Popular Posts

Sunday, April 14, 2019

اردو نہم سبق ہجرت نبوی پیراگراف 5 تشریح.

اس بنا پر جناب امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا...........................قتل گاہ فرش گل تھا.
حوالہ متن
سبق کا عنوان: ہجرت نبوی
مصنف کا نام: مولانا شبلی نعمانی
صنف: سیرت نگاری
ماخذ: سیرت النبی

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
اوڑھ کر: پہن کر
خطرہ: ڈر خوف
ارادہ: قصد ,نیت
فاتح خیبر: خبیر کا قلعہ فتح کرنے والا مراد حضرت علی
قتل گاہ: وہ جگہ جہاں قتل ہوں
فرش گل: پھولوں کا فرش

سیاق و سباق:

اسلام دشمنی میں کفار مکہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ارادے کی خبر ہوچکی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے زیادہ لوگوں کی امانتوں کی فکر تھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امانتوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمایا اور خود کفار مکہ کو بےخبر پاکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے اور تین دن غار ثور میں پوشیدہ رہے..اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ, غلام اور آپ رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسما حضور کی خدمت میں مامور رہے..

تشریح:
 مولانا شبلی نعمانی اردو کے نامور ادیب تھے.انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی لکھی.سبق ہجرت نبوی بھی اسی کتاب سے اخذ کیاگیا ہے جس میں مولانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کا احوال جامع انداز میں بیان فرمایا.
                 تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ قریش مکہ نے اسلام دشمنی میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ مارنے کےکیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیراؤ کرلیا تھا..آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے ناپاک عزائم  کی پہلے ہی خبر ہوگئی تھی..چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالی کی طرف سے مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم ہوچکا ہے..اس لیے میں آج مدینہ کی طرف روانہ ہو جاؤں گا..آپ رضی اللہ عنہ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سوجائیں تاکہ آپ رضی اللہ عنہ صبح ہوتے ہی لوگوں کی امانیں ان کے اصل مالکوں کے سپرد کردیں..
               حضرت علی رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ قریش کے ارادے ناپاک ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  قتل کرنا چاہتے ہیں تو ایسے موقع پرخود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی جان کا خطرہ تھا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سوئے ہونے کی وجہ سے قریش ان پر بھی حملہ کرسکتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام فرمانے کا بستر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قتل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا تھا مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بےمثل محبت اپنی جان سے زیادہ عزیز تھی..خیبر کے قلعے کو فتح کرنے والے اور شیرخدا حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر مبارک پر اس طرح سوگئے جیسے پھولوں کے بستر پر آرام فرما ہوں اور کہیں سے بھی یہ ظاہر نہ ہوا کہ وہ اپنی جان کےلیے فکر مند ہوں کیونکہ بقول شاعر.

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جاں کا زیاں ,سو ایسا زیاں نہیں..

2 comments:

  1. It was really helpfull..... The word was chossen beautifully.....Thank A Lot For This Help✨

    ReplyDelete

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...