Popular Posts

Thursday, September 19, 2019

جماعت نہم اردو سبق لہو اور قالین تشریح پیراگراف نمبر1

سبق " لہو اور قالین"
پیراگراف نمبر1

اقتباس:
سردار تجمل حسین کی کوٹھی"النشاط".............. مصوری کا دوسرا سامان ۔

حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: لہو اور قالین
مصنف کانام: میرزا ادیب
صنف: ڈرامہ
ماخذ: لہو اور قالین

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 کوٹھی......بنگلہ
نشاط........خوشی،
مسرت
وسیع........کشادہ
اسٹوڈیو......وہ کمرہ جہاں فلم یا تصویر سازی ہو۔
اعلی.......عمدہ، شاندار
آراستہ......مزین، سجا ہوا
شاہکار....... عمدہ کارنامے
مجلد........ جلد کیاگیا
کارنیس.........منڈیر،طاق
تپائی......... چھوٹی میز
مزین.......سجا ہوا، آراستہ
گل دان......وہ گملا جس میں پھول رکھے ہوں۔
وسط.....درمیان، مرکز
ایزل...... سٹینڈ، فریم
کینوس....... وہ کپڑا یا کاغذ جس پر تصاویر بنائی جاتی ہیں۔

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین" کا ابتدائی پیراگراف ہے۔اس سبق میں مصنف تجمل حسین کی کوٹھی " النشاط" کے ایک کمرے کا منظر بیان کرتے ہیں جس میں غریب اور گمنام مصور اختر تصاویر بناتا تھا۔

تشریح:
میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے ممتاز ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے ڈراموں میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے۔" لہو اور قالین" ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریا کاری جیسے قبیح عوامل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
        تشریح طلب اقتباس میں مصنف سردار تجمل حسین کی کوٹھی کا منظر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی کوٹھی کانام " النشاط" ہےاور اس کے ایک وسیع و عریض کمرے کو مصور اختر استعمال کرتا ہے۔ اختر اس کمرے میں تصویر سازی کرتا رہتا ہے۔
       یہ کمرہ  اعلی اور عمدہ فرنیچر سے سجا ہوا ہے جس کے فرش پر قالین بچھا ہوا ہے اور اس کمرے کی دیواروں پر مشہور تصویر سازوں کی بنائی ہوئی عمدہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔کمرے کے ایک طرف سننے کےلیے ریڈیو اور اس کا ساز وسامان رکھا گیا ہے اور اس سے کچھ فاصلے پر صوفے، گدے اور کرسیاں بچھائی گئی ہیں۔کمرے کی شمالی دیوار کے ساتھ دو الماریاں لگی ہوئی ہیں جس میں جلد شدہ کتابیں رکھی گئی ہیں۔
      کمرے کی دیوار کی منڈیر اور کمرے میں رکھی ہوئی چھوٹی میزوں پر گلدان رکھے گئے ہیں جو تازہ پھولوں سے سجے ہوئے ہیں۔کمرے کے دروازوں اور کھڑکیوں پر ریشم کے نرم و ملائم پردے لگائے گئے ہیں جبکہ اس کے مرکز میں ایک بڑے فریم یا سٹینڈ پر تصویر سازی کےلیے  نقاشی والا کپڑا لگایا گیا ہے جو ابھی صاف شفاف تھا اور اس پر کوئی تصویر نہیں بنائی گئی تھی۔
       غرض کوٹھی اور اس کے وسیع کمرے میں اختر کو ضرورت کی ہر چیز مہیا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
بقول شاعر
میسر تھی ہر ضرورت زندگی جس میں
وہ کوٹھی کسی امیر شہر کی تھی۔

جماعت نہم اردو سبق آرام و سکون تشریح پیراگراف نمبر1

سبق: آرام و سکون
صرف ایک ہی اہم پیراگراف۔

اقتباس:
بیسیوں مرتبہ کہ چکی ہوں..............کام بےطرح زوروں پر ہے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: آرام و سکون
مصنف کا نام: سید امتیاز علی تاج
صنف: ڈرامہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 بیسیوں مرتبہ.......متعددبار۔کئ بار
نصیب دشمناں.........دشمنوں کو نصیب ہو۔ خدانخواستہ
خاک.......مٹی
بےطرح.......بے ہنگم، بہت زیادہ
زوروں پر.........عروج پر

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق " آرام و سکون " کے ابتدائی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔اس میں مصنف کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب میاں اشفاق کا معائنہ کرتے ہیں اور اس کی بیوی کو بتاتے ہیں کہ آپ کے شوہر کو صرف تکان کی وجہ سے حرارت ہے اور غالبا یہ کام زیادہ کرتے ہیں اس لیے انھیں آرام کی ضرورت ہے۔اس کی بیوی کہتی ہے ڈاکٹر صاحب یہ میری بات نہیں سنتے آپ ہی انھیں سمجھائیے کہ یہ زیادہ کام نہ کیا کریں۔

تشریح:
سید امتیاز علی تاج کا شمار اردو کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی تحریر سادہ اور بےتکلف ہوتی ہے۔" آرام و سکون" ان کا تحریر کردہ ایسا ہی ڈرامہ ہے جس میں تکلف کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس میں انھوں نے سیدھے سادھے مکالموں سے مزاح پیدا کیا ہے۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف آرام و سکون کی اہمیت بیان اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر نے میاں کی خرابی حالت کا سبب تھکان کو ٹھہرایا تو بیوی نے ڈاکٹر کے سامنے اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے کہا کہ میاں میری کوئی بات سنتے اور سمجھتے ہی نہیں۔ میں انھیں ایک نہیں بلکہ متعدد بار سمجھا چکی ہوں کہ آپ اپنی مصروفیت کم کر دیں اور زیادہ کام نہ کیا کریں۔ اگر آپ اسی طرح زیادہ کام میں مصروف رہیں گے تو خدانخواستہ صحت جیسی انمول نعمت سے محرومی ہو جائے گی۔ایک مقولہ ہے

"دولت کمانے کےلیے انسان اپنی صحت کھو دیتا ہے اور پھر صحت کو پانے کےلیے دولت کھوتا ہے".

بیوی ڈاکٹر صاحب کو مزید احوال بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میاں بار بار سمجھانے کے باوجود بھی میری بات پر ذرا بھر بھی توجہ نہیں دیتے اور ہمیشہ یہ بات کہ کر مجھے ٹال دیتے ہیں کہ آج کل دفتر میں بہت زیادہ کام ہوتا ہے اس لیے آرام کےلیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
 بقول شاعر

کس نے پایا سکون دنیا میں
زندگانی   کا   سامنا   کرکے

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر15 اور آخری

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر15 اور آخری۔

اقتباس:
بھیا، جب سے تم نے میری پنچایت کی...........انصاف کے سوا کچھ نہیں سوجھتا

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
 مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 دشمن.......مخالف
مسند.......عہدہ،ذمہ داری
سوجھنا........ سمجھ آنا، ترکیب آنا
چال.........مکروفریب، دغابازی

سیاق وسباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت"کا آخری پیراگراف ہے۔ اس میں مصنف کہتا ہے کہ جب شیخ جمن نے الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ کے تنازعہ کا منصفانہ فیصلہ سنایا تو اس کو یہ احساس ہوگیا کہ انصاف کی مسند پر صرف عدل و انصاف ہی سوجھتا ہے اور وہ الگو چودھری کے منصفانہ فیصلے پر خواہ مخواہ اس سے ناراض ہے۔جمن اس احساس کے ساتھ الگو کے گلے ملتا ہے اور اپنی رنجش دور کر لیتا ہے۔
 
تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔اس کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب ہوتی ہے۔ " پنچایت" بھی اس کا ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت اور ضرورت بھی واضح کرتا ہے۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ جب جمن شیخ نے الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ کے درمیان بیل کی خرید و فروخت کا معاملہ انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر حل کیا تو اس کے دل میں انصاف کی اہمیت اجاگر ہوئی اور اسے الگو کے اس فیصلے پر خفا ہونے پر بھی ندامت ہوئی تو وہ ایک گھنٹے کے بعد الگو چودھری کے پاس آیا اور اس کے گلے لگ کر کہنے لگا کہ بھائی جب سے تم نے میرے اور میری خالہ کے درمیان تنازعہ کا فیصلہ کیا ہے تب سے میں دل سے تمھارا دشمن بنا ہوا تھا۔ حسد اور انتقام کی آگ مجھے چین نہیں لینے دیتی تھی مگر آج مجھے سبق مل گیا ہے کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن بلکہ انصاف کرنے والے کو انصاف کرنے کے علاؤہ کچھ نہیں سوجھتا۔
       یہ کہ کر جمن نے الگو کو اپنے سینے سے لگا لیا اس طرح ان دونوں کی دوستی کا مرجھایا ہوا درخت جمن کے احساس کے بعد دوبارہ ہرابھرا ہوگیا۔
 بقول شاعر
دوست، دوست نہیں دل کی دعا ہوتا ہے
محسوس تب ہوتا ہے جب وہ دل سے جدا ہوتا ہے

جماعت نہم اردو سبق پنچایت پیراگراف نمبر14

سبق : پنچایت
پیراگراف 14

اقتباس شیخ جمن کو اپنی عظیم الشان ذمہ داری.............غور سے سنا اور تب فیصلہ سنایا۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کانام :منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
عظیم الشان........ شاندار، بڑے مرتبے والی
احساس...... لحاظ
مسند......عہدہ،کرسی،تخت
مطلق.......... بالکل، قطعی
حق اور راستی.........سچ اور انصاف
جو بھر ٹلنا........ رتی برابر پھرنا، معمولی سا  پھرنا
سیاہ........تاریک

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" پنچایت" سے اخذ کیا گیا ہے۔اس  سبق میں مصنف بتاتے ہیں کہ الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ کے درمیان بیل کی فروخت کا تنازعہ جب پنچایت میں لایا گیا تو پنچایت کے سرپنچ جمن شیخ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ انصاف کا حکم اللہ کا حکم ہے اس لیے اس نے مکمل عدل و انصاف سے ذمہ داری نبھانی ہے۔چناں چہ اس نے انصاف کے مطابق فیصلہ الگوکے حق میں کردیا۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب ہوتی ہے۔" پنچایت " اس کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت بھی اجاگر کرتا ہے۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن شیخ کے الگوچودھری اور سمجھو سیٹھ کے درمیان ثالثی کے فیصلے کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب الگو اور سمجھو سیٹھ کے درمیان بیل کی فروخت کا معاملہ جمن کے سامنے آیا تو جمن کے دل میں اس بات کا احساس جاگ اٹھا کہ اس کو انصاف کی جو اعلی ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ  انصاف کرنے کا حکم اوپر والے رب کا حکم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

" جب تم دو گروہوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ کیا کرو".

چناں چہ حکم خداوندی میں میری نیت اور خواہش کو بالکل بھی دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر میں نے حق اور انصاف کے راستے کوذرا بھر بھی پس پشت ڈال دیا تو دین اور دنیا دونوں میں رسوائی کے علاؤہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
"اپنی خواہش کے پیچھے نہ چلوبلکہ عدل کرو، اگر تم نے ہیر پھیر کی یا منھ پھیرا تو اللہ تمھارے کاموں سے باخبر ہے"

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر 13

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر13

اقتباس:
ایک بار وہ بھی بگڑے اور سیٹھ جی..............آپس میں سرپھٹول سے کام نہ چلے گا

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
بگڑے....... خفا ہوئے
گرم ہونا.......تپنا، غصے ہونا
جذبے کے مارے....... جوش میں آکر
مباحثہ......... بحث و تکرار
مجادلہ......... لڑائی جھگڑا
نوبت........مرحلہ، وقت، حالت
کواڑ....... دروازے
معزز.......عزت دار،قابل احترام
فریق........جزو، حصہ دار
دلاسا.......حوصلہ
صلاح.......مشورہ
سرپھٹول........سر پھاڑنا، لڑائی جھگڑا کرنا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس میں مصنف کہتے ہیں کہ الگو چودھری نے اپنا بیل سمجھو سیٹھ کو ایک ماہ کے ادھار پر دیا۔ سمجھو سیٹھ نے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔جب الگو چودھری نے سمجھو سیٹھ سے رقم کا تقاضا کیا تو وہ بگڑ گیا اور رقم دینے سے انکار کردیا۔ اس دوران الگو اور سمجھو میں ہاتھا پائی ہوگئی۔ گاؤں کے معززین نے ان کو سمجھاتے ہوئے پنچایت میں اپنا تصفیہ کرانے کا مشورہ دیا۔جسے دونوں نے تسلیم کرلیا۔
 
تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب نظر آتی ہے۔ " پنچایت "ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف کی ضرورت اور اہمیت بھی بیان کرتے ہیں۔
          تشریح طلب اقتباس میں مصنف الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ کے تنازعہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ الگو چودھری نے سمجھو سیٹھ کو اپنا بیل ایک ماہ کے ادھار پر بیچ دیا۔ سمجھو سیٹھ نے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔الگو چودھری کی طرف سے بیل کی رقم ڈیڑھ سو روپے رقم طلب کیے جانے پر سمجھو سیٹھ نے رقم دینے سے انکار کر دیا اس پر الگو غصے ہوگیا اور سمجھو سیٹھ سے تلخ کلامی کرنے لگا جس پر سمجھو سیٹھ بھی تپ اٹھا اور دونوں ایک دوسرے پر خوب بگڑے۔ سیٹھانی جی یعنی سمجھو سیٹھ کی بیوی  جوش اور جذبات میں آکر گھر سے باہر نکل آئی ۔الگو اور سمجھو کے درمیان خوب بحث و تکرار ہوئی اور آپس میں خوب سوال و جواب بھی ہوئے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ کر لڑائی جھگڑے تک پہنچ گیا تو سیٹھ جی غصے میں آکر کر اپنے گھر میں گھس گئے اور گھر کے دروازے بند کردیے۔
حدیث مبارکہ ہے۔
"  جب دوبھائیوں میں جھگڑا ہو تو ان میں صلح کرا دیا کرو."
اسی صلح کےلیے گاؤں کے بہت سے معزز اور قابل احترام لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور انھوں نے الگو چودھری کو سمجھایا اور سمجھو سیٹھ کو گھر سے نکال کر تسلی دی کہ اس طرح بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے سے کام بننے کی بجائے مزید بگڑے گا اور دلی نفرت بڑھ جائے گی جس سے سب کےلیے مشکلات میں اضافی ہوگا۔
 بقول شاعر

بگڑنے سے تمھارے کیا کہوں کیا بگڑتا ہے
کلیجا منھ کو آجاتاہے ہے،دل ایسا بگڑتا ہے۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت پیراگراف نمبر12

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر12

اقتباس:
اس فیصلے نے الگو اور جمن کی دوستی کی جڑیں ہلا دیں................ انتقام کی خواہش چین نہ لینے دیتی تھی۔

حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
جڑیں ہلانا........ بنیادیں ختم کرنا
تناور......... توانا، مضبوط
حق........سچ
جھونکا....... لہر
سہنا....... برداشت کرنا
تیر و سپر.......... تیر اور ڈھال
 غداری....... بغاوت

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت " کے درمیان میں سے اخذ کیا گیا ہے۔اس میں مصنف شیخ جمن اور اس کی خالہ کے درمیان نان نفقے کے حوالے سے پنچایت کے فیصلے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ الگو چودھری نے خالہ کے حق میں فیصلہ سنایا تو جمن فیصلہ سن کر الگوچودھری کا دشمن ہوگیا اور اسے نقصان پہنچانے کی سوچنے لگا۔اس دوران الگو کا بیل مرا تو اس نے جمن پر ہی شک کیا۔

تشریح:
منشی پریم چند اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں نیکی اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب نظر آتی ہے۔ " پنچایت بھی ان کا ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن اور اس کی خالہ کے نان نفقے کے حوالے سے ہونے والی پنچایت کے فیصلے کے بارے میں بتاتا ہے کہ جمن کے دوست الگو چودھری نے جمن اور اس کی خالہ کی تمام تر گفتگو سننے کے بعد انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر خالہ کے حق میں فیصلہ سنایا کہ جمن کےلیے ضروری ہے کہ وہ خالہ کے نان نفقے کو پورا کرے یا  خالہ کی جائیداد واپس کرے۔
              پنچایت کے اس فیصلے نے الگو چودھری اور جمن شیخ کی دوستی کی بنیادیں ہلا دیں۔ اپنے خلاف فیصلہ سن کر جمن الگو چودھری کا مخالف بن گیا۔

" تنازعات اور ان کے فیصلے نہ صرف انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ دوستی کی بنیادیں تک ہلا دیتے ہیں".

اس لیے جمن اور الگو کے درمیان گہری دوستی کا مضبوط درخت بھی سچ اور انصاف کا ایک جھونکا بھی برداشت نہ کرسکا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے ضرور تھے لیکن ان کی آپس میں بنتی نہیں تھی۔ جس طرح میدان جنگ میں تیر اور ڈھال ایک دوسرے کی مخالفت میں کام آتے ہیں  اسی طرح وہ بھی ایک دوسرے کے مخالف ہوگئے اور ایک دوسرے سے دشمنوں کی طرح ملتے تھے۔
          جمن سمجھتا تھا کہ الگو نے اس کے خلاف فیصلہ دے کر اس کے ساتھ غداری کی ہے۔ وہ ہرصورت الگو سے اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا کیونکہ بدلے کی آگ اسے آرام سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی اور وہ الگو کو ہرصورت نقصان پہنچانے کے درپے ہوچکا تھا۔
بقول شاعر
عجب جنون ہے یہ انتقام کا جذبہ
شکست کھاکے وہ پانی میں زہر ڈال آیا۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت پیراگراف نمبر11

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر11

اقتباس:
جرح ختم ہونے کے بعد الگو نے فیصلہ سنایا..............ہبہ نامہ منسوخ ہو جائے گا۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 جرح........ زخم،گھاؤ، سچائی معلوم کرنے کےلیے پوچھے گئےسخت سوالات
لہجہ.......طرز گفتگو
سنگین.......سخت
تحکمانہ........ حکم دینے کے انداز میں
معاملہ.......مسئلہ
زیادتی....... قصور،ناجائزی
سراسر....... مکمل،ساری کی ساری
معقول....... مناسب
نفع........فائدہ
بندوبست........ انتظام
ماہوار... .... مہینے بھر کا۔
ہبہ نامہ........وہ دستاویز جس پر کوئی چیز عطا کرنے کا اقرار لکھا جائے۔
منسوخ ........ملتوی، ختم ہونا
سناٹے میں آنا.........دنگ رہ جانا، حیرت زدہ ہونا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت" کے درمیان میں سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ جب جمن کی خالہ نے اپنے مسئلے کے حل کےلیے جمن کے خلاف پنچایت بلائی تو اس کا سرپنچ الگو چودھری کو بنایا گیا جو جمن کا گہرا دوست تھا۔اس نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کےلیے جمن سے حقائق معلوم کرنے کےلیے سوالات کیے اور آخر میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جس میں جمن کےلیے دو راستے رکھے گئے کہ یا تو وہ خالہ کی وعدے کے مطابق دیکھ بھال کرے یا ہبہ نامہ منسوخ کرائے۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔اس کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب نظر آتی ہے۔ " پنچایت " اس کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی ضرورت اور اہمیت بھی واضح کرتا ہے۔
     تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ پنچایت کے سرپنچ الگو چودھری نے اپنے دوست جمن سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے اور حقائق پرکھنے کےلیے تیز و تند سوالات کیے۔ جس سے شیخ جمن پریشان ہوگیا۔تمام تر صورتحال کو سمجھنے کے بعد الگو چودھری نے جمن اور اس کی خالہ کے درمیان تنازعہ کا فیصلہ سنایا۔ فیصلہ سنانے کے دوران  الگو چودھری کا لب و لہجہ اور انداز گفتگو بہت سخت تھا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ فیصلہ نہیں سنا رہا  ہو بلکہ حکم جاری کر رہا ہو۔
       الگوچودھری نے جمن کو مخاطب کرتے ہوئے فیصلہ جاری کیا کہ ہم پنچایت والوں نے سارے معاملے پر مکمل غور و فکر سے کام لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ساری کی ساری غلطی تمھاری ہے۔ تم نے خالہ جان سے ناجائزی کی ہے۔تمھیں کھیتوں سے اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا ہے اس لیے تمھارے اوپر لازم ہے کہ تم خالہ جان کے ماہانہ اخراجات کا انتظام کرو۔ اس کے علاؤہ تمھارے پاس کوئی دوسری راہ نہیں۔اگر تم ہمارے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے اور خالہ کے ماہوار اخراجات پورے کرنے سے انکار کرتے ہو تو وہ اقرار نامہ جس کے تحت خالہ جان کی  ملکیت تمھارے نام ہوگئی تھی منسوخ کر دیا جائے گا اور خالہ کی ملکیت اسے واپس  دلا دی جائے گی۔
         جمن یہ فیصلہ سن کر ہکابکا رہ گیا۔ وہ مایوسی کے عالم میں ٹوٹے دل کے ساتھ کہنے لگا کہ آج کل زمانے میں یہی دوستی ہے کہ جو آپ پر بھروسا کرے اس کی مخالفت پر اتر آؤ اور اس کی گردن پر بھری پھیر کراسے تباہ و برباد کر دو۔
 بقول شاعر
 دل ابھی پوری طرح ٹوٹا نہیں
دوستوں کی مہربانی چاہیے

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر10

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر10

اقتباس:
الگو کو آئے دن عدالت سے واسطہ رہتا تھا............اچھی دوستی نباہی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف : افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
واسطہ........تعلق
قانونی.......قانون کا علم جاننے والا۔
جرح......... حقائق معلوم کرنے کےلیے سوال جواب کرنا۔
ضرب.......ٹھوکر
حیرت........حیرانی
کایا پلٹ ہونا....... تبدیلی آنا، قسمت بدلنا
جڑ کھودنا....... بنیادیں ہلانا
آمادہ......تیار
نباہنا........تعلق جوڑے رکھنا

سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ جب جمن کی خالہ نے اپنے مسئلے کے حل کے لیے پنچایت بلائی تو پنچایت کا سرپنچ جمن کے گہرے دوست الگو چودھری کو بنایا گیا۔الگو نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کےلیے جمن سے سوال جواب کیے اور انصاف کے تمام تر اصولوں کو مدنظر رکھ کر جمن کے خلاف فیصلہ سنایا جس پر جمن خفا ہوگیا۔
 تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب رہتی ہے۔" پنچایت" ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف خالہ کی طرف سے جمن کے خلاف بلائی گئی پنچایت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب پنچایت کا سرپنچ جمن کے دوست الگو چودھری کو بنایا گیا تو اس نے ہرصورت انصاف کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
         الگو چودھری قانونی تقاضوں سے اچھی طرح واقف تھا کیونکہ اسے آئے روز مختلف معاملات کے سلسلے میں عدالت جانا پڑتا تھا اس لیے وہ اچھی طرح سمجھتا تھا کہ عدالتی معاملات کیسے ہوتے ہیں اور انصاف کے تقاضےکیا ہوتے ہیں۔ اس لیے اس نے جمن سے حقائق معلوم کرنے کےلیے سوال جواب شروع کر دیے جن کا سامنا کرنےکےلیے جمن بالکل بھی تیار نہ تھا اور نہ ہی اسے الگو سے اس طرح کی امید تھی بلکہ اسے یقین تھا کہ کوئی اس کی مخالفت مول لے کر انصاف کرنے کی کوشش نہ کرے گا۔مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔
           الگو چودھری کے پوچھے گئے تمام تر سوالات جمن پر کاری ضرب لگانے لگے اور وہ بالکل حیران تھا کہ الگو پنچایت سے پہلے تو اس کے ساتھ بیٹھا اچھی اچھی اور خوش گوار باتیں کر رہا تھا اور کہیں سے ایسا دکھائی نہ دیتا تھا کہ وہ جلد اس کی مخالفت پر اتر آئے گا۔
       جمن کے بقول  الگو کے رویے میں اچانک تبدیلی آئی اور وہ اس کی بنیادیں تک ہلانے پر تیار ہوگیا تھا اور گہری دوستی کی لاج نہ رکھتے ہوئے مخالفت پر اتر آیا تھا۔ کیا اچھی دوستی کے یہی تقاضے ہوتے ہیں اور دوستی ایسے نباہی جاتی ہے کہ دوست دشمن سے بھی گیا گزرا ثابت ہو۔

بقول شاعر

تیرے قریب آکر بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ دوستوں میں ہوں۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر9

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر9

اقتباس:
پنچو، آج تین سال ہوئے..............کس سے اپنا دکھ درد روؤں۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
جائیداد......ملکیت، مال اسباب
تاحین حیات........ زندگی بھر، عمر بھر
وعدہ.........عہد و پیمان
رو دھو کر........روپیٹ کر، مشکل کے ساتھ
سہنا....... برداشت کرنا
بےکس......... لاچار،مجبور
آہ لینا......... بددعا لینا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے گئے افسانے " پنچایت" سے لیا گیا ہے۔ اس میں مصنف جہاں شیخ جمن اور الگو چودھری کے یارانے کے بارے میں بتاتے ہیں وہیں جمن اور اس کی خالہ کے درمیان جائیداد اور نان نفقے کے حوالے سے ہونے والے تنازعہ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں جس کے حل کےلیے خالہ نے پنچایت بلا لی اور جمن کے دوست الگو چودھری کو پنچایت کا سرپنچ بنا کر اپنے حالات اس کے سامنے بیان کیے۔

تشریح:
 منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب نظر آتی ہے۔ " پنچایت ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ گاؤں کی زندگی کے مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
      تشریح طلب اقتباس میں مصنف شیخ جمن اور اس کی بوڑھی خالہ کی باہمی تلخیاں اجاگر کرتا ہے جو ہبہ نامہ پر رجسٹری کے بعد سامنے آئی تھیں۔خالہ نے جمن سے اپنے الگ نان نفقے کا مطالبہ کیا جسے جمن نے پورا کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر بوڑھی خالہ نے پنچایت بلالی اور اپنا سارا مدعا پنچایت والوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ اے برادری والو! آپ سب جانتے ہیں کہ آج سے تین سال پہلے میں نے اپنی ملکیت اپنے بھانجے جمن پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے نام لکھ دی تھی جس کے بدلے میں جمن نے مجھے تمام عمر روٹی کپڑا دینے کا عہد کیا تھا۔ مگر ہبہ نامہ پر رجسٹری کے بعد اس نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے مجھے یکسر نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔
             میں نے کچھ عرصہ تو اس کے ساتھ دکھ، تکلیف اور مشکل میں گزارا مگر اب مجھ میں اتنی ہمت اور طاقت نہیں کہ مزید دن رات مصیبت میں گزاروں۔انصاف کےلیے جمن پر مقدمہ کرکے تھانے کچہری کے  چکر لگانا میرے بس کی بات نہیں ہے کہ بڑھاپے میں دھکے نہیں کھائے جاتے اس لیے اب تم لوگوں کے سوا کون ہے جس کے سامنے میں اپنا دکھ درد بیان کروں اور انصاف کی امید رکھوں۔
بقول شاعر

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں

مجھے آپ کے پاس آنے کے علاؤہ اور کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اس لیے مجبور ہوکر آپ سب کو زحمت دی ہے۔ آپ میرے ساتھ انصاف کریں۔ آپ جو فیصلہ کردیں گے وہ مجھے منظور ہوگا۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر8

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر8

اقتباس:
بوڑھی خالہ نے اپنی دانست میں.........لاٹھی پٹک دی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
دانست...... سمجھ،آگاہی،خیال
گریہ و زاری........رونا پیٹنا، آہ و بکا
کسر اٹھا نہ رکھنا........ کوئی کمی باقی نہ رکھنا۔
خوبی تقدیر........ خوش قسمتی،قسمت کی اچھائی
مائل....... راغب، متوجہ
ٹال دینا....... ٹرخانا
زخم پر نمک چھڑکنا.......زخم تازہ کرنا، تکلیف بڑھانا۔
گھوم گھوم کر........ چل پھر کر۔
پٹکنا....... پھینکنا، اچھالنا


سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف جہاں جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی کے بارے میں بتاتے ہیں وہیں جمن اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کے درمیان ملکیت اور نان نفقے کے متعلق ہونے والے تنازعہ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں کہ جب جمن نے جائیداد ہتھیا لینے کے بعد خالہ کی خاطر داری کم کر دی تو خالہ نے پنچایت بلانے کا اعلان کر دیا اور اس مقصد کےلیے اس نے پورے گاؤں کے چکر لگانا شروع کر دیے اور جمن کے دوست الگو سے بھی پنچایت میں آنے کی درخواست کی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات ک باوجود برائی پر غالب ہوتی نظر آتی ہے۔ " پنچایت " بھی ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت بھی واضح کرتے ہیں۔
     تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن کی خالہ کی زبوں حالی کا احوال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب جمن نے اپنی خالہ سے جائیداد ہتھیا لی اور اس کی خاطر تواضع میں بھی کمی کردی تو خالہ نے اپنے مسئلے کے حل کےلیے پنچایت بلانے کی دھمکی دی تو جمن خالہ کی اس دھمکی سے بالکل بھی مرعوب نہ ہوا کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس سے بگاڑ کے ڈر سے کوئی  بھی خالہ کی بات نہیں سنے گا۔مگر خالہ نے گاؤں کے چکر لگانا شروع کر دیے اور اس نے اپنی سمجھ بوجھ اور فہم و فراست کے مطابق ہر کسی کے آگے گڑگڑا کر اپنا موقف پیش کیا اور پنچایت میں آکر اس کا معاملہ حل کرانے کی درخواست کی مگر جمن کی خوش قسمتی اور خالہ کی بدقسمتی دیکھیے کہ کوئی بھی خالہ کی باتوں کو سننے پر آمادہ نہ تھا۔سب خالہ کی باتوں کو عدم دلچسپی سے سنتے اور اسے ہاں ناں کرکے ٹالنے کی کوشش کرتے کیونکہ جمن سے کوئی شخص بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ان لوگوں میں سے چند ایک تو خالہ کے زخم مزید ہرے کر دیتے اور اسے طعنے دے کر مزید تکلیف پہنچاتے کہ جب سب کچھ جمن کے نام کیا تھا تب انھیں بلایا تھا جو اب مدد کو پکارتی ہو۔
بقول شاعر
 یہ مطلب کی دنیا ہے، جہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے ہیں تب لوگ،جب ہوتا ہے برباد کوئی

       غرض ہر طرف سے پھر پھرا کر اور لوگوں کی جلی کٹی اور ٹال مٹول سن کر بڑھیا خالہ جمن کے گہرے دوست الگو چودھری کے پاس آئی اور اپنی لاٹھی نیچے پھینک کر کچھ لمحے سستانے کے بعد اسے بھی پنچایت میں آنے اور حق سچ کی بات کا ساتھ  دینے کا کہا۔چونکہ بڑھیا خالہ اپنے دکھ درد کا مداوا سب لوگوں کو اکٹھا کرکے پنچایت کے ذریعے چاہتی تھی اس لیے وہ اس مقصد کےلیے پورے گاؤں میں ہر ایک کے پاس گئی اور آخر میں اس حوالے سے الگو چودھری سے بھی مدد مانگی۔
 بقول شاعر

آخر کوئی کنارہ اس سیل بےکراں کا
آخر کوئی مداوا اس درد زندگی کا۔

Wednesday, September 18, 2019

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر7

سبق : پنچایت
پیراگراف نمبر7

اقتباس:
اس کے بعد کئی دن تک بوڑھی خالہ لکڑی لیے...............وہ کسی کے سامنے فریاد کرنے نہیں گئے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان:پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
کمان......... تیر چلانے کا مڑا ہوا آلہ۔
تصفیہ....... حل، فیصلہ
طاقت......زور، قوت
رسوخ.....رسائی، پہنچ
منطق.....عقلی دلیل، جواز
کامل..... مکمل،پورا
اعتماد....... بھروسا
فریاد..... شکوہ شکایت

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔اس سبق میں مصنف جہاں جمن شیخ اور الگو چودھری کی گہری دوستی کے بارے میں بتاتے ہیں وہیں جمن شیخ اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کے تنازعہ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں کہ جمن نے سبز باغ دکھا کر خالہ کی ملکیت ہتھیا لی اور خالہ کی دیکھ بھال بھی بند کر دی جس پر خالہ نے پنچایت بلانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں وہ لکڑی کے سہارے چل کر ہر ایک کے پاس گئی اور آخر میں الگو چودھری کے پاس پہنچی جو جمن کا گہرا دوست تھا۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب رہتی ہے۔ " پنچایت" ان کا ایک ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی اور عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
    تشریح طلب اقتباس میں  مصنف شیخ جمن اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کی باہمی تلخیاں اجاگر کرتا ہے جو ہبہ نامہ پر رجسٹری کے بعد سامنے آئی تھیں۔خالہ نے جب جمن سے اپنے الگ نان نفقے کا مطالبہ کیا تو جمن نے اسے بالکل نظرانداز کردیا جس پر بوڑھی خالہ نے پنچایت بلا کر اپنے مسئلے کا تصفیہ کرانے کی کوشش شروع کر دی اور وہ اس مقصد کےلیے  لاٹھی کے سہارے چلتے ہوئے کئی کئی دن  گاؤں کے ارد گرد چکر لگاتی رہی۔بڑھاپے کی وجہ سے اس کی کمر مکمل جھک گئی تھی اور اس کےلیے جھکی کمر کے ساتھ چلنا دوبھر ہوچکا تھا مگر وہ کیا کرتی کہ اس پر مصیبت آ پڑی تھی جس کا فیصلہ ہونا بےحد ضروری ہوچکا تھا۔
        اس کے برعکس شیخ جمن کو بوڑھی خالہ اور اس کی طرف سے بلائی جانے والی پنچایت کی کوئی فکر نہ تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ اپنی قوت،لوگوں کے ساتھ تعلقات اور اپنی حکمت عملی کو بروئے کار لا کر سب کو اپنا ہم نوا بنا لے گا۔اسے اپنے پختہ دلائل پر بھی مکمل بھروسا تھا۔

"انسان کی قوت،اس کا اثرورسوخ اور منطقی دلائل ایسی چیزیں ہیں جو اسے دوسروں کے آگے جھکنے اور شکست تسلیم نہیں کرنے دیتی".

اس لیے جمن نے بھی اپنی ان قوتوں پر بھروسا  رکھتے ہوئے کسی کے سامنے التجا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ اسے یقین تھا کہ وہ لوگوں کو قائل کرلے گا اور کوئی اس معاملے میں اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر6

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر6

اقتباس:
پنچایت کی صدا کس کے حق میں اٹھے گی............ آسمان سے فرشتے تو پنچایت کرنے آئیں گے نہیں۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف جہاں شیخ جمن اور الگو چودھری کی دوستی کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں وہیں جمن اور اس کی خالہ کی جائیداد کے حوالے سے تنازع کے متعلق آگاہ کرتے ہیں کہ جب خالہ نے جمن کو پنچایت کی دھمکی دی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ کرلو پنچایت، گاؤں میں کون ہے جو میرے خلاف فیصلہ دے گا۔ جمن کے اس بیان کے باوجود خالہ نے پنچایت کےلیے گاؤں کے چکر لگانا شروع کر دیے اور ہر ایک سے ملنے لگی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب نظر آتی ہے۔ " پنچایت" ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ  عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
    تشریح طلب اقتباس میں مصنف شیخ جمن اور اس کی بیوی خالہ کی باہمی تلخیاں اجاگر کرتا ہے جو ہبہ نامہ پر رجسٹری کے بعد سامنے آئی تھیں۔ خالہ نے جمن سے اپنے الگ نان نفقے کا مطالبہ کیا جسے جمن نے مکمل طور پر نظرانداز کردیا۔اس پر خالہ نے جمن کو پنچایت کی دھمکی دی تو جمن نے بھی خالہ پر واضح کردیا کہ وہ بھی دن رات کے وبال اور پریشانی سے تنگ آچکا ہے اس لیے پنچایت میں فیصلہ ہو جانا چاہیے۔
      جمن خالہ کے پنچایت بلانے کے فیصلے پر بہت خوش تھا اور اسے پنچایت کے فیصلے کے حوالے سے کوئی خوف اور فکر لاحق نہ تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ گردونواح میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس پر جمن کا کوئی نہ کوئی احسان نہ ہو اور وہ جمن کا احسان مند نہ ہو۔

" احسان مندی اور ممنونیت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو اپنے محسن کے آگے جھکائے رکھتی ہے."

اس وجہ سے جمن کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ اس کے احسان تلے دبا کوئی بھی شخص اس کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے اور نہ ہی اس کے مدمقابل کھڑا ہونے کی ہمت اور جرات کرسکتا ہے باقی آسمان سے فرشتے اتر کر اور برادری میں آ کر فیصلہ تو نہیں کریں گے۔
  چناں چہ جمن کو مکمل بھروسا تھا کہ گاؤں کے لوگ اس کی مخالفت کی بجائے اس کا ساتھ دیں گے اور بڑھیا خالہ کی فریاد کوئی نہیں سنے گا۔

بقول شاعر

یہ مطلب کی دنیاہے،یہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے  ہیں  تب لوگ،جب  ہوتا  ہے  برباد  کوئی

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر5

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر5

اقتباس:
خالہ جان اپنے مرنے کی بات نہیں سن سکتی تھی.............دن رات کا وبال پسند نہیں۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 جامے سے باہر ہونا....... آپے سے باہر ہونا، سخت غصے ہونا

پنچایت......ثالثوں کی مجلس
فاتحانہ.........فتح کے ساتھ، جیت والی
لب...........ہونٹ
وبال.......عذاب، مصیبت،تکلیف
دھمکی.......دھونس دینا، ڈرانا
 سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف جہاں جمن شیخ اور الگو چودھری کی گہری دوستی کے بارے آگاہ کرتا ہے تو وہیں جمن اور اس کی خالہ کے باہمی تنازع سے بھی روشناس کراتا ہے کہ جب جمن نے سبز باغ دکھا کر اپنی خالہ سے جائیداد ہتھیا لی اور اس کی خاطر داری بھی کرنا چھوڑ دی تو خالہ نے اسے پنچایت بلانے کی دھمکی دی تو اس نے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے کہا کہ کرلو پنچایت کہ فیصلہ ہو جائے۔ جمن کو پتا تھا کہ گاؤں میں سب اس کے مرہون منت ہیں اور کوئی خالہ کی بات نہ سنے گا مگر خالہ نے پنچایت کےلیے ہر ایک کے پاس جانا شروع کر دیا۔
 تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ  نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانے اصلاحی ہوتے ہیں جن میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب ہوتی نظر آتی ہے۔ " پنچایت بھی ان کا ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل کے بارے میں اور عدل و انصاف کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن شیخ ، اس کی بیوی اور خالہ کی باہمی تلخیاں اجاگر کرتا ہے جو ہبہ نامہ پر رجسٹری کے بعد سامنے آئی تھیں۔خالہ نے جب جمن سے اپنے الگ نان نفقے کا مطالبہ  کیا تو جمن نے خفا ہوکر کہا کہ ہمیں تھوڑی پتا تھا کہ تم خواجہ خضر کی حیات لے کر آئی ہو اور مرنے کا نام نہیں لیتی۔
              خالہ جان اپنے مرنے کی بات سن کر خفا ہوگئی اور غصے میں آکر پنچایت کی دھمکی دے دی اور کہا اب برادری ہی فیصلہ کرے گی۔ خالہ جان کی دھمکی کا جمن پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا اس لیے وہ  ہنسنے لگا۔اس کی ہنسی سے واضح دکھائی دے رہا تھا کہ پنچایت میں اس کی جیت ہوگی اور بوڑھی خالہ کی فریاد کوئی نہیں سنے گا۔

بقول شاعر

یہ مطلب کی دنیا ہے، یہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے ہیں تب لوگ،جب ہوتا ہے برباد کوئی۔

جمن کی پنچایت کے معاملے میں خوشی دیدنی تھی اور وہ ایسے خوش تھا جیسے ہرن کو جال کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر شکاری کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔
              اسی خوشی اور مسرت کے احساس کے ساتھ جمن نے خالہ پر واضح کردیا کہ تم ضرور برادری کے پاس جاؤ اور پنچایت بلاؤ کہ اب فیصلہ ہو جانا چاہیے کیونکہ میں بھی دن رات کی تمھاری پیدا کردا پریشانی اور مصیبت سے تنگ آگیا ہوں۔ فیصلہ ہو جائے گا تو میری بھی جان چھوٹے گی۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر4

سبق:پنچایت
پیراگراف نمبر4

اقتباس:
کچھ دنوں تک خالہ جان نے اور دیکھا...........میں الگ پکالوں گی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
برداشت........ ضبط
شکایت.........گلہ شکوہ
صلح پسند.........امن پسند، مصلحت پسند
مداخلت.........دخل اندازی، رکاوٹ
معاملہ........ مسئلہ
مناسب.......اچھا،بہتر
رو دھو کر........ واویلاکرکے، رو پیٹ کر
نباہ......... گزارا، گزران، بسراوقات

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔اس سبق میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کی گہری دوستی کے بارے میں بتاتا ہے اور ساتھ میں شیخ جمن اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کے بارے میں بھی بتاتا ہے کہ جمن نے خالہ سے وعدے وعید کرکے جائیداد ہتھیا لی اور پھر خالہ سے بے اعتنائی برتنا شروع کردی۔جس سے تنگ آکر خالہ نے انصاف کےلیے پنچایت بلا لی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں نیکی ہمیشہ برائی پر غالب رہی ہے۔" پنچایت " بھی ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی اور عدل وانصاف کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن اور اس کی خالہ کے درمیان ان تلخ حالات کو بیان کر رہا ہے جو خالہ کی ملکیت جمن کے نام منتقل ہونے کے بعد پیش آئے کہ جمن نے جائیداد اپنے نام کراتے ہی خالہ کی طرف سے منھ پھیر لیا اور خالہ کی خاطر داری کرنا بھی چھوڑ دی اور اس کی بیوی خالہ کو روٹیوں کے مقابلے میں کم سالن دیتی تھی۔ان تمام تر ناگوار حالات کو خالہ نے کچھ دن تو برداشت کیا مگر پھر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے دل برداشتہ ہوکر جمن سے اس کی بے اعتنائی کی شکایت کی۔
       جمن فطری طور پر امن پسند آدمی تھا اور وہ لڑائی جھگڑے سے گریز کرتا تھا اس لیے اس نے اس معاملے کی طرف توجہ نہ دی کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ اس کی دخل اندازی سے اس کی بیوی اور خالہ کے درمیان جھگڑا ہوگا۔
               خالہ جی نے مزید کچھ دن اسی طرح شکوے شکایت کرتے گزار لیے مگر جب سب کچھ خالہ کی برداشت سے باہر ہوا تو اس نے جمن پر واضح کر دیا کہ بیٹا اب میرا تمھارے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا۔ تم مجھے الگ رقم دے دیا کرو تاکہ میں اپنا الگ کھانے پینے کا بندوبست کرلیا کروں۔
مگر جمن اپنا مطلب نکالنے کے بعد خالہ کی کوئی بات ماننے کو تیار نہ تھا۔

بقول شاعر

یہ مطلب کی دنیا ہے، یہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے ہیں تب لوگ، جب ہوتا ہے برباد کوئی

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر3

سبق : پنچایت
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
شیخ جمن کی ایک بوڑھی بیوہ خالہ تھیں................. سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کردی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 بیوہ............جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو، رانڈ
ملکیت.........جائیداد، مال اسباب
وارث....... مالک
وعدے وعید........ عہد معاہدے
سبز باغ دکھانا......... دھوکا دینا
ہبہ نامہ ......... اقرار نامہ، وہ دستاویز جس پر کوئی چیز عطا کرنے کا اقرار لکھا ہوتا ہے۔
رجسٹری........ قانونی اندراج،
خاطر داریاں.......... خاطر تواضع، خدمت گزاری۔
لقمے..... نوالے
چٹ پٹے........ مزے دار
پگڑی کی مہر ہونا........ وراثت منتقل ہونا،
مہر ہونا....... ٹھپا لگنا، بند ہو جانا
رفتہ رفتہ...... آہستہ آہستہ۔
سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت " کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی اور جمن شیخ کے اپنی خالہ کے ساتھ جائیداد کے تنازعے کے متعلق بتاتے ہیں کہ جب جمن نے اپنی خالہ سے جائیداد ہتھیانے کے بعد اس کی خاطر داری کرنا بند کر دی تو خالہ نے اپنے مسئلے کے حل کےلیے پنچایت بلا لی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اپنے افسانے " پنچایت میں انھوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل ،وہاں کی دوستیوں کے رنگ ڈھنگ اور عدل و انصاف کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف شیخ جمن اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کے باہمی تعلقات اور ان کے باہمی رویوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شیخ جمن کی ایک بوڑھی خالہ تھی جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا اور اس کی کوئی اولاد بھی نہ تھی جس کی وجہ سے اب اس کا کوئی ولی وارث نہ تھا۔اس کے پاس کچھ جائیدادتھی۔ جمن کی نیت میں فتور آیا تو اس نے خالہ سے عہد معاہدے کرکے، اسے  سنہرے خواب دکھا کر اور دھوکا دہی سے وہ جائیداد اپنے نام کرالی۔
          خالہ نے اقرار نامہ تو لکھ دیا مگر جب تک اس اقرار نامہ کی قانونی طور پر رجسٹری نہ ہوئی تھی تب تک جمن شیخ خالہ جی کی خوب خاطر مدارت کرتا رہا اور اسے میٹھے میٹھے، چٹ پٹے اور ذائقے دار کھانے کھلائے مگر جوں ہی  ہبہ نامہ پر رجسٹری ہوئی اور جائیداد جمن کی خالہ سے جمن کی طرف منتقل ہوگئی اور جمن کا مطلب پوراہوگیا تو خالہ جی کی ہونے والی خدمت اورخاطرمدارت بھی ختم ہوگئ۔

"مطلب پرستی انسان کی انسانیت کو اس طرح کھاتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے."
چناں چہ مطلب پورا ہونے کے بعد جمن کی بیوی بی فہیمن نے خالہ کی دیکھ بھال کرنا چھوڑ دی اور اس نے روٹیوں کے مقابلے میں بہت کم سالن خالہ کو دینا شروع کر دیا اور خالہ کی پروا کرنا بالکل چھوڑ دی۔

بقول شاعر

یہ مطلب کی دنیا ہے،یہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے ہیں تب لوگ،جب ہوتا ہے برباد کوئی۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر2

سبق : پنچایت
پیراگراف نمبر2

اقتباس:
وہ کہا کرتے تھے کہ استاد کی دعا چاہیے...................
بےدریغ استعمال کرتے تھے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
 
فیض..........فائدہ، بھلائی
تسکین......... راحت،تسلی
تحصیل علم........ علم حاصل کرنا
دقیقہ........ معمولی بات
فروگزاشت........ بھول چوک، کمی بیشی
دقیقہ فروگزاشت کرنا۔............ معمولی سی کمی چھوٹا۔
تقدیر۔........ قسمت، نصیب
تازیانہ.........کوڑا، چابک
قائل...........ماننا، تسلیم کرنا
بےدریغ.......... کثرت سے، بہت زیادہ۔

 سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے گئے سبق " پنچایت" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔
اس سبق میں مصنف شیخ جمن اور الگو چودھری کی دوستی کے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی دوستی اس وقت سے تھی جب وہ شیخ جمعراتی سے علم حاصل کرتے تھے۔ان کی دوستی انصاف کی ہوا کا ایک جھونکا نہ سہ سکی اور دشمنی میں بدل گئی مگر آخر میں جمن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ان کی دشمنی دوبارہ دوستی میں بدل گئی۔

تشریح:
منشی پریم
چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سبق" پنچایت" ان کا ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل،وہاں کی دوستی اور عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی اس زمانے سے تھی جب وہ جمن کے والد محترم شیخ جمعراتی کے پاس ادب و احترام کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔الگو کے والد کہا کرتے تھے کہ تعلیم کا حصول اور اس میں کامیابی استاد کی دعا کے بغیر ناممکن ہوتی ہے اس لیے استاد کی خدمت کرکے دعا لینی چاہیے کیونکہ جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ استاد کی خدمت اور ان کی دعا اور برکت سے حاصل ہوتا ہے۔

 بقول شاعر

ادب تعلیم کا جوہر ہے،زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
اس لیے تعلیم کے حصول کےلیے محنت کے ساتھ ساتھ استاد کی خدمت اور ان کی دعاؤں کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔
        اس کے برعکس بدقسمتی سے الگو چودھری پر استاد کی محبت اور اس کے فیض یا دعاؤں کا کچھ بھی اثر نہ ہوا مگر وہ پھر بھی اس پر افسردہ نہ تھا بلکہ اسے تسلی تھی کہ اس نے علم کے حصول کےلیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

" انسان اپنی تدبیر سے اپنا کام بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہوتا وہ ہے جو مشیت الٰہی چاہتی ہے"۔

اس لیے الگو کا بھی یہی خیال تھا کہ اس نے حصول علم کےلیے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی مگر تعلیم اس کے مقدر میں ہی نہ لکھی تھی۔
               ان سب باتوں کے برعکس شیخ جمن اور الگو چودھری کے استاد محترم شیخ جمعراتی ایک روایتی استاد کی طرح دعا اور فیض کی بجائے سزا پر یقین رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے

" لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے"

اس لیے وہ جمن پر کوڑوں کا استعمال کرتے اور اسے شدید مارتے تھے اور اس سے باز پرس کرتے تھے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ گردونواح کے علاقوں میں آج بھی جمن سے اس حوالے سے پوچھ گچھ ہوتی تھی۔

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر1

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر1:
اقتباس:
جمن شیخ اور الگو چودھری میں بڑا یارانہ تھا..................
زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
یارانہ..........دوستی
ساجھا........ مشترک
لین دین.......کاروباری معاملات، حساب کتاب
کامل......... مکمل
سونپنا........ ذمہ لگانا، حوالے کرنا
پدر بزرگوار........ والد محترم
روبرو......... سامنے
زانوئے ادب تہ کرنا.........گھٹنوں کے بل ادب سے بیٹھنا

سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے گئے سبق " پنچایت" کا ابتدائی نثرپارہ ہے۔اس سبق میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی کے متعلق بتاتے ہیں جو انصاف کی ہوا کا ایک جھونکا نہ سہہ سکا اور ان کی دوستی دشمنی میں بدل گئی مگر آخرکار جمن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کی دشمنی دوستی میں بدل گئی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو ادب کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ " پنچایت" ان کا تحریر کردہ ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی، وہاں کی دوستی اور عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
          تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کے تعلقات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کی آپس میں گہری اور قابل رشک دوستی تھی۔اس وجہ سے ان کا لین دین اور حساب کتاب بھی مشترکہ تھا اور وہ ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔

" زندگی میں رشتے تو ملا ہی کرتے ہیں مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں زندگی ملا کرتی ہے،وہ رشتہ دوستی کا رشتہ ہے".
اگر اس رشتے میں اعتماد نہ ٹوٹے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے اور اسی اعتماد کا ہی نتیجہ ہے کہ جمن شیخ اور الگو چودھری ایک دوسرے پر وارے جاتے تھے اور اسی بھروسے اور گہری دوستی کی بدولت ہی جمن نے حج پر جاتے وقت اپنا گھر الگو چودھری کے حوالے کر دیا کہ وہ اس کا خیال رکھیں گے ۔اسی طرح اسی اعتماد کی بدولت الگو جب باہر جاتے تو جمن  کو اپنے گھر کی ذمہ داری  سونپ دیتے تھے۔اس طرح دونوں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دے رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی دوستی کو چار چاند لگے ہوئے تھے اور گاؤں میں لوگ ان کی سچی اور گہری دوستی کی مثالیں دیتے تھے۔ان کی خلوص بھری دوستی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب دونوں بچپن میں  جمن کے والد محترم شیخ جمعراتی کے پاس پڑھتے تھے اور ان کے آگے وہ عزت اور احترام سے پیش آتے تھے اور باادب شاگرد ہونے کا ثبوت دیتے تھے کیونکہ بقول شاعر

ادب تعلیم کا جوہر ہے،زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
چناں چہ انھیں دنوں سے ان کی دوستی پروان چڑھی اور وہ مسلسل اسے نبھا رہے تھے۔

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...