Popular Posts

Friday, June 21, 2019

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر3

سبق "کاہلی" تشریح
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
یہ سچ ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں............... وحشی ہو جاتا ہے

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسیداحمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
ضرورتاً: ضرورت کے طور پر
عارضی : وقتی ناپائدار
وحشی : بدتہذیب،غیر مہذب
منتظر : انتظار کرنے والا
دلی قوی : دل کی قوت

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق " کاہلی" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔ اس ب
سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے،اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں سستی کرنا ہی کاہلی نہیں ہے بلکہ اصل کاہلی دلی قوی کو بےکار چھوڑنے کانام ہے۔دلی قوی کو بےکار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہےاور وہ وحشت پنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں۔اگر ہندوستان والوں کو دلی قوی کو استعمال میں لانے کے مواقع کم میسر آئے ہیں تو اس کی وجہ بھی کاہلی ہی ہے۔جب تک کاہلی چھوڑ کر دلی قوی سے کام نہیں لیا جاتا تب تک قوم سے بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

 تشریح:
سر سید احمد خان اردو ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔ انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کےلیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس لیے انھیں قوم کا مصلح کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا ایسا ہی اصلاحی مضمون ہے جس میں وہ برصغیر کے لوگوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنی پڑھائی کے دوران مختلف درجے طے کرکے اعلی تعلیم یافتہ بن جاتے ہیں۔اگر یہ لوگ اپنی اس تعلیم اور اپنے شعور کو اپنی ضرورت کے وقت کام میں لائیں تو وہ ایک کامیاب اور پروقار زندگی گزار سکتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ان ہزاروں تعلیم یافتہ اور صاحب علم لوگوں میں سے شاید ہی کسی شخص کو یہ موقع میسر آتا ہوگا کہ وہ اپنی تعلیم اور عقل وشعور کو ضرورت کے تحت کام میں لائے ورنہ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں کو تعلیم اور عقل شعور کو استعمال میں لانے کا موقع ہی میسر نہیں آتا۔
       داناؤں کا قول ہے " ہر علم عمل کے بغیر بےکار ہے"۔اس لیے جو شخص علم رکھتا ہے مگر اس پر عمل نہیں کرتا یا اسے عمل کرنے کا موقع میسر نہیں آتا تو وہ اس بیمار کی طرح ہے جس کے پاس دوا تو ہے مگر علاج نہیں کرتا۔اگر انسان کا علم اور اس کا شعور اسے کوئی فائدہ نہیں دیتا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ علم کو علم کی ضرورت کے طور پر حاصل نہیں کرتا بلکہ اسے اپنی وقتی ضروریات  کو پورا کرنے کے ذریعے کے طور حاصل کرتا ہے اور جب ایک انسان کے پیش نظر اس کی وقتی اور عارضی ضروریات ہوں تو وہ اپنی دلی قوتوں اور عقلی صلاحیتوں سے مکمل فایدہ نہیں اٹھاتا بلکہ انھیں بےکار چھوڑ کر انتہائی سست اور نکما ہو جاتا ہے اور یہ سستی اور نکماپن اس کے اندر عیاش پرستی اور وحشت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ یہ عالم گیر سچائی ہے کہ ایک انسان اگر اپنی خوبیوں اور علم و عمل کی صلاحیتوں سے کام نہیں لیتا تو وہ حیوانیت کی طرف  مائل ہوکر وحشی صفت ہو جاتا ہے
کیونکہ بقول اقبال۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں  نوری ہے نہ ناری۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...