Popular Posts

Friday, June 21, 2019

جماعت نہم سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر5

سبق " کاہلی " تشریح
پیراگراف نمبر5

اقتباس:
ایک ایسے شخص کی حالت................ایک وضع دار وحشی ہوتا ہے۔

حوالہ متن:
 سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کانام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
اخراجات: خرچے
مناسب:بہتر
چنداں: اس قدر،کچھ
ملکیوں: ملکیت رکھنے والے،جاگیردار
لاخراج دار: محصول نہ دینے والے
بےکار: بےفائدہ
وحشیانہ: غیر مہذب،بدسلیقہ
مائل ہونا: راغب ہونا
مزے دار: لذیذ
قمار بازی: جوا کھیلنا
تماش بینی: کھیل تماشے دیکھنا
پہواڑ/پھوہڑ: بدسلیقہ

سیاق و سباق:
 تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے اور اس سے بہتری کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔

تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کےلیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح کہا جاتا ہے۔ سبق " کاہلی"  بھی ان کا ایسا اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر میں بسنے والے لوگوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
          تشریح طلب  اقتباس میں مصنف ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ایک ایسے شخص کی حالت کو اپنے تصور میں لائیں جس کی آمدنی زیادہ مگر خرچے بہت کم ہوں اور اسے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کےلیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑتی ہو بلکہ اسے ہر چیز اس کی بہتر آمدنی کی وجہ سے وافر اور فراوانی سے میسر ہو تو ایسا شخص تساہل پسند ہوگا اور اپنی دلی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑ کر عیش و عشرت کی طرف مائل ہو جائے گا اور اس کی حالت ہمارے ہندوستان میں رہنے والے سرمایہ داروں٬ جاگیر داروں اور ان مال داروں جیسی ہو جائے گی جو دولت کے نشے میں مست رہتے تھےاور قانونی طور پر محصول دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور وہ اپنی صلاحیتوں کوبےکار چھوڑ کر اخلاقی زوال کا شکار ہوگئے اور غلامانہ زندگی گزارنے پر بھی مجبور ہوگئے۔
           امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے
" زیادہ دولت اور زیادہ غربت انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے". اسی طرح بےکار اور خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مال دار اور آسودہ حال لوگ دولت کے نشے میں آکر برائی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور اپنی دلی اور دماغی صلاحیتوں کو مردہ اور بےلگام چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے شوق انتہائی گھٹیا اور کم تر ہو جاتے ہیں اور وہ وحشی اور بدسلیقہ ہو جاتے ہیں۔جوا کھیلنا اور کھیل تماشوں میں زندگی گزارنا ان کی زندگی کا اصل مقصد بن جاتا ہے۔
         معاشرے میں رہنے والے ان جیسے دیگر بھائی بند جو ان جیسی صفات کے حامل ہوتے ہیں اور ان سے کم حیثیت ہونے کی وجہ سے انتہائی بدسلیقہ اور غیر مہذب تصور کیے جاتے ہیں جبکہ یہ دولت مند بھی انھیں کی طرح ہی بدسلیقہ،اجڈ،
غیر مہذب اور وحشی ہوتے ہیں مگر ان کی دولت ان کے عیبوں کو چھپائے ہوتی ہے اور وہ ظاہری رکھ رکھاؤ والے قدرے مہذب وحشی بن چکے ہوتے ہیں جسے شاعر کچھ یوں بیان کرتا ہے۔

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

2 comments:

  1. کیا خوب صورت تشریح کی ھے

    ReplyDelete

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...