Popular Posts

Wednesday, September 18, 2019

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر1

سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر1:
اقتباس:
جمن شیخ اور الگو چودھری میں بڑا یارانہ تھا..................
زانوئے ادب تہ کرتے تھے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
یارانہ..........دوستی
ساجھا........ مشترک
لین دین.......کاروباری معاملات، حساب کتاب
کامل......... مکمل
سونپنا........ ذمہ لگانا، حوالے کرنا
پدر بزرگوار........ والد محترم
روبرو......... سامنے
زانوئے ادب تہ کرنا.........گھٹنوں کے بل ادب سے بیٹھنا

سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے گئے سبق " پنچایت" کا ابتدائی نثرپارہ ہے۔اس سبق میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی کے متعلق بتاتے ہیں جو انصاف کی ہوا کا ایک جھونکا نہ سہہ سکا اور ان کی دوستی دشمنی میں بدل گئی مگر آخرکار جمن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور کی دشمنی دوستی میں بدل گئی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو ادب کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ " پنچایت" ان کا تحریر کردہ ایسا افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی، وہاں کی دوستی اور عدل و انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
          تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کے تعلقات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کی آپس میں گہری اور قابل رشک دوستی تھی۔اس وجہ سے ان کا لین دین اور حساب کتاب بھی مشترکہ تھا اور وہ ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔

" زندگی میں رشتے تو ملا ہی کرتے ہیں مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں زندگی ملا کرتی ہے،وہ رشتہ دوستی کا رشتہ ہے".
اگر اس رشتے میں اعتماد نہ ٹوٹے تو زندگی آسان ہو جاتی ہے اور اسی اعتماد کا ہی نتیجہ ہے کہ جمن شیخ اور الگو چودھری ایک دوسرے پر وارے جاتے تھے اور اسی بھروسے اور گہری دوستی کی بدولت ہی جمن نے حج پر جاتے وقت اپنا گھر الگو چودھری کے حوالے کر دیا کہ وہ اس کا خیال رکھیں گے ۔اسی طرح اسی اعتماد کی بدولت الگو جب باہر جاتے تو جمن  کو اپنے گھر کی ذمہ داری  سونپ دیتے تھے۔اس طرح دونوں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دے رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی دوستی کو چار چاند لگے ہوئے تھے اور گاؤں میں لوگ ان کی سچی اور گہری دوستی کی مثالیں دیتے تھے۔ان کی خلوص بھری دوستی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب دونوں بچپن میں  جمن کے والد محترم شیخ جمعراتی کے پاس پڑھتے تھے اور ان کے آگے وہ عزت اور احترام سے پیش آتے تھے اور باادب شاگرد ہونے کا ثبوت دیتے تھے کیونکہ بقول شاعر

ادب تعلیم کا جوہر ہے،زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
چناں چہ انھیں دنوں سے ان کی دوستی پروان چڑھی اور وہ مسلسل اسے نبھا رہے تھے۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...