سبق: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل۔
پیراگراف نمبر4
اقتباس:
ظرافت مزاج میں اس قدر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نہیں رکھا۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: مرزا غالب کے عادات و خصاٸل
مصنف کا نام: مولانا الطاف حسین حالی
صنف: سوانح نگاری
ماخذ: یادگار غالب
خط کشیدہ الفاظ کے معانی۔
ظرافت۔۔۔۔۔۔۔۔ خوش مزاجی۔
حیوان ناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بولنے والا جانور مراد عام انسان جو بول چال کرتا ہے۔
حیوان ظریف۔۔۔۔۔۔۔ خوش طبع انسان
قلعہ۔۔۔۔۔۔اونچا حصار۔
پیرومرشد۔۔۔۔۔۔۔۔ روحانی بزرگ جس کے بہت سے عقیدت مند ہوں۔
چھتا۔۔۔۔۔۔۔۔ ساٸبان۔
دیوان خانے۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھک، نشست گاہ۔
سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل “ کے درمیان سےاخذ کیاگیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مرزا غالب دوستوں کے ساتھ شریفانہ سلوک کرتے تھے اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔انھوں نے اپنے دوست کو حقیر کپڑا پہنے دیکھا تو غیرمحسوس انداز میں اسے اپنا مالیدہ کا نیا چوغہ پہنا دیا۔مرزا غالب حاضر جوابی میں بھی اپنا کوٸی ثانی نہیں رکھتے تھے۔
تشریح:
مولانا الطاف حسین حالی اردو ادب کے نامور مصنف اور شاعر تھے۔ ان کا طرز تحریر انتہاٸی جامع اور مدلل ہوتا تھا۔ان کے اسلوب بیان کی سب سے نمایاں خوبی مدعا نگاری تھی۔ وہ اپنی نثری تحریروں میں اعتدال و توازن کاخاص خیال رکھتے تھے۔مرزا غالب سے ان کی دوستی نواب مصطفی شیفتہ کے ذریعے ہوٸی۔ انھوں نے مرزا غالب کی سوانح عمری ” یادگارغالب “ کے نام سے لکھی۔ سبق ” مرزا غالب کے عادات و خصاٸل“ اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس میں مولانا نے مرزا غالب کے عادات و اطوار اور اخلاق کو نفاست پسندی سے بیان کیا ہے۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف مرزا غالب کے بلند اخلاق اور ان کی خوش مزاجی کو اجاگر کرتے ہوٸے کہتے ہیں کہ وہ اعلی ظرف رکھنے کے ساتھ ساتھ خوش طبع انسان بھی تھے۔ انسان کو معاشرتی جانور تو کہا ہی جاتا ہے لیکن مصنف مرزا غالب کی بلند اخلاقی اور خوش طبعی جیسی صفات کو پسند کرتے ہوٸے انھیں حیوان ناطق یعنی بولنے والے انسان کی بجاٸے حیوان ظریف یعنی ہنسنے ہنسانے اور مسکراہٹیں بکھیرنے والا انسان کہتے ہیں۔ جیسا کہ قول ہے:
” اگر تم کسی کو اور کچھ نہیں دے سکتے تو ایک مسکراہٹ ہی دے دیا کرو“۔
مرزا غالب خوش طبع انسان ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر جواب بھی تھے۔ ان کی خوش مزاجی اور حاضر دماغی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بار رمضان کا مہینہ گزر جانے کے بعد وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں گٸے تو بادشاہ نے پوچھا کہ مرزا تم نے ماہ رمضان میں کتنے روزے رکھے۔اس پر مرزا غالب نے احسن طریقے سے اپنی خطاپوشی کرتے ہوٸے ذومعنی انداز میں جواب دیا کہ میرے پیرومرشد جی ایک نہیں رکھا۔ بقول شاعر
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
No comments:
Post a Comment