Popular Posts

Friday, June 21, 2019

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر 6

سبق" کاہلی"  تشریح
پیراگراف نمبر6

اقتباس:
ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان................ پہنچ جاویں گے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسید
احمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
 قبول کرنا: مان لینا، تسلیم کرنا
سوائے دلی:دلی قوتیں
قوت عقلی: سوچنے سمجھنے کی طاقت
برخلاف:برعکس
ولایتوں: غیرملک
شوق: ذوق، جذبہ
وحشت پنا: بدتہذیبی، جنگلی پن

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق" کاہلی کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے٬اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنے کا نام ہی کاہلی نہیں بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کا نام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے۔ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں۔اگر ہندوستان والوں کو دلی قوی کو استعمال میں لانے کے مواقع کم میسر آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی کاہلی ہی ہے۔جب تک کاہلی چھوڑ کر دلی قوی سے کام نہیں لیا جاتا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

تشریح:
سرسید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کےلیے انھوں  نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔ سبق "کاہلی" بھی ان کا ایسا اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر کے لوگوں کو عام فہم اور سادہ انداز میں کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
        تشریح طلب اقتباس
میں مصنف اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہندوستان میں بسنے والوں کو ایسے کام کاج میسر نہیں جنھیں وہ اپنی دلی صلاحیتوں،عقل و شعور اور فہم و فراست کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر سرانجام دے سکیں اور خود کو باوقار اور ترقی یافتہ قوم بنانے کی کوشش کرسکیں کیونکہ ہندوستانی طویل عرصہ انگریزوں کے محکوم رہے جس کی وجہ سے انھیں ایسے مواقع سے محروم رکھا گیا جنھیں کام میں لاکر وہ اپنے آپ کو کامیاب بنا سکتے۔
          اس کے برعکس انگلستان نے اپنے لوگوں کےلیے ایسے مواقع پیدا کیے حتی کہ ہندوستان میں بھی انھوں نے مقامی لوگوں کی بجائے اپنی انگریز قوم کےلیے سہولیات پیدا کیں اور ہندوستان کو سونے کی چڑیا گردانتے ہوئے انھوں نے یہاں کے وسائل سے بھرپور فایدہ اٹھایا اور یہاں کے بسنے والوں کو ان وسائل سے مکمل محروم رکھنے کی کوشش کی۔
         چناں چہ ہندوستانیوں کی بنسبت انگریزوں کو ایسے بےشمار مواقع میسر آئے جنھیں انھوں نے دلی صلاحیتوں اور عقلی قوتوں کے ذریعے استعمال میں لا کر خوب ترقی کی اور آج بھی وہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں لیکن اگر انھیں بھی محنت اور جدوجہد کا شوق نہ ہوتا اور وہ اپنی دلی صلاحیتوں سے کام لینے کی بجائے انھیں بےکار چھوڑ دیتے جیسے آج کل وہ بھی اس جانب راغب ہیں تو وہ بھی جلد درندگی کی صفت پاکر وحشی ہو جائیں گے اور ان کی صلاحیتیں بھی آہستہ آہستہ معدوم ہو جائیں گیں اور ان کی حرکتیں معاشرے میں انتہائی سطح تک گری ہوئی ہوجائیں گیں جو کسی حد تک گرتی ہوئی دیکھی بھی جاسکتی ہیں۔
بقول حالی
 بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو میسر نہیں انساں ہونا

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...