Popular Posts

Saturday, June 22, 2019

جماعت نہم اردو سبق کاہلی تشریح پیراگراف نمبر7

سبق" کاہلی "پیراگراف نمبر 7
اقتباس
مگر ہم اپنے ہم وطنوں۔..................  قصور کیونکر رفع ہو۔

حوالہ متن
سبق کا عنوان: کاہلی
مصنف کا نام: سرسیدا حمد خان
صنف: مضمون
ماخذ: مقالات سرسید: حصہ پنجم

 خط کشیدہ الفاظ کے معانی

ہم وطن: ایک ہی ملک کے رہنے والے
قصور: جرم ، خطا
قوائے دلی: دل کی قوتیں
قوت عقلی: عقل کی طاقت، سوچ بچار کی طاقت
فکر: سوچ، خیال
رفع ہونا: دور ہونا ،ختم ہونا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق "کاہلی "کے اختتامی حصے سے لیا گیا ہے۔ اس سبق میں مصنف سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ صرف ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنے اور اٹھنے بیٹھنے میں سستی کرنا ہی کالی نہیں ہے  بلکہ اصل کاہلی دلی قویٰ کو بے کار چھوڑنے کا نام ہے۔
دلی قویٰ کو بے کار چھوڑ کر انسان حیوان صفت ہو جاتا ہے اور وہ وحشیت پنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں ملکیت رکھنے والے اور لاخراج دار اس کی واضح مثال ہیں ۔ اگر ہندوستان والوں کو دلی قویٰ کو استعمال میں لانے کے مواقع میسر نہیں آئے تو اس کی وجہ کاہلی ہی ہے جب تک ہم کا ہلی چھوڑ کر دلی قویٰ سے کام نہیں لیتے تب تک ہم ایک بہتر قوم نہیں بن سکتے ۔
تشریح :
سرسید احمد خان اردو ادب ادب کے نامور مصنف اور مضمون نگار تھے۔انھوں نے مشکل وقت میں مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی اور ان کی تہذیبی اور اخلاقی پسماندگی کو دور کرنے کی کوشش کی۔اس مقصد کے لیے انھوں نے اصلاحی مضامین بھی لکھے۔اس وجہ سے انھیں قوم کا مصلح بھی کہا جاتا ہے۔
سبق " کاہلی" بھی ان کا تحریر کردہ ایسا ہی  اصلاحی مضمون ہے  جس میں وہ برصغیر کے مسلمانوں کو کاہلی چھوڑ کر اور دلی قوی سے کام لے کر ایک بہتر قوم بننے کا درس دیتے ہیں۔
تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے ملک کے لوگوں سے مخاطب ہوکر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس میں کوئی کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بسنے والوں کو ایسے مواقع میسر نہیں آئے جن سے وہ اپنی دلی قوتوں، سوچ بچار اور فہم و فراست کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فائدہ اٹھاتے اور خود کو ایک کامیاب اور ناقابل تسخیر قوم بناتے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مواقع نہ ملنے کی وجہ ڈھونڈنی چاہیے اور جب ہم اس کی وجہ تلاش کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اس کی اصل وجہ ہماری اپنی سستی اور کاہلی ہے کیونکہ بجائے اپنے لیے مواقع پیدا کرنے کے ہم نے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا کیااور اپنے جذبوں،دلی صلاحیتوں اور عقلی قوتوں کو بےکار اور مردہ چھوڑ دیا۔
  مصنف اپنے ہم وطنوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں دلی صلاحیتوں اور اورعقلی قوتوں کو اپنے کام میں لانے کے مواقع میسر نہیں آئے تو بجائے ہمت ہارنے اور اپنی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑنے کے ہمیں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مواقع ہم کیسے حاصل کرسکتے ہیں اور اگر ان کو کھونے میں ہماری کوئی غلطی یا کوتاہی ہے تو وہ کیسے دور کی جاسکتی ہے۔انسان اپنی غلطیوں اور خامیوں سے ہی سیکھتا ہے اور انھیں دور کرنے کےلیے مختلف تجربات سے بھی گزرتا ہے اور پھر ان تجربات کی روشنی میں آگے بڑھتا ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے:
" عقل مندی یہ ہے کہ انسان اپنے تجربات کو  محفوظ رکھے اور اس کے مطابق کام کرے"۔
چناں چہ ہم اگر اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے اور اپنی کوتاہیوں کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور اپنی صلاحیتوں کو بےکار چھوڑ دیتے ہیں تو ہم کبھی بھی ایک کامیاب قوم نہیں بن سکتے کیونکہ
بقول  حالیؒ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
...........................................
یا

چناں چہ ہم اگر اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں اور اپنی کوتاہیوں کو رفع کرنے کی سعی مسلسل کریں اور اپنی صلاحیتوں کو بے کار چھوڑنے کی بجائے ان سے کام لے کر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو ہم ایک کامیاب قوم بن سکتے ہیں۔
بقول اقبالؒ

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئ دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں۔
.........................................
یا

چنانچہ اگر ہم میں سے کوئی شخص  اپنی غلطیوں سے سےسیکھنے کی کوشش کرے اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی ہمت کرے اور اپنی دلی قوتوں کو بےکار نہ چھوڑے بلکہ ہمت سے کام لے تو وہ خود کو کامیاب شخص بنا سکتا ہے۔
بقول شاعر
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے

زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...