Saturday, February 22, 2020

جماعت نہم اردو سبق ” شاعروں کے لطیفے“ تشریح پیراگراف نمبر5


سبق:  شاعروں کے لطیفے

پیراگراف نمبر5


اقتباس:

ایک دن معمولی دربار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے۔


حوالہ متن:

 سبق کا عنوان:  شاعروں کے لطیفے

مصنف کا نام:  مولانا محمد حسین آزاد

صنف : تذکرہ نگاری

ماخذ:  آب حیات


خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

معمولی ۔۔۔۔ عام سا۔

مرشد زادے۔۔۔۔۔۔ بادشاہ کےبیٹے

تشریف لانا۔۔۔۔۔۔۔ آنا

مرشد زادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔بادشاہ کی بیٹی۔

رخصت ہونا۔۔۔۔۔ چلے جانا

عرض کی ۔۔۔۔۔۔۔کہا

صاحب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کے صاحب، دہلی کے شہزادوں کا لقب۔

صاف۔۔۔۔۔۔ واضح۔

مصرع۔۔۔۔۔۔۔۔شعر کا ایک حصہ

بےتوقف۔۔۔۔۔۔بغیر رکے، فوراً۔


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” شاعروں کے لطیفے“ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مصنف بہادر شاہ ظفر کے ایک بیٹے کی دربار میں اچانک آمد اور اچانک واپسی پر اس کی اور ابراہیم ذوق کی حاضر جوابی کو بیان 

کرتے ہیں۔


تشریح:

مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے۔وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ سبق ” شاعروں کے لطیفے“ ان کی ایسی تحریر ہےجس میں وہ نامور شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی حاضر دماغی کو اجاگر کرتے ہیں۔

            تشریح طلب اقتباس میں مصنف آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن بادشاہ نے معمول کے مطابق دربار لگا رکھا تھا اور ان کے استاد ابراہیم ذوق بھی وہاں موجود تھے۔ اتنے میں بادشاہ کا ایک بیٹا وہاں آگیا۔وہ غالباً گھر سے بادشاہ کی بیٹی یا ان کی بیگمات میں سے کسی بیگم کی طرف سے دیا گیا پیغام بادشاہ تک پہنچانے آیاتھا۔ چناں چہ اس نے سرگوشی کے انداز میں بادشاہ سے بات کی اور واپس جانے لگا۔

              بادشاہ کے معالج خاص حکیم احسن اللہ خان بھی وہاں دربار میں موجود تھے۔جب انھوں نے بادشاہ کے بیٹے کو اس طرح جلدی آتے اور فوراً واپس جاتےدیکھا تو اس سے کہا کہ اے شہزادے اتنی جلدی آنے اور اتنی جلدی واپس جانے کو میں کیا سمجھوں؟ بادشاہ کے بیٹے نے حاضر جوابی سے کہا”

اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے”

 یعنی میں یہاں نہ تو اپنی مرضی سے آیااور نہ اپنی مرضی سے جا رہا ہوں بلکہ کام کی غرض سے آیا تھا۔

           جب شہزادے نے یہ کہا تو بادشاہ نے اپنے استاد کی طرف دیکھ کر کہا کہ استاد محترم کتنا صاف مصرع ہوا ہے: 


” اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے“


اس پر استاد ابراہیم ذوق نے حاضر جوابی سے پہلا مصرع لگا کر شعر مکمل کر دیا


لاٸی  حیات  آٸے  قضا  لے  چلی  چلے 

اپنی خوشی سے آٸے نہ اپنی خوشی چلے


مطلب یہ کہ انسان اس کاٸنات میں اپنی خواہش سے آتا ہے اور نہ اپنی خواہش سے جاتا ہے۔ بقول شاعر

 آدمی  بلبلہ  ہے   پانی  کا 

کیا بھروسا ہے زندگانی کا 


اللہ تعالی نے انسان کو زندگی دے کر بھیجا اور پھر وہی اسے موت بھی دے گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:


” وہی اللہ ہے جس نے تمھیں زندگی دی اور وہی تم کو موت دیتا ہے۔“

No comments:

Post a Comment

پیراگراف نمبر8 خطوط غالب

                     03065976174            سبق:    خطوط غاؔلب               aufsurani.blogspot.com                                         ...