Popular Posts

Monday, April 15, 2019

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف نمبر6 تشریح

کفار نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا....................................یہ غار آج بھی بوسہ گاہ خلائق ہے.
حوالہ متن :
سبق کا عنوان:  ہجرت نبوی
مصنف کانام: مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی

محاصرہ : گھیراؤ
بےخبر: غافل
عزیز: پیارا
فرزند: بیٹے
قرارداد: عہد معاہدہ
عہد و پیماں
جبل: پہاڑ, کوہ
پوشیدہ: چھپا ہوا,پنہاں
بوسہ گاہ خلائق: لوگوں کے بوسہ دینے کی جگہ

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس  سبق " ہجرت نبوی" کے درمیان سے لیا گیا ہے ..اس سبق میں مصنف کہتے ہیں کہ
اسلام دشمنی میں کفار مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی غرض سے آپ کے گھر کا گھیراؤ کرلیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادے کی خبر ہوچکی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ لوگوں کی امانتوں کی فکر تھی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امانتوں کےلیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پلنگ پر سلایا اور خود کفار مکہ کو غافل پاکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینے کی طرف ہجرت فرما گئے اور تین دن غار ثور میں پوشیدہ رہے..اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے, بیٹی اور غلام مسلسل حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مامور رہے..

تشریح:

مولانا شبلی نعمانی اردو زبان کے نامور ادیب تھے..انھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی..سبق " ہجرت نبوی"  بھی اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے جس میں مولانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں  بیان کرتے ہیں..
تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ دعوت اسلام دینے کے بعد قریش کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر دشمنی ہوگئی تھی کہ ہجرت کی رات ان کے مقرر کردہ افراد تلواریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے آپ کے گھر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے..اگرچہ کفارمکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن بنے ہوئے تھے مگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت اور صداقت کے مکمل قائل تھے..وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیانت داری اور امانت داری کے متعلق نہ صرف بہت زور دیا بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی امانتوں کی نہ صرف فکر کی بلکہ ان کی حفاظت بھی فرمائی..آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بابت فرمایا
"جس میں ایمانداری نہیں اس میں ایمان نہیں".
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی ایمانداری تھی اور خود بھی ایمانداری اور دیانت داری کا عملی نمونہ تھے اس وجہ سے اہل قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی امانتیں بےخوف و خطر اور مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ رکھواتے تھے..یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کا تمام تر سازو سامان بطور امانت پڑا رہتا تھا..
 مشکل کی اس گھڑی میں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کےلیے بےحد فکر مند تھے.اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے ناپاک ارادوں اور عزائم کے متعلق خبر ہوچکی تھی پھر بھی  اپنی جان کی بہ نسبت امانتوں کی فکر تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امانتوں کو اپنے اوپر بھاری ذمہ داری سمجھتے تھے... بقول شاعر

سہل   کیا   بار   امانت    کا    اٹھانا    ہے   فلک
میں سنبھلتا ہوں میرے ساتھ سنبھلتی ہے زمین
-------------------------------------------------------------

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...