سبق: مرزا محمد سعید
پیراگراف نمبر10
اقتباس:
مرزا صاحب گھنٹوں مطالعہ کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خریدنے پر صرف کر دیتے تھے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
صنف: خاکہ نگاری
ماخذ: گنجینۂ گوہر
خط کشیدہ الفاظ کے معانی؛
مطالعہ کرنا ۔۔۔۔۔۔ پڑھنا۔ کتب خانہ ۔۔۔۔۔۔ لائبریری۔
ملازمت ۔۔۔۔۔۔۔ نوکری۔ درس و تدریس ۔۔۔۔۔۔ پڑھانا ،سبق دینا، معلم ہونا۔
پنشن ۔۔۔۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی ماہوار رقم۔
مشغلہ ۔۔۔۔۔۔ شغل، مصروفیت۔ شغل ۔۔۔۔۔۔ مشغلہ، شوق۔
صرف کرنا ۔۔۔۔۔۔ خرچ کرنا۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " مرزا محمد سعید " کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا محمد سعید نے ایک جلسے میں پرانی تہذیبوں کی تاریخ کا ایسا سیلاب امڈ کر رکھ دیا کہ آپ کے جلال کو ختم کرنے کےلیے چائے کا سامان رکھوایا گیا۔ علم کا وسیع سمندر ہونے کے باوجود مرزا صاحب نے بڑی سیدھی سادی زندگی گزاری اور کبھی ٹھاٹ باٹ سے نہ رہے۔ ہمیشہ پیدل چلا کرتے تھے۔
تشریح:
شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ وہ زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔وہ موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار بھی تھے۔ مرزا محمد سعید کا شمار ان کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ اپنے استاد محترم کی زندگی کا خاکہ انھوں نے درسی سبق " مرزا محمد سعید" میں بیان کیا جو کہ ان کی کتاب گنجینۂ گوہر سے اخذ کیا گیا ہے۔اس سبق میں وہ مرزا محمد سعید کی شخصیت اور ان کے علمی مرتبے کو نہایت عمدگی سے بیان کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا محمد سعید کے علم و عمل کےحوالے سے بیان کرتا ہے کہ وہ بہت بڑے عالم فاضل اور صاحبِ کمال انسان تھے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ تر علمی کاموں میں مصروف رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ کئی کئی گھنٹے کتب خانے میں کتابیں پڑھنے میں گزار دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مطالعۂ کتب سے ہی علم کی پیاس بجھائی جاسکتی ہے اور علم کی روشنی کو دل و دماغ میں سمویا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ایک قول ہے؛
" ایک شہسوار علم کےلیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقا کےلیے دانہ اور پانی"۔
مرزا صاحب کی غیر معمولی قابلیت ان کے وسیع تر مطالعہ کی وجہ سے ہی تھی۔ ان کا اپنا کتب خانہ موجود تھا اور اس کتب خانے میں مذہب، فنون لطیفہ، سیاست، سائنس، اردو اور انگریزی ادب سمیت ہر موضوع اور ہر شعبہ زندگی سے وابستہ کتابیں موجود تھیں جن کا وہ مطالعہ کرتے تھے۔ ان کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ معلم کے شعبہ سے تعلق رکھتے تھے اور اس شعبے سے بہترین انصاف یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے کیونکہ ایک معلم کےلیے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی کےلیے مختلف موضوعات پر گرفت ہونا بےحد ضروری ہے۔
مطالعۂ کتب کے حوالے سے مرزا صاحب کا موقف بڑا واضح تھا کہ اگر میں اتنا زیادہ کتابیں نہ پڑھوں تو ان انگریز پروفیسروں کے آگے علمی میدان میں کیسے ٹھہر سکوں گا جو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کمال مہارت رکھتے تھے۔ ان ہم عصر پروفیسروں میں اپنے آپ کو منوانا اتنا آسان کام نہیں تھا مگر مرزا صاحب نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر دکھایا۔ملازمت سے فراغت اور چھٹکارا پانے کے بعد بھی مرزا صاحب نے کتابوں کے مطالعے کا اپنا شوق ختم نہ ہونے دیا بلکہ کتابوں سے اتنا جڑے رہے کہ وہ پنشن کی مد میں ملنے والی رقم بھی کتابوں کی خریداری میں خرچ کر دیتے تھے کیونکہ بقول شاعر؛
؎ سُرورِ علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر
یا
؎ ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں
No comments:
Post a Comment