Popular Posts

Saturday, April 13, 2019

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف 4 تشریح

رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کو اس درجہ عداوت تھی..............................ارادے کی پہلے خبر ہو چکی تھی.

حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام : مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی

اس درجہ:  اس قدر
عداوت: دشمنی، عناد
دیانت: امانت داری
اعتماد: بھروسہ
امانتیں: امانت کی جمع ،سونپی ہوئی چیزیں
ارادہ: قصد
خبر:اطلاع

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق" ہجرت نبوی" کے درمیان سے لیا گیا ہے۔اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار مکہ کو اسلام کی دعوت دی گئی تو کفار نے مخالفت شروع کر دی..انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ مارنے کی منصوبہ بندی بھی کرلی اور اس مقصد کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ کرلیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہو چکی تھی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ اہل قریش کی امانتوں کی فکر تھی..چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلایا تاکہ وہ لوگوں کی امانتیں ان سے پہنچا سکیں..حضرت علی رضی اللہ عنہ کےلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر خواب جوکہ قتل گاہ کی زمین تھا فرش گل بن چکا تھا..

تشریح:

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے نامور مصنف اور ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر ایک کتاب سیرت النبی لکھی..سبق" ہجرت نبوی" بھی  اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے..اس سبق میں مولانا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں بیان کیا ہے
           تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ دعوت اسلام دینے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کی دشمنی اس قدر ہو چکی تھی کہ ہجرت کی رات ان کے مقرر کردہ افراد تلواریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گیراؤ کیے ہوئے تھے.اگرچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن بنے ہوئے تھے پھر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور صداقت کے مکمل قائل تھے.وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے  اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف امانت داری کا درس دیتے تھے بلکہ عملی طور پر بھی لوگوں کی امانتوں کی فکر کرتے تھے..
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے
" جس میں ایمانداری نہیں اس میں ایمان نہیں"
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی ایمانداری اور دیانت داری تھی اور خود بھی اس کا عملی نمونہ تھے تو اہل قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی امانتیں بےخوف و خطر اور مکمل اعتماد کے ساتھ رکھواتے تھے..مشکل کی اس گھڑی بھی میں جب کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کی بہت سی امانتیں جمع تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں فکرمند تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جانتے ہوئے بھی کہ کفار مکہ اپنے ناپاک عزائم کے ذریعے ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں لوگوں کی امانتوں کے بارے میں فکرمند تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امانتوں کو اپنے اوپر بھاری ذمہ داری سمجھتے تھے..بقول شاعر

سہل    کیا   بار    امانت   کا    اٹھانا   ہے   فلک
میں سنبھلتا ہوں میرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...