Popular Posts

Sunday, March 10, 2019

الف: ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی پالکی کے پاس بول رہا ہو...................... آنکھیں بند کرلیں اور کلمہ پڑھنے لگی. حوالہ متن: سبق کا نام: پرستان کی شہزادی مصنف کانام: اشرف صبوحی ماخذ: دلی کی چند عجیب ہستیاں صنف: داستان. خط کشیدہ الفاظ کے معانی پالکی: ڈولی, فینس بےچاکی: بےڈھنگی, بدصورت کہار: پالکی اٹھانے والے دم گھٹنا: سانس رکنا. سیاق و سباق: تشریح طلب اقتباس اشرف صبوحی کی تحریر کردہ داستان "پرستان کی شہزادی" کے درمیان میں سے لیا گیا ہے جس میں ایک سیدانی بی کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ مغلانی تھیں جو نوابوں اور امیروں کے کپڑے سیتی تھیں اور اپنے فن میں اپنی مثال آپ تھیں..خاندان مرہٹہ گردی کا شکار ہوگیا..جوانی اچھے طریقے سے گزر گئی مگر بڑھاپے میں کوئی ان سے نہ پوچھتا تھا اس لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں..یہ تو بھلا ہو میر صاحب کی بیوی کا جو ترس کھا کر سیدانی بی کو اپنے پاس رکھ لیا جہاں وہ میر صاحب کی بیوی بچوں کو پرستان کے سفر کی داستان بیان کر رہی تھیں کہ پہلی مرتبہ اسے دھوکے سے پرستان لے جایا گیا تاکہ بادشاہ کی بیٹی کا جہیز ٹانک سکے..وہ بے حد خوف زدہ تھی مگر پرستان جا کر اس کا خوف ختم ہوگیا اور وہ عمدگی سے جہیز ٹانک کر واپس آگئی.. تشریح: اشرف صبوحی اردو ادب کے نامور شاعر اور ادیب ہیں..انھوں نے اردو ادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں..انھوں "دلی کی چند عجیب ہستیاں" کے نام سے اپنی پہلی کتاب شائع کی اور اسی کتاب سے ان کی تخیلی داستان "پرستان کی شہزادی" اخذ کی گئی..یہ داستان ایک سیدانی بی کے گرد گھومتی ہے جس کا خاندان مرہٹہ گردی کا شکار ہوگیا..وہ میر صاحب کی بیوی کے پاس رہ رہی تھیں اور اسے اور اس کے بچوں کو پرستان کے سفر کا حال بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں جب میں نے قاضی واڑے اور خانم کے بازار سے گزرتے ہوئے ہٹو بچو کی آواز نہ سنی تو پوچھا کہ اسے کہاں لے جایا جا رہا ہے تو اسے بتایا گیا کہ اسے پرستان کے بادشاہ نے اپنی بیٹی کے جہیز ٹانکنے کےلیے بلایا ہے.. سیدانی بی کہتی ہیں یہ آواز سن کر مجھےیوں لگا جیسے کوئی میری ڈولی کے پاس سے بول رہا ہے جس میں میں سفر کر رہی تھی.میں نے اپنا منھ باہر نکال کر دیکھا تو بیگم وہ سماں میں کیسے بیان کروں..مجھے ایک بےڈھنگی شکل کا اور بدصورت آدمی نظر آیا جس کا منھ بکرے کی طرح اور ٹانگیں گھوڑے جیسی تھیں جبکہ پالکی کو اٹھانے والے کہار تھے نہ کہاریاں بلکہ وہ بغیر کسی سہارے کے خود بخود چلی جا رہی تھی..یہ سب دیکھ کر خوف آنا فطری بات ہے اس لیے میرا بھی ڈر کے مارے سانس بند ہونے لگا اور میں نے خوف کے مارے آنکھیں بند کرلیں اور کلمہ پڑھنے لگی ..بقول منیر نیازی. بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب رکا ہوا ہوں سفر میں, کسی دیار میں ہوں..

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...