سبق: قدر ایاز
پیراگراف نمبر9
اقتباس:
یہ نہیں کہ چھوٹا چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستھر پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: قدر ایاز
مصنف کا نام: کرنل محمد خان
خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
مہمان نواز۔۔۔۔۔۔۔۔مہمانوں کے خدمت گزار۔
مہمان نوازی۔۔۔۔۔۔ مہمانوں کی خاطرتواضع کرنا
یقین۔۔۔۔۔۔۔اعتماد، بھروسا
بہرحال۔۔۔۔۔۔۔جو بھی صورت ہو ، جو بھی ہو۔
تواضع ۔۔۔۔۔۔ خدمت، خاطر داری
بصد تعظیم۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت احترام کے ساتھ، عزت کے ساتھ۔
چوپال۔۔۔۔۔ بیٹھک
عین۔۔۔۔۔۔ بالکل
مرکز۔۔۔۔۔۔ وسط، درمیان میں
بیک وقت۔۔۔۔۔۔ایک ہی وقت میں
تاریکی۔۔۔۔۔۔۔اندھیرا
آتش دان۔۔۔۔۔۔۔چولھا
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق” قدر ایاز“ کے وسط سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ماسٹر جی نے سکول میں چھوٹے چودھری سے کہ رکھا تھا کہ ایک دن وہ اس کے مہمان بنیں گے۔ چناں چہ جب شکار کھیلتے ہوٸے ماسٹر جی سچ مچ چھوٹے چودھری کے گھر پہنچ گٸے تو چھوٹا چودھری فکرمند ہوگیا کہ وہ استاد محترم کی بجا طور پر خدمت کرسکے گا یا نہیں۔وہ اپنے استاد کو چوپال میں لے گیا۔
تشریح:
سبق ” قدر ایاز“ کے مصنف کرنل محمد خان کا شمار اردو کے ممتاز مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ اپنی تحریروں میں جس ماحول کی منظر کشی کرتے ہیں انھیں پڑھنے والا خود کو بھی اسی ماحول میں محسوس کرتا ہے۔ ”قدر ایاز“ بھی ان کی ایسی ہی تحریر ہے جس میں وہ دیہاتیوں کے سادہ مگر پرخلوص رویوں کو اجاگر کرتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف ماسٹر جی کے چھوٹے چودھری کے ہاں مہمان بننے کے بارے میں بتاتا ہےکہ جب ماسٹر جی شکار کھیلتے کھیلتے چھوٹے چودھری کے ہاں جا پہنچے تو چھوٹا چودھری قدرے فکر مند ہوگیا۔ اس کی فکرمندی کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ وہ اور اس کے گھر والے مہمانوں کے آنے سے اور ان کی میزبانی کرنے سے گھبراتے تھے بلکہ اس کی فکر مندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ماسٹر جی شہر کے ماحول میں رہتے تھے جبکہ چھوٹے چودھری کے گاٶں کا ماحول اور وہاں کی سہولیات شہر سے کافی مختلف تھیں اس لیے اسے یہ فکر تھی کہ وہ ماسٹر جی کی بجا طور پر مہمان نوازی کرسکے گا یا نہیں اور مزید یہ کہ اس کی مہمان نوازی اور خدمت گزاری ماسٹر جی کے مزاج اور ان کی چاہت کے مطابق ہو پاٸے گی یا نہیں۔
چناں چہ اسی فکر مندی میں اور محدود وساٸل کے باوجود چھوٹے چودھری نے اپنی مہمان نوازی کا آغاز بالآخر کر ہی دیا۔ جیساکہ حدیث مبارکہ ہے:
”جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔“
چھوٹاچودھری اور اس کا بڑا بھاٸی ماسٹر جی کو ادب اور احترام کے ساتھ اپنی اس بیٹھک میں لے گٸے جہاں گاٶں کے لوگ اپنےمساٸل کے حل کےلیے صلاح مشورٕے کرتے تھے۔اس بیٹھک کے دو حصے بنے ہوٸے تھے۔ایک حصے میں چھوٹے چودھری نے اپنی گھوڑی باندھ رکھی تھی اور دوسرے حصے کے بالکل وسط میں آگ کےلیے چولھا بنایا گیا تھا اور اس چولھے سے دھواں اور آگ کے شعلے ایک ساتھ بلند ہوکر بیٹھک میں روشنی اور اندھیرے کا باعث بن رہے تھے یعنی جب آگ بڑھکتی تو روشنی بڑھ جاتی تھی اور اگر آگ مدھم ہوتی تو قدرے اندھیرا چھا جاتا۔
آگ کے اس چولھے کے اردگرد خشک مگر نرم اور گرم گھاس کا فرش بنا ہوا تھا جسے اس گاٶں کی بول چال میں ” ستھر“ کہا جاتا تھا اور ”ستھر“ کا مطلب گھاس سے بنا نرم فرش ہی ہے۔اس گھاس سے بنے فرش پر گاٶں کے بیس سے باٸیس افراد بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ بقول شاعر
واہ رے دیہات کے سادہ تمدن کی بہار
سادگی میں بھی ہے کیاکیا تیرا دامن زرنگار
No comments:
Post a Comment