Popular Posts

Tuesday, March 26, 2019

جماعت نہم اردو سبق" قدرایاز" تشریح پیراگراف نمبر5

سبق : قدر ایاز
پیراگراف نمبر5
 ہم نے سکون سے یہ قصہ سنا..... دیہاتی سمجھا ہوگا

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: قدرایاز
مصنف کانام: کرنل محمد خان

خط کشیدہ الفاظ کے معنی
 قصہ.... کہانی , ماجرا
طرفین: طرف کی جمع  دونوں طرف کے
واضح.... نمایاں
تنازع..... جھگڑا
خفیف..... معمولی, ہلکا سا
دو طرفہ...... دونوں طرف سے
حدود اربعہ.... مکمل رقبہ, چاروں اطراف سے
ناخوش.... ناراض
ناقابل برداشت.... جو ضبط کے قابل نہ ہو
 قباحت.... برائی
بلاغت ..... فصاحت, دلیل سے

سیاق و سباق:تشریح طلب اقتباس سبق " قدر ایاز" کے درمیان سے لیا گیا ہے..اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ ایک دن سلیم کی غیر موجودگی میں اس کا دوست امجد آیا تو ملازم علی بخش نے اس کی ٹھیک طرح سے خدمت نہ کی تو سلیم نے اسے برابھلا کہ کر ڈانٹا..مصنف نے سلیم اور علی بخش دونوں کے بیانات سن کر انھیں ایک دیہاتی لڑکے کی کہانی سنائی جس سے دونوں کے درمیان ناراضی ختم ہوگئی اور دیہاتی پن سے محبت بھی جاگ اٹھی..
 تشریح:

کرنل محمد خان اردو ادب کے بہترین مضمون نگار اور ادیب تھے.انھوں نے سبق " قدر ایاز " میں دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کیا جس سے دیہاتی زندگی کی اصل خوب صورتی عیاں ہوتی ہے.
            تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا کہ ملازم علی بخش نہایت افسردہ چہرہ لیے آگیا اور سلیم کے ڈانٹنے کی شکایت کی کہ وہ اسے بدتمیز اور گنوار دیہاتی سمجھتا ہے..اس کی وجہ پوچھنے پر پتا چلا کہ علی بخش  سلیم کے دوست امجد کی درست خاطر تواضع نہ کرسکا جس پر سلیم ناراض ہوگیا اور اسے ڈانٹ دیا..
مصنف کہتے ہیں کہ جب علی بخش اپنی دکھ بھری کہانی سنا چکا تھا تو سلیم میاں بھی آگئے اور انھوں نے تمام معاملا جان لیا اور اپنی صفائی پیش کی..مصنف کہتے ہیں کہ میں نے دونوں کے بیانات اطمینان سے سنے جس سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ جھگڑا معمولی سا ہے جسے دونوں کو ساتھ بٹھا کر اور چائے کی پیالی پلا کر افہام و تفہیم سے اسے نمٹایا جاسکتا ہے اور ان کی صلح کرائی جاسکتی ہے کیونکہ صلح ہی سے بھلائی اور بہتری ہوتی ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ بھی ہے :
" کسی مسلمان پر دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی جائز نہیں".
:قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی فرماتے ہیں

" سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں .پس اپنے
 بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے
ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے".
         

دراصل علی بخش سلیم میاں سے اس لیے نالاں اور ناراض تھا کہ انھوں نے اسے دیہاتی ہونے کا طنعہ دیا تھا جبکہ سلیم میاں اس بات پر خفا اور ناراض تھے کہ علی بخش کی تھوڑی سی غفلت اور لاپروائی سے امجد نے اسے دیہاتی سمجھا ہوگا.. گویا دونوں کے نزدیک دیہاتی ہونے کا طعنہ ناقابل برداشت تھا اور میرے نزدیک دیہاتی ہونا کوئی عیب والی بات نہ تھی اس لیے میں نے دونوں کی غلط فہمی دور کرنے کےلیے ہنسی ہنسی میں دیہاتی زندگی کی خوبیاں بیان کر دیں جس سے دونوں میں صلح اور رضامندی ہوگئی...


بقول شاعر

 جھگڑا تھا جو دل پہ اس کو چھوڑا

کچھ سوچ کے صلح کر گئے ہم..

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...