Friday, February 21, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” قدر ایاز“ تشریح پیراگراف نمبر11


سبق:  قدر ایاز 

پیراگراف نمبر11


اقتباس:

پھر ماسٹر جی کےلیے بستر لگایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر آرام سےسوگٸے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان:  قدر ایاز

مصنف کانام:  کرنل محمد خان


خط کشیدہ الفاظ کے معانی


اکلوتی۔۔۔۔۔۔۔۔واحد، اکیلی۔

ریشمی۔۔۔۔۔۔۔ ریشم  سے بنی

رضاٸی۔۔۔۔۔موٹا لحاف جس میں روٸی بھری ہوتی ہے۔

جھالر۔۔۔۔۔۔۔ حاشیہ، کنارہ

تکیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سرھانا، بالیں

غلاف۔۔۔۔۔ تکیے کے اوپر چڑھا ہوا کپڑا

کڑھی ہونا۔۔۔۔۔۔۔۔دھاگے سے نقش کیا ہوا

بےشک۔۔۔۔ بلا کسی شبہ کے، بغیر کسی شک و شبہ کے۔

لچک۔۔۔۔۔۔۔نرمی

فٹ کرنا۔۔۔۔۔۔ جوڑنا

اکڑ۔۔۔۔۔۔سختی

دقت۔۔۔۔۔۔۔۔ تکلیف، پریشانی


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” قدر ایاز“ کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ماسٹر جی نے شکار کھیلتے ہوٸے چھوٸے چودھری کے ہاں قیام کیا۔ جہاں چھوٹے چودھری نے رات کو مرغ کے سالن سے ان کی خاطر تواضع کی اور چوپال میں خوب صورت بستر ان کےلیے لگایا۔آدھی رات کو چوپال میں بندھی گھوڑی کی وجہ سےماسٹر جی کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا مگرانھیں دلاسا دے کر دوبارہ سلا دیا گیا۔


تشریح:

کرنل محمد خان اردو کے ممتاز مزاح نگار ہیں۔ان کےطرز تحریر میں یہ خوبی ملتی ہے کہ وہ تحریر کےاندر جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں اسے پڑھنے والا خود کواسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔” قدر ایاز “ ان کی ایسی ہی تحریر ہےجس میں وہ دیہاتیوں کےسادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔

        تشریح طلب اقتباس میں مصنف ماسٹر جی کے چھوٹے چودھری کے ہاں قیام کرنے  کے متعلق بتاتے ہیں کہ چھوٹے چودھری نے ماسٹر جی کی رات کے کھانے میں مرغ کے سالن سے خاطر تواضع کی اور پھر ان کے سونے کےلیے بستر بچھا دیا۔ گاٶں کے دستور میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہاں مہمانوں کےلیے الگ بستر ہمیشہ تیار رکھا جاتا ہے اور کسی مہمان کی آمد پر انھیں پیش کیا جاتا ہے۔ چناں چہ چھوٹے چودھری نے بھی اپنے گھر میں موجود واحد اور منفرد ریشم سے بنی ہوٸی خوب صورت رضاٸی نکلواٸی اور ساتھ میں سرھانا بھی ایسا رکھا جس کے اوپر سفید رنگ غلاف چڑھا ہوا تھا اور اس پر دھاگے کی مدد سے بارہ سنگھے کی خوب صورت تصویر نہایت مہارت کے ساتھ نقش کر دی گٸی تھی اور یہ سب ماسٹر جی کی چارپاٸی پر بچھا دیا گیا۔سرھانا چونکہ بالکل نیا تھا اور استعمال میں نہیں لایاگیا تھا اور اس میں کپاس پوری طرح بھری ہوٸی تھی جس کی وجہ سے اس میں لچک کم تھی اور وہ اکڑا ہوا تھا جس سےماسٹر جی کو اسے سر کے نیچے فٹ کرنے میں مشکل کاسامنا کرنا پڑا لیکن جب انھوں نے تکیے کو آرام دہ محسوس کیا تو وہ آرام سے سو گٸے۔    بقول شاعر


واہ  رے  دیہات  کے  سادہ  تمدن  کی  بہار 

سادگی میں بھی ہے کیاکیا تیرا دامن زرنگار

No comments:

Post a Comment

پیراگراف نمبر3 استنبول

                     03065976174              سبق:      استنبول               aufsurani.blogspot.com                                        ...