانوں میں پے درپے ناکامیوں سے پائی جانے والی کم تری کا احساس بھی ختم ہو اور وہ علم و عمل کے ذریعے اپنی اصلاح کرکے دیگر اقوام کا مقابلہ کرسکیں۔ کیونکہ بقول اقبال؛

       ؎     کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا 

               مومن ہے تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

Thursday, September 17, 2020

پیراگراف1 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 سبق:  نظریہ پاکستان

پیراگراف نمبر1
اقتباس: 
مسلمانوں نے ہمیشہ رواداری کو اپنا شیوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نئے سرے سے فروغ دیا۔
حوالہ متن: 
سبق کا عنوان:  نظریہ پاکستان
مصنف کانام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:  مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
 رواداری ۔۔۔۔۔ تحمل مزاجی، برداشت۔
 شیوہ ۔۔۔۔۔ طریقہ، ڈھنگ، شعار۔
کفر و الحاد ۔۔۔۔۔ بے دینی۔
بےجا ۔۔۔۔۔غلط، ناجائز، حدسے بڑھ کر۔
کافرانہ ۔۔۔۔۔ بےدینی پر مشتمل ،مشرکانہ۔
رائج ۔۔۔۔۔۔ نفاذ ہونا۔
سربلندی ۔۔۔۔۔۔ کامیابی۔
محض ۔۔۔۔۔۔ صرف۔
قید و بند ۔۔۔۔۔۔ قید کی صعوبت ، حراست میں رکھنا۔
سیاق و سباق:
                      تشریح طلب اقتباس  درسی سبق" نظریۂ پاکستان" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی بےجا  رواداری کی وجہ سے ہندوؤں اور انگریزوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کی قوت کو کمزور کیا۔اورنگ زیب کے بیٹوں کے باہمی تنازعوں سے مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ مرہٹوں اور ہندوؤں نے سر اٹھانا اور انگریزوں نے قدم جمانا شروع کر دیا۔
تشریح:
             ڈاکٹر غلام مصطفی اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
                            تشریح طلب اقتباس میں مصنف برصغیر کے مسلمانوں کے طرز معاشرت سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے غیرمتعصبانہ رویہ قائم رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں سے اچھا رویہ رکھا اور ان سے حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔  تحمل اور بردباری کو اپنی عادت بنائے رکھا۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے؛
"بےشک خدا تمھیں عدل و احسان کرنے کا حکم دیتا ہے"۔
لیکن جب کبھی بےدین اور مشرک قوتوں نے مسلمانوں کے اس حسنِ سلوک  سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں اور دینِ اسلام کو نقصان پہنچانے کی سوچ لے کر انھیں اپنا غلام بنانے کی جدوجہد کی تو مسلمان پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ بقول اقبال؛
      ؎   آئینِ جواں مردی ، حق گوئی و بےباکی
             اللہ  کے  شیروں  کو  آتی نہیں روباہی
                        تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے دورِ حکومت میں ہندوؤں کو بےجا نوازنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ہندوؤں کو خوش کرنے کےلیے نیا دین تک گھڑ لیا جس سے ملکی سیاست اور دیگر معاملات میں ہندوؤں کی دخل اندازی بڑھ گئی اور ملک میں ہندوؤں کے طور طریقے اس قدر رائج ہوگئے کہ مسلمانوں کی دینی معاملات میں آزادی ختم ہو کر رہ گئی۔ بقول اقبال
  ؎  بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
       مجھے   بتا  تو  سہی   اور   کافری  کیا  ہے
              ان حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے آخری دور میں برصغیر کے مسلمان، نقشبندی سلسلے کے عظیم بزرگ رہنما شیخ احمد سرہندی المعروف  مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور مجدد الف ثانیؒ نے اسلام کی سربلندی کےلیے سرتوڑ جدوجہد شروع کر دی۔
             اکبر بادشاہ کے بعد جب اس کے بیٹے نورالدین جہانگیر نے اقتدار سنبھالا تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس کے دور میں بھی احیائے اسلام کےلیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اس جدوجہد کے نتیجے میں انھیں قید میں بھی رکھا گیا مگر انھوں نے اس کی پروا کیے بغیر اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیمات کو از سرِ نو زندہ کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ بقول شاعر؛
    ؎   گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
          وہ  ہند  میں   سرمایۂ  ملت   کا   نگہباں 


Saturday, September 12, 2020

پیراگراف نمبر 14 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر14
اقتباس: 
     موت برحق ہے۔ مرنا سب کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں جتنا بھی غم ہو کم ہے۔
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کانام:  شاہد احمد دہلوی
         صنف:    خاکہ نگاری
         ماخذ:      گنجینۂ گوہر
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
برحق ۔۔۔۔۔ سچ، حقیقت۔
صدمہ ۔۔۔۔۔ دکھ ، تکلیف۔
وضع دار ۔۔۔۔۔۔ رکھ رکھاؤ والا، لحاظ رکھنے والا۔
جامع العلوم ۔۔۔۔۔ بہت سے علوم میں مہارت رکھنے والا۔
خاصی عمر ۔۔۔۔۔ زیادہ عمر۔
قابل ۔۔۔۔۔۔ لائق، ذہین۔
ہستی ۔۔۔۔۔۔ شخصیت۔
آرزوئیں ۔۔۔۔۔۔ آرزو کی جمع، خواہشیں۔
محروم ہونا ۔۔۔۔۔ کھو دینا، چھن جانا۔
طبیعت ۔۔۔۔۔۔ مزاج۔
سیاق و سباق:
                      تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کا آخری پیراگراف ہے۔اس کا سباق یہ ہے کہ مرزا صاحب خوش اخلاق اور خوش مزاج تھے۔ وہ زیادہ دوست بنانے کے قائل نہیں تھے۔ آخری ایام میں دونوں ہاتھوں میں رعشہ آگیا اس لیے انھیں لکھنے میں زحمت ہوتی تھی۔
       
تشریح:
                شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                            تشریح طلب اقتباس میں مصنف موت کی حقیقت اور مرزا محمد سعید کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے سے ملنے والے صدمے کے متعلق بیان کرتا ہے کہ موت ایک ایسی  تلخ حقیقت ہے جس سے بچاؤ ممکن نہیں اور اس نے سب کو آکر اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے کیونکہ اس سے کسی  بھی انسان کےلیے انکار ممکن ہے اور نہ فرار۔  جیسا کہ قرآن مجید میں ہے؛
 " ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے"۔( آل عمران)۔
اور بقول شاعر؛
     آدمی   بلبلہ  ہے   پانی  کا
     کیا بھروسا ہے زندگانی کا
                     یا
موت سے کس کو رستگاری ہے
 آج  وہ  کل   ہماری   باری  ہے
   چناں چہ سب نے ایک نہ ایک دن موت کی آغوش میں آکر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے لیکن ایک عام آدمی اور ایک عالم کی موت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛
" ایک عالم کی موت ایک مصیبت ہے جس کی تلافی ممکن نہیں، ایک ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں ہوسکتا اور ایسا ستارہ ہے جو موت کی وجہ سے بےنور ہوگیا"۔
                      مصنف کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے طویل عمر پائی مگر ان کی وفات کا دکھ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ایسے شریف النفس، خوش رو، رکھ رکھاؤ اور مروت رکھنے والے اور اصولوں پر کاربند رہنے والے انسان روز بروز پیدا نہیں  ہوتے اور شاید آئندہ زمانے میں بھی پیدا نہ ہوں۔ ایسی صاحبِ علم شخصیت کے دنیا سے چلے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے برسوں پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بقول میرتقی میر؛
    مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
    تب خاک کے پردے  سے انسان نکلتے ہیں
                دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب اب ہم میں موجود نہیں ہیں بلکہ وہ وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں صرف ہماری نیک تمنائیں اور آرزوئیں ہی پہنچ سکتی ہیں اور ہم ان کےلیے دعا ہی کرسکتے ہیں ۔ ہم علم کے بہت بڑے سمندر اور عظیم انسان سے محروم ہوگئے۔ اتنی بڑی علمی شخصیت کی محرومی پر جتنا بھی غم اور دکھ کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ اب مرزا صاحب جیسے مزاج کے لوگ ہمیں دوبارہ نہیں ملیں گے کیونکہ جو چلا جاتا ہے اس کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ بقول شاعر؛
    موت اس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس
     یوں تو آئے ہیں دنیا میں سبھی مرنے کےلیے
                                 یا
     زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
   ہائے، کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے

پیراگراف نمبر13 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 

                        سبق: مرزا محمد سعید

                        پیراگراف نمبر13

                                                        اقتباس:

                                    مرزا صاحب بظاہر علیل نہیں معلوم ہوتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھان پان سے آدمی تھے۔

                                                    حوالہ متن: 

                                                           سبق کا عنوان:                         مرزا محمد سعید
                                                           مصنف کا نام:                        شاہد احمد دہلوی
                                                                  صنف:                          خاکہ نگاری
                                                                    ماخذ:                           گنجینۂ گوہر

                                              خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

                                                    بظاہر ۔۔۔۔۔ ظاہری طور پر، دیکھنے میں۔              علیل ۔۔۔۔۔ کمزور، بیمار۔
                                                     اکہرا ۔۔۔۔۔ اکیلا، یکتا۔                            اکہرا ڈیل ۔۔۔۔۔ دبلا پتلا۔
                                                   کشادہ ۔۔۔۔۔ وسیع، پھیلا ہوا، کھلا۔                    پیشانی ۔۔۔۔۔ ماتھا، جبین۔
                                           کشادہ پیشانی ۔۔۔۔۔ چوڑا ماتھا، خوش اخلاق                     گھنی  ۔۔۔۔۔۔ گنجان، زیادہ ہونا۔
                                              کترواں ۔۔۔۔۔  کٹی ہوئی، تراشی ہوئی۔                     رخسار ۔۔۔۔۔ گال۔
                                                اجلا ۔۔۔۔۔ صاف شفاف۔                           دھان پان ۔۔۔۔۔ دبلا پتلا۔

                 سیاق و سباق:

                                                    تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کے اختتامی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا محمد سعید نے قیام پاکستان سے پہلے سیاست میں بھی حصہ لیا اور پاکستانی ادیبوں کے گلڈ کے پہلے اجلاس کی صدارت بھی انھوں نے ہی کی تھی۔مرزا صاحب علیل معلوم نہیں ہوتے تھے بلکہ 1930ء میں وہ جیسے تھے  ویسے ہی 1962ء میں دکھائی دیتے تھے۔ان کی صحت میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی اور وہ کبھی صحت کے متعلق شکایت بھی نہیں کرتے تھے۔

                      تشریح: 

                                                    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                               تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مرزا محمد سعید کے حلیے اور ان کے مزاج کے متعلق آگاہ کرتا ہے کہ مرزا صاحب دیکھنے میں بالکل بھی بیمار اور کمزور نظر نہیں آتے تھے۔ اگرچہ وہ معدے کے مریض تھے مگر یوں لگتا تھا جیسے انھیں کوئی بیماری نہ ہو۔ وہ دبلی پتلی جسامت کے حامل تھے اور ان کا ماتھا چوڑا تھا ۔ بشاشت اور تروتازگی ان کے چہرے پر نمایاں نظر آتی تھی۔ بہت خوش اخلاق تھے۔
                              مرزا صاحب کی آنکھیں انتہائی روشن، چمک دار اور خوب صورت تھیں جن پر گہری اور گھنے ابرو سایہ فگن تھے۔ ان کی گالوں کی ہڈیاں قدرے باہر کی طرف ابھری ہوئی تھیں۔وہ اپنی مونچھیں کتروا کر رکھتے تھے انھیں زیادہ  بڑھنے نہیں  دیتے تھے۔ مسکراہٹ ان کے چہرے پر حسن بکھیرتی تھی۔ جیسا کہ ایک قول ہے؛

                                  " انسان کی شخصیت کا اصل حسن خندہ پیشانی ہوتی ہے"۔

وہ جب بھی مسکراتے تو آگے کے ٹوٹے ہوئے چند دانت بھی ان کی شخصیت کے حسن کو ماند نہیں پڑنے دیتے تھے بلکہ بھلے لگتے تھے اور ایک قول بھی ہے؛

                                   " مسکراہٹ چہرے کو گلاب کی طرح کھلا دیتی ہے"۔

مرزا صاحب روزانہ شیو کیا کرتے تھے اس لیے ان کی داڑھی ہمیشہ منڈی ہوئی ہوتی تھی۔ آدمی تو وہ دبلے پتلے تھے مگر ہر لحاظ سے خوب صورت دکھائی دیتے تھے۔ بقول شاعر؛
                                                        ؎      زندگی   جن کے    تصور سے    جلا پاتی تھی
                                                              ہائے کیا لوگ  تھے جو دامِ اجل میں آئے


پیراگراف نمبر12 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 سبق: مرزا محمد سعید

                                     پیراگراف نمبر12

                                                                       اقتباس:

                                                                ریڈیو پاکستان کراچی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ دیتے اس سے نہ پھرتے۔

                                                                  حوالہ متن:

                                                                           سبق کا عنوان:                              مرزا محمد سعید

                                                                          مصنف کا نام:                              شاہد احمد دہلوی

                                                                                  صنف:                                خاکہ نگاری

                                                                                    ماخذ:                                 گنجینۂ گوہر

                                                        خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

                                                           دانش کدہ ۔۔۔۔۔ علم و حکمت کا گھر۔                دانش ور ۔۔۔۔۔ علم و حکمت والا۔

                                                             فی البدیہ ۔۔۔۔۔ فوراً ، بغیر توقف کیے۔          میرِ سوالات ۔۔۔۔۔ سوالات کرنے والا، پروگرام کا میزبان۔

                                                         چار چاند لگنا ۔۔۔۔۔ عزت بڑھ جانا۔                          مدعا ۔۔۔۔۔ مقصد، مطلب۔

                                                         عرض مدعا ۔۔۔۔۔ کہنے کا مقصد۔                      منظور کرنا ۔۔۔۔۔ تسلیم کرنا، قبول کرنا۔

                                                       قدری کرنا ۔۔۔۔۔ کوشش کرنا، زور دینا۔    ٹس سے مس نہ ہونا ۔۔۔۔۔ کوئی اثر نہ ہونا، اپنی بات پر اڑے رہنا۔

                                                            قرینہ ۔۔۔۔۔ سلیقہ، طور طریقہ، ڈھنگ۔                 پھرنا ۔۔۔۔۔ مکر جانا۔ انکار کرنا۔

                  سیاق و سباق:

                                                     تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید کے تقریباً آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا محمد سعید بہت سادہ زندگی گزارتے تھے اس لیے قلب مطمٔنہ کی دولت سے مالامال تھے۔ وہ قاعدے قرینے کے آدمی تھے اور اپنے اصولوں کے پکے تھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ بھی لے چکے تھے اور صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔

                        تشریح: 

                                                      شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔

                                تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا محمد سعید کی زندگی کے اصول بیان کرنے کے دوران ، خود سے منسلک ان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بارہ سال پہلے جب میں کراچی میں رہتا تھا تو اس وقت ریڈیو پاکستان کراچی مرکز سے ایک پروگرام " دانش کدہ " شروع کیا گیا جس کا مطلب ہے علم و حکمت سے معمور گھر۔ اس پروگرام میں علم و ادب اور حکمت کے حوالے سے چار نامور اہلِ علم  حضرات کو بلایا جاتا جو  علمی گفتگو کرتے تھے اور اپنے سننے والوں کے سوالوں کے جوابات فوراً اور موقع پر دیا کرتے تھے۔

                                مصنف کہتا ہے کہ میں اس پروگرام میں بطور میزبان ان دانش وروں کے آگے وہ سوالات رکھتا تھا جو لوگ پوچھا کرتے تھے یا جن کے جوابات معلوم کرنا ضروری ہوتا تھا اور پروگرام میں شریک دانش ور ان کے جوابات اسی وقت دیتے تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر مرزا صاحب جیسی علمی شخصیت بھی اس پروگرام میں شرکت کرنے کی دعوت قبول کر لے تو پروگرام کی قدر و قیمت اور اس کی چاہت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اس کی  رونق بڑھ جائے گی۔

                             مصنف کہتا ہے کہ میں اس مقصد کی غرض سے مرزا صاحب کے پاس گیا اور اپنے آنے کا مقصد بھی ان کے سامنے رکھا جسے سن کر مرزا صاحب قدرے مسکرائے اور کہا کہ انسان کوئی بھی کام کرتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں۔ وہ یا تو شہرت کےلیے کام کرتا ہے یا دولت کے حصول کےلیے۔ مجھے ان دونوں چیزوں کی معمولی سی بھی طلب نہیں ہے اس لیے میں اس پروگرام میں  شمولیت اختیار نہیں کرسکتا۔ بقول شاعر؛

                                                                                      ؎      حرصِ دولت کی نہ عز و جاہ کی

                                                                                                   بس    تمنا    ہے    دلِ  آگاہ   کی

                          مصنف کہتا ہے کہ میں نے بہت کوشش کی کہ مرزا صاحب پروگرام میں شریک ہونے کےلیے راضی ہو جائیں لیکن ان پر میری منت سماجت اور کوشش کا ذرا بھی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ بااصول آدمی تھے اور جو بات ایک بار اپنی زبان سے کہ دیتے تھے اس پر ہر صورت میں کاربند رہتے تھے۔ بقول شاعر؛

                                                                                      ؎      جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم 

                                                                                                              جو چلے تو جاں سے گزر گئے

پیراگراف نمبر 11 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 سبق: مرزا محمد سعید

پیراگراف نمبر 11

اقتباس:

  مرزا صاحب کی زندگی بڑی سیدھی سادی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلب مطمٔنہ کی دولت سے مالا مال تھے۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید

مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی

          صنف:      خاکہ نگاری

          ماخذ:      گنجینۂ گوہر

خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

سیدھی سادی ۔۔۔۔۔۔ سادہ، عام سی۔

کرّوفر ۔۔۔۔۔۔ تکبر، شان و شوکت۔

ٹھاٹ باٹ ۔۔۔۔۔ طُمطراق، دھوم دھام، تزک و احتشام۔

ٹہلنا ۔۔۔۔۔ چہل قدمی کرنا۔

میسر ۔۔۔۔۔ مہیا، دستیاب، فراہم۔

ادبی ذوق ۔۔۔۔۔ علم و ادب کا شوق۔

سعادت مند ۔۔۔۔۔ نیک، فرماں بردار۔

سلیقہ شعار ۔۔۔۔۔ تمیزدار۔

پنشن ۔۔۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم۔

محتاجی ۔۔۔۔۔ ضرورت مندی۔

رہن سہن ۔۔۔۔۔ زندگی گزارنے کے طریقے۔

احتیاج ۔۔۔۔۔ ضرورت، تنگی، محتاجی۔

قلب مطمٔنہ ۔۔۔۔۔ دلی سکون۔ 

مالا مال ۔۔۔۔۔ فراوانی ہونا،دولت مند۔


سیاق و سباق:

                          تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کے آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف مرزا محمد سعید کے علمی ذوق کے متعلق کہتا ہے کہ ان کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور وہ اپنی پنشن کا بڑا حصہ کتابیں خریدنے پر صرف کر دیتے تھے۔ ان کی زندگی بہت سادہ تھی۔ وہ قاعدے قرینے کے آدمی تھے۔ایک بات کہ دیتے تو اس سے نہ پھرتے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مصنف کے اصرار کے باوجود ریڈیو پاکستان کے پروگرام " دانش کدہ" میں شریک ہونے سے ایک بار انکار کر دیا تو اس پر ڈٹے رہے۔


تشریح:

                      شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتا ہے۔

                             تشریح طلب اقتباس میں  مصنف، مرزا محمد سعید کی معمولاتِ زندگی کے بارے آگاہ کرتا ہے کہ مرزا صاحب نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ وہ اپنی ذات کےلیےنہ  کسی طرح کا تکبر اور ظاہری شان و شوکت پسند  کرتے تھے اور نہ ہی اپنی زندگی میں غرور و تکبر اور دنیاوی شان و شوکت کی کبھی خواہش ظاہر کی کیونکہ غرور و تکبر اور کسی قسم کا دکھاوا اللہ تعالیٰ  کو پسند نہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛

" جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل نہیں فرمائے گا"۔

                            مرزا صاحب تکلف اور بناوٹ کو بھی بالکل ناپسند کرتے تھے حتیٰ کہ ان کی زندگی اس قدر سادہ تھی کہ ان کے پاس ذاتی سواری تک نہ تھی۔ انھیں معدے کا عارضہ لاحق تھا اس لیے وہ زیادہ تر پیدل چلتے تھے۔  ہر روز صبح سویرے چہل قدمی کرنا ان کا معمول بنا ہوا تھا کیونکہ وہ اسے بیماری سے بچاؤ اور صحت کےلیے ضروری سمجھتے تھے۔ جیساکہ ماہرینِ صحت کہتے ہیں؛


" روزانہ کی جانے والی چہل قدمی سے کسی بھی عارضے میں مبتلا ہونے کا خطرہ نصف فیصد رہ جاتا ہے"۔


مرزا صاحب صحت کے اصولوں کے عین مطابق رات زیادہ دیر تک جاگنے کی بجائے جلدی سو جاتے تھے۔ کھیل تماشے، سینما اور تھیٹر وغیرہ دیکھنا تو وہ بالکل بھی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ انھیں فالتو اور بےکار مشاغل سمجھتے تھے۔ وہ تمام تر فضولیات سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ  کا خاص فضل و کرم تھا۔ انھیں گھر میں مکمل آرام و سکون ملا ہوا تھا کیونکہ ان کی بیوی انتہائی تمیزدار اور سلجھی ہوئی خاتون تھی۔کافی تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے علم و ادب کا ذوق و شوق بھی رکھتی تھی۔اس نے ایک دو ناول بھی لکھ رکھے تھے جو کسی ادبی رسالے میں چَھپ چکے تھے۔ بیوی کی سلیقہ مندی کی وجہ سے گھر کا نظام بہتر طریقے سے چل رہا تھا۔ اولاد بھی فرماں بردار تھی اس وجہ سے انھیں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ تھی۔ درس و تدریس کے شعبے سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اتنی پنشن مل جاتی تھی کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی آرام سے گزار سکیں۔وہ ہمیشہ سادہ کھانا کھاتے تھے۔ لباس بھی سادہ تھا اور زندگی گزارنے کا ہر رنگ ڈھنگ بھی بےحد سادگی پر مشتمل تھا اس لیے انھیں کبھی کسی قسم کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل کا سکون اور اطمینان عطا کیا ہوا تھا اس لیے وہ ہمیشہ خوش و خرم اور سادہ رہتے تھے۔ بقول شاعر؛

     جبیں پر سادگی، نیچی نگاہیں، بات میں نرمی

     مخاطب کون کرسکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے

Thursday, September 10, 2020

پیراگراف نمبر 10 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 

                                             سبق: مرزا محمد سعید

                                   پیراگراف نمبر10

                                                                      اقتباس:

                                                               مرزا صاحب گھنٹوں مطالعہ کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خریدنے پر صرف کر دیتے تھے۔

                                                                  حوالہ متن:

                                                                        سبق کا عنوان:                                مرزا محمد سعید
                                                                         مصنف کا نام:                                شاہد احمد دہلوی
                                                                                صنف:                                  خاکہ نگاری
                                                                                   ماخذ:                                   گنجینۂ گوہر

                                                        خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛

                                             مطالعہ کرنا ۔۔۔۔۔۔ پڑھنا۔                                              کتب خانہ ۔۔۔۔۔۔ لائبریری۔
                                             ملازمت ۔۔۔۔۔۔۔ نوکری۔                                        درس و تدریس ۔۔۔۔۔۔   پڑھانا ،سبق دینا، معلم ہونا۔       
                                               پنشن ۔۔۔۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی ماہوار رقم۔
                                            مشغلہ ۔۔۔۔۔۔ شغل، مصروفیت۔                                            شغل ۔۔۔۔۔۔ مشغلہ، شوق۔
                                       صرف کرنا ۔۔۔۔۔۔ خرچ کرنا۔

                    سیاق و سباق:

                                                           تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کے  درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا محمد سعید نے ایک جلسے میں پرانی تہذیبوں کی تاریخ کا ایسا سیلاب امڈ کر رکھ  دیا کہ آپ کے جلال کو ختم کرنے کےلیے چائے کا سامان رکھوایا گیا۔ علم کا وسیع سمندر ہونے کے باوجود مرزا صاحب نے بڑی سیدھی سادی زندگی گزاری اور کبھی ٹھاٹ باٹ سے نہ رہے۔ ہمیشہ پیدل چلا کرتے تھے۔

                          تشریح:

                                                          شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                                   تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا محمد سعید کے علم و عمل کےحوالے سے بیان کرتا ہے کہ وہ بہت بڑے عالم فاضل اور صاحبِ کمال انسان تھے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ تر علمی کاموں میں مصروف رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ کئی کئی گھنٹے کتب خانے میں کتابیں پڑھنے میں گزار دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مطالعۂ کتب سے ہی علم کی پیاس بجھائی جاسکتی ہے اور علم کی روشنی کو دل و دماغ میں سمویا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ایک قول ہے؛

                                                                            " ایک شہسوار علم کےلیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقا کےلیے دانہ اور پانی"۔

        مرزا صاحب کی غیر معمولی قابلیت ان کے وسیع تر مطالعہ کی وجہ سے ہی تھی۔ ان کا اپنا کتب خانہ موجود تھا اور اس کتب خانے میں مذہب، فنون لطیفہ، سیاست، سائنس، اردو اور انگریزی ادب سمیت ہر موضوع اور ہر شعبہ زندگی سے وابستہ کتابیں موجود تھیں جن کا وہ مطالعہ کرتے تھے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ معلم کے شعبہ سے تعلق رکھتے تھے اور اس شعبے سے بہترین انصاف یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے کیونکہ ایک معلم کےلیے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی کےلیے مختلف موضوعات پر گرفت ہونا بےحد ضروری ہے۔ 
                                 مطالعۂ کتب کے حوالے سے مرزا صاحب کا موقف بڑا واضح تھا کہ اگر میں اتنا زیادہ کتابیں نہ پڑھوں تو ان انگریز پروفیسروں کے آگے علمی میدان میں کیسے ٹھہر سکوں گا جو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کمال مہارت رکھتے تھے۔ ان ہم عصر پروفیسروں میں اپنے آپ کو منوانا اتنا آسان کام نہیں تھا مگر مرزا صاحب نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر دکھایا۔ملازمت سے فراغت اور چھٹکارا پانے کے بعد بھی مرزا صاحب نے کتابوں کے مطالعے کا اپنا شوق ختم نہ ہونے دیا بلکہ کتابوں سے اتنا جڑے رہے کہ وہ پنشن کی مد میں ملنے والی رقم بھی کتابوں کی خریداری میں خرچ کر دیتے تھے کیونکہ بقول شاعر؛
                                                                            ؎     سُرورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر
                                                                                 کوئی    رفیق    نہیں    کتاب سے بہتر
                                                                                                     یا
                                                                            ؎           ہم    نشینی   اگر کتاب   سے ہو
                                                                                       اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں


Wednesday, September 9, 2020

پیراگراف نمبر 9 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 سبق: مرزا محمد سعید

پیراگراف نمبر9
اقتباس:
  پرانی تہذیبوں کی تاریخ کا ایک دریا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزا صاحب کا جلال رفع ہوا۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
          صنف:       خاکہ نگاری
          ماخذ:     گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
تہذیب ۔۔۔۔۔۔ طورطریقہ، سلیقہ۔
امڈنا ۔۔۔۔۔۔ ہجوم لگنا، پے در پے آنا۔
پشمانی ۔۔۔۔۔ شرمساری، ندامت۔
دم بخود ۔۔۔۔۔ حیران ہوکر۔
آنکھیں پھاڑنا ۔۔۔۔۔۔ حیرت سے تکنا۔
جلال ۔۔۔۔۔۔ جوش۔
خدا خدا کرکے ۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے۔
رفع ہونا ۔۔۔۔۔۔ دُور ہونا۔

سیاق و سباق:
                     تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ایک جلسے میں مرزا محمد سعید صاحبِ علم حضرات کے ساتھ موجود تھے اور کسی بات پر اپنی محتاط رائے بیان کر رہے تھے کہ پطرس کے اشارے پر فیضؔ نے قطع کلامی کر کے خود بولنا شروع کر دیا۔ اس پر مرزا صاحب جلال میں آگئے اور پرانی اور  تاریخی معلومات کا سیلاب بہا کر رکھ دیا۔ مرزا صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کتب خانے میں ہر علم کی کتاب موجود تھی ۔حتیٰ کہ پنشن کا بڑا حصہ بھی کتابوں پر صرف کر دیتے تھے۔
 
تشریح: 
      شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                           تشریح طلب اقتباس میں مصنف ایک جلسے کا حال بیان کرتا ہے جس میں مرزا محمد سعید بھی موجود تھے۔ مرزا صاحب کی کسی بات کے دوران نامور شاعر فیض احمد فیضؔ نے مداخلت کی اور کہا کہ رومی تہذیب یونانی تہذیب کے بعد ابھری تھی۔ اس طرح بیچ میں قطع کلامی کرنے پر مرزا صاحب جوش و جلال میں آگئے اور پرانی تہذیب و تمدن کی تاریخی معلومات اس قدر روانی سے بیان کرنا شروع کر دیں جیسے معلومات کا دریا بہ اٹھا ہو۔
                          مصنف کہتا ہے کہ پرانی تہذیب و تمدن کے حوالے سے اس قدر وسیع معلومات اور علم کے ذخائر مزراصاحب کے منھ سے نکلتے دیکھ کر مجھے اس دن اس بات کا اندازہ ہوا کہ مرزا صاحب اپنے سینے میں علم کی بہت بڑی دولت سموئے ہوئے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کو توقع ہی نہیں تھی کہ ان کی بات قطع کرنے سے معلومات کے ذخائر روانی سے جاری ہو جائیں گے۔ اس لیے وہ اپنے کیے پر نادم ہوکر مرزا صاحب کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے جبکہ پطرس بخاری جن کی شوخی اور اشارے پر فیضؔ نے مرزا صاحب کی بات کاٹی تھی، دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے اور اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ مرزا صاحب اپنے سینے میں علم کا وسیع خزانہ سموئے ہوئے ہیں بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ وہ علم کا بہت بڑا سمندر ہیں۔ بقول شاعر؛
   تھیں چند نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
   پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
                         مصنف کہتا ہے کہ جلسے میں موجود تمام  لوگ مرزا صاحب کی ان جلال بھری باتوں اور وسیع تر معلومات پر بےحیران ہوکر بت بنے  ان کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے کیونکہ ان کے علم کا رعب و دبدبہ سب پر یوں طاری تھا کہ کوئی کچھ کہنے سے مکمل قاصر تھا۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے؛
        ان  کو  دیکھ  کر دیکھتا رہ گیا
       کیا کہوں اور کہنے کو کیا رہ گیا
 آخر کار پطرس بخاری نے ان کے جوش اور جذبے والی گفتگو کو روکنے کےلیے جلدی سے چائے تیار کرا کے سب کے سامنے رکھی تاکہ گفتگو کا رخ بدلا جاسکے۔ اس طرح مرزا صاحب کی جوشیلی گفتگو ختم ہوئی اور علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سکوت میں آگیا۔ بقول شاعر؛
       دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
        پر  نہیں  طاقتِ  پرواز  مگر رکھتی ہے


Tuesday, September 8, 2020

پیراگراف نمبر8 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 سبق: مرزا محمد سعید

پیراگراف نمبر8
اقتباس:
اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو مرزا صاحب کو۔۔۔۔۔۔۔ نکالے جانے کا پیش خیمہ ہوگیا۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
صنف: خاکہ نگاری
ماخذ: گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
خیر ۔۔۔۔۔ بھلائی، اچھائی۔
کان کھڑے ہونا ۔۔۔۔۔ توجہ کرنا۔
حسبِ دستور ۔۔۔۔۔ طریقۂ کار کے مطابق، روایت کے مطابق۔
مسودہ ۔۔۔۔۔۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر۔
پیش خیمہ ۔۔۔۔۔ آغاز، ابتدائی وجہ، سبب۔

سیاق و سباق:
                        تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ پطرس بخاری نے جب مرزا صاحب کو ریڈیو پر اپنی تقاریر نشر کرنے پر آمادہ کرلیا تو مرزا صاحب نے ایک دو تقریروں کے بعد معاہدہ منسوخ کر دیا۔ جب پطرس کو معلوم ہوا کہ اس کا سبب ریڈیو سٹیشن پر مقرر تقریروں کا انچارج ہے تو انھوں نے اسے مرزا صاحب کو منا لانے کا حکم دے دیا۔وہ بھاگ کر مرزاصاحب کے پاس آیا اور معافی مانگنے لگا۔ مرزا صاحب نے اس کی معافی قبول کرکے دوبارہ کانٹریکٹ پر دستخط کر دیے۔
تشریح:
                شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                              تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزاصاحب کے ریڈیو پر تقاریر کے حوالے سے ہونے والے معاہدہ کی منسوخی کے واقعے کے بارے میں بتاتا ہے کہ ریڈیو اسٹیشن پر مقرر تقریروں کے انچارج نے اپنی روایتی ضابطے کی کارروائی کو پورا کرنے کےلیے مرزا صاحب کی اس تقریر میں سے چند ایک جملے نکال دیئے جو وہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر لائے تھے۔ مرزا صاحب کو اس کی یہ حرکت کسی طور پر بھی پسند نہ آئی اس لیے انھوں نے تقریر کرنے سے انکار کر دیا اور تقاریر کے حوالے سے  کیا گیا معاہدہ بھی ختم کر دیا۔
                              ریڈیو اسٹیشن پر مقرر تقریروں کے انچارج کا مرزا صاحب کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تقریر سے چھیڑ چھاڑ کرکے ایک دو جملے نکالنا اس کےلیے مہنگا پڑ گیا کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں تھا مرزاصاحب  آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل پطرس بخاری کے استاد ہیں اور وہ کسی طور ان کی ناراضی مول نہیں لے سکتے۔ پطرس بخاری نے تمام صورتِ حال جان کر تقریروں کے انچارج کو حکم دیا کہ اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو جلد سے جلد مرزا صاحب کو منا لاؤ۔ دوسری صورت میں تم نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔چناں چہ تقریروں کے انچارج کا مرزاصاحب کی تقریر میں سے چند جملے نکالنے کا اقدام اس کے نوکری سے نکالے جانے  اور پچھتاوے کا سبب بن چکا تھا۔ سچ کہتے ہیں:
" اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت"۔
                  
              

پیراگراف نمبر7 تشریح دہم سبق مرزا محمد سعید

      سبق: مرزا محمد سعید

      پیراگراف نمبر7

        اقتباس:
   پطرس کے سلسلے میں دو ایک دلچسپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاگرد مجھے اصلاح دیں۔
     حوالہ متن:
    سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
    مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
         صنف:       خاکہ نگاری 
       ماخذ:        گنجینۂ گوہر
     خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
دل چسپ۔۔۔۔۔۔ دل کو بھانے والے۔
ڈائریکٹر جنرل ۔۔۔۔۔۔۔کسی کمپنی کے انتظامی امور کا عہدے دار۔
راہ و رسم ۔۔۔۔۔۔۔میل جول، تعلقات۔
آمادہ کرنا ۔۔۔۔۔۔ قائل کرنا، تیار کرنا۔
نشرکرنا ۔۔۔۔۔۔۔ پھیلانا، اشاعت کرنا۔
کانٹریکٹ۔۔۔۔۔معاہدہ۔
شدہ شدہ ۔۔۔۔۔ ہوتے ہوتے۔
دریافت کرنا۔۔۔۔۔۔ پوچھنا۔
اصلاح ۔۔۔۔۔۔ درستی۔

سیاق و سباق:
            تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ پطرس بخاری مرزا صاحب کے شاگردوں میں شامل تھے۔ وہ انگریزی کے پروفیسر تھے اور غیر معمولی قابلیت اور ذہانت رکھتے تھے مگر مرزا صاحب کی علمیت کے آگے خود کو ہیچ سمجھتے تھے۔پطرس کے کہنے پر مرزاصاحب نے آل انڈیا ریڈیو سے تقریر نشر کرنے پر آمادگی ظاہر کی مگر تقریروں کے انچارج کی بےجا مداخلت کی بدولت مرزا صاحب نے تقریر کرنے سے انکار کردیا۔ پطرس نے حقیقت معلوم ہونے پر تقریروں کے انچارج کو کہا کہ اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو مرزا صاحب کو منا کر لاؤ۔

تشریح:
                    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                            تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتاہے کہ پطرس بخاری مرزاصاحب کے شاگرد تھے اور وہ مرزا صاحب کا بےحد احترام کرتے تھے۔اپنے استادِ محترم کے احترام کے حوالے سے پطرس کے دو دلچسپ واقعات بیان کرتے ہوئے مصنف کہتا ہےکہ پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوگئے اس لیے ریڈیو کے بیشتر انتظامی امور ان کے سپرد کر دیے گئے۔ اس عہدے پر پہنچنے کے باوجود بھی پطرس بخاری نے اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ تعلقات اور روابط میں ذرا بھر بھی کمی نہ آنے دی اور مرزا صاحب تو پھر بھی ان کے استاد تھے، ان سے دُور ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اس لیے وہ مرزا صاحب کے پاس اکثر حاضری دیتے تھے۔انھوں نے مرزا صاحب کو ریڈیو پر کبھی کبھی تقریر نشر کرنے کےلیے قائل کرنے کی کوشش بھی کی۔ مرزا صاحب کی فطرت تھی کہ وہ اس طرح کے پروگراموں میں شامل نہیں ہوتے تھے جو عوام میں شہرت کا سبب بنیں۔ پطرس بخاری کے بار بار اصرار پر مرزاصاحب نے پروگرام میں شریک ہونے پر آمادگی ظاہر کردی اور ریڈیو پر تقریر کرنے کا معاہدہ کرلیا۔ تقریروں کے انچارج کی بےجا مداخلت کی وجہ سے مرزاصاحب نے چند ایک تقریروں کے بعد ماہدہ ختم کرلیا کیونکہ مرزا صاحب اصول پسند تھے اور اپنے کاموں میں کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔
                 پطرس بخاری کو اس معاہدے کے خاتمے کی وجہ کا علم نہ تھا۔بات ہوتے ہوتے ان تک پہنچی تو وہ مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تقریر نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو مرزا صاحب نے ریڈیو اسٹیشن پر فائز تقریروں کے انچارج کی مداخلت کے متعلق آگاہ کرکے فرمایا کہ ہم نے تمھاری اصلاح کرکے اور تمھیں سکھاکر اس مقام پر پہنچایا اور آج تمھارے  شاگرد اور زیرنگرانی کام کرنے والے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ میری اصلاح کر رہے ہیں اور مجھے بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میں نے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں۔ ایسی مداخلت کے ساتھ میں تقریر نشر نہیں کرسکتا۔  بقول شاعر؛
  ؎ جن  کے  کردار  سے آتی ہو صداقت کی مہک
    ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...