Popular Posts

Saturday, March 30, 2019

نہم اردو.. ہجرت نبوی پیراگراف نمبر1 تشریح.

پیراگراف نمبر1

.اس وقت جبکہ دعوت حق........اپنے لئے حکم خدا کا منتظر تھا

حوالہ متن:
سبق کاعنوان:   ہجرت نبوی
مصنف کانام:  مولانا شبلی نعمانی
ماخذ:   سیرت النبی
صنف:   سیرت نگاری
 
خط کشیدہ الفاظ کے معانی.

دعوت حق: سچائی کی دعوت
حافظ عالم:دنیا جہان کی حفاظت کرنے والا,اللہ تعالی
دارالامان:پرامن گھر
وجود اقدس:حضور کی پاک ذات
ستم گار:ظلم ڈھانے والے.
.ہدف:نشانہ


سیاق وسباق:

 تشریح طلب اقتباس مولانا شبلی نعمانی کے تحریر کردہ سبق ہجرت نبوی کا ابتدائی پیراگراف ہے..اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ اہل قریش کو اسلام کی دعوت دی تو وہ آپ کے بدترین مخالف بن گئے اور آپ کو نقصان پہنچانے کےلیے آپ کے گھر کامحاصرہ کرلیا..مگر آپ اللہ تعالی کے حکم سے مدینہ پہنچ گئے اور آپ کا نعرہ تکبیر کی صداؤں سے استقبال کیا گیا ۔
تشریح:

مولانا شبلی نعمانی اردو ادب کے نامور مصنف اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے عالم تھے..انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کی حیات مبارک پر کتاب سیرت النبی لکھی جس میں سے سبق ہجرت نبوی  لیا گیا ہےجس میں مصنف نے آپ کی ہجرت کے حوالے سے وضاحت کی.
     تشریح طلب اقتباس میں مصنف لکھتے ہیں کہ جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کو سچے دین  کی طرف اعلانیہ بلانے  کا حکم دیا گیاتو آپ نے اہل قریش کوسچائی کے راستے کی طرف بلایا اور اسلام کی دعوت دی تو انھوں نے اس راستے کو اپنانے کی بجائے اس کی مخالفت میں تلواریں نکال لیں اور آپ کے بدترین دشمن بن گئے ..وہ مسلمانوں پر ظلم ستم ڈھانے لگے اور آپ کی راہ میں کانٹے بچھانے لگے.انھوں نے صحابہ کرام پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے اور حضوراکرم کو بہت زیادہ تنگ کیا..حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: 
" اللہ کی راہ میں جتنا میں ستایا گیا ہوں اتنا کوئی اور نہیں ستایا گیا"۔
 (احمد مسند)
اہل قریش کے ان مظالم کی شدت کے پیش نظر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو  مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا جوکہ مسلمانوں کےلیے امن کا گہوارہ سرزمین تھی اور وہاں کے لوگ سچے مذہب اسلام کی طرف راغب تھے..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے محافظ اور نگہبان اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل فرماتے ہوئے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات مبارکہ کےلیے اللہ تعالی کے حکم کے منتظر رہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام اللہ تعالی کی منشا کے بغیر نہیں فرماتے تھے..جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے
"  آپﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے ہیں 
(۔۔ جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے"( سورة النجم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ظالم قریش کا اصلی نشانہ تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کےلیے بھی اللہ تعالی کی طرف سے ہجرت کا حکم آگیا جس کی تکمیل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف جانے کا عزم فرما لیا.. 

Tuesday, March 26, 2019

اردو نہم گیس پیپر سالانہ امتحان 20-2019




اردو نہم... پرچہ میں پوچھے جانے والے اہم سوالات

اہم واحد جمع..
خلق ... اخلاق
عقل..عقول.
محنت ..محن
کبیر... کبار / کبائر.
سنت...سنن
حکم ..احکام
حاکم... حکام
خیمہ..خیام
ادب...آداب.
ادیب ...ادبا
تفسیر...تفاسیر
یتیم...یتامی..
فقیر...فقرا
غریب...غربا..
امیر...امرا
عمید...عمائد..
تلمیذ.. تلامیذ.
الم ...آلام

اہم مذکر مونث
زوجہ ...زوج.
نند...نندوئی.
گھسیارا...گھسیارن
نٹ...نٹنی.
تنبولی.. تنبولن..
بھائی ...بھاوج
بہن...بہنوئی..
بندر.... بندریا..
کتا....کتیا.
معلم...معلمہ

اہم مترادف
فراخ...کشادہ
ظلمت.. تیرگی
کشادہ....وسیع
عاقل...دانش مند
عسرت. ..تنگی

اہم متضاد.
طول...عرض
شریف...رذیل
قوت....ضعف.
قوی....ضعیف
باطن...ظاہر
معلم...متعلم
رغبت...نفرت

اہم ضرب الامثال.
کاٹھ کی ہنڈیا....
ماروں گھٹنا.....
عید پیچھے.....
بارہ برس دلی میں رہے.....
آسمان سے گرا....
خدمت سے.....
بھاگتے چور کی.....
گڑ سے مرے....
ناؤ کاغذ کی......
ہم بھی پانچوں.......
شیخی اور......
تین کانے
ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹتی ہے
اہم درخواستیں
ہیلتھ آفیسر..
پوسٹ ماسٹر
فوڈ کنٹرولر
ہیڈ ماسٹر والی تمام

اہم کہانیاں..
قوم کی خاطر ایثار..
اتفاق میں برکت
نااتفاقی کا انجام
جھوٹ کا انجام.
جس کا کام اسی کو ساجھے
دودھ کا دودھ..
عادت کی خرابی..
ایسے کو تیسا یا جیسس کرو گے ویسا بھروگے.

اسباق کے اندر سے پوچھے جانے والے سوالات اہم.
اردو کے پہلے ناول نگار...ڈپٹی نذیر احمد
خاندان مغلیہ کے آخری تاجدار.... بہادر شاہ ظفر.
طالب علم کتنی دیر میں کمرہ جماعت سے نکل آتا....آدھ گھنٹہ میں
رسالہ اسباب بغاوت ہند کس نے لکھا.  ... سرسید احمد خان نے
ڈاکٹر نے میاں کو تاکید کی..... خاموش لیٹے رہنے کی..
استعارہ کے لغوی معنی ...ادھار لینا
قاطع برہان کے مصنف... مرزا غالب
جمن کی بیوی کا نام...فہیمن..
مرزا پنشن کےلیے سفر کرتے... کلکتہ کا..
کس کی قسمیں نہیں... بھینس
غزل کے جس شعر میں شاعر تخلص استعمال کرے .... مقطع
برہمن کو کس بات کی حسرت تھی...بتوں سے باتوں کی
جرات سے ملنے کون آئے...انشا اللہ خان
اکثر کون گھبرایا کرتا ہے..مبتدی
میاں دفتر جایا کرتے...صبح دس بجے
مرزا ادیب کا اصل نام...دلاور علی.
الو کی کتنی قسمیں بیان کی گئی ہیں.... بیس سے زائد
مرزا سودا کا کلام ہے....واہ
تجمل کی کوٹھی کانام...النشاط
چوزے کی تخنی غذا ہے.... مقوی
لوگ غالب کو خط لکھتے.... بیرنگ
کوا گرامرمیں استعمال ہوتا ہے...مذکر
کس نے سودا کو میر پر ترجیح دی...ابراہیم ذوق
مدو جزر اسلام کس کی تصنیف ہے...الطاف حسین حالی.
علامہ اقبال..الطاف حسین حالی...سرسید احمد خان اور مرزا غالب کی دو دو تصانیف لکھیں..

خط..  چچا نے نام چچی کی بیمار پرسی..
اس کے علاوہ باقی نمبر وائز پہلے بتا چکا ہوں...
اہم مکالمے...استاد اور شاگرد.
دو دوستوں کا مکالمہ
سب سے اہم گاہک اور دکاندار کے درمیان ہے..

جماعت نہم اردو سبق" نصوح اور سلیم کی گفتگو" تشریح پیراگراف نمبر1

پیرا گراف نمبر1
 جناب کچھ عجب عادت ان لڑکوں کی ہے.........نہ کسی پر آوازہ کستے ہیں..

حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  نصوح اور سلیم کی گفتگو
مصنف کانام: ڈپٹی نذیر احمد
صنف: ناول
ماخد: توبہ النصوح

خط کشیدہ الفاظ کے معانی

 عجب.... انوکھی.عجیب
جان پہچان.... واقفیت
برس.... سال
کانوں کان خبر نہ ہونا..
معمولی سا پتا نہ لگنا
کوڑیوں.....بے وقعت پھرنے والے...
واسطہ.... تعلق
اوپر تلے... چھوٹے بڑے..یکے بعد دیگرے
آوازہ کسنا.... تنگ کرنا..مذاق اڑانا

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس ڈپٹی نذیر احمد کے تحریر کردہ ناول نصوح اور سلیم کی گفتگو  کے آخری حصے سے لیا گیا ہے. اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ نصوح نے خواب میں دل دہلا دینے والے آخرت کے مناظر دیکھے..بیداری پر اس نے گھر والوں کی اصلاح کی ٹھانی.اس نے اپنے بیٹے سلیم کو بلا کر اس سے مدرسے کے بارے اور کھیلوں سے عدم دلچسپی کے بارے میں پوچھا تو سلیم نے محلے میں رہنے والے چار لڑکوں کو کھیلوں سے عدم دلچسپی کی وجہ قرار دیا کہ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کا دل کھیلوں سے اچاٹ ہوگیا تھا...
 تشریح

:
ڈپٹی نذیر احمد کا شمار اردو کے ابتدائی ناول نگاروں میں ہوتا ہے.انھوں نے ہمیشہ اصلاحی ناول لکھے.." نصوح اور سلیم کی گفتگو" ان کا ایسا ہی اصلاحی ناول ہے جس میں وہ ایسے خاندان کے متعلق بتاتے ہیں جس کا سربراہ نصوح ہے جو اپنے گھر والوں کی دنیاوی اور اخروی لحاظ سے اصلاح کرنا چاہتا ہے.
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ سلیم اپنے والد نصوح کو محلے کے چار لڑکوں کے بارے میں بتاتا ہے جو نہایت عمدہ اوصاف کےمالک ہیں..یہ لڑکے کچھ عجیب عادات کے مالک ہیں.میں ان کے حسن اخلاق اور شریفانہ مزاج سے بےحد متاثر ہوا ہوں..میں حیران ہوں کہ جب وہ راستے میں سے گزرتے ہیں تو نہایت عاجزی اور انکساری سے گردنیں جھکا کر گزرتے ہیں اور اپنی نظریں بھی جھکا کر رکھتے ہیں..حیا اور اخلاق کا حسین مرقع ہیں .جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
" اے ایمان والو ! اپنی گردنیں نیچی رکھا کرو".
انھیں راستے میں کوئی اپنے سے بڑا مل جاتا چاہے اس سے واقفیت ہو یا نہ ہو سلام ضرور کرتے ہیں..آپ تو جانتے ہیں یہ چاروں بھائی پچھلے کئی سالوں سے ہمارے محلے میں رہتے ہیں لیکن اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور دیگر شرارتی اور آوارہ لڑکوں سے دور رہتے ہیں..کسی سے دوستی نہیں ہے..یہ چاروں لڑکے آپس میں سگے بھائی ہیں اور چھوٹے بڑے ہیں..ان کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں ..ان کا آپس میں بہت پیار اور انس ہے اور ایک دوسرے کا بےحد احترام کرتے ہیں..یہ سب سے اتفاق اور اتحاد سے رہتے ہیں.کبھی کسی سے لڑتے جھگڑتے نہیں , کبھی کسی کو گالی نہیں دیتے,کبھی قسم نہیں کھاتے, جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں, دوسروں کو بلا وجہ تنگ کرنا , کسی پر آوازہ کسنا اور ان کا مذاق اڑانا بےحد ناپسند کرتے ہیں بلکہ اخلاق اور شرم و حیا کا پیکر اور مجسمہ ہیں..
بقول شاعر

حیا سے حسن کی قیمت دوچند ہوتی ہے
نہ ہوں جو آب تو موتی کی آبرو کیا ہے..

جماعت نہم اردو سبق "مرزا غالب کے عادات و خصائل " تشریح پیراگراف نمبر3

سبق:مرزا غالب کے عادات و خصاٸل
پیراگراف نمبر3
اگرچہ مرزا کی آمدنی قلیل......اکثر تنگ رہتے تھے..
 حوالہ متن
سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات و خصائل
مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی
صنف: سوانح نگاری یا خاکہ نگاری
ماخذ : یادگار غالب

 خط کشیدہ الفاظ کے معانی
قلیل..... کم ,تھوڑا
فراخ.... کشادہ , کھلا ,وسیع
سائل....سوالی, مانگنے والا ,فقیر, گداگر
اپاہج...معذور
غدر... فساد, ہنگامہ
بساط ..... طاقت, حیثیت

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس سبق " مرزا غالب کے عادات و خصائل" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے جو کہ مولانا الطاف حسین حالی کا تحریر کردہ ہے..اس سبق میں مصنف بتاتے ہیں کہ مرزا غالب اخلاق کے وسیع تھے.دوستوں اور سائلوں سے اچھے طریقے سے پیش آتے. ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرتے اور کم آمدنی کے باوجود فراخ دل تھے اور گردش روزگار سے بگڑے دوستوں سے شریفانہ سلوک کرتے اور ان کی مدد کرتے .مرزا غالب آموں کے دلدادہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ آم میٹھا اور بہت ہونا چاہیے..

تشریح:

مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب کے نامور شاعر اور مصنف تھے..انھیں مرزا غالب سے مصطفی خان شیفتہ نے متعارف کرایا اور مولانا نے مرزا غالب کی سوانح عمری پر  " یادگار غالب " کے نام سے کتاب لکھی..سبق مرزا غالب کے عادات وخصائل اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے.
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کی مالی حالت اور ان کے حوصلے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مرزا غالب کی مالی حالت کچھ زیادہ بہتر نہ تھی..اس کے باوجود بھی وہ کھلے دل کے مالک اور حوصلہ مند تھے..کھلے دل والے کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ مال و دولت جمع کرنے کے قائل نہیں ہوتا اور نہ ہی مال و دولت کے حوالے سے حریص ہوتا ہے..مرزا غالب بھی انھیں خصوصیات کے حامل تھے..انھوں نے کبھی مال و دولت جمع کیا اور نہ اس بارے کبھی کچھ سوچا..جس کام کا دل میں خیال پیدا ہوتا اس کےلیے بےدریغ روپیہ خرچ کرتے تھے اور اپنی شاہ خرچیوں کی وجہ سے تنگ دست رہتے تھے مگر یہ مرزا غالب کی دریا دلی ہی تھی کہ تنگ دستی اور مشکل حالات میں بھی کسی سوالی اور مانگنے والے کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے..یہی وجہ تھی کہ ان کے گھر کے باہر اندھے , ہاتھ پاؤں سے معذور مرد و عورت جمع رہتے تھے کیونکہ انھیں مرزا غالب سے مدد کی پوری توقع ہوتی تھی..مرزا غالب بھی ان کی توقع پر پورا اترنے کی کوشش کرتے اور ہر ممکن طور پر ان کی ضرورت پوری کرتے تھے۔جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے

" جو تنگ دستی اور خوش حالی دونوں حالتوں میں خدا
کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ متقی اور پرہیزگار ہیں."

             مصنف مزید بتاتے ہیں کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور انگریز برصغیر پر قابض ہوئے تو ان کی حکومت نے ان کی تنخواہ ایک سو پچاس روپے سے کچھ زائد مقرر کر دی تھی..ان دنوں مرزا غالب کے کھانے پینے  کے اخراجات بھی کچھ زیادہ نہ تھے اور نہ ہی رہائش کا مسئلہ تھا اس لیے وہ اپنی زیادہ تر تنخواہ غریبوں اور محتاجوں کی ضروت پوری کرنے میں خرچ کرتے تھے..وہ اپنے ذاتی اخراجات میں کمی تو کرتے تھے مگر ضرورت مندوں کی اپنی حیثیت سے بڑھ کر مدد کرتے تھے کیونکہ وہ اصل زندگی دوسروں کی خدمت کو سمجھتے تھے..جیسا کہ مقولہ ہے:
" اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں مزا تو تب ہے کہ دوسروں کےلیے جیا جائے".
غالب کی مکمل زندگی دوسروں کی حاجت روائی میں گزری.یہی وجہ تھی کہ وہ اکثر مالی طور پر پریشان رہتے تھے اور ان کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا..پھر بھی خدمت خلق کو ہمیشہ اولیت دیتے تھے۔
بقول شاعر

درد  دل  کے  واسطے  پیدا  کیا   انسان  کو

ورنہ طاعت کےلیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اردو نہم.. نصوح اور سلیم کی گفتگو..پیراگراف2 تشریح

 نہم اردو سبق نصوح اور سلیم کی گفتگو پیراگراف نمبر2 تشریح ۔
 اقتباس :
منجھلا لڑکا میرا ہم جماعت ہے.....انھوں نے مجھ کو اندر بلا لیا..

حوالہ متن.
سبق کا عنوان: نصوح اور سلیم کی گفتگو
مصنف کا نام: ڈپٹی نذیر احمد
صنف: ناول
ماخذ: توبتہ النصوح.
خط کشیدہ الفاظ کے معانی
منجھلا..... درمیانہ..بیچ والا
آموختہ..... پڑھا ہوا سبق
ناخوش.... ناراض
بہ سروچشم...سرآنکھوں پر

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس ڈپٹی نذیر احمد کے تحریر کردہ ناول "نصوح اور سلیم کی گفتگو" کے آخری حصے سے لیا گیا ہے..اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ نصوح نے خواب میں دل دہلا دینے والے آخرت کے مناظر دیکھے. بیداری پر اس نے اپنے گھر والوں کی اصلاح کی ٹھانی..اس نے اپنے بیٹے سلیم کو بلا کر اس سے مدرسے کے بارے اور کھیلوں سے عدم دلچسپی کے بارے میں پوچھا تو سلیم نے اس کی وجہ محلے میں رہنے والے ان چار لڑکوں کو قرار دیا جن کے اخلاق سے متاثر ہو کر اس کا دل کھیلوں سے کھٹا ہوگیا..

تشریح:

ڈپٹی نذیر احمد کا شمار اردو کے ابتدائی ناول نگاروں میں ہوتا ہے..انھوں نے ہمیشہ اصلاحی ناول لکھے.." نصوح اور سلیم کی گفتگو" ان کا ایسا ہی اصلاحی ناول ہے جس میں وہ ایسے خاندان کے متعلق بتاتے ہیں جس کا سربراہ نصوح ہے جو اپنے گھر والوں کی دنیاوی اور اخروی لحاظ سے اصلاح کرنا چاہتا ہے..
             تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ سلیم اپنے والد کو محلے کے چار لڑکوں کے بارے میں بتاتا ہے جوکہ نہایت عمدہ اوصاف کے مالک ہیں..ان کے اخلاق اور شریفانہ مزاج سے ہر کوئی متاثر ہے.
سلیم اپنے والد کو بتاتا ہے کہ ان چاروں لڑکوں میں سے بیچ والا میرا ہم جماعت ہے..ایک دن ایسا ہوا کہ استاد صاحب کا پڑھایا ہوا سبق مجھے یاد نہیں تھا..جب انھوں نے مجھ سے سبق سنا تو میں سنا نہ سکا جس کی وجہ سے وہ بہت ناراض ہوئے اور اس لڑکے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ بھی تیری طرح کا ہی لڑکا ہے.. بہت محنتی اور لائق ہے اور روزانہ سبق یاد کرکے آتا ہے..تمھارے گھر کے ساتھ ہی رہتا ہے..تم میں اور اس میں کتنا فرق ہے..اگر تمھیں کھیلنے سے فرصت ملے تو اس کے پاس جاکر سبق پڑھ لیا کرو..
            استادمحترم
کی باتیں سن کر مجھے بڑی ندامت ہوئی..تب میں نے اس لڑکے سے عرض کیا کہ کیا وہ مجھے سبق یاد کرا دیا کرے گا تو اس نے فورا رضامندی کا اظہار کیا اور کہا آپ کی بات سرآنکھوں پر ..جس سے واضح ہوا کہ وہ خوشی سے اس کام کےلیے تیار تھا..چناں چہ اگلے دن میں اس کے گھر گیا اور اسے آواز دی تو اس نے مجھے اندر بلا کر اپنے پاس بٹھایا..

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی


جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی..
......................................
دونوں میں سے کوئی ایک شعر لکھ سکتے ہیں جو آسانی سے یاد ہو..

جماعت نہم اردو سبق" قدرایاز" تشریح پیراگراف نمبر5

سبق : قدر ایاز
پیراگراف نمبر5
 ہم نے سکون سے یہ قصہ سنا..... دیہاتی سمجھا ہوگا

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: قدرایاز
مصنف کانام: کرنل محمد خان

خط کشیدہ الفاظ کے معنی
 قصہ.... کہانی , ماجرا
طرفین: طرف کی جمع  دونوں طرف کے
واضح.... نمایاں
تنازع..... جھگڑا
خفیف..... معمولی, ہلکا سا
دو طرفہ...... دونوں طرف سے
حدود اربعہ.... مکمل رقبہ, چاروں اطراف سے
ناخوش.... ناراض
ناقابل برداشت.... جو ضبط کے قابل نہ ہو
 قباحت.... برائی
بلاغت ..... فصاحت, دلیل سے

سیاق و سباق:تشریح طلب اقتباس سبق " قدر ایاز" کے درمیان سے لیا گیا ہے..اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ ایک دن سلیم کی غیر موجودگی میں اس کا دوست امجد آیا تو ملازم علی بخش نے اس کی ٹھیک طرح سے خدمت نہ کی تو سلیم نے اسے برابھلا کہ کر ڈانٹا..مصنف نے سلیم اور علی بخش دونوں کے بیانات سن کر انھیں ایک دیہاتی لڑکے کی کہانی سنائی جس سے دونوں کے درمیان ناراضی ختم ہوگئی اور دیہاتی پن سے محبت بھی جاگ اٹھی..
 تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے بہترین مضمون نگار اور ادیب تھے.انھوں نے سبق " قدر ایاز " میں دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کیا جس سے دیہاتی زندگی کی اصل خوب صورتی عیاں ہوتی ہے.
            تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا کہ ملازم علی بخش نہایت افسردہ چہرہ لیے آگیا اور سلیم کے ڈانٹنے کی شکایت کی کہ وہ اسے بدتمیز اور گنوار دیہاتی سمجھتا ہے..اس کی وجہ پوچھنے پر پتا چلا کہ علی بخش  سلیم کے دوست امجد کی درست خاطر تواضع نہ کرسکا جس پر سلیم ناراض ہوگیا اور اسے ڈانٹ دیا..
مصنف کہتے ہیں کہ جب علی بخش اپنی دکھ بھری کہانی سنا چکا تھا تو سلیم میاں بھی آگئے اور انھوں نے تمام معاملا جان لیا اور اپنی صفائی پیش کی..مصنف کہتے ہیں کہ میں نے دونوں کے بیانات اطمینان سے سنے جس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ جھگڑا معمولی سا ہے جسے دونوں کو ساتھ بٹھا کر اور چائے کی پیالی پلا کر افہام و تفہیم سے اسے نمٹایا جاسکتا ہے اور ان کی صلح کرائی جاسکتی ہے کیونکہ صلح ہی سے بھلائی اور بہتری ہوتی ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ بھی ہے :
" کسی مسلمان پر دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جائز نہیں".
:قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی فرماتے ہیں

" سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں .پس اپنے
 بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے
ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے".
         

دراصل علی بخش سلیم میاں سے اس لیے نالاں اور ناراض تھا کہ انھوں نے اسے دیہاتی ہونے کا طنعہ دیا تھا جبکہ سلیم میاں اس بات پر خفا اور ناراض تھے کہ علی بخش کی تھوڑی سی غفلت اور لاپروائی سے امجد نے اسے دیہاتی سمجھا ہوگا.. گویا دونوں کے نزدیک دیہاتی ہونے کا طعنہ ناقابل برداشت تھا اور میرے نزدیک دیہاتی ہونا کوئی عیب والی بات نہ تھی اس لیے میں نے دونوں کی غلط فہمی دور کرنے کےلیے ہنسی ہنسی میں دیہاتی زندگی کی خوبیاں بیان کر دیں جس سے دونوں میں صلح اور رضامندی ہوگئی...


بقول شاعر

 جھگڑا تھا جو دل پہ اس کو چھوڑا

کچھ سوچ کے صلح کر گئے ہم..

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر 8

سبق پنچایت پیراگراف نمبر8
اقتباس:
 بوڑھی خالہ نے اپنی دانست.......... لاٹھی پٹک دی ۔
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان:
 پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 دانست.... سمجھ, فہم
 گریہ و زاری.... رونا پیٹنا, آہ و بکا
خوبی تقدیر.... خوش قسمتی
 مائل......راغب, متوجہ
زخم پر نمک چھڑکنا....... زخم ہرے کرنا,تکلیف دینا
گھوم گھام.... پھر پھرا کر
 پٹکنا..... نیچے پھینکنا
 سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے افسانے " پنچایت" کے تقریبا ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔اس افسانے میں مصنف بتاتے ہیں کہ الگو چودھری اور جمن کی گہری دوستی تھی۔جمن کی ایک خالہ تھی جس کی کچھ جائیداد تھی۔جمن نے وعدے وعید کرکے جائیداد اپنے نام کرالی اور بعد میں خالہ کی دیکھ بھال سے غفلت اختیار کرلی جس پر خالہ نے پنچایت بلانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کےلیے وہ سارا گاؤں پھری اور اس نے الگو چودھری سے بھی پنچایت میں آنے اور حق سچ کی بات کہنے کی درخواست کی..
 تشریح:
 منشی پریم چند نامور ادیب تھے۔اصل نام دھنپت رائے ہے اور اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے افسانے "پنچایت" کے ذریعے دیہاتی زندگی کے مختلف پہلو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت بھی اجاگر کی۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ جب جمن نے وعدے وعیدے کرکے اپنی خالہ جان سے جائیداد اپنے نام کرالی تو اس نے اپنے وعدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے خالہ جان کی مناسب دیکھ بھال کرنا چھوڑ دی ۔جس سے تنگ آ کر خالہ جان نے گاؤں میں پنچایت بلانے کا فیصلہ کرلیا مگر جمن کو اپنے اثر رسوخ پر اتنا یقین تھا کہ اس سے بگاڑ کے ڈر سے خالہ کی کوئی نہیں سنے گا۔ خالہ جان نے گاؤں کے چکر لگانے شروع کر دیے اور اپنی سمجھ اور فہم و فراست کے مطابق ہر کسی کے آگے گڑگڑا کر اپنا موقف پیش کیا اور پنچایت میں آکر اس کا معاملہ حل کرانے کی درخواست کی مگر جمن کی خوش قسمتی اور خالہ کی بدقسمتی دیکھیے کہ کوئی بھی خالہ جان کی بات سننے کو آمادہ اور تیار نہ تھا۔سب خالہ کی باتوں کو عدم دلچسپی سے سنتے اور اسے ہاں ناں کرکے ٹالنے کی کوشش کرتے کیونکہ جمن سے کوئی شخص بھی بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ان لوگوں میں سے چند ایک تو خالہ کے زخم مزید ہرے کر دیتے اور اسے طعنے دے کر اس کو مزید تکلیف پہنچاتے کہ جب سب کچھ جمن کے نام کیا تھا تب انھیں بلایا تھا جو اب مدد کو پکارتی ہو۔غرض ہر طرف سے پھر پھرا کر اور لوگوں کی جلی کٹی اور ٹال مٹول سن کر بڑھیا خالہ جمن کے گہرے دوست الگو چودھری کے پاس آئی اور اسے بھی پنچایت میں آنے کا کہا اور اسے حق اور سچ کی بات کا ساتھ دینے کا بھی کہا کیونکہ بڑھیا خالہ اپنے دکھ اور درد کا مداوا سب لوگوں کو اکٹھا کرکے پنچایت کے ذریعے چاہتی تھی اس لیے وہ پورےطگاؤں میں ہر ایک کے پاس گئی اور مدد کی درخواست کی۔بقول شاعر
 آخر کوئی کنارا اس سیل بے کراں کا
آخر کوئی مداوا اس درد زندگی کا

Tuesday, March 12, 2019

جماعت نہم اردو سبق "ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر4




سبق : ملکی پرندے اور دوسرے جانور ۔پیراگراف نمبر4 ۔
اقتباس: 
عام طور پر بلبل کو آہ و زاری...................... نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا.
 حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور.
مصنف کانام: شفیق الرحمن
 ماخذ: مزید حماقتیں
 صنف: مضمون
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی.
 آہ وزاری .......گریہ زاری , رونا پیٹنا
 اکسانا......ابھارنا, جوش دلانا
مضحکہ خیز .......عجیب و غریب, مزاق کے قابل
 افواہ ..........بےپرکی
 نالہ و شیون.......... گلہ شکوہ , آہ و زاری

: سیاق و سباق
 تشریح طلب اقتباس "شفیق الرحمن" کے لکھے ہوئے مضمون " ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیاگیا.اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ ایک روایتی پرندہ ہے جو ہرجگہ موجود ہے۔ہرخوش گلو پرندہ بلبل نہیں ہوتا اور اصلی بلبل ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی۔بلبل کو رات کے وقت عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔بلبل پروں سمیت چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ 

 تشریح:
 اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار " شفیق الرحمان" کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں. وہ الفاظ کی بازی گری سے کام لینے کی بجائے سادہ مگر موثر انداز میں مضامین لکھتے ہوئے اپنا اصلاحی مدعا بیان کر جاتے ہیں جو قارئین کے دل موہ لیتا ہے.. " ملکی پرندے اور دوسرے جانور " ان کی مزاح نگاری کا عمدہ مرقع ہے جو ان کی کتاب " مزید حماقتیں" سے اخذ کیاگیا ہے.تشریح طلب اقتباس میں مصنف بلبل کی اہمیت اور خصوصیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل غمگین نغمے گاتا ہے اور اس کی وجہ اس کی غم زدہ گھریلو زندگی ہے.اپنے ان غمزدہ نغموں کی وجہ سے اسے آہ و زاری اور گریہ زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے پرغم نغمے گانے کے ساتھ ساتھ رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے.. رونا پیٹنا فطرتا کسی کو پسند نہیں ہوتا کیونکہ یہ دکھ اور درد کی علامت ہوتا ہے اور دکھ درد اور تکالیف کسی کےلیے کسی طور پسندیدہ نہیں ہوسکتے اس لیے بلبل بھی اسی قدرتی امر کے تحت رونے پیٹنے اور گریہ زاری کرنے کو کسی طور پسند نہیں کرتا..مصنف کے نزدیک بلبل ہونا کافی عجیب و غریب، مضحکہ خیز  اور قابل تمسخر ہے کیونکہ اس کی درست حقیقت سے بڑے بڑے محروم ہیں اور اس کے بارے میں بہت کچھ ابھی واضح نہیں.. یہ ایسا عجیب پرندہ ہے کہ بہت سے مصنف اور شعرا اسے مذکر بھی ظاہر کرتے ہیں اور مونث بھی گردانتے ہیں ..بہت سے شعرا کرام نے اپنی شاعری میں بلبل کا باغ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود گلاب کے پھولوں کے ساتھ بھی گہرا تعلق جوڑا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انھوں نے رات کے کسی پہر بلبل کو گلاب کی کسی شاخ پر آہ و زاری اور گریہ زاری کرتے دیکھ لیا تھا اور  کم از کم  ان کا خیال یہ تھا کہ گلاب کے پودے پر بیٹھا وہ پرندہ ہی بلبل ہے اور اس کی وہ خوب صورت آواز اس کا دکھ بھرا گیت اور نالہ تھا۔  جیسا کہ اقبال کہتے ہیں :

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

 بلبل  تھا کوئی  اداس  بیٹھا

Sunday, March 10, 2019

استنبول پیراگراف کی تشریح

اقتباس کی تشریح
 اقتباس: ذرا اعلان ہوتے ہی.........................ان کا ڈسپلن ان کو دنیا کی بڑی قوم بنا رہا ہے. حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: استنبول
 مصنف: حکیم محمد سعید
ماخذ: سعید سیاح ترکی میں
 صنف: مضمون
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی
رویہ: راہ , راستہ
 اطمینان: تسلی' آرام وسکون
 تنظیم: نظم و ضبط
 شائستہ: سلیقہ مند, باتمیز,سلجھا ہوا
 منظم: نظم و ضبط والا, ضابطہ کے ساتھ سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس حکیم محمد سعید کے تحریر کردہ سبق " استنبول کے درمیان سے لیا گیا ہے..اس سبق میں حکیم محمد سعید ترکی کے شہر استنبول کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں..لکھتے ہیں کہ ایاصوفیہ کو سلطان محمد فاتح نے فتح کیا جن کا اصل نام محمد ثانی ہے..تین سال پہلے حکیم محمد سعید اپنے دوستوں کے ہمراہ ترکی گئے تو ایاصوفیہ کی سیر کرنے کے ساتھ ساتھ سلیمانیہ مسجد نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے گئے اور پھر باسفورس, گولڈن ہارن سے ہوتے ہوئے توپ کاپی سرائے میوزیم میں گئے جو ترکی کا تاریخی میوزیم ہے اور اپنے پاس نوادرات رکھتا ہے..توپ کاپی کی سیر کراتے ہوئے حکیم صاحب اپنے دوستوں کو مسجد سلطان احمد لے گئے اور آخر میں حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری دی اور پھر ادنا سے واپسی کےلیے کمرکس لی..
 تشریح:
 حکیم محمد سعید حکمت کے شعبے کے ساتھ ساتھ علم و ادب سے بڑا گہرا شغف رکھتے تھے..انھیں حکمت اور علم و ادب کے حوالے سے کئی ممالک کا سفر کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے اس حوالے سے اپنے متعدد سفرنامے بھی لکھے..ان کے سفرنامے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم بھی ان کے ساتھ شریک سفر ہوں اور یہی ان کی تحریر کی خوبی ہے.انھوں نے اپنے ایک سفرنامے "سعید سیاح ترکی میں" کے اندر ترکی کے دارالحکومت اور عظیم شہر استنبول کی تاریخی اہمیت اجاگر کی ..
 تشریح طلب اقتباس بھی ان کے تحریر کردہ مضمون" استنبول" سے اخذ کیا گیا ہے. حکیم محمد سعید لکھتے جب تین سال پہلے کویت کی مرکز طب اسلامی کے اجلاس میں شرکت کےلیے استنبول گئے تو وہ دن جمعہ کا تھا.ان کے ہمراہ چار اور دوست بھی تھے جن میں محترمہ خانم ڈسلوا, محترم ڈاکٹر شعیب اختر, ڈاکٹر ظفراقبال اور ڈاکٹر عطاالرحمن شامل تھے...ان سب کا استقبال وہاں حکیم صاحب کے دوست ڈوگواباچی اور ترکی کے وزیراعظم ترگت اوزال نے کیا. حکیم محمد سعید نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے سلیمانیہ مسجد گئے جسے سلطان سلیمان نے سنان کے ہاتھوں تعمیر کرائی..جو اپنی نفاست اور نقش نگاری میں اپنی مثال آپ ہے..نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد میں موجود تمام مندوبینوں کو عزت و احترام سے باہر لے جانا مقصود تھا اس لیے مہمانوں کی عزت اور قدر افزائی کےلیے اعلان کیا گیا کہ مندوبینوں کو مسجد سے باہر جانے کا راستہ دیا جائے..اعلان سنتے ہی لوگوں نے فورا اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے راستہ دے دیا..سب لوگ مسجد سلیمانیہ کے اندر دوطرف کھڑے ہوگئے اور درمیان میں چار فیٹ کا راستہ چھوڑ دیا تاکہ مہمان مندوبینوں کو تکلیف نہ پہنچے..اس عمل کے دوران کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جب تک کہ تمام مندوبین مکمل آسانی اور عزت و احترام سے روانہ نہ ہوگئے.. یہ سب تعظیم, تنظیم اور ادب کی بات ہے اور ادب واحترام کے حوالے سے ترکی کا شمار اب بڑی قوموں میں ہوتا ہے اور کسی قوم کی اخلاقی ترقی کا انحصار بھی ادب و احترام اور ان کے منظم طور طریقوں میں پنہاں ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو کوئی قوم اپنا اخلاقی حسن برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ ہی مہذب معاشرے کی مثال بن سکتی ہے..ترکی کی قوم مہذب قوم بن چکی ہے کیونکہ انھوں نے نظم و ضبط , تنظیم اور ادب و احترام کے وہ تمام نمایاں اوصاف اپنے اندر سمو لیے ہیں جو ایک سلجھی ہوئی قوم کا ہمیشہ خاصا ہوتے ہیں اور انھیں اوصاف کو مدنظر رکھتے
ہوئے شاعر نے خوب کہا ہے.

 حسن کردار  سے  نور  مجسم   ہو جا
 ابلیس بھی دیکھے تو مسلماں ہو جائے

مرزا محمد سعید ..پیراگراف نمبر 8 کی تشریح

 اقتباس: اگر اپنی خیر چاہتےہوتو.............نکالے جانے کا پیش خیمہ ہوگیا.
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: مرزا محمد سعید
 مصنف کا نام: شاہد احمد دہلوی
 ماخذ: گنجینہ گوہر
صنف : خاکہ نگاری
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
 خیر: سلامتی,بھلائی,اچھائی
 حسب دستور: معمول کے مطابق, روایت کے مطابق
مسودہ: ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر
پیش خیمہ: ابتدائی وجہ, سبب
 سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس شاہد احمد دہلوی کے تحریر کردہ خاکہ " مرزا محمد سعید " سے لیاگیا ہے جو ان کی کتاب گنجینہ گوہر سے ماخوذ ہے.. مصنف مرزا محمد سعید کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ خوش طبع انسان تھے مگر کم گو تھے اور بحث و مباحثہ سے پرہیز کرتے تھے..شہرت سے دور بھاگتے تھے اور کبھی فرمائشی کام نہیں کرتے تھے..ان کی موت بہت بڑا سانحہ ہے اور ہماری غفلت کی سزا ہے کہ ہم مرزا صاحب جیسے اہل کمال سے غافل رہے...پطرس ان کے شاگرد تھے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے..ان کے کہنے پر مرزا صاحب نے ریڈیو پر کچھ تقاریر کیں مگر پھر تقریروں کے انچارج کی من مانی سے تنگ آکر ریڈیو پر تقریر نشر کرنے سے انکار کر دیا..پطرس نے غلط کام کرنے پر اپنے سٹاف کی سرزنش کی اور مرزا صاحب کو منانے کا حکم دیا..مرزا صاحب بہت ہی بھلے آدمی تھے..موت برحق ہے مگر مرزا صاحب جیسی جامع العلوم ہستی سے محروم ہونے کا غم کسی طور کم نہیں..
 تشریح:
شاہد احمد دہلوی ایک نامور مصنف اور خاکہ نگار تھے..وہ اردو ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور خاکہ نگاری کے حوالے سے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں.تشریح طلب اقتباس بھی ان کے تحریر کردہ خاکہ " مرزا محمد سعید " سے لیاگیا ہے جس میں مصنف لکھتے ہیں پطرس بخاری مرزا صاحب کے شاگرد تھے..وہ ان کے بڑے قدردان تھے اس لیے انھیں آل انڈیا ریڈیو پر تقریر کرنے پر آمادہ کیا...چند ایک تقریروں کے بعد مرزا صاحب نے معاہدہ ختم کردیا..اس کی خاص وجہ ریڈیو کے تقریروں کے انچارج کی طرف سے مرزا صاحب کے ہاتھ سے لکھی تقریر میں ردوبدل تھا.. اس نے حسب روایت اپنی کارکردگی دکھانے کےلیے مرزا صاحب کی تقریر سے دو ایک فقرے نکال دیے ..جب اس بات کی اطلاع پطرس تک پہنچی تو انھوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور تقریروں کے انچارج پر واضح کر دیا کہ اگر وہ اپنی بھلائی اور اچھائی چاہتا ہے تو اسے ہرصورت مرزا صاحب کو منانا ہوگا کیونکہ پطرس اپنے استاد محترم کی کسی طور بے ادبی برداشت نہیں کرسکتے تھے اس لیے تقریروں کے انچارج کی کوتاہی انھیں ناگوار گزری..وہ ہر صورت مرزا صاحب کو منانا چاہتے تھے اور تقریروں کے انچارج کو ہرصورت مرزا صاحب کو منا لانے کا حکم دیا.
بقول شاعر
  ٹھہر جائے یوں ہی ان کا تبسم
  ٹھہر  جائے  زمانہ   چاہتا   ہوں
وہ پیہم  روٹھ جانا چاہتے ہیں
میں ہر صورت منانا چاہتا ہوں

 ریڈیو کے تقریروں کے انچارج کو مرزا صاحب کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ پطرس کے استاد ہیں.اس لیے اس کا مرزا صاحب کے مسودے سے فقرے نکالنے کا کام اس کےلیے درد سر بن گیا اور اس کےلیے مرزا صاحب کو منانا بہت ضروری ہوگیا اور وہ بھاگ کر مرزا صاحب سے اپنے کیے پر معافی مانگنے لگا کیونکہ اس کا کام اسے نوکری سے نکالے جانے کا ہراول دستہ بن گیا تھا اور اس کی نوکری بچنا مرزا صاحب کے مان جانے سے مشروط ہو چکا تھا...
الف: ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی پالکی کے پاس بول رہا ہو...................... آنکھیں بند کرلیں اور کلمہ پڑھنے لگی. حوالہ متن: سبق کا نام: پرستان کی شہزادی مصنف کانام: اشرف صبوحی ماخذ: دلی کی چند عجیب ہستیاں صنف: داستان. خط کشیدہ الفاظ کے معانی پالکی: ڈولی, فینس بےچاکی: بےڈھنگی, بدصورت کہار: پالکی اٹھانے والے دم گھٹنا: سانس رکنا. سیاق و سباق: تشریح طلب اقتباس اشرف صبوحی کی تحریر کردہ داستان "پرستان کی شہزادی" کے درمیان میں سے لیا گیا ہے جس میں ایک سیدانی بی کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ مغلانی تھیں جو نوابوں اور امیروں کے کپڑے سیتی تھیں اور اپنے فن میں اپنی مثال آپ تھیں..خاندان مرہٹہ گردی کا شکار ہوگیا..جوانی اچھے طریقے سے گزر گئی مگر بڑھاپے میں کوئی ان سے نہ پوچھتا تھا اس لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں..یہ تو بھلا ہو میر صاحب کی بیوی کا جو ترس کھا کر سیدانی بی کو اپنے پاس رکھ لیا جہاں وہ میر صاحب کی بیوی بچوں کو پرستان کے سفر کی داستان بیان کر رہی تھیں کہ پہلی مرتبہ اسے دھوکے سے پرستان لے جایا گیا تاکہ بادشاہ کی بیٹی کا جہیز ٹانک سکے..وہ بے حد خوف زدہ تھی مگر پرستان جا کر اس کا خوف ختم ہوگیا اور وہ عمدگی سے جہیز ٹانک کر واپس آگئی.. تشریح: اشرف صبوحی اردو ادب کے نامور شاعر اور ادیب ہیں..انھوں نے اردو ادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں..انھوں "دلی کی چند عجیب ہستیاں" کے نام سے اپنی پہلی کتاب شائع کی اور اسی کتاب سے ان کی تخیلی داستان "پرستان کی شہزادی" اخذ کی گئی..یہ داستان ایک سیدانی بی کے گرد گھومتی ہے جس کا خاندان مرہٹہ گردی کا شکار ہوگیا..وہ میر صاحب کی بیوی کے پاس رہ رہی تھیں اور اسے اور اس کے بچوں کو پرستان کے سفر کا حال بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں جب میں نے قاضی واڑے اور خانم کے بازار سے گزرتے ہوئے ہٹو بچو کی آواز نہ سنی تو پوچھا کہ اسے کہاں لے جایا جا رہا ہے تو اسے بتایا گیا کہ اسے پرستان کے بادشاہ نے اپنی بیٹی کے جہیز ٹانکنے کےلیے بلایا ہے.. سیدانی بی کہتی ہیں یہ آواز سن کر مجھےیوں لگا جیسے کوئی میری ڈولی کے پاس سے بول رہا ہے جس میں میں سفر کر رہی تھی.میں نے اپنا منھ باہر نکال کر دیکھا تو بیگم وہ سماں میں کیسے بیان کروں..مجھے ایک بےڈھنگی شکل کا اور بدصورت آدمی نظر آیا جس کا منھ بکرے کی طرح اور ٹانگیں گھوڑے جیسی تھیں جبکہ پالکی کو اٹھانے والے کہار تھے نہ کہاریاں بلکہ وہ بغیر کسی سہارے کے خود بخود چلی جا رہی تھی..یہ سب دیکھ کر خوف آنا فطری بات ہے اس لیے میرا بھی ڈر کے مارے سانس بند ہونے لگا اور میں نے خوف کے مارے آنکھیں بند کرلیں اور کلمہ پڑھنے لگی ..بقول منیر نیازی. بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب رکا ہوا ہوں سفر میں, کسی دیار میں ہوں..

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...