Tuesday, February 25, 2020

جماعت نہم اردو سبق ”مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ تشریح پیراگراف نمبر2


سبق: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل

پیراگراف نمبر2

اقتباس:

 مروت اور لحاظ مرزا کی طبیعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جاٸے۔

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات خصاٸل۔

مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی۔

صنف: سوانح نگاری

ماخذ: یادگار غالب

خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔

مروت۔۔۔۔۔۔۔۔ لحاظ، پاس رکھنا۔

مروت اور لحاظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رعایت برتنا، پاس رکھنا۔

بدرجہ غایت۔۔۔۔۔۔۔۔بہت حد تک، بدرجہ اتم۔

باوجودیکہ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود

طبیعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزاج

اخیر عمر۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کے آخری ایام ،بڑھاپےمیں۔

اصلاح۔۔۔۔۔۔۔۔ درستی۔

بایں ہمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے باوجود۔

احباب۔۔۔۔۔۔ حبیب کی جمع، دوست۔

 خدمت بجا لانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدمت کرنا،تواضع کرنا۔

اوراق۔۔۔۔۔۔۔۔ ورق کی جمع، صفحات۔

اوراق اشعار۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ صفحات جن پر اشعار لکھے ہوتے ہیں۔

سوجھے۔۔۔۔۔۔۔۔ دکھاٸی دے۔

سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ کے ابتداٸی حصے سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب کے بےشمار دوست تھے۔وہ ان کی فرماٸشوں سے تنگ نہیں ہوتے تھے۔اپنے دوستوں کے اشعار کی بھی اصلاح کر دیتے تھے۔قلیل آمدنی کے باوجود فراخ دل تھے اور ضرورت مندوں کی مدد ضرور کرتے تھے۔

تشریح:

مولانا الطاف حسین حالی نامور مضمون نگار، نقاد اور سوانح نگار تھے۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری ہے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی سادہ اور دلکش ہوتا ہے۔مدلل عبارت ان کی تحریر کا حسن ہے۔ مرزا غالب سے ان کی ملاقات نواب مصطفی خان شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ مولانا نےغالب کی سوانح عمری ” یادگار غالب “کے نام سے تحریر کی۔ درسی سبق ” مرزاغالب کے عادات و خصاٸل “اسی کتاب  سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار کو انتہاٸی نفاست سے بیان کیا ہے۔

             تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کی انسانیت نوازی اور ان کی خوش اخلاقی کو بیان کرتے ہوٸے کہتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت، دوسروں کا لحاظ اور لوگوں سے عزت اور احترام سے پیش آنا ان کے مزاج کا خاصا تھا۔ان کے پاس ان کے بہت سے دوست احباب اور دیگر لوگ اپنے شعری کلام کی اصلاح لینے کےلیے آتے تھے اور وہ ان کی اصلاح کر دیتے تھے۔ 

          عمر کے آخری حصے میں بڑھاپے اور علالت کی وجہ سے وہ اشعار کی درستی کرنے اور علم العروض کے حوالے سے ان کو پرکھنے میں پریشانی اور دقت محسوس کرتے تھے۔ اس دقت کے باوجود بھی وہ کسی کو انکار نہ کرتے بلکہ کوٸی بھی ان کے سامنے قصیدہ یا غزل اصلاح کی غرض سے لاتا تو وہ اس کی اصلاح ضرور کر دیتے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ خود سے زیادہ دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دیتے تھے۔  بقول شاعر

اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں

ہے  زندگی  کا  مقصد   اوروں  کے  کام   آنا

           مرزا غالب اپنی مجبوری اور علالت کو مدنظر رکھ کر اگر کسی کو انکار بھی کرتے تو اچھے انداز سے کرتے تھے۔ جیساکہ وہ اپنے دوستوں میں سے ایک صاحب کو لکھتےہیں کہ دوست احباب کےلیے مجھ سے جتنا بھی ہوسکا میں کرتا رہا۔ جو کوٸی بھی مجھے اصلاح کی غرض سے اپنے لکھے ہوٸے اشعار بھیجتا تو میں ان کی اصلاح اور درستی ضرور کر دیتا تھا مگر اب عمر کے آخری ایام میں آنکھوں سے اچھی طرح دکھاٸی دیتا ہے اور نہ ہاتھ سے اچھی طرح لکھا جاتا ہے اس وجہ سے مجھے اب لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ قول ہے:

”مجبوری اور بےبسی انسان کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے“۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف نمبر3 استنبول

                     03065976174              سبق:      استنبول               aufsurani.blogspot.com                                        ...