Popular Posts

Saturday, March 21, 2020

کورونا واٸرس کا پاکستان میں پھیلاٶ۔ اب مکمل نیک نیتی اور منصفانہ طرز عمل کا وقت آگیا ہے۔


بدقسمتی سے ایران سے کثیر تعداد میں کرونا کے متاثرین کو پاکستان لاتے وقت کوٸی سنجیدہ حکمت علمی اور ذمہ داری حکومت کی طرف سے نہیں دکھاٸی گٸی۔اس کا اعتراف سپریم کورٹ بھی کر رہی ہے اور اسے حکومت کی نااہلی قرار دے دی ہے۔ ایران سے ہزاروں افراد کی بےترتیبی اور غیر ذمہ داری سے آنے والوں سے پہلے پاکستان میں کرونا کے صرف دو مریض تھے جو فروری کے مہینے میں پرکھ لیے گٸے تھے اور وہ بھی غیر ملک سے آٸے تھے۔ کاش ایران سے آنے والوں میں سے ایک ایک فرد کو حکومت ایمانداری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوٸے قرنطینہ کر دیتی اور انھیں زچ اور ذلیل کیے بغیر مناسب سہولیات دیتی اور بہت  سوں کو چیک کیے بغیر نہ جانے دیتی تو مسٸلہ اس نہج تک نہ جاتا کہ کرونا کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا۔ میڈیا ذراٸع سے بعض شکایات یہ بھی آٸیں کہ تندرست مریضوں کو زبردستی کرونا کا مریض بنانے کی دھمکی سے رشوت بٹوری گٸی اور بعض کو رشوت لے کر ٹیسٹ کیے بغیر ہی جانے دیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ وہ ہماری روایتی بےحسی، بددیانتی ، غیرذمہ داری اور نتاٸج کی پروا کیے بغیر وہ ذاتی مطلب پرستی ہے جس کی جڑیں پچاس سال سے ہم میں مضبوط ہوگٸی ہیں اور ملک کا ایک ایک فرد اس چیز سے کھلا آگاہ پہلے بھی تھا اور آج  بھی ہے  اور روزمرہ زندگی کے ہر شعبے میں یہ چیزیں ہمارا معمول بھی بن چکی ہیں اور میں بچوں کو پڑھاتے ہوٸے انھیں التجا کے طور پر کہتا بھی رہا ہوں کہ بچو بس اب بہت ہوگٸی یہ دو نمبری اور بددیانتی۔ اس کو دیکھ دیکھ کر سن سن کر ہم عاجز آگٸے ہیں۔اب ہمیں اس سے باز آ جانا چاہیے ورنہ یہ ہمیں کسی دن لے ڈوبے گی۔ بار بار اس طرف التجا کرنے کے باوجود بھی ہر بندہ سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر آجکل کام ہوتا ہی نہیں۔ حکومت کے اعلی عہدے داروں سے لے کر چپڑاسی تک بےحسی ،بددیانتی، غیرذمہ داری ،مطلب پرستی اور لوٹ کھسوٹ کےلیے دونمبری  ہمارا مرقع بن چکی ہے اور اس حوالے سے روزمرہ کے واقعات سن سن کر میرا دل کڑھتا ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ چیزیں آخر کب ختم ہوں گیں اور اگر ختم نہ ہوں گیں تو آخر ایک وقت نے آنا ہے کہ جب ہم اس کا شکار ہوکر ذلیل ہوں گے کیونکہ شریعت ان چیزوں کو ظلم تصور کرتی ہے اور ظلم نے چاہے صدیوں بعد سہی اپنا حساب ضرور  دینا ہوتا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہی وہ ظلم ہے جس نے چند دنوں میں پاکستان کو کرونا کے دو مریضوں کو لگ بھگ چھے سو مریضوں میں بدل دیا اور بحیثیت حکومت اور عوام ہمیں پتا ہی نہیں کہ اس حوالے سے ہمیں کون کون سی ذمہ داریاں دیانت داری سے نبھانا ہوں گیں کیونکہ یہ چیزیں ہم نے کبھی پریکٹیکل زندگی میں اپناٸی ہی نہیں اس کے باوجود بھی ہم نہ اس سے کچھ سیکھ رہے ہیں اور نہ سبق یا عبرت حاصل کر رہے ہیں۔اسی لیے میں برملا باور کراتا ہوں کہ ابھی بھی وقت ہے کہ حکمران خود کو نیک نیتی سے عوام کی فلاح کےلیے وقف کردیں اور ہمیشہ بغیر کسی عالمی مصلحت کےصرف اور صرف اپنے ملک و قوم کو اہمیت دیتے ہوٸے ان کے سکون کےلیے کام کرنے کا عہد کریں۔ ملک کے ایک ایک فرد کو ملک کا اثاثہ سمجھیں اور اس کے مستقبل اور اس کے ضروری مفادات کے تحفظ کاعہد کریں اور اس پر محنت کریں پھر عوام کو بھی  چاہیے کہ اپنے حکمرانوں پر کھلا اعتماد کرکے ان کی بات مانیں۔ کوٸی مانے یا نہ مانے یہاں بڑا مسٸلہ یہی ہے کہ حکمران کبھی عوام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے  اور کبھی ان کے ریلیف کےلیے کام نہیں کرتے اور عوام کبھی حکمرانوں کو قابل بھروسا نہیں سمجھتے بلکہ سب اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہنگامی حالات میں ہر بندہ فرداً فرداً اپنے مفاد کےلیے کوشش کرتا ہے اور ہرجگہ دونمبری اور ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے کیونکہ ہر فرد کو پتا ہوتا ہے کہ اس دوران وہ جس طریقے  سے بھی ممکن ہو اگر اپنے لیے خود کچھ نہیں کرے گا تو کوٸی اور بھی مشکل میں کام نہیں آٸے گا۔آج کرونا واٸرس کے پھیلاٶ کے بعد پاکستان پر امتحان کی گھڑی آن پہنچی ہے اور اب بھی اگر ہم اپنے سابقہ طور طریقوں اور سابقہ روش پر رہے یا اوپر بیان کردہ روایتی غیر مہذب طریقے اپناٸے رکھے تو خوب جان لینا چاہیے کہ ہمارا ظلم  پر مشتمل اور غیر منصفانہ طرز عمل اپنی موت آپ مرنے والا ہے۔ اس لیے میں اپنے حکمرانوں اور عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ آپ ایک پیج پر آ جاٸیں۔ میڈیا کا دور ہے حکمران آج میڈیا کے ذریعے محض لفاظی کے طور پر نہیں عملی طور پر دیانت داری کا اعلی نمونہ بن کر قوم کے  مستقبل کے تحفظ اور انھیں روزمرہ کے حوالے سے ہر ضروری آساٸش پہنچانے کا عہد کریں اور اس کے بعد قوم پر لازم ہے کہ  ان پر اندھادھند اعتماد کرے۔ کرونا کے حوالے سے سب مل کر ایک بہترین حکمت عملی مرتب کریں۔ اگر اس مسٸلے کا حل قوم کا مخصوص عرصے کےلیے قرنطینہ اختیار کرنے میں ہے تو اس میں دیر قطعی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی عوام کے مساٸل اور ان کی ضروریات کے حوالے سے منصوبہ بندی کیے بغیر ان پر گھر سے نکلنے پر نتاٸج کی پروا کیے بغیر پابندی لگانی چاہیے کہ کسی  کی ضرورت پوری ہوتی ہے  یا نہیں بس ان کو گھروں میں قید کرلو بلکہ حکومت عین ذمہ داری اور قومی فریضہ سمجھتے ہوٸے گھر گھر میں ضروریات زندگی پہنچانے اور باعزت طریقے سے پہنچانے کی حکمت عملی مرتب کرنے کے بعد اسے قوم کے سامنے پیش کرکے انھیں بھرپور اعتماد میں لے پھر بھلے لاک ڈاون کرلیں کوٸی اس سے انکار نہیں کرے گا اور نہ ہی کرناچاہیے بلکہ مخصوص عرصے کےلیے یہ کرنا ہی آخری حل نظر آ رہا ہے تو مزید وقت ضاٸع کیے بغیر نیک نیتی دیانت داری اور فرض شناسی کو اپنا شعار بناتے ہوٸے فوری اس پر حکمت عملی مرتب کرلیں۔۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر حکومت حسب سابق اپنی من مانی کرے گی اور عوام اپنی کیونکہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں حکمران اور عوام کا ایک دوسرے پر نہ اعتماد ہے اور نہ ایک دوسرے پر بھروسا اور یقین ہے کیونکہ  کسی بھی مسٸلے پر عوام کا رخ ہمیشہ ملک اور اصول کے ساتھ ہوتا تھا اور حکمرانوں کا رخ امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے تحت عوام کو ناجاٸز بوجھ سے رگڑنے کی طرف ہوتا تھا۔ یہی وجہ حکومت اور قوم کے بیچ بڑا خلا حقیقت کے روپ میں موجود ہے جسے ختم کیے بغیر کسی مسٸلے پر قابو پانا مشکل ہے اور سابقہ روش کے تحت کام کرکے کرونا پر قابو پانا کسی طور آسان نہیں اور اتنا کچھ لکھنے کے باوجود بھی میں کیا سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ مکمل بیان کرنا بھی میرے لیے آسان نہیں۔مگر یہ ضرور ہے کہ تجربہ کار اور دور رس اور ملکی حالات پر شروع سے سنجیدگی سے غور رکھنے والا شخص سب کچھ  سمجھ ضرور گیا ہوگا۔ البتہ اتفاق کرنا یا نہ کرنا اس کا حق ہے۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...