Popular Posts

Thursday, September 17, 2020

پیراگراف1 تشریح سبق نظریہ پاکستان


 سبق:  نظریہ پاکستان

پیراگراف نمبر1
اقتباس: 
مسلمانوں نے ہمیشہ رواداری کو اپنا شیوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نئے سرے سے فروغ دیا۔
حوالہ متن: 
سبق کا عنوان:  نظریہ پاکستان
مصنف کانام: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان
          صنف:  مضمون
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
 رواداری ۔۔۔۔۔ تحمل مزاجی، برداشت۔
 شیوہ ۔۔۔۔۔ طریقہ، ڈھنگ، شعار۔
کفر و الحاد ۔۔۔۔۔ بے دینی۔
بےجا ۔۔۔۔۔غلط، ناجائز، حدسے بڑھ کر۔
کافرانہ ۔۔۔۔۔ بےدینی پر مشتمل ،مشرکانہ۔
رائج ۔۔۔۔۔۔ نفاذ ہونا۔
سربلندی ۔۔۔۔۔۔ کامیابی۔
محض ۔۔۔۔۔۔ صرف۔
قید و بند ۔۔۔۔۔۔ قید کی صعوبت ، حراست میں رکھنا۔
سیاق و سباق:
                      تشریح طلب اقتباس  درسی سبق" نظریۂ پاکستان" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی بےجا  رواداری کی وجہ سے ہندوؤں اور انگریزوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کی قوت کو کمزور کیا۔اورنگ زیب کے بیٹوں کے باہمی تنازعوں سے مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ مرہٹوں اور ہندوؤں نے سر اٹھانا اور انگریزوں نے قدم جمانا شروع کر دیا۔
تشریح:
             ڈاکٹر غلام مصطفی اردو ادب کے نامور مضمون نگار ہیں۔تنقید و تحقیق میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ عام قارئین کےلیے  ان کا طرز تحریر انتہائی سادہ اور عام فہم ہوتا ہے۔ درسی سبق" نظریۂ پاکستان  ان کا ایک ایسا مضمون ہے جس میں وہ بڑے سیدھے سادھے الفاظ میں برصغیر میں مسلمانوں کے ابتدائی حالات اور ان کی پاکستان بننے تک کی جدوجہد کو اجاگر کرتے ہیں۔
                            تشریح طلب اقتباس میں مصنف برصغیر کے مسلمانوں کے طرز معاشرت سے آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو مسلمانوں کو غیرمسلموں سے غیرمتعصبانہ رویہ قائم رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلموں سے اچھا رویہ رکھا اور ان سے حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔  تحمل اور بردباری کو اپنی عادت بنائے رکھا۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے؛
"بےشک خدا تمھیں عدل و احسان کرنے کا حکم دیتا ہے"۔
لیکن جب کبھی بےدین اور مشرک قوتوں نے مسلمانوں کے اس حسنِ سلوک  سے ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں اور دینِ اسلام کو نقصان پہنچانے کی سوچ لے کر انھیں اپنا غلام بنانے کی جدوجہد کی تو مسلمان پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ بقول اقبال؛
      ؎   آئینِ جواں مردی ، حق گوئی و بےباکی
             اللہ  کے  شیروں  کو  آتی نہیں روباہی
                        تیسرے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے دورِ حکومت میں ہندوؤں کو بےجا نوازنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ ہندوؤں کو خوش کرنے کےلیے نیا دین تک گھڑ لیا جس سے ملکی سیاست اور دیگر معاملات میں ہندوؤں کی دخل اندازی بڑھ گئی اور ملک میں ہندوؤں کے طور طریقے اس قدر رائج ہوگئے کہ مسلمانوں کی دینی معاملات میں آزادی ختم ہو کر رہ گئی۔ بقول اقبال
  ؎  بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
       مجھے   بتا  تو  سہی   اور   کافری  کیا  ہے
              ان حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے آخری دور میں برصغیر کے مسلمان، نقشبندی سلسلے کے عظیم بزرگ رہنما شیخ احمد سرہندی المعروف  مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور مجدد الف ثانیؒ نے اسلام کی سربلندی کےلیے سرتوڑ جدوجہد شروع کر دی۔
             اکبر بادشاہ کے بعد جب اس کے بیٹے نورالدین جہانگیر نے اقتدار سنبھالا تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس کے دور میں بھی احیائے اسلام کےلیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اس جدوجہد کے نتیجے میں انھیں قید میں بھی رکھا گیا مگر انھوں نے اس کی پروا کیے بغیر اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیمات کو از سرِ نو زندہ کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ بقول شاعر؛
    ؎   گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
          وہ  ہند  میں   سرمایۂ  ملت   کا   نگہباں 


No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...