Popular Posts

Saturday, September 26, 2020

پیراگراف نمبر6 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 پیراگراف نمبر6

اقتباس:
پاکستان قائم کرنے کا فیصلہ ہندوؤں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: نظریۂ پاکستان
مصنف کا نام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
           صنف:  مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
ناگوار ۔۔۔۔۔ ناپسند۔
پُر خلوص ۔۔۔۔۔ مخلص۔
عمل پیہم ۔۔۔۔۔ مسلسل عمل۔
شان دار ۔۔۔۔۔ شان و شوکت والا۔
اکثریت ۔۔۔۔۔ کثیر تعداد میں، تعداد میں زیادہ ہونا۔
معرض وجود ۔۔۔۔۔ قائم ہونا،بننا۔
قیام ۔۔۔۔۔ وجود میں آنا۔ قائم ہونا۔
پیش نظر۔۔۔۔۔ نظر کے سامنے۔
کوشش ۔۔۔۔۔ جدوجہد، سعی۔
حق ۔۔۔۔۔ سچ۔
مبنی ۔۔۔۔۔ مشتمل
سیاق و سباق:
                تشریح طلب اقتباس درسی سبق " نظریہ پاکستان " کے آخری حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مسلمانوں نے جس نظریۂ پاکستان کے تحت الگ وطن حاصل کرنے کا فیصلہ کیا وہ اصل میں نظریۂ اسلام ہی تھا۔ہندوؤں کو مسلمانوں کا یہ فیصلہ ناگوار گزرا اور انھوں مسلمانوں کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کی۔ چونکہ نظریۂ پاکستان کا مقصد ایک اسلامی، فلاحی اور مثالی مملکت قائم کرنا تھا۔ اس لیے اب ہمیں اپنے اس مقصد کو یاد رکھتے ہوئے پاکستان کے استحکام کےلیے کام کرنا ہے۔
         تشریح:
             ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
            تشریح طلب اقتباس میں مصنف پاکستان کے قیام کے حوالے سے مسلمانوں کی جدوجہد اور ہندوؤں کے تعصب اور تنگ نظری کو اجاگر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے رنگ و نسل اور چھوت چھات کے تعصبات سے پاک ایک الگ ملک پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا اور اس کےلیے اپنی جدوجہد بھی تیز کردی تو مسلمانوں کا یہ فیصلہ متعصب اور تنگ نظر ہندوؤں کو بالکل بھی پسند نہ آیا اور انھوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زرور لگانا شروع کر دیا۔ وہ دولت اور افرادی قوت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ جیساکہ مہاتما گاندھی کہتا تھا؛
" ہندوستان ہماری ماتا ہے اور ہم اپنی ماتا کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے"۔
                 قیامِ پاکستان کا مطالبہ برصغیر کے مسلمانوں کا حق  اور انصاف پر مبنی مطالبہ تھا کیونکہ وہ کسی طور انگریزوں اور ان  ہندوؤں کی غلامی برداشت نہیں کرسکتے تھے جن کا رویہ اپنے سے نیچ ہندوؤں کے ساتھ بھی مناسب نہیں تھا۔ فتح ہمیشہ حق اور سچ کی ہوتی ہے اور باطل نے ایک نہ ایک دن مٹنا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ فرماتے ہیں؛
" اور کہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل نے تو مٹنا ہی تھا"۔( اِلاسراء) ۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز قیادت میں ہندوؤں کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ قائد اعظمؒ  نے اپنی بےلوث خدمات کے ذریعے منتشر مسلمانوں کی قیادت سنبھالی، انھیں ہمت دی اور انھیں اتحاد و یکجہتی ، یقین اور جہد مسلسل کے ذریعے آگے بڑھایا۔ مجدد الف ثانیؒ کا قول ہے ؛
" جدوجہد کے بغیر غلامی سے چھٹکارا پانا ناممکن ہوتا ہے"۔
اور بقول اقبال؛
   ؎  یقیں   محکم،   عمل پیہم،   محبت فاتحِ عالم
      جہاد زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں
                   چناں چہ مسلمانوں کی قائداعظمؒ کی قیادت میں شبانہ روز جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانوی حکومت نے 23 جون 1947ء کو برصغیرکی تقسیم کا اعلان کیا اور بالآخر مسلمانوں کی جدوجہد رنگ لائی اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آگیااور ہندو اپنی مسلم دشمنی میں تو آگے رہے مگر مسلمانوں کو اپنے مشن میں کامیابی سےنہ روک سکے۔ بقول اقبالؒ
     ؎    نشاں یہی ہے  زمانے  میں زندہ قوموں کا 
           کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں



No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...