Popular Posts

Thursday, April 11, 2019

اردو نہم ..ہجرت نبوی.. پیراگراف 2 تشریح

اقتباس:
نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا....................تلواروں سے ان کا خاتمہ کردیں.
 حوالہ متن
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام: مولانا شبلی نعمانی
صنف : سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
وحی الہی: اللہ تعالی کا بھیجا ہوا پیغام
عزم ..ارادہ
رائیں:رائے کی جمع ،تجاویز
جلاوطن:وطن سے نکالنا
انتخاب:چناؤ
خاتمہ کرنا: مارنا,
 قتل کرنا
قبائل: قبیلہ کی جمع, گروہ
آل ہاشم:حضور کا خاندان
مقابلہ کرنا: نمٹنے کی کوشش کرنا.
نبردآزما ہونا

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس سبق "ہجرت نبوی" کے ابتدائی حصے سے لیا گیا ہے جسے مولانا شبلی نعمانی نے تحریر کیا
اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل قریش کو اسلام کی دعوت دی تو وہ آپ کے بدترین دشمن بن گئے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے لگے..
نبوت کے تیرھویں سال آپ نے اللہ کے حکم سے مدینہ ہجرت کا قصد فرمایا تو کفار مکہ مدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان ہوگئے اور انھوں نے آپ کو شہید کرنے کی غرض سے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا..

:تشریح

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے مایہ ناز ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی.اسی کتاب سے درسی سبق" ہجرت نبوی "اخذ کیا گیا ہےجس میں مولانا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ جامع انداز سے بیان فرمایا..
 تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے.ایسے میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو اللہ کے حکم سے اکثر صحابہ مدینہ ہجرت کر گئے اور نبوت کے تیرھویں سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کے حکم سے مدینہ کا قصد فرما لیا..مدینہ منورہ کی سرزمین مسلمانوں کےلیے سازگار بن چکی تھی اور اسلام وہاں تیزی سے پھیل رہا تھا..
قریش کےلیےمدینہ میں اسلام پھیلنا اور مسلمانوں کا طاقت پکڑنا ناقابل قبول اور پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا.انھیں اپنی اجارہ داری خطرے میں نظر آرہی تھی..اس لیے انھوں نےمدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی طاقت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے طور پر روکنے کی حکمت عملی تیار کی ۔انھوں نے اکٹھے ہو کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف منصوبہ بندی شروع کی اور لوگوں سے اس حوالے سے مختلف آرا اور تجاویز طلب کیں..لوگوں میں سے ایک شخص نے رائے دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ پاؤں میں زنجیریں ڈال کر مکان میں قید کر دیا جائے..دوسرے نے رائے دی کہ آپ کو ملک عرب سے نکال دیاجائے تاکہ آپ لوگوں کو اپنے دین کی دعوت نہ دے سکیں..ابوجہل جس کا اصل نام عمر بن ہشام تھا اور اس نے جہالت کی زندگی گزاری اور ہدایت نصیب نہ ہونے کے باعث ابوجہل کے لقب سے نوازا گیا، شاطرانہ ذہن کا حامل شخص تھا..اس نے رائے دی کہ عرب میں موجود مختلف قبیلوں میں سے ایک ایک شخص چنا جائے اور سب مل کر پوری طاقت سے آپ پر تلواروں سے حملہ کرکے آپ کو مار دیں ..اس صورت میں آپ کے قتل کا جرم کسی ایک فرد پر عائد نہ ہوگا بلکہ تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور تمام قبائل اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے تو آپ کا خاندان بنو ہاشم تن تنہا تمام قبیلوں کے ساتھ ٹکر نہ لے سکے گا..اس طرح ہمارا مقصد بھی پورا ہوگا اور ہمارا بال بیکا بھی نہ ہوسکے گا..چنانچہ سب نے ابوجہل کی تجویز کو مٶثر جانتے ہوئے آپ کو مارنے کا منصوبہ تیار کر لیا..قرآن مجید میں اس واقعے کو یوں بیان کیا"
گیا ہے"
اور جب کافر لوگ تمھارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کردیں یا جان سے مار ڈالیں یا وطن سے نکال دیں..وہ اہنی چال چل رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے " ..
(سورة الانفال)
 کفار مکہ نے اپنی چال کے تحت آپ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا مگر وہ اپنے مقصد میں ناکام ہوئے... بقول شاعر

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
..........................



No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...