Popular Posts

Wednesday, September 18, 2019

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر2

سبق : پنچایت
پیراگراف نمبر2

اقتباس:
وہ کہا کرتے تھے کہ استاد کی دعا چاہیے...................
بےدریغ استعمال کرتے تھے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
 
فیض..........فائدہ، بھلائی
تسکین......... راحت،تسلی
تحصیل علم........ علم حاصل کرنا
دقیقہ........ معمولی بات
فروگزاشت........ بھول چوک، کمی بیشی
دقیقہ فروگزاشت کرنا۔............ معمولی سی کمی چھوٹا۔
تقدیر۔........ قسمت، نصیب
تازیانہ.........کوڑا، چابک
قائل...........ماننا، تسلیم کرنا
بےدریغ.......... کثرت سے، بہت زیادہ۔

 سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے گئے سبق " پنچایت" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔
اس سبق میں مصنف شیخ جمن اور الگو چودھری کی دوستی کے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی دوستی اس وقت سے تھی جب وہ شیخ جمعراتی سے علم حاصل کرتے تھے۔ان کی دوستی انصاف کی ہوا کا ایک جھونکا نہ سہ سکی اور دشمنی میں بدل گئی مگر آخر میں جمن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ان کی دشمنی دوبارہ دوستی میں بدل گئی۔

تشریح:
منشی پریم
چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سبق" پنچایت" ان کا ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل،وہاں کی دوستی اور عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
       تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی اس زمانے سے تھی جب وہ جمن کے والد محترم شیخ جمعراتی کے پاس ادب و احترام کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے۔الگو کے والد کہا کرتے تھے کہ تعلیم کا حصول اور اس میں کامیابی استاد کی دعا کے بغیر ناممکن ہوتی ہے اس لیے استاد کی خدمت کرکے دعا لینی چاہیے کیونکہ جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ استاد کی خدمت اور ان کی دعا اور برکت سے حاصل ہوتا ہے۔

 بقول شاعر

ادب تعلیم کا جوہر ہے،زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
اس لیے تعلیم کے حصول کےلیے محنت کے ساتھ ساتھ استاد کی خدمت اور ان کی دعاؤں کا ساتھ ہونا ضروری ہے۔
        اس کے برعکس بدقسمتی سے الگو چودھری پر استاد کی محبت اور اس کے فیض یا دعاؤں کا کچھ بھی اثر نہ ہوا مگر وہ پھر بھی اس پر افسردہ نہ تھا بلکہ اسے تسلی تھی کہ اس نے علم کے حصول کےلیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

" انسان اپنی تدبیر سے اپنا کام بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہوتا وہ ہے جو مشیت الٰہی چاہتی ہے"۔

اس لیے الگو کا بھی یہی خیال تھا کہ اس نے حصول علم کےلیے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی مگر تعلیم اس کے مقدر میں ہی نہ لکھی تھی۔
               ان سب باتوں کے برعکس شیخ جمن اور الگو چودھری کے استاد محترم شیخ جمعراتی ایک روایتی استاد کی طرح دعا اور فیض کی بجائے سزا پر یقین رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے

" لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے"

اس لیے وہ جمن پر کوڑوں کا استعمال کرتے اور اسے شدید مارتے تھے اور اس سے باز پرس کرتے تھے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ گردونواح کے علاقوں میں آج بھی جمن سے اس حوالے سے پوچھ گچھ ہوتی تھی۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...