Popular Posts

Tuesday, March 26, 2019

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر 8

سبق پنچایت پیراگراف نمبر8
اقتباس:
 بوڑھی خالہ نے اپنی دانست.......... لاٹھی پٹک دی ۔
حوالہ متن:
 سبق کا عنوان:
 پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ
 خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 دانست.... سمجھ, فہم
 گریہ و زاری.... رونا پیٹنا, آہ و بکا
خوبی تقدیر.... خوش قسمتی
 مائل......راغب, متوجہ
زخم پر نمک چھڑکنا....... زخم ہرے کرنا,تکلیف دینا
گھوم گھام.... پھر پھرا کر
 پٹکنا..... نیچے پھینکنا
 سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس منشی پریم چند کے لکھے افسانے " پنچایت" کے تقریبا ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔اس افسانے میں مصنف بتاتے ہیں کہ الگو چودھری اور جمن کی گہری دوستی تھی۔جمن کی ایک خالہ تھی جس کی کچھ جائیداد تھی۔جمن نے وعدے وعید کرکے جائیداد اپنے نام کرالی اور بعد میں خالہ کی دیکھ بھال سے غفلت اختیار کرلی جس پر خالہ نے پنچایت بلانے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کےلیے وہ سارا گاؤں پھری اور اس نے الگو چودھری سے بھی پنچایت میں آنے اور حق سچ کی بات کہنے کی درخواست کی..
 تشریح:
 منشی پریم چند نامور ادیب تھے۔اصل نام دھنپت رائے ہے اور اردو کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے افسانے "پنچایت" کے ذریعے دیہاتی زندگی کے مختلف پہلو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت بھی اجاگر کی۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ جب جمن نے وعدے وعیدے کرکے اپنی خالہ جان سے جائیداد اپنے نام کرالی تو اس نے اپنے وعدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے خالہ جان کی مناسب دیکھ بھال کرنا چھوڑ دی ۔جس سے تنگ آ کر خالہ جان نے گاؤں میں پنچایت بلانے کا فیصلہ کرلیا مگر جمن کو اپنے اثر رسوخ پر اتنا یقین تھا کہ اس سے بگاڑ کے ڈر سے خالہ کی کوئی نہیں سنے گا۔ خالہ جان نے گاؤں کے چکر لگانے شروع کر دیے اور اپنی سمجھ اور فہم و فراست کے مطابق ہر کسی کے آگے گڑگڑا کر اپنا موقف پیش کیا اور پنچایت میں آکر اس کا معاملہ حل کرانے کی درخواست کی مگر جمن کی خوش قسمتی اور خالہ کی بدقسمتی دیکھیے کہ کوئی بھی خالہ جان کی بات سننے کو آمادہ اور تیار نہ تھا۔سب خالہ کی باتوں کو عدم دلچسپی سے سنتے اور اسے ہاں ناں کرکے ٹالنے کی کوشش کرتے کیونکہ جمن سے کوئی شخص بھی بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ان لوگوں میں سے چند ایک تو خالہ کے زخم مزید ہرے کر دیتے اور اسے طعنے دے کر اس کو مزید تکلیف پہنچاتے کہ جب سب کچھ جمن کے نام کیا تھا تب انھیں بلایا تھا جو اب مدد کو پکارتی ہو۔غرض ہر طرف سے پھر پھرا کر اور لوگوں کی جلی کٹی اور ٹال مٹول سن کر بڑھیا خالہ جمن کے گہرے دوست الگو چودھری کے پاس آئی اور اسے بھی پنچایت میں آنے کا کہا اور اسے حق اور سچ کی بات کا ساتھ دینے کا بھی کہا کیونکہ بڑھیا خالہ اپنے دکھ اور درد کا مداوا سب لوگوں کو اکٹھا کرکے پنچایت کے ذریعے چاہتی تھی اس لیے وہ پورےطگاؤں میں ہر ایک کے پاس گئی اور مدد کی درخواست کی۔بقول شاعر
 آخر کوئی کنارا اس سیل بے کراں کا
آخر کوئی مداوا اس درد زندگی کا

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...