Popular Posts

Tuesday, March 12, 2019

جماعت نہم اردو سبق "ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر4




سبق : ملکی پرندے اور دوسرے جانور ۔پیراگراف نمبر4 ۔
اقتباس: 
عام طور پر بلبل کو آہ و زاری...................... نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا.
 حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور.
مصنف کانام: شفیق الرحمن
 ماخذ: مزید حماقتیں
 صنف: مضمون
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی.
 آہ وزاری .......گریہ زاری , رونا پیٹنا
 اکسانا......ابھارنا, جوش دلانا
مضحکہ خیز .......عجیب و غریب, مزاق کے قابل
 افواہ ..........بےپرکی
 نالہ و شیون.......... گلہ شکوہ , آہ و زاری

: سیاق و سباق
 تشریح طلب اقتباس "شفیق الرحمن" کے لکھے ہوئے مضمون " ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیاگیا.اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ ایک روایتی پرندہ ہے جو ہرجگہ موجود ہے۔ہرخوش گلو پرندہ بلبل نہیں ہوتا اور اصلی بلبل ہمارے ملک میں نہیں پائی جاتی۔بلبل کو رات کے وقت عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔بلبل پروں سمیت چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ 

 تشریح:
 اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار " شفیق الرحمان" کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں. وہ الفاظ کی بازی گری سے کام لینے کی بجائے سادہ مگر موثر انداز میں مضامین لکھتے ہوئے اپنا اصلاحی مدعا بیان کر جاتے ہیں جو قارئین کے دل موہ لیتا ہے.. " ملکی پرندے اور دوسرے جانور " ان کی مزاح نگاری کا عمدہ مرقع ہے جو ان کی کتاب " مزید حماقتیں" سے اخذ کیاگیا ہے.تشریح طلب اقتباس میں مصنف بلبل کی اہمیت اور خصوصیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل غمگین نغمے گاتا ہے اور اس کی وجہ اس کی غم زدہ گھریلو زندگی ہے.اپنے ان غمزدہ نغموں کی وجہ سے اسے آہ و زاری اور گریہ زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے پرغم نغمے گانے کے ساتھ ساتھ رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے.. رونا پیٹنا فطرتا کسی کو پسند نہیں ہوتا کیونکہ یہ دکھ اور درد کی علامت ہوتا ہے اور دکھ درد اور تکالیف کسی کےلیے کسی طور پسندیدہ نہیں ہوسکتے اس لیے بلبل بھی اسی قدرتی امر کے تحت رونے پیٹنے اور گریہ زاری کرنے کو کسی طور پسند نہیں کرتا..مصنف کے نزدیک بلبل ہونا کافی عجیب و غریب، مضحکہ خیز  اور قابل تمسخر ہے کیونکہ اس کی درست حقیقت سے بڑے بڑے محروم ہیں اور اس کے بارے میں بہت کچھ ابھی واضح نہیں.. یہ ایسا عجیب پرندہ ہے کہ بہت سے مصنف اور شعرا اسے مذکر بھی ظاہر کرتے ہیں اور مونث بھی گردانتے ہیں ..بہت سے شعرا کرام نے اپنی شاعری میں بلبل کا باغ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود گلاب کے پھولوں کے ساتھ بھی گہرا تعلق جوڑا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انھوں نے رات کے کسی پہر بلبل کو گلاب کی کسی شاخ پر آہ و زاری اور گریہ زاری کرتے دیکھ لیا تھا اور  کم از کم  ان کا خیال یہ تھا کہ گلاب کے پودے پر بیٹھا وہ پرندہ ہی بلبل ہے اور اس کی وہ خوب صورت آواز اس کا دکھ بھرا گیت اور نالہ تھا۔  جیسا کہ اقبال کہتے ہیں :

ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا

 بلبل  تھا کوئی  اداس  بیٹھا

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...