Popular Posts

Thursday, September 19, 2019

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر 13

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر13

اقتباس:
ایک بار وہ بھی بگڑے اور سیٹھ جی..............آپس میں سرپھٹول سے کام نہ چلے گا

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
بگڑے....... خفا ہوئے
گرم ہونا.......تپنا، غصے ہونا
جذبے کے مارے....... جوش میں آکر
مباحثہ......... بحث و تکرار
مجادلہ......... لڑائی جھگڑا
نوبت........مرحلہ، وقت، حالت
کواڑ....... دروازے
معزز.......عزت دار،قابل احترام
فریق........جزو، حصہ دار
دلاسا.......حوصلہ
صلاح.......مشورہ
سرپھٹول........سر پھاڑنا، لڑائی جھگڑا کرنا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس میں مصنف کہتے ہیں کہ الگو چودھری نے اپنا بیل سمجھو سیٹھ کو ایک ماہ کے ادھار پر دیا۔ سمجھو سیٹھ نے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔جب الگو چودھری نے سمجھو سیٹھ سے رقم کا تقاضا کیا تو وہ بگڑ گیا اور رقم دینے سے انکار کردیا۔ اس دوران الگو اور سمجھو میں ہاتھا پائی ہوگئی۔ گاؤں کے معززین نے ان کو سمجھاتے ہوئے پنچایت میں اپنا تصفیہ کرانے کا مشورہ دیا۔جسے دونوں نے تسلیم کرلیا۔
 
تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات کے باوجود برائی پر غالب نظر آتی ہے۔ " پنچایت "ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف کی ضرورت اور اہمیت بھی بیان کرتے ہیں۔
          تشریح طلب اقتباس میں مصنف الگو چودھری اور سمجھو سیٹھ کے تنازعہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ الگو چودھری نے سمجھو سیٹھ کو اپنا بیل ایک ماہ کے ادھار پر بیچ دیا۔ سمجھو سیٹھ نے بیل کو دوڑا دوڑا کر مار ڈالا۔الگو چودھری کی طرف سے بیل کی رقم ڈیڑھ سو روپے رقم طلب کیے جانے پر سمجھو سیٹھ نے رقم دینے سے انکار کر دیا اس پر الگو غصے ہوگیا اور سمجھو سیٹھ سے تلخ کلامی کرنے لگا جس پر سمجھو سیٹھ بھی تپ اٹھا اور دونوں ایک دوسرے پر خوب بگڑے۔ سیٹھانی جی یعنی سمجھو سیٹھ کی بیوی  جوش اور جذبات میں آکر گھر سے باہر نکل آئی ۔الگو اور سمجھو کے درمیان خوب بحث و تکرار ہوئی اور آپس میں خوب سوال و جواب بھی ہوئے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ کر لڑائی جھگڑے تک پہنچ گیا تو سیٹھ جی غصے میں آکر کر اپنے گھر میں گھس گئے اور گھر کے دروازے بند کردیے۔
حدیث مبارکہ ہے۔
"  جب دوبھائیوں میں جھگڑا ہو تو ان میں صلح کرا دیا کرو."
اسی صلح کےلیے گاؤں کے بہت سے معزز اور قابل احترام لوگ وہاں اکٹھے ہوگئے اور انھوں نے الگو چودھری کو سمجھایا اور سمجھو سیٹھ کو گھر سے نکال کر تسلی دی کہ اس طرح بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے سے کام بننے کی بجائے مزید بگڑے گا اور دلی نفرت بڑھ جائے گی جس سے سب کےلیے مشکلات میں اضافی ہوگا۔
 بقول شاعر

بگڑنے سے تمھارے کیا کہوں کیا بگڑتا ہے
کلیجا منھ کو آجاتاہے ہے،دل ایسا بگڑتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...