سبق : شاعروں کے لطیفے
پیراگراف نمبر4
اقتباس:
ایک شاگرد اکثر بےروزگاری کی شکایت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں کے خدا کو ذرا ہمارا بھی سلام کہ دینا۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: شاعروں کے لطیفے
مصنف کا نام:
مولانا محمد حسین آزاد
صنف۔۔۔۔۔۔۔۔ تذکرہ نگاری
ماخذ۔۔۔۔۔۔۔۔آب حیات
خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
بےروزگاری۔۔۔۔۔۔۔۔روزگار نہ ہونا
شکایت۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلہ، شکوہ
ارادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قصد
ظاہر کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔عیاں کرنا، نمایاں کرنا۔
آزاد مزاجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آزاد طبیعت، شوخ طبیعت
دوگھڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ لمحے،چند پل۔
غنیمت۔۔۔۔۔۔۔مناسب، بہتر
صبر کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قناعت کرنا،تحمل کرنا
رخصت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھٹی، تعطیل، چلے جانا
خیرباشد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر خیریت ہو۔
فرماٸش۔۔۔۔۔۔۔طلب،چاہت۔
موقوف کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔روک دینا۔
خاطر جمعی۔۔۔۔۔۔۔۔ دل جمعی کے ساتھ،دل لگا کر۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق” شاعروں کے لطیفے“ سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کاسیاق و سباق یہ ہے کہ خواجہ حیدر علی آتش اپنے شاگرد کو اللہ تعالی پر توکل کرنے کا درس دیتے ہیں اور اسے قناعت کرنے کی طرف رغبت دلاتے ہیں۔
تشریح:
مولانا محمد حسین آزاد اردو ادب کے صاحب طرز نثر نگار ہیں۔ ان کا اسلوب بیان تمثیلی ہوتا ہے۔ وہ اپنے اسلوب کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔سبق ” شاعروں کے لطیفے“ ان کی ایسی تحریر ہے جس میں وہ شعرا کرام کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی حاضر دماغی کو اجاگر کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف خواجہ حیدر علی آتش اور ان کے شاگرد کے مابین ہونے والے ایک واقعے کو بیان کرتے ہیں کہ خواجہ حیدر علی آتش کے ایک شاگرد کو بےروزگاری نے بہت ستایا ہوا تھا اور وہ اکثر بےروزگاری سے پریشان ہوکر اپنے استاد محترم سے کہیں اور سفر کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا تھا کہ شاید کسی اور جگہ اس کے مقدر میں روزگار لکھا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے:
” دنیا میں ان کی روزی کے ذراٸع ہم نے تقسیم کر رکھے ہیں۔“
خواجہ حیدرعلی آتش آزاد طبیعت کے مالک تھے اور اپنے دل کی بات موقع پر ہی بیان کر دیتے تھے اس لیے جب انھیں اپنے شاگرد کے اس طرح کہیں اور جانے کے ارادے کا معلوم ہوا تو اس سے کہا کہ میاں تم روزی کےلیے کہاں جاٶ گے؟ اللہ تعالی نے ہمیں جو مل بیٹھنے کا موقع دیا ہے اور جو رزق یہاں عطا فرمایا ہے اسی پر قناعت کرو اور صبروتحمل سے کام لو۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمان ہے:
” بےشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
خواجہ کی اس طرح اسے کہیں جانے سے روک ٹوک کے باوجود ایک دن وہ شاگرد ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا حضرت یہاں سےجانا چاہتا ہوں اس لیےآپ سےرخصت لینے آیا ہوں۔آپ نےپوچھاخیریت سے کہاں جانے کا ارادہ ہے تو شاگرد نےجواب دیا بنارس شہر میں جارہا ہوں ۔آپ کی وہاں سےکچھ طلب ہو تومجھے بتا دیجیے۔اس پرخواجہ صاحب نےاسے کہا کہ جب تم وہاں پہنچو تو وہاں کےخدا کو میرا سلام کہ دینا۔ اس پر وہ شاگرد حیران ہوکر رہ گیا۔
No comments:
Post a Comment