Popular Posts

Wednesday, September 18, 2019

جماعت نہم اردو سبق پنچایت تشریح پیراگراف نمبر3

سبق : پنچایت
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
شیخ جمن کی ایک بوڑھی بیوہ خالہ تھیں................. سالن کی مقدار روٹیوں سے کم کردی۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: پنچایت
مصنف کانام: منشی پریم چند
صنف: افسانہ

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 بیوہ............جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو، رانڈ
ملکیت.........جائیداد، مال اسباب
وارث....... مالک
وعدے وعید........ عہد معاہدے
سبز باغ دکھانا......... دھوکا دینا
ہبہ نامہ ......... اقرار نامہ، وہ دستاویز جس پر کوئی چیز عطا کرنے کا اقرار لکھا ہوتا ہے۔
رجسٹری........ قانونی اندراج،
خاطر داریاں.......... خاطر تواضع، خدمت گزاری۔
لقمے..... نوالے
چٹ پٹے........ مزے دار
پگڑی کی مہر ہونا........ وراثت منتقل ہونا،
مہر ہونا....... ٹھپا لگنا، بند ہو جانا
رفتہ رفتہ...... آہستہ آہستہ۔
سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق " پنچایت " کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف جمن شیخ اور الگو چودھری کی دوستی اور جمن شیخ کے اپنی خالہ کے ساتھ جائیداد کے تنازعے کے متعلق بتاتے ہیں کہ جب جمن نے اپنی خالہ سے جائیداد ہتھیانے کے بعد اس کی خاطر داری کرنا بند کر دی تو خالہ نے اپنے مسئلے کے حل کےلیے پنچایت بلا لی۔

تشریح:
منشی پریم چند کا شمار اردو کے نامور اور اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ اپنے افسانے " پنچایت میں انھوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل ،وہاں کی دوستیوں کے رنگ ڈھنگ اور عدل و انصاف کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
              تشریح طلب اقتباس میں مصنف شیخ جمن اور اس کی بوڑھی بیوہ خالہ کے باہمی تعلقات اور ان کے باہمی رویوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شیخ جمن کی ایک بوڑھی خالہ تھی جس کا خاوند فوت ہوگیا تھا اور اس کی کوئی اولاد بھی نہ تھی جس کی وجہ سے اب اس کا کوئی ولی وارث نہ تھا۔اس کے پاس کچھ جائیدادتھی۔ جمن کی نیت میں فتور آیا تو اس نے خالہ سے عہد معاہدے کرکے، اسے  سنہرے خواب دکھا کر اور دھوکا دہی سے وہ جائیداد اپنے نام کرالی۔
          خالہ نے اقرار نامہ تو لکھ دیا مگر جب تک اس اقرار نامہ کی قانونی طور پر رجسٹری نہ ہوئی تھی تب تک جمن شیخ خالہ جی کی خوب خاطر مدارت کرتا رہا اور اسے میٹھے میٹھے، چٹ پٹے اور ذائقے دار کھانے کھلائے مگر جوں ہی  ہبہ نامہ پر رجسٹری ہوئی اور جائیداد جمن کی خالہ سے جمن کی طرف منتقل ہوگئی اور جمن کا مطلب پوراہوگیا تو خالہ جی کی ہونے والی خدمت اورخاطرمدارت بھی ختم ہوگئ۔

"مطلب پرستی انسان کی انسانیت کو اس طرح کھاتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے."
چناں چہ مطلب پورا ہونے کے بعد جمن کی بیوی بی فہیمن نے خالہ کی دیکھ بھال کرنا چھوڑ دی اور اس نے روٹیوں کے مقابلے میں بہت کم سالن خالہ کو دینا شروع کر دیا اور خالہ کی پروا کرنا بالکل چھوڑ دی۔

بقول شاعر

یہ مطلب کی دنیا ہے،یہاں سنتا نہیں فریاد کوئی
ہنستے ہیں تب لوگ،جب ہوتا ہے برباد کوئی۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...