Popular Posts

Wednesday, September 9, 2020

پیراگراف نمبر 9 تشریح سبق مرزا محمد سعید


 سبق: مرزا محمد سعید

پیراگراف نمبر9
اقتباس:
  پرانی تہذیبوں کی تاریخ کا ایک دریا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزا صاحب کا جلال رفع ہوا۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
          صنف:       خاکہ نگاری
          ماخذ:     گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
تہذیب ۔۔۔۔۔۔ طورطریقہ، سلیقہ۔
امڈنا ۔۔۔۔۔۔ ہجوم لگنا، پے در پے آنا۔
پشمانی ۔۔۔۔۔ شرمساری، ندامت۔
دم بخود ۔۔۔۔۔ حیران ہوکر۔
آنکھیں پھاڑنا ۔۔۔۔۔۔ حیرت سے تکنا۔
جلال ۔۔۔۔۔۔ جوش۔
خدا خدا کرکے ۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے۔
رفع ہونا ۔۔۔۔۔۔ دُور ہونا۔

سیاق و سباق:
                     تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ایک جلسے میں مرزا محمد سعید صاحبِ علم حضرات کے ساتھ موجود تھے اور کسی بات پر اپنی محتاط رائے بیان کر رہے تھے کہ پطرس کے اشارے پر فیضؔ نے قطع کلامی کر کے خود بولنا شروع کر دیا۔ اس پر مرزا صاحب جلال میں آگئے اور پرانی اور  تاریخی معلومات کا سیلاب بہا کر رکھ دیا۔ مرزا صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے کتب خانے میں ہر علم کی کتاب موجود تھی ۔حتیٰ کہ پنشن کا بڑا حصہ بھی کتابوں پر صرف کر دیتے تھے۔
 
تشریح: 
      شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب  گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
                           تشریح طلب اقتباس میں مصنف ایک جلسے کا حال بیان کرتا ہے جس میں مرزا محمد سعید بھی موجود تھے۔ مرزا صاحب کی کسی بات کے دوران نامور شاعر فیض احمد فیضؔ نے مداخلت کی اور کہا کہ رومی تہذیب یونانی تہذیب کے بعد ابھری تھی۔ اس طرح بیچ میں قطع کلامی کرنے پر مرزا صاحب جوش و جلال میں آگئے اور پرانی تہذیب و تمدن کی تاریخی معلومات اس قدر روانی سے بیان کرنا شروع کر دیں جیسے معلومات کا دریا بہ اٹھا ہو۔
                          مصنف کہتا ہے کہ پرانی تہذیب و تمدن کے حوالے سے اس قدر وسیع معلومات اور علم کے ذخائر مزراصاحب کے منھ سے نکلتے دیکھ کر مجھے اس دن اس بات کا اندازہ ہوا کہ مرزا صاحب اپنے سینے میں علم کی بہت بڑی دولت سموئے ہوئے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ کو توقع ہی نہیں تھی کہ ان کی بات قطع کرنے سے معلومات کے ذخائر روانی سے جاری ہو جائیں گے۔ اس لیے وہ اپنے کیے پر نادم ہوکر مرزا صاحب کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے جبکہ پطرس بخاری جن کی شوخی اور اشارے پر فیضؔ نے مرزا صاحب کی بات کاٹی تھی، دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے اور اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ مرزا صاحب اپنے سینے میں علم کا وسیع خزانہ سموئے ہوئے ہیں بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ وہ علم کا بہت بڑا سمندر ہیں۔ بقول شاعر؛
   تھیں چند نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
   پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
                         مصنف کہتا ہے کہ جلسے میں موجود تمام  لوگ مرزا صاحب کی ان جلال بھری باتوں اور وسیع تر معلومات پر بےحیران ہوکر بت بنے  ان کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے کیونکہ ان کے علم کا رعب و دبدبہ سب پر یوں طاری تھا کہ کوئی کچھ کہنے سے مکمل قاصر تھا۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے؛
        ان  کو  دیکھ  کر دیکھتا رہ گیا
       کیا کہوں اور کہنے کو کیا رہ گیا
 آخر کار پطرس بخاری نے ان کے جوش اور جذبے والی گفتگو کو روکنے کےلیے جلدی سے چائے تیار کرا کے سب کے سامنے رکھی تاکہ گفتگو کا رخ بدلا جاسکے۔ اس طرح مرزا صاحب کی جوشیلی گفتگو ختم ہوئی اور علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سکوت میں آگیا۔ بقول شاعر؛
       دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
        پر  نہیں  طاقتِ  پرواز  مگر رکھتی ہے


No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...