سبق: نظریۂ پاکستان
ہماری تعلیم ۔۔۔ پنجاب بورڈ کے مطابق جماعت نہم، دہم اور انٹر کی اردو کے نثرپاروں کی تشریح ،اہم نوٹس اور گیس پیپر میسر ہوں گے۔
Popular Posts
-
بخدمت جناب ہیڈماسٹر،گورنمنٹ ہائی سکول الف۔ب۔ج عنوان: درخواستِ رخصت برائ...
-
سبق " کاہلی" تشریح پیراگراف نمبر1 اقتباس: یہ ایک ایسا لفظ ہے..............سب سے بڑی کاہلی ہے۔ حوالہ متن: سبق کا عنوان: کاہ...
-
سبق:مرزا غالب کے عادات و خصاٸل پیراگراف نمبر3 اگرچہ مرزا کی آمدنی قلیل......اکثر تنگ رہتے تھے.. حوالہ متن سبق کا عنوان: مرزا غالب کے ع...
-
سبق: ہجرت نبوی پیراگراف نمبر6 اقتباس: کفار نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا............آج بھی بوسہ گاۂ خلائق ہے۔ ...
-
سبق: آرام و سکون صرف ایک ہی اہم پیراگراف۔ اقتباس: بیسیوں مرتبہ کہ چکی ہوں..............کام بےطرح زوروں پر ہے۔ حوالہ متن: سبق کا عنوا...
-
سبق : امتحان پیراگراف نمبر3 تشریح اقتباس: میری سنیے کہ دو سال ..............بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا حوالہ متن: سبق کا عنوان: ا...
Wednesday, September 30, 2020
پیراگراف نمبر 9 تشریح سبق نظریۂ پاکستان
سبق: نظریۂ پاکستان
پیراگراف نمبر8 تشریح سبق نظریہ پاکستان
سبق: نظریۂ پاکستان
Saturday, September 26, 2020
پیراگراف نمبر7 تشریح سبق نظریہ پاکستان
سبق: نظریۂ پاکستان
پیراگراف نمبر6 تشریح سبق نظریہ پاکستان
پیراگراف نمبر6
پیراگراف نمبر 5 تشریح سبق نظریۂ پاکستان
سبق: نظریۂ پاکستان
Thursday, September 24, 2020
پیراگراف4 تشریح سبق نظریۂ پاکستان
پیراگراف نمبر4
Saturday, September 19, 2020
پیراگراف نمبر3 تشریح سبق نظریۂ پاکستان
سبق: نظریۂ پاکستان
پیراگراف نمبر3
اقتباس:
یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجبور اقلیت بن جاتے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
صنف: مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
قومیت ۔۔۔۔۔ شہریت۔
تشکیل ۔۔۔۔۔ بناوٹ، قائم ہونا۔
وسعت ۔۔۔۔۔ پھیلاؤ۔
استوار کرنا ۔۔۔۔۔ قائم کرنا، بنانا۔
وطنی قومیت ۔۔۔۔۔وطن کی بنیاد پر بننے والی قوم۔
اقلیت ۔۔۔۔۔ تعداد میں کم ہونا۔
مفکرین ۔۔۔۔۔مفکر کی جمع، دانش ور، غوروفکر کرنےوالے۔
جغرافیائی حدود ۔۔۔۔۔ زمینی حد تک۔
بخوبی ۔۔۔۔۔ اچھی طرح۔
تحفظ ۔۔۔۔۔ حفاظت۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریہ پاکستان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ برصغیر میں انگریزوں کے تسلط کے بعد مسلمانوں نے ان سے آزادی حاصل کرنے کےلیے جدوجہد شروع کر دی۔ 1930ء میں علامہ اقبالؒ نے الگ ملک کا تصور پیش کیا اور 1940ء میں قراردادِ پاکستان میں مسلمانوں نے آزاد اور خود مختار حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلمانوں نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ مسلمان مغرب کے رنگ و نسل اور وطنی قومیت کی بنیاد والے تصور کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ پر تھی۔
تشریح:
ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف قوموں کے وجود کی بنیادیں اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کے وجود میں آنے کےلیے دو بنیادیں قائم ہیں۔ایک بنیاد وہ ہے جو مغربی دانش وروں اور مفکرین نے قائم کی ہوئی ہے جوکہ خاندانی، نسلی اور قبائلی بنیادوں کو تھوڑا وسیع کرکے علاقائی حد بندیاں قائم کرکے بنائی گئی اور کہا گیا کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ اگر وطن ہے تو اس کی اپنی قوم بھی ہے جیسے جاپان سے جاپانی قوم اور چین سے چینی قوم۔ اقبالؒ نے اسے یوں بیان کیا؛
؏ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوم کے وجود کے حوالے سے مغرب کے غلط نظریے کی وجہ سے دنیا میں دو عالمی جنگیں وقوع پذیر ہوئیں کیونکہ یہ وطن پرستی اور وطنی قومیت کا جذبہ ہی تھا جس کی بنا پر جرمنی، جاپان ، امریکہ اور فرانس وغیرہ کے درمیان دو بڑی جنگیں ہوئیں۔
اسی نظریے کے تحت ہی برصغیر میں انگریزوں نے قدم جمائے ۔ان کی وطنی قومیت کا تصور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہا کیونکہ مسلمان اس نظریے کے تحت اقلیت بنا دیئے گئے۔ اس لیے برصغیر کے مسلمانوں نے اس نظریے کو قبول نہ کیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی قومیت کی بنیاد کا تصور وہ تھا جو حضوراکرمﷺ نےدیا جس کا رنگ و نسل یا علاقے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر قائم ہے کہ مسلمان دنیا کے جس کونے میں بھی ہیں وہ ایک قوم ہیں اور جسد واحد ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛
" مسلمان ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم کرب محسوس کرتا ہے"۔
اور بقول اقبالؒ؛
؎ اپنی ملت پہ قیاس اقومِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیﷺ
پیراگراف نمبر2 تشریح سبق نظریہ پاکستان
سبق: نظریہ پاکستان
پیراگراف نمبر2
اقتباس:
چناں چہ 1857ء کی جنگ آزادی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احساس کمتری دور کرنے کی کوشش بھی کی۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: نظریہ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
صنف: مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
اقتدار ۔۔۔۔۔ بادشاہت، حکمرانی۔
مستحکم ۔۔۔۔۔ مضبوط، طاقت ور۔
قدم جمانا ۔۔۔۔۔ قبضہ کرنا، تسلط قائم کرنا۔
غنیمت ۔۔۔۔۔ کافی،خوش قسمتی۔
احساس کمتری ۔۔۔۔۔ پست اور کم تر ہونے کا احساس، خود کو کم تر سمجھنا۔
مجبوراً ۔۔۔۔۔ مجبور ہوکر، ناچار۔
باہمی سمجھوتا ۔۔۔۔۔ آپس میں مفاہمت کرنا۔
تہذیبی ۔۔۔۔۔ تمدنی، اخلاقی۔
اصلاح ۔۔۔۔۔ درستی۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " نظریہ پاکستان" کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد شاہ ولی اللہ دہلوی، ان کے پوتے شاہ اسمٰعیل اپنے مرشد سید احمد بریلوی کے ساتھ اسلامی اصولوں کو دوبارہ رائج کرنے کی کوشش کرتے رہے۔1885ء میں ہندوؤں نے کانگریس کی بنیاد ڈالی تو سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے تحفظ کےلیے جدوجہد شروع کردی۔
تشریح:
ڈاکٹر غلام مصطفی اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف جنگ آزادی کے بعد سرسید احمد خان کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہےکہ برصغیر پر مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جب انگریزوں نے اقتدار پر قبضہ جمایا تو مسلمانوں نے اس تسلط کو قبول نہ کیا اور انگریزوں کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے ان کے خلاف 1857ء کی جنگ آزادی لڑی تاکہ مسلمان انگریزوں کو اقتدار سے نکال کر دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں مگر اس وقت انگریز اقتدار میں کافی قوت حاصل کر چکا تھا اور اس کے قدم مضبوط ہوگئے تھے اس وجہ سے مسلمانوں کو اس جنگ میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ایسی نازک صورتِ حال میں سرسید احمد خان نے حالات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا اور نئی حکمتِ عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ بقول حکیم بطلیموس؛
" بہترین حکمتِ عملی قوتِ بازو سے زیادہ کام کرتی ہے"۔
اس حکمتِ عملی کے تناظر میں سرسید احمد خان اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان قوت اور جنگ و جدال سے انگریزوں کو اب نہیں دبا سکتے اور اس کےلیے انھیں برداشت اور مفاہمت کا راستہ نکالنا چاہیے۔ چناں چہ سرسید نے حالات کی نزاکت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو انگریزوں سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی ہدایت کی اور ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اخلاقی ، تہذیبی اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کےلیے بھی تعلیمی اور رفاہی کام شروع کر دیئے تاکہ مسلمانوں میں پے درپے ناکامیوں سے پائی جانے والی کم تری کا احساس بھی ختم ہو اور وہ علم و عمل کے ذریعے اپنی اصلاح کرکے دیگر اقوام کا مقابلہ کرسکیں۔ کیونکہ بقول اقبال؛
؎ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
Thursday, September 17, 2020
پیراگراف1 تشریح سبق نظریہ پاکستان
سبق: نظریہ پاکستان
Saturday, September 12, 2020
پیراگراف نمبر 14 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر14
اقتباس:
موت برحق ہے۔ مرنا سب کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں جتنا بھی غم ہو کم ہے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کانام: شاہد احمد دہلوی
صنف: خاکہ نگاری
ماخذ: گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
برحق ۔۔۔۔۔ سچ، حقیقت۔
صدمہ ۔۔۔۔۔ دکھ ، تکلیف۔
وضع دار ۔۔۔۔۔۔ رکھ رکھاؤ والا، لحاظ رکھنے والا۔
جامع العلوم ۔۔۔۔۔ بہت سے علوم میں مہارت رکھنے والا۔
خاصی عمر ۔۔۔۔۔ زیادہ عمر۔
قابل ۔۔۔۔۔۔ لائق، ذہین۔
ہستی ۔۔۔۔۔۔ شخصیت۔
آرزوئیں ۔۔۔۔۔۔ آرزو کی جمع، خواہشیں۔
محروم ہونا ۔۔۔۔۔ کھو دینا، چھن جانا۔
طبیعت ۔۔۔۔۔۔ مزاج۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کا آخری پیراگراف ہے۔اس کا سباق یہ ہے کہ مرزا صاحب خوش اخلاق اور خوش مزاج تھے۔ وہ زیادہ دوست بنانے کے قائل نہیں تھے۔ آخری ایام میں دونوں ہاتھوں میں رعشہ آگیا اس لیے انھیں لکھنے میں زحمت ہوتی تھی۔
تشریح:
شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف موت کی حقیقت اور مرزا محمد سعید کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے سے ملنے والے صدمے کے متعلق بیان کرتا ہے کہ موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے بچاؤ ممکن نہیں اور اس نے سب کو آکر اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے کیونکہ اس سے کسی بھی انسان کےلیے انکار ممکن ہے اور نہ فرار۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے؛
" ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے"۔( آل عمران)۔
اور بقول شاعر؛
آدمی بلبلہ ہے پانی کا
کیا بھروسا ہے زندگانی کا
یا
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
چناں چہ سب نے ایک نہ ایک دن موت کی آغوش میں آکر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے لیکن ایک عام آدمی اور ایک عالم کی موت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛
" ایک عالم کی موت ایک مصیبت ہے جس کی تلافی ممکن نہیں، ایک ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں ہوسکتا اور ایسا ستارہ ہے جو موت کی وجہ سے بےنور ہوگیا"۔
مصنف کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے طویل عمر پائی مگر ان کی وفات کا دکھ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ایسے شریف النفس، خوش رو، رکھ رکھاؤ اور مروت رکھنے والے اور اصولوں پر کاربند رہنے والے انسان روز بروز پیدا نہیں ہوتے اور شاید آئندہ زمانے میں بھی پیدا نہ ہوں۔ ایسی صاحبِ علم شخصیت کے دنیا سے چلے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے برسوں پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بقول میرتقی میر؛
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مرزا صاحب اب ہم میں موجود نہیں ہیں بلکہ وہ وہاں پہنچ چکے ہیں جہاں صرف ہماری نیک تمنائیں اور آرزوئیں ہی پہنچ سکتی ہیں اور ہم ان کےلیے دعا ہی کرسکتے ہیں ۔ ہم علم کے بہت بڑے سمندر اور عظیم انسان سے محروم ہوگئے۔ اتنی بڑی علمی شخصیت کی محرومی پر جتنا بھی غم اور دکھ کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے کیونکہ اب مرزا صاحب جیسے مزاج کے لوگ ہمیں دوبارہ نہیں ملیں گے کیونکہ جو چلا جاتا ہے اس کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ بقول شاعر؛
موت اس کی ہے جس کا زمانہ کرے افسوس
یوں تو آئے ہیں دنیا میں سبھی مرنے کےلیے
یا
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی
ہائے، کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
پیراگراف نمبر13 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر13
اقتباس:
حوالہ متن:
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
سیاق و سباق:
تشریح:
" انسان کی شخصیت کا اصل حسن خندہ پیشانی ہوتی ہے"۔
" مسکراہٹ چہرے کو گلاب کی طرح کھلا دیتی ہے"۔
پیراگراف نمبر12 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر12
اقتباس:
ریڈیو پاکستان کراچی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ دیتے اس سے نہ پھرتے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
صنف: خاکہ نگاری
ماخذ: گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
دانش کدہ ۔۔۔۔۔ علم و حکمت کا گھر۔ دانش ور ۔۔۔۔۔ علم و حکمت والا۔
فی البدیہ ۔۔۔۔۔ فوراً ، بغیر توقف کیے۔ میرِ سوالات ۔۔۔۔۔ سوالات کرنے والا، پروگرام کا میزبان۔
چار چاند لگنا ۔۔۔۔۔ عزت بڑھ جانا۔ مدعا ۔۔۔۔۔ مقصد، مطلب۔
عرض مدعا ۔۔۔۔۔ کہنے کا مقصد۔ منظور کرنا ۔۔۔۔۔ تسلیم کرنا، قبول کرنا۔
قدری کرنا ۔۔۔۔۔ کوشش کرنا، زور دینا۔ ٹس سے مس نہ ہونا ۔۔۔۔۔ کوئی اثر نہ ہونا، اپنی بات پر اڑے رہنا۔
قرینہ ۔۔۔۔۔ سلیقہ، طور طریقہ، ڈھنگ۔ پھرنا ۔۔۔۔۔ مکر جانا۔ انکار کرنا۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید کے تقریباً آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا محمد سعید بہت سادہ زندگی گزارتے تھے اس لیے قلب مطمٔنہ کی دولت سے مالامال تھے۔ وہ قاعدے قرینے کے آدمی تھے اور اپنے اصولوں کے پکے تھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ بھی لے چکے تھے اور صوبائی مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
تشریح:
شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا محمد سعید کی زندگی کے اصول بیان کرنے کے دوران ، خود سے منسلک ان کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بارہ سال پہلے جب میں کراچی میں رہتا تھا تو اس وقت ریڈیو پاکستان کراچی مرکز سے ایک پروگرام " دانش کدہ " شروع کیا گیا جس کا مطلب ہے علم و حکمت سے معمور گھر۔ اس پروگرام میں علم و ادب اور حکمت کے حوالے سے چار نامور اہلِ علم حضرات کو بلایا جاتا جو علمی گفتگو کرتے تھے اور اپنے سننے والوں کے سوالوں کے جوابات فوراً اور موقع پر دیا کرتے تھے۔
مصنف کہتا ہے کہ میں اس پروگرام میں بطور میزبان ان دانش وروں کے آگے وہ سوالات رکھتا تھا جو لوگ پوچھا کرتے تھے یا جن کے جوابات معلوم کرنا ضروری ہوتا تھا اور پروگرام میں شریک دانش ور ان کے جوابات اسی وقت دیتے تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر مرزا صاحب جیسی علمی شخصیت بھی اس پروگرام میں شرکت کرنے کی دعوت قبول کر لے تو پروگرام کی قدر و قیمت اور اس کی چاہت میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اس کی رونق بڑھ جائے گی۔
مصنف کہتا ہے کہ میں اس مقصد کی غرض سے مرزا صاحب کے پاس گیا اور اپنے آنے کا مقصد بھی ان کے سامنے رکھا جسے سن کر مرزا صاحب قدرے مسکرائے اور کہا کہ انسان کوئی بھی کام کرتا ہے تو اس کے پیچھے اس کے دو بنیادی مقاصد ہوتے ہیں۔ وہ یا تو شہرت کےلیے کام کرتا ہے یا دولت کے حصول کےلیے۔ مجھے ان دونوں چیزوں کی معمولی سی بھی طلب نہیں ہے اس لیے میں اس پروگرام میں شمولیت اختیار نہیں کرسکتا۔ بقول شاعر؛
؎ حرصِ دولت کی نہ عز و جاہ کی
بس تمنا ہے دلِ آگاہ کی
مصنف کہتا ہے کہ میں نے بہت کوشش کی کہ مرزا صاحب پروگرام میں شریک ہونے کےلیے راضی ہو جائیں لیکن ان پر میری منت سماجت اور کوشش کا ذرا بھی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ بااصول آدمی تھے اور جو بات ایک بار اپنی زبان سے کہ دیتے تھے اس پر ہر صورت میں کاربند رہتے تھے۔ بقول شاعر؛
؎ جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
پیراگراف نمبر 11 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر 11
اقتباس:
مرزا صاحب کی زندگی بڑی سیدھی سادی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلب مطمٔنہ کی دولت سے مالا مال تھے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
صنف: خاکہ نگاری
ماخذ: گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
سیدھی سادی ۔۔۔۔۔۔ سادہ، عام سی۔
کرّوفر ۔۔۔۔۔۔ تکبر، شان و شوکت۔
ٹھاٹ باٹ ۔۔۔۔۔ طُمطراق، دھوم دھام، تزک و احتشام۔
ٹہلنا ۔۔۔۔۔ چہل قدمی کرنا۔
میسر ۔۔۔۔۔ مہیا، دستیاب، فراہم۔
ادبی ذوق ۔۔۔۔۔ علم و ادب کا شوق۔
سعادت مند ۔۔۔۔۔ نیک، فرماں بردار۔
سلیقہ شعار ۔۔۔۔۔ تمیزدار۔
پنشن ۔۔۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم۔
محتاجی ۔۔۔۔۔ ضرورت مندی۔
رہن سہن ۔۔۔۔۔ زندگی گزارنے کے طریقے۔
احتیاج ۔۔۔۔۔ ضرورت، تنگی، محتاجی۔
قلب مطمٔنہ ۔۔۔۔۔ دلی سکون۔
مالا مال ۔۔۔۔۔ فراوانی ہونا،دولت مند۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید" کے آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف مرزا محمد سعید کے علمی ذوق کے متعلق کہتا ہے کہ ان کو مطالعہ کا بہت شوق تھا اور وہ اپنی پنشن کا بڑا حصہ کتابیں خریدنے پر صرف کر دیتے تھے۔ ان کی زندگی بہت سادہ تھی۔ وہ قاعدے قرینے کے آدمی تھے۔ایک بات کہ دیتے تو اس سے نہ پھرتے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مصنف کے اصرار کے باوجود ریڈیو پاکستان کے پروگرام " دانش کدہ" میں شریک ہونے سے ایک بار انکار کر دیا تو اس پر ڈٹے رہے۔
تشریح:
شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتا ہے۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف، مرزا محمد سعید کی معمولاتِ زندگی کے بارے آگاہ کرتا ہے کہ مرزا صاحب نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ وہ اپنی ذات کےلیےنہ کسی طرح کا تکبر اور ظاہری شان و شوکت پسند کرتے تھے اور نہ ہی اپنی زندگی میں غرور و تکبر اور دنیاوی شان و شوکت کی کبھی خواہش ظاہر کی کیونکہ غرور و تکبر اور کسی قسم کا دکھاوا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے؛
" جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل نہیں فرمائے گا"۔
مرزا صاحب تکلف اور بناوٹ کو بھی بالکل ناپسند کرتے تھے حتیٰ کہ ان کی زندگی اس قدر سادہ تھی کہ ان کے پاس ذاتی سواری تک نہ تھی۔ انھیں معدے کا عارضہ لاحق تھا اس لیے وہ زیادہ تر پیدل چلتے تھے۔ ہر روز صبح سویرے چہل قدمی کرنا ان کا معمول بنا ہوا تھا کیونکہ وہ اسے بیماری سے بچاؤ اور صحت کےلیے ضروری سمجھتے تھے۔ جیساکہ ماہرینِ صحت کہتے ہیں؛
" روزانہ کی جانے والی چہل قدمی سے کسی بھی عارضے میں مبتلا ہونے کا خطرہ نصف فیصد رہ جاتا ہے"۔
مرزا صاحب صحت کے اصولوں کے عین مطابق رات زیادہ دیر تک جاگنے کی بجائے جلدی سو جاتے تھے۔ کھیل تماشے، سینما اور تھیٹر وغیرہ دیکھنا تو وہ بالکل بھی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ انھیں فالتو اور بےکار مشاغل سمجھتے تھے۔ وہ تمام تر فضولیات سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا۔ انھیں گھر میں مکمل آرام و سکون ملا ہوا تھا کیونکہ ان کی بیوی انتہائی تمیزدار اور سلجھی ہوئی خاتون تھی۔کافی تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے علم و ادب کا ذوق و شوق بھی رکھتی تھی۔اس نے ایک دو ناول بھی لکھ رکھے تھے جو کسی ادبی رسالے میں چَھپ چکے تھے۔ بیوی کی سلیقہ مندی کی وجہ سے گھر کا نظام بہتر طریقے سے چل رہا تھا۔ اولاد بھی فرماں بردار تھی اس وجہ سے انھیں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ تھی۔ درس و تدریس کے شعبے سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اتنی پنشن مل جاتی تھی کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی آرام سے گزار سکیں۔وہ ہمیشہ سادہ کھانا کھاتے تھے۔ لباس بھی سادہ تھا اور زندگی گزارنے کا ہر رنگ ڈھنگ بھی بےحد سادگی پر مشتمل تھا اس لیے انھیں کبھی کسی قسم کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل کا سکون اور اطمینان عطا کیا ہوا تھا اس لیے وہ ہمیشہ خوش و خرم اور سادہ رہتے تھے۔ بقول شاعر؛
جبیں پر سادگی، نیچی نگاہیں، بات میں نرمی
مخاطب کون کرسکتا ہے تم کو لفظ قاتل سے
Thursday, September 10, 2020
پیراگراف نمبر 10 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر10
اقتباس:
حوالہ متن:
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
سیاق و سباق:
تشریح:
" ایک شہسوار علم کےلیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقا کےلیے دانہ اور پانی"۔
Wednesday, September 9, 2020
پیراگراف نمبر 9 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
Tuesday, September 8, 2020
پیراگراف نمبر8 تشریح سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر7 تشریح دہم سبق مرزا محمد سعید
سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر
سبق: اردو ادب میں عیدالفطر مصنف: ...
-
بخدمت جناب ہیڈماسٹر،گورنمنٹ ہائی سکول الف۔ب۔ج عنوان: درخواستِ رخصت برائ...