Popular Posts

Wednesday, February 26, 2020

جماعت نہم اردو سبق” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ تشریح پیراگراف نمبر 4


سبق: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل۔
پیراگراف نمبر4

اقتباس:
ظرافت مزاج میں اس قدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نہیں رکھا۔

حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل
مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی
صنف:  سوانح نگاری
ماخذ:  یادگار غالب

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
ظرافت۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش مزاجی۔
حیوان ناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بولنے والا جانور مراد عام انسان جو بول چال کرتا ہے۔
حیوان ظریف۔۔۔۔۔۔۔ خوش طبع انسان
قلعہ۔۔۔۔۔۔اونچا حصار۔
پیرومرشد۔۔۔۔۔۔۔۔ روحانی بزرگ جس کے بہت سے عقیدت مند ہوں۔
چھتا۔۔۔۔۔۔۔۔ ساٸبان۔
دیوان خانے۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھک، نشست گاہ۔

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق  ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ کے درمیان سےاخذ کیاگیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب دوستوں کے ساتھ شریفانہ  سلوک کرتے تھے اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔انھوں نے اپنے دوست کو حقیر کپڑا پہنے دیکھا تو غیرمحسوس انداز میں اسے اپنا مالیدہ کا نیا چوغہ پہنا دیا۔مرزا غالب حاضر جوابی میں بھی اپنا کوٸی ثانی نہیں رکھتے تھے۔

تشریح:

مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب کے نامور مصنف اور شاعر تھے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی جامع اور مدلل ہوتا تھا۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری تھی۔ وہ اپنی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کاخاص خیال رکھتے تھے۔مرزا غالب سے ان کی دوستی نواب مصطفی شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری ” یادگارغالب “ کے نام سے لکھی۔ سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست پسندی سے بیان کیا ہے۔
             تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کے بلند اخلاق اور ان کی خوش مزاجی کو اجاگر کرتے ہوٸے کہتے ہیں کہ وہ اعلی ظرف رکھنے کے ساتھ ساتھ خوش طبع انسان بھی تھے۔ انسان کو معاشرتی جانور تو کہا ہی جاتا ہے لیکن مصنف مرزا غالب کی بلند اخلاقی اور خوش طبعی  جیسی صفات کو پسند کرتے ہوٸے انھیں حیوان ناطق یعنی بولنے والے انسان کی بجاٸے حیوان ظریف یعنی ہنسنے ہنسانے اور مسکراہٹیں بکھیرنے والا انسان کہتے ہیں۔ جیسا کہ قول ہے:

” اگر تم کسی کو اور کچھ نہیں دے سکتے تو ایک مسکراہٹ ہی دے دیا کرو“۔

            مرزا غالب خوش طبع انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر جواب بھی تھے۔ ان کی خوش مزاجی اور حاضر دماغی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار  رمضان کا مہینہ گزر جانے کے بعد وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں گٸے تو بادشاہ نے پوچھا کہ مرزا تم نے ماہ رمضان میں کتنے روزے رکھے۔اس پر مرزا غالب نے احسن طریقے سے اپنی خطاپوشی کرتے ہوٸے ذومعنی انداز میں جواب دیا کہ میرے پیرومرشد جی ایک نہیں رکھا۔ بقول شاعر

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر  جاتا  ہے  دیکھیں  یا  ادھر  پروانہ آتا  ہے

Tuesday, February 25, 2020

جماعت نہم اردو سبق ”مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ تشریح پیراگراف نمبر2


سبق: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل

پیراگراف نمبر2

اقتباس:

 مروت اور لحاظ مرزا کی طبیعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جاٸے۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات خصاٸل۔

مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی۔

صنف: سوانح نگاری

ماخذ: یادگار غالب

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

مروت۔۔۔۔۔۔۔۔ لحاظ، پاس رکھنا۔

مروت اور لحاظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رعایت برتنا، پاس رکھنا۔

بدرجہ غایت۔۔۔۔۔۔۔۔بہت حد تک، بدرجہ اتم۔

باوجودیکہ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود

طبیعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزاج

اخیر عمر۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے آخری ایام ،بڑھاپےمیں۔

اصلاح۔۔۔۔۔۔۔۔ درستی۔

بایں ہمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود۔

احباب۔۔۔۔۔۔ حبیب کی جمع، دوست۔

 خدمت بجا لانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدمت کرنا،تواضع کرنا۔

اوراق۔۔۔۔۔۔۔۔ ورق کی جمع، صفحات۔

اوراق اشعار۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ صفحات جن پر اشعار لکھے ہوتے ہیں۔

سوجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ دکھاٸی دے۔

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ کے ابتداٸی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب کے بےشمار دوست تھے۔وہ ان کی فرماٸشوں سے تنگ نہیں ہوتے تھے۔اپنے دوستوں کے اشعار کی بھی اصلاح کر دیتے تھے۔قلیل آمدنی کے باوجود فراخ دل تھے اور ضرورت مندوں کی مدد ضرور کرتے تھے۔

تشریح:

مولانا الطاف حسین حالی نامور مضمون نگار، نقاد اور سوانح نگار تھے۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی سادہ اور دلکش ہوتا ہے۔مدلل عبارت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ مرزا غالب سے ان کی ملاقات نواب مصطفی خان شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ مولانا نےغالب کی سوانح عمری ” یادگار غالب “کے نام سے تحریر کی۔ درسی سبق ” مرزاغالب کے عادات و خصاٸل “اسی کتاب  سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار کو انتہاٸی نفاست سے بیان کیا ہے۔

             تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کی انسانیت نوازی اور ان کی خوش اخلاقی کو بیان کرتے ہوٸے کہتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت، دوسروں کا لحاظ اور لوگوں سے عزت اور احترام سے پیش آنا ان کے مزاج کا خاصا تھا۔ان کے پاس ان کے بہت سے دوست احباب اور دیگر لوگ اپنے شعری کلام کی اصلاح لینے کےلیے آتے تھے اور وہ ان کی اصلاح کر دیتے تھے۔ 

          عمر کے آخری حصے میں بڑھاپے اور علالت کی وجہ سے وہ اشعار کی درستی کرنے اور علم العروض کے حوالے سے ان کو پرکھنے میں پریشانی اور دقت محسوس کرتے تھے۔ اس دقت کے باوجود بھی وہ کسی کو انکار نہ کرتے بلکہ کوٸی بھی ان کے سامنے قصیدہ یا غزل اصلاح کی غرض سے لاتا تو وہ اس کی اصلاح ضرور کر دیتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ خود سے زیادہ دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے۔  بقول شاعر

اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں

ہے  زندگی  کا  مقصد   اوروں  کے  کام   آنا

           مرزا غالب اپنی مجبوری اور علالت کو مدنظر رکھ کر اگر کسی کو انکار بھی کرتے تو اچھے انداز سے کرتے تھے۔ جیساکہ وہ اپنے دوستوں میں سے ایک صاحب کو لکھتےہیں کہ دوست احباب کےلیے مجھ سے جتنا بھی ہوسکا میں کرتا رہا۔ جو کوٸی بھی مجھے اصلاح کی غرض سے اپنے لکھے ہوٸے اشعار بھیجتا تو میں ان کی اصلاح اور درستی ضرور کر دیتا تھا مگر اب عمر کے آخری ایام میں آنکھوں سے اچھی طرح دکھاٸی دیتا ہے اور نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جاتا ہے اس وجہ سے مجھے اب لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ قول ہے:

”مجبوری اور بےبسی انسان کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے“۔

جماعت نہم اردو سبق ”مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ تشریح پیراگراف نمبر 1


سبق : مرزا غالب کے عادات و خصاٸل

پیراگراف نمبر1


اقتباس:

مرزا غالب کے اخلاق نہایت وسیع تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام ہندوستان میں بےشمار تھے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل

مصنف کانام:  مولانا الطاف حسین حالی

صنف:  سوانح نگاری

ماخذ:  یادگار غالب


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

اخلاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خلق کی جمع، اچھی عادتیں

وسیع۔۔۔۔۔۔۔ کشادہ، کھلا

کشادہ پیشانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش مزاجی سے، مسکراتے ہوٸے۔

باغ باغ ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوش ہونا۔

غمگین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسردہ، غم زدہ

ملت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم

اشتیاق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوق۔


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ کا ابتداٸی اقتباس ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ مرزا غالب نہایت وسیع اخلاق کے مالک تھے۔ان کا حلقہ احباب وسیع تھا۔وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے اور مروت اور لحاظ ان کی طبیعت میں بہت زیادہ تھا۔وہ غریبوں اور محتاجوں کی مدد اپنی استطاعت سے بڑھ کرکرتے تھے۔


تشریح:

مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب کے نامور مصنف اور شاعر تھے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی جامع اور مدلل ہوتا تھا۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری تھا۔وہ اپنی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کاخاص خیال رکھتے تھے۔مرزا غالب سے ان کی دوستی نواب مصطفی شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری ” یادگارغالب “ کے نام سے لکھی۔ سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست پسندی سے بیان کیا ہے۔    

                  تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کے اخلاق وکردار کو بیان کرتے ہوٸے کہتے ہیں کہ مرزا غالب کو اللہ تعالی نے اوصاف جمیلہ سے نوازا تھا۔ان کے اخلاق نہایت اعلی اور وسیع تھے۔وہ ہرکسی کے ساتھ مسکراتے چہرے سے ملتے تھے اور جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا اس کا دل بار بار مرزا سے ملنے کا متمنی رہتا کیونکہ ان سے ملنے والا ہر شخص ان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوتا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:


” تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں“۔


               مرزا غالب دوستی کو بڑی اہمیت دیتے تھے اس لیے ان کے بےشمار دوست تھے۔وہ دوستوں سے مل کر نہ صرف خوشی محسوس کرتے تھےبلکہ ان کے دکھ اور غم کو اپنا دکھ درد سمجھتے اور ان کی خوشی میں بھی برابر کے شریک ہوتے تھے۔ جیسا کہ قول ہے:

”حقیقی دوست وہ ہوتا ہے جو مصیبت میں تمھیں یاد رکھے“۔

               مرزا غالب کی بےلوث دوستی، مروت اور حسن سلوک کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے دوستوں میں ہر مذہب اور ہر قوم کے افراد شامل تھے۔ان کی دوستی کا داٸرہ اس قدر وسیع تھا کہ ان کے دوست نہ صرف دلی میں بےشمار تھے بلکہ پورے ہندوستان بھر میں ان کے بےحساب دوست موجود تھے۔ بقول غالب


رہتی ہےمجھ کو سارے زمانے سے آشتی 

دشمن اگر سات ہیں تو ستر ہزار دوست

Saturday, February 22, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” شاعروں کے لطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر 6


سبق : شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر6


اقتباس: 

مرزا غالب کی قاطع برہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اس کا کیا جواب دو گے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام: مولانا محمد حسین آزاد

صنف : تذکرہ نگاری

ماخذ: آب حیات


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

قاطع برہان۔۔۔۔۔۔ قطعی دلیل، واضح دلیل۔

زبان درازیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گستاخیاں، بدزبانیاں

فلاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوٸی ایک

لات ۔۔۔۔۔۔۔۔پاٶں، دولتی


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” شاعروں کے لطیفے“ کا آخری اقتباس ہے اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب کی کتاب قاطع برہان پر غیر اخلاقی  تنقید کی گٸی جس کا کوٸی جواب نہ دے کر مرزا صاحب نے اعلی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔


تشریح:

مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔سبق ” شاعروں کے لطیفے“ ان کی ایسی تحریر ہے جس میں وہ نامور شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی حاضر دماغی کو اجاگر کرتے ہیں۔

             تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کی حاضر جوابی اور ان کی اعلی ظرفی کو واضح کرتے ہوٸے کہتا ہے کہ مرزا غالب نے فارسی ادب کے حوالے سے ” قاطع برہان“ کے نام سے ایک بلند پایہ کتاب تحریر کی جس پر نام نہاد نقادوں نے بےجا تنقید کی اور اس کے جواب میں خامہ فرساٸی کی۔

                کسی بھی کتاب پر اگر مثبت تنقید کی جاٸے تو وہ بہت فاٸدہ مند ہوتی ہے کیونکہ اس سے اصلاح ہوتی ہے۔ مگر مرزا غالب کی کتاب ”قاطع برہان “کے جواب میں مثبت تنقید کی بجاٸے مرزا کی گستاخیاں اور ان کے خلاف بدزبانی شروع کر دی گٸی۔ کم ظرفی اور براٸی کا جواب براٸی سے نہیں دیا جاتا اور نہ کسی کی بداخلاقی پر اپنے اخلاق حسنہ کو ترک کیا جاتا ہے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے:


” تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں“۔

                      مرزا غالب نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوٸے ان گستاخوں اور بدزبانی کرنے والوں کو کوٸی جواب نہ دیا اور جب کسی شخص نے ان سے کہا کہ آپ بدکلامی اور بدزبانی کرنے والے شخص کی کتاب کا جواب ضرور دیں تو انھوں نے برملا اور  واضح فرمایا کہ اگر گدھا آپ کو لات مار دے تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے۔مطلب یہ کہ کسی کم ظرف کی بات کا جواب  کم ظرفی سے نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کےلیے ہماری خاموشی ہی بہترین جواب ہوتی ہے۔ بقول غالب


غیر کو یارب وہ کیوں کر منع گستاخی کرے 

گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جاٸے ہے

جماعت نہم اردو سبق ” شاعروں کے لطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر5


سبق:  شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر5


اقتباس:

ایک دن معمولی دربار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے۔


حوالہ متن:

 سبق کا عنوان:  شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام:  مولانا محمد حسین آزاد

صنف : تذکرہ نگاری

ماخذ:  آب حیات


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

معمولی ۔۔۔۔ عام سا۔

مرشد زادے۔۔۔۔۔۔ بادشاہ کےبیٹے

تشریف لانا۔۔۔۔۔۔۔ آنا

مرشد زادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔بادشاہ کی بیٹی۔

رخصت ہونا۔۔۔۔۔ چلے جانا

عرض کی ۔۔۔۔۔۔۔کہا

صاحب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کے صاحب، دہلی کے شہزادوں کا لقب۔

صاف۔۔۔۔۔۔ واضح۔

مصرع۔۔۔۔۔۔۔۔شعر کا ایک حصہ

بےتوقف۔۔۔۔۔۔بغیر رکے، فوراً۔


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” شاعروں کے لطیفے“ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مصنف بہادر شاہ ظفر کے ایک بیٹے کی دربار میں اچانک آمد اور اچانک واپسی پر اس کی اور ابراہیم ذوق کی حاضر جوابی کو بیان 

کرتے ہیں۔


تشریح:

مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے۔وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ سبق ” شاعروں کے لطیفے“ ان کی ایسی تحریر ہےجس میں وہ نامور شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی حاضر دماغی کو اجاگر کرتے ہیں۔

            تشریح طلب اقتباس میں مصنف آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ نے معمول کے مطابق دربار لگا رکھا تھا اور ان کے استاد ابراہیم ذوق بھی وہاں موجود تھے۔ اتنے میں بادشاہ کا ایک بیٹا وہاں آگیا۔وہ غالباً گھر سے بادشاہ کی بیٹی یا ان کی بیگمات میں سے کسی بیگم کی طرف سے دیا گیا پیغام بادشاہ تک پہنچانے آیاتھا۔ چناں چہ اس نے سرگوشی کے انداز میں بادشاہ سے بات کی اور واپس جانے لگا۔

              بادشاہ کے معالج خاص حکیم احسن اللہ خان بھی وہاں دربار میں موجود تھے۔جب انھوں نے بادشاہ کے بیٹے کو اس طرح جلدی آتے اور فوراً واپس جاتےدیکھا تو اس سے کہا کہ اے شہزادے اتنی جلدی آنے اور اتنی جلدی واپس جانے کو میں کیا سمجھوں؟ بادشاہ کے بیٹے نے حاضر جوابی سے کہا”

اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے”

 یعنی میں یہاں نہ تو اپنی مرضی سے آیااور نہ اپنی مرضی سے جا رہا ہوں بلکہ کام کی غرض سے آیا تھا۔

           جب شہزادے نے یہ کہا تو بادشاہ نے اپنے استاد کی طرف دیکھ کر کہا کہ استاد محترم کتنا صاف مصرع ہوا ہے: 


” اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے“


اس پر استاد ابراہیم ذوق نے حاضر جوابی سے پہلا مصرع لگا کر شعر مکمل کر دیا


لاٸی  حیات  آٸے  قضا  لے  چلی  چلے 

اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے


مطلب یہ کہ انسان اس کاٸنات میں اپنی خواہش سے آتا ہے اور نہ اپنی خواہش سے جاتا ہے۔ بقول شاعر

 آدمی  بلبلہ  ہے   پانی  کا 

کیا بھروسا ہے زندگانی کا 


اللہ تعالی نے انسان کو زندگی دے کر بھیجا اور پھر وہی اسے موت بھی دے گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:


” وہی اللہ ہے جس نے تمھیں زندگی دی اور وہی تم کو موت دیتا ہے۔“

Friday, February 21, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” شاعروں کے لطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر4

سبق : شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر4

اقتباس:

ایک شاگرد اکثر بےروزگاری کی شکایت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں کے خدا کو ذرا ہمارا بھی سلام کہ دینا۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام:

مولانا محمد حسین آزاد

صنف۔۔۔۔۔۔۔۔ تذکرہ نگاری

ماخذ۔۔۔۔۔۔۔۔آب حیات

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

بےروزگاری۔۔۔۔۔۔۔۔روزگار نہ ہونا

شکایت۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلہ، شکوہ

ارادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قصد

ظاہر کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عیاں کرنا، نمایاں کرنا۔

آزاد مزاجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آزاد طبیعت، شوخ طبیعت

دوگھڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ لمحے،چند پل۔

غنیمت۔۔۔۔۔۔۔مناسب، بہتر

صبر کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قناعت کرنا،تحمل کرنا

رخصت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھٹی، تعطیل، چلے جانا

خیرباشد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر خیریت ہو۔

فرماٸش۔۔۔۔۔۔۔طلب،چاہت۔

موقوف کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔روک دینا۔

خاطر جمعی۔۔۔۔۔۔۔۔ دل جمعی کے ساتھ،دل لگا کر۔

سیاق و سباق: 

تشریح طلب اقتباس درسی سبق” شاعروں کے لطیفے“ سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کاسیاق و سباق یہ ہے کہ خواجہ حیدر علی آتش اپنے شاگرد کو اللہ تعالی پر توکل کرنے کا درس دیتے ہیں اور اسے قناعت کرنے کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔

تشریح:

مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔سبق ” شاعروں کے لطیفے“ ان کی ایسی تحریر ہے جس میں وہ شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی حاضر دماغی کو اجاگر کرتے ہیں۔

             تشریح طلب اقتباس میں مصنف خواجہ حیدر علی آتش اور ان کے شاگرد کے مابین ہونے والے ایک واقعے کو بیان کرتے ہیں کہ خواجہ حیدر علی آتش کے ایک شاگرد کو بےروزگاری نے بہت ستایا ہوا تھا اور وہ اکثر بےروزگاری سے پریشان ہوکر اپنے استاد محترم سے کہیں اور سفر کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا تھا کہ شاید کسی اور جگہ اس کے مقدر میں روزگار لکھا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے:

” دنیا میں ان کی روزی کے ذراٸع ہم نے تقسیم کر رکھے ہیں۔“

        خواجہ حیدرعلی آتش آزاد طبیعت کے مالک تھے اور اپنے دل کی بات موقع پر ہی بیان کر دیتے تھے اس لیے جب انھیں اپنے شاگرد کے اس طرح کہیں اور جانے کے ارادے کا معلوم ہوا تو اس سے کہا کہ میاں تم روزی کےلیے کہاں جاٶ گے؟ اللہ تعالی نے ہمیں جو مل بیٹھنے کا موقع دیا ہے اور جو رزق یہاں عطا فرمایا ہے اسی پر قناعت کرو اور صبروتحمل سے کام لو۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمان ہے:

” بےشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“

             خواجہ کی اس طرح اسے کہیں جانے سے روک ٹوک کے باوجود ایک دن وہ شاگرد ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا حضرت یہاں سےجانا چاہتا ہوں اس لیےآپ سےرخصت لینے آیا ہوں۔آپ نےپوچھاخیریت سے کہاں جانے کا ارادہ ہے تو شاگرد نےجواب دیا بنارس شہر میں جارہا ہوں ۔آپ کی وہاں سےکچھ طلب ہو تومجھے بتا دیجیے۔اس پرخواجہ صاحب نےاسے کہا کہ جب تم وہاں پہنچو تو وہاں کےخدا کو میرا سلام کہ دینا۔ اس پر وہ شاگرد حیران ہوکر رہ گیا۔

جماعت نہم اردو سبق ” شاعروں کےلطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر 3


سبق : شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر 3


اقتباس:

ایک مشاعرے میں شیخ امام بخش ناسخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشتیاق رہا۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام:  مولانا محمد حسین آزاد

صنف:  تذکرہ نگاری

ماخذ:   آب حیات


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

شعرا۔۔۔۔۔۔۔۔شاعر کی جمع، شعروشاعری کرنے والے۔

تعظیم۔۔۔۔۔۔۔ ادب و احترام۔

تعظیم رسمی۔۔۔۔۔۔۔۔ رواج کے مطابق سلام دعا کرنا۔

مزاج پرسی۔۔۔۔۔۔۔ خیریت معلوم کرنا، طبیعت کا پوچھنا۔

اشتیاق۔۔۔۔۔۔۔شوق و ذوق

مطلع۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف موجود ہو۔

شریک۔۔۔۔۔۔۔ شامل ہونا۔

گروہٕ عام۔۔۔۔۔۔ عام افراد کاطبقہ۔

شمار۔۔۔۔۔۔ گنتی

دانہٕ تسبیح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسبیح کا دانہ


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” شاعروں کے لطیفے “ سے اخذ کیا گیا ہےجس میں مصنف مختلف نامور  شعرا کرام کی پرمزاح طبیعت کو عیاں کرتے ہیں۔ اس اقتباس میں بھی ایک مجلس میں امام بخش ناسخ کی حاضر دماغی اور ان کی پرمزاح طبیعت کو اجاگر کیاگیا ہے۔


تشریح:

مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔نفسیاتی حقیقت آراٸی اور مبالغہ آراٸی ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔  سبق ”ںشاعروں کے لطیفے“ میں وہ نامور شعرا کرام  کی زندگی میں  پیش آنے والے مزاح کی چاشنی کو اجاگر کرتے ہیں۔

       تشریح طلب اقتباس میں مصنف ، مشہور شاعر شیخ امام بخش ناسخ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ ایک جلسے میں مدعو تھے مگر وہ بروقت جلسے میں نہ پہنچ سکے بلکہ اس وقت جلسہ گاہ میں پہنچے جب جلسہ ختم ہو چکا تھا مگر اردو کے نامور شاعر خواجہ حیدر علی آتش  اور چند دیگر شعرا  ابھی جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ 

         شیخ امام بخش ناسخ بھی وہاں جاکر بیٹھ گٸے اور سب سے سلام دعاکرنے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے بعد پوچھا کہ کیا مشاعرہ ختم ہوچکا ہے؟ اس پر جلسہ میں موجود شعرا نے جواب دیا کہ سب لوگوں کو آپ کے آنے کا انتظار رہا اور سب آپ کے اشعار سننے کے مشتاق رہے لیکن آپ نے آنے میں دیر کردی جس پر امام بخش ناسخ نے حاضر جوابی سے ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح تسبیح کے دانوں میں امام کا شمار نہیں ہوتا ویسے خاص لوگ بھی عام لوگوں کی محفل میں نہیں بیٹھتے۔ بقول شاعر


میری محبت بھی خاص ہے کیونکہ خاص ہوں میں

سو عام لوگوں میں ذکر اس کا نہیں کروں گا۔

جماعت نہم اردو سبق ” قدر ایاز“ تشریح پیراگراف نمبر11


سبق:  قدر ایاز 

پیراگراف نمبر11


اقتباس:

پھر ماسٹر جی کےلیے بستر لگایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر آرام سےسوگٸے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  قدر ایاز

مصنف کانام:  کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی


اکلوتی۔۔۔۔۔۔۔۔واحد، اکیلی۔

ریشمی۔۔۔۔۔۔۔ ریشم  سے بنی

رضاٸی۔۔۔۔۔موٹا لحاف جس میں روٸی بھری ہوتی ہے۔

جھالر۔۔۔۔۔۔۔ حاشیہ، کنارہ

تکیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرھانا، بالیں

غلاف۔۔۔۔۔ تکیے کے اوپر چڑھا ہوا کپڑا

کڑھی ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔دھاگے سے نقش کیا ہوا

بےشک۔۔۔۔ بلا کسی شبہ کے، بغیر کسی شک و شبہ کے۔

لچک۔۔۔۔۔۔۔نرمی

فٹ کرنا۔۔۔۔۔۔ جوڑنا

اکڑ۔۔۔۔۔۔سختی

دقت۔۔۔۔۔۔۔۔ تکلیف، پریشانی


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” قدر ایاز“ کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ماسٹر جی نے شکار کھیلتے ہوٸے چھوٸے چودھری کے ہاں قیام کیا۔ جہاں چھوٹے چودھری نے رات کو مرغ کے سالن سے ان کی خاطر تواضع کی اور چوپال میں خوب صورت بستر ان کےلیے لگایا۔آدھی رات کو چوپال میں بندھی گھوڑی کی وجہ سےماسٹر جی کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا مگرانھیں دلاسا دے کر دوبارہ سلا دیا گیا۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ان کےطرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ تحریر کےاندر جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں اسے پڑھنے والا خود کواسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔” قدر ایاز “ ان کی ایسی ہی تحریر ہےجس میں وہ دیہاتیوں کےسادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف ماسٹر جی کے چھوٹے چودھری کے ہاں قیام کرنے  کے متعلق بتاتے ہیں کہ چھوٹے چودھری نے ماسٹر جی کی رات کے کھانے میں مرغ کے سالن سے خاطر تواضع کی اور پھر ان کے سونے کےلیے بستر بچھا دیا۔ گاٶں کے دستور میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہاں مہمانوں کےلیے الگ بستر ہمیشہ تیار رکھا جاتا ہے اور کسی مہمان کی آمد پر انھیں پیش کیا جاتا ہے۔ چناں چہ چھوٹے چودھری نے بھی اپنے گھر میں موجود واحد اور منفرد ریشم سے بنی ہوٸی خوب صورت رضاٸی نکلواٸی اور ساتھ میں سرھانا بھی ایسا رکھا جس کے اوپر سفید رنگ غلاف چڑھا ہوا تھا اور اس پر دھاگے کی مدد سے بارہ سنگھے کی خوب صورت تصویر نہایت مہارت کے ساتھ نقش کر دی گٸی تھی اور یہ سب ماسٹر جی کی چارپاٸی پر بچھا دیا گیا۔سرھانا چونکہ بالکل نیا تھا اور استعمال میں نہیں لایاگیا تھا اور اس میں کپاس پوری طرح بھری ہوٸی تھی جس کی وجہ سے اس میں لچک کم تھی اور وہ اکڑا ہوا تھا جس سےماسٹر جی کو اسے سر کے نیچے فٹ کرنے میں مشکل کاسامنا کرنا پڑا لیکن جب انھوں نے تکیے کو آرام دہ محسوس کیا تو وہ آرام سے سو گٸے۔    بقول شاعر


واہ  رے  دیہات  کے  سادہ  تمدن  کی  بہار 

سادگی میں بھی ہے کیاکیا تیرا دامن زرنگار

Wednesday, February 19, 2020

جماعت نہم اردو سبق” شاعروں کے لطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر 2


سبق: شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر2


اقتباس:

ایک دن  انشاء اللہ خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھین لو گے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام: مولانا محمد حسین آزاد

صنف: تذکرہ نگاری

ماخذ: آب حیات


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

ملاقات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملنا، باہم گفتگو کرنا

سرجھکاٸے۔۔۔۔۔۔سر نیچے کیے ہوٸے

سوچ۔۔۔۔۔ غوروفکر

فکر۔۔۔۔۔۔۔ سوچ، پریشانی

مصرع۔۔۔۔۔ شعر کا ایک حصہ۔آدھا شعر

مطلع۔۔۔۔۔۔۔ غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف موجود ہوتا ہے۔

اصرار کرنا۔۔۔۔۔ضد کرنا، زور دینا

زلف۔۔۔۔۔۔بال

پھبتی۔۔۔۔۔مذاق

شب دیجور۔۔۔۔۔۔۔ تاریک رات


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” شاعروں کے لطیفے“ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مصنف دو نامور شعرا  انشاء اللہ خان اور جرأت کی باہم ملاقات کے دوران ان کے ادبی ذوق ،حاضر دماغی اور مزاح کی چاشنی کو بیان کرتے ہیں۔


تشریح:

مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے اور وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔نفسیاتی حقیقت آراٸی اور مبالغہ آراٸی ان کے طرز تحریر کا خاصا ہے۔” سبق شاعروں کے لطیفے“ میں وہ نامور شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کے پُرمزاح حالات کو بیان کرتے ہیں۔

          تشریح طلب اقتباس میں مصنف  نامور شعرا کرام انشاء اللہ خان اور شیخ قلندر بخش جرأت  کے درمیان ہونے والی باہمی ملاقات کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن  انشاء اللہ خان، شیخ فتح قلندر بخش جرأت سے ملنے کےلیے ان کے گھر گٸے تو انھوں نے دیکھا کہ جرأت اپنے سر کو نیچے جھکاٸے  گہری سوچ و فکر میں بیٹھے ہیں۔ انشاء اللہ خان نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ کس غوروخوض میں بیٹھے ہیں؟ اس  پر قلندر بخش جرأت نے جواب دیا کہ غزل کا ایک مصرع ذہن میں آگیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ دوسرا مصرع بھی ذہن میں آ جاٸے تو اپنی غزل کا مطلع بنا لوں۔


”مطلع غزل کا پہلا شعر ہوتا ہے جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف موجود ہوتا ہے“۔ 


             انشاء اللہ خان نے ان سے پوچھا کہ کون سا مصرع ہے کچھ ہمیں بھی تو پتا چلے؟

جس پر جرأت نے واضح کیا کہ مصرع بہت ہی اچھا ہے لیکن جب تک میں دوسرا مصرع نہ سوچ لوں اور اپنا شعر مکمل نہ کرلوں تب تک آپ کو نہیں بتاٶں گا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اگر میں نے وہ مصرع آپ پر عیاں کر دیا تو آپ دوسرا مصرع لگا کر میرا شعر مجھ سے چھین لو گے۔چونکہ  مصرع میرا ہے تو اس کا مکمل شعر بھی میں ہی بناٶں گا۔

Monday, February 17, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” شاعروں کے لطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر1


سبق : شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر1


اقتباس:

ایک دن لکھنو میں میر اور مرزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرزا صاحب کا کلام واہ ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام:  مولانا محمد حسین آزاد

صنف: تذکرہ نگاری

ماخذ: آب حیات


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

تکرار۔۔۔۔۔۔۔بحث و مباحثہ

طول کھینچنا۔۔۔۔۔۔۔ بڑھ جانا

مرید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقیدت مند

خدام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم کی جمع، خدمت گزار

خدام ادب۔۔۔۔۔۔۔ علم و ادب کے خدمت گزار

بالیں۔۔۔۔۔۔۔۔ سرھانا،تکیہ

صاحب کمال۔۔۔۔۔۔۔ کمال رکھنے والا، باکمال، مہارت والا

آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس، دکھ

واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داد تحسین

ٹک ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا

ماجرا ۔۔۔۔۔۔۔ واقعہ، قصہ

داد خواہی۔۔۔۔۔۔۔ تعریف چاہنا، ستاٸش چاہنا

ددا۔۔۔۔۔۔۔۔آیا،بچوں کو دودھ پلانے والی 


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس مولانا محمد حسین آزاد کے تحریر کردہ درسی سبق ” شاعروں کے لطیفے“ سے اخذ کیا گیا ہے۔اس میں مصنف میر  تقی میر اور مرزا رفیع سودا جیسے شعرا کرام کے کلام کے موازنے کے متعلق بتا رہے جسے خواجہ باسط نے اپنے شاگردوں کے سامنے واضح کیا تھا۔


تشریح: 

 

            مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا۔ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔نفسیاتی حقیقت آراٸی اور مبالغہ آراٸی ان کے طرز تحریر کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ سبق” شاعروں کے لطیفے“ میں وہ نامور شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان میں موجود مزاح کی چاشنی کو اجاگر کرتے ہیں۔

               تشریح طلب اقتباس میں مصنف میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے کلام کے حوالے سے خواجہ باسط کی راٸے واضح کرتے ہوٸے کہتے ہیں کہ ایک دن لکھنو شہر میں میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کی شعروشاعری کے متعلق دو آدمیوں میں کافی لمبی بحث چھڑ گٸی۔وہ دونوں خواجہ باسط کے مرید اور عقیدت مند تھے اس لیے انھوں نے باہم ہونے والی بحث کو چھوڑتے ہوٸے خواجہ باسط سے ہی اپنا مسٸلہ حل کرانے کی ٹھان لی۔چناں چہ وہ دونوں صاحب ان کی خدمت میں حاضر ہوٸے اور اپنا تمام مدعا ان کے سامنے بیان کیا۔

                    خواجہ باسط خود اردو ادب کے نامور شاعر تھے اور میر تقی میر اور مرزا رفیع سودا کے کلام پر بھی وسعت نظر رکھتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ میر تقی میر کی شاعری کا ایک خاص رنگ ہے جس میں درد و سوز اور آہ ٹپکتی تھی اس لیے انھوں نے میر تقی میر کے کلام کو” آہ“ یعنی درد و الم کے جذبات سے لبریز کلام کہا۔

سہل   ہے  میر   کا  سمجھنا  کیا

ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے

  جب کہ مرزا رفیع سودا کے کلام کو ”واہ“ کہا کیوں کہ ان کے کلام میں  تازگی، شگفتگی، شور بیاں اور رنگین جذبات زیادہ پاٸے جاتے ہیں اور ان کا کلام داد عیش دینے والا ہوتا ہے۔

Tuesday, February 4, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” قدر ایاز“ تشریح پیراگراف نمبر10

سبق:قدر ایاز

پیراگراف نمبر10


اقتباس:

گاٶں کے بیس باٸیس آدمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی ان کی تواضع کی ترکیب تھی۔


حوالہ متن:

سبق کاعنوان: قدر ایاز

مصنف کا نام: کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

ستھر۔۔۔۔۔۔ سوکھی گھاس کا فرش۔

خیرنال۔۔۔۔۔ خیروخیریت سے

مصافحہ۔۔۔۔۔۔ہاتھ ملا کر سلام کرنا۔

خیریت۔۔۔۔۔ خیر،بھلاٸی۔

چھوٹتے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موقع ملتے ہی۔

شرما کر۔۔۔۔۔۔۔۔ شرم محسوس کرکے

نوبت۔۔۔۔۔۔ حالت

نامولود۔۔۔۔۔ جو ابھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔

برخورداروں۔۔۔۔۔۔۔۔صاحبزادوں

بہرحال۔۔۔۔۔ ہر صورت میں

ملاقاتی۔۔۔۔۔ ملنے کےلیے آنے والا۔

تواضع۔۔۔۔۔۔ خاطر داری، خدمت۔

ترکیب۔۔۔۔۔۔اصول ، طریقہ

رنگیلی۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگی

چارپاٸی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاٹ


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” قدرایاز“ کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ شہر کےایک سکول کے سیکنڈ ماسٹر صاحب جب چھوٹے چودھری کے گاٶں جا پہنچے تو چھوٹا چودھری انھیں چوپال میں لے گیا جہاں گاٶں کے بیس باٸیس افراد ستھر پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ان سب نے ماسٹر جی کا استقبال کیا اور ان کی خیریت پوچھی۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو کے ممتاز مزاح نگار تھے۔انھوں نے روزمرہ کے حالات و واقعات پر اس خوبی سے خامہ فرساٸی کی کہ انھیں پڑھنے والا ان میں  کھو کر ہی رہ جاتا تھا۔ ”قدرایاز “ ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

                      تشریح طلب اقتباس میں مصنف شہر کے سکول کے ایک ماسٹر جی کے گاٶں میں بیتے ایک روز کا واقعہ کا بیان کرتے ہوٸے کہتا ہے کہ چھوٹا چودھری اپنے ماسٹر جی کو ٹھہرانے کی غرض سے اپنی چوپال میں لے گیا جہاں گاٶں کے بیس سے باٸیس افراد پہلے ہی زمین پر بچھے ہوٸے خشک اور نرم گھاس کے فرش پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔اس نرم گھاس کے فرش کو مقامی زبان میں ستھر کہا جاتا تھا۔

                جب ماسٹر جی چوپال میں داخل ہوٸے تو وہاں بیٹھے تمام افراد احتراماً کھڑے ہوگٸے اور ماسٹر جی کا  آمد بخیر کہ کر استقبال کیا۔ وہاں بیٹھے ہر شخص نے ماسٹر جی سے ہاتھ ملا کر سلام کیا اور اپنے گاٶں کے طور طریقے کے مطابق ماسٹر جی کی بیوی بچوں کی خیروخیریت بھی پوچھی۔ماسٹر جی کو جیسے ہی بات کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے شرماتے ہوٸے سب پر باور کر دیا کہ ابھی ان کی شادی ہی نہیں ہوٸی تو بیوی بچوں کی خیریت پوچھنا بےمعنی ہے۔ ماسٹر جی کی وضاحت کے باوجود جو بھی ان سے ملنے آتا تو ماسٹر جی کے  ان بچوں کی خیریت ضرور پوچھتا جن کا ابھی اس دنیا میں کوٸی  وجود ہی عمل میں  نہیں آیا تھا کیونکہ ان دیہاتی لوگوں کا اصول ہی یہی تھا کہ وہ جس سے بھی ملتے تو سلام دعا کے بعد بیوی بچوں کی خیریت ضرور معلوم کرتے۔

                    ماسٹر جی نے پتلون پہن رکھی تھی جو گھاس کے فرش پر بیٹھنے سے خراب ہوسکتی تھی اس بات سے بچنے کےلیے اور ان کی بہتر مہمان نوازی کی غرض سے انھیں چوپال میں رنگین چارپاٸی پر بٹھا دیا گیا۔ بقول شاعر


واہ   رے  دیہات  کے  سادہ  تمدن  کی  بہار

سادگی میں بھی ہے کیاکیا تیرا دامن زرنگار

Saturday, February 1, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” قدر ایاز“ تشریح پیراگراف نمبر 9


سبق: قدر ایاز
پیراگراف نمبر9
  
اقتباس:
یہ نہیں کہ چھوٹا چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستھر پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: قدر ایاز
مصنف کا نام: کرنل محمد خان

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
مہمان نواز۔۔۔۔۔۔۔۔مہمانوں کے خدمت گزار۔
مہمان نوازی۔۔۔۔۔۔ مہمانوں کی خاطرتواضع کرنا
یقین۔۔۔۔۔۔۔اعتماد، بھروسا
بہرحال۔۔۔۔۔۔۔جو بھی صورت ہو ، جو بھی ہو۔
تواضع ۔۔۔۔۔۔ خدمت، خاطر داری
بصد تعظیم۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت احترام کے ساتھ، عزت کے ساتھ۔
چوپال۔۔۔۔۔ بیٹھک
عین۔۔۔۔۔۔ بالکل
مرکز۔۔۔۔۔۔ وسط، درمیان میں
بیک وقت۔۔۔۔۔۔ایک ہی وقت میں
تاریکی۔۔۔۔۔۔۔اندھیرا
آتش دان۔۔۔۔۔۔۔چولھا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق” قدر ایاز“ کے وسط سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ماسٹر جی نے سکول میں چھوٹے چودھری سے کہ رکھا تھا کہ ایک دن وہ اس کے مہمان بنیں گے۔ چناں چہ جب شکار کھیلتے ہوٸے ماسٹر جی سچ مچ چھوٹے چودھری کے گھر پہنچ گٸے تو چھوٹا چودھری فکرمند ہوگیا کہ وہ استاد محترم کی بجا طور پر خدمت کرسکے گا یا نہیں۔وہ اپنے استاد کو چوپال میں لے گیا۔

تشریح:
سبق ” قدر ایاز“ کے مصنف کرنل محمد خان کا شمار اردو کے ممتاز مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ اپنی تحریروں میں جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں انھیں پڑھنے والا خود کو بھی اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔ ”قدر ایاز“ بھی ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔
               تشریح طلب اقتباس میں مصنف ماسٹر جی کے چھوٹے چودھری کے ہاں مہمان بننے کے بارے میں بتاتا ہےکہ جب ماسٹر جی شکار کھیلتے کھیلتے چھوٹے چودھری کے ہاں جا پہنچے تو چھوٹا چودھری قدرے فکر مند ہوگیا۔ اس کی فکرمندی کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ وہ اور اس کے گھر والے مہمانوں کے آنے سے اور ان کی میزبانی کرنے سے گھبراتے تھے بلکہ اس کی فکر مندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ماسٹر جی شہر کے ماحول میں رہتے تھے جبکہ چھوٹے چودھری کے گاٶں کا ماحول اور وہاں کی سہولیات شہر سے کافی مختلف تھیں اس لیے اسے یہ فکر تھی کہ وہ ماسٹر جی کی بجا طور پر مہمان نوازی کرسکے گا یا نہیں اور مزید یہ کہ اس کی مہمان نوازی اور خدمت گزاری ماسٹر جی کے مزاج اور ان کی چاہت کے مطابق ہو پاٸے گی یا نہیں۔
       چناں چہ اسی فکر مندی میں اور محدود وساٸل کے باوجود چھوٹے چودھری نے اپنی مہمان نوازی کا آغاز بالآخر کر ہی دیا۔ جیساکہ حدیث مبارکہ ہے:

”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔“
 
               چھوٹاچودھری اور اس کا بڑا بھاٸی ماسٹر جی کو ادب اور احترام کے ساتھ اپنی اس بیٹھک میں لے گٸے جہاں گاٶں کے لوگ اپنےمساٸل کے حل کےلیے صلاح مشورٕے کرتے تھے۔اس بیٹھک کے دو حصے بنے ہوٸے تھے۔ایک حصے میں چھوٹے چودھری نے اپنی گھوڑی باندھ رکھی تھی اور دوسرے حصے کے بالکل وسط میں آگ کےلیے چولھا بنایا گیا تھا اور اس چولھے سے دھواں اور آگ کے شعلے  ایک ساتھ بلند ہوکر بیٹھک میں روشنی اور اندھیرے کا باعث بن رہے تھے یعنی جب آگ بڑھکتی تو روشنی بڑھ جاتی تھی اور اگر آگ مدھم ہوتی تو قدرے اندھیرا چھا جاتا۔
         آگ کے اس چولھے کے اردگرد خشک مگر نرم اور گرم گھاس کا فرش بنا ہوا تھا جسے اس گاٶں کی بول چال میں ” ستھر“ کہا جاتا تھا اور ”ستھر“ کا مطلب گھاس سے بنا نرم فرش ہی ہے۔اس گھاس سے بنے  فرش پر گاٶں کے بیس سے باٸیس افراد بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ بقول شاعر

واہ  رے  دیہات  کے  سادہ  تمدن   کی  بہار
سادگی میں بھی ہے کیاکیا تیرا دامن زرنگار

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...