سبق: پنچایت
پیراگراف نمبر8
اقتباس:
بوڑھی خالہ نے اپنی دانست میں.........لاٹھی پٹک دی۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کا نام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ
خط کشیدہ الفاظ کے معانی
دانست...... سمجھ،آگاہی،خیال
گریہ و زاری........رونا پیٹنا، آہ و بکا
کسر اٹھا نہ رکھنا........ کوئی کمی باقی نہ رکھنا۔
خوبی تقدیر........ خوش قسمتی،قسمت کی اچھائی
مائل....... راغب، متوجہ
ٹال دینا....... ٹرخانا
زخم پر نمک چھڑکنا.......زخم تازہ کرنا، تکلیف بڑھانا۔
گھوم گھوم کر........ چل پھر کر۔
پٹکنا....... پھینکنا، اچھالنا
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف جہاں جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی کے بارے میں بتاتے ہیں وہیں جمن اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کے درمیان ملکیت اور نان نفقے کے متعلق ہونے والے تنازعہ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں کہ جب جمن نے جائیداد ہتھیا لینے کے بعد خالہ کی خاطر داری کم کر دی تو خالہ نے پنچایت بلانے کا اعلان کر دیا اور اس مقصد کےلیے اس نے پورے گاؤں کے چکر لگانا شروع کر دیے اور جمن کے دوست الگو سے بھی پنچایت میں آنے کی درخواست کی۔
تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کے افسانوں میں نیکی تمام تر مشکلات ک باوجود برائی پر غالب ہوتی نظر آتی ہے۔ " پنچایت " بھی ان کا ایسا ہی افسانہ ہے جس میں وہ دیہاتی زندگی کے مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت بھی واضح کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف جمن کی خالہ کی زبوں حالی کا احوال بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب جمن نے اپنی خالہ سے جائیداد ہتھیا لی اور اس کی خاطر تواضع میں بھی کمی کردی تو خالہ نے اپنے مسئلے کے حل کےلیے پنچایت بلانے کی دھمکی دی تو جمن خالہ کی اس دھمکی سے بالکل بھی مرعوب نہ ہوا کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس سے بگاڑ کے ڈر سے کوئی بھی خالہ کی بات نہیں سنے گا۔مگر خالہ نے گاؤں کے چکر لگانا شروع کر دیے اور اس نے اپنی سمجھ بوجھ اور فہم و فراست کے مطابق ہر کسی کے آگے گڑگڑا کر اپنا موقف پیش کیا اور پنچایت میں آکر اس کا معاملہ حل کرانے کی درخواست کی مگر جمن کی خوش قسمتی اور خالہ کی بدقسمتی دیکھیے کہ کوئی بھی خالہ کی باتوں کو سننے پر آمادہ نہ تھا۔سب خالہ کی باتوں کو عدم دلچسپی سے سنتے اور اسے ہاں ناں کرکے ٹالنے کی کوشش کرتے کیونکہ جمن سے کوئی شخص بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ان لوگوں میں سے چند ایک تو خالہ کے زخم مزید ہرے کر دیتے اور اسے طعنے دے کر مزید تکلیف پہنچاتے کہ جب سب کچھ جمن کے نام کیا تھا تب انھیں بلایا تھا جو اب مدد کو پکارتی ہو۔
بقول شاعر
یہ مطلب کی دنیا ہے، جہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے ہیں تب لوگ،جب ہوتا ہے برباد کوئی
غرض ہر طرف سے پھر پھرا کر اور لوگوں کی جلی کٹی اور ٹال مٹول سن کر بڑھیا خالہ جمن کے گہرے دوست الگو چودھری کے پاس آئی اور اپنی لاٹھی نیچے پھینک کر کچھ لمحے سستانے کے بعد اسے بھی پنچایت میں آنے اور حق سچ کی بات کا ساتھ دینے کا کہا۔چونکہ بڑھیا خالہ اپنے دکھ درد کا مداوا سب لوگوں کو اکٹھا کرکے پنچایت کے ذریعے چاہتی تھی اس لیے وہ اس مقصد کےلیے پورے گاؤں میں ہر ایک کے پاس گئی اور آخر میں اس حوالے سے الگو چودھری سے بھی مدد مانگی۔
بقول شاعر
آخر کوئی کنارہ اس سیل بےکراں کا
آخر کوئی مداوا اس درد زندگی کا۔
No comments:
Post a Comment