سبق: امتحان
پیراگراف نمبر8
اقتباس:
بعض کم حیثیت ملازم ..............ان پر بھروسا کرنا نادانی ہے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت
خط کشیدہ الفاظ کے معانی
بعض.......کچھ، چند
حیثیت........درجہ، رتبہ،مقام
باامید.........امید رکھتے ہوئے،آس کے ساتھ
تدبیر.........سوچ بچار،فہم و فراست
تقدیر.....قسمت،نصیب
مسئلہ.......معاملہ
کارروائی.......کارگزاری
صورت......شکل
بھروسا......اعتماد
نادانی......بےوقوفی
سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے امتحانات کے دوران امداد غیبی یا پرچوں کی الٹ پھیر سے کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ بعض شریف ملازم بھی انعام کی لالچ میں پرچہ بدل دیتے ہیں۔اسی امید کے ساتھ مصنف جب امتحانی کمرے میں داخل ہوا تو وہاں اسے ہنس مکھ نگران کار ملے۔
تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات اور اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں.
تشریح طلب اقتباس میں مصنف امتحانات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ امتحان میں شریک ہونے والے کی اگر پڑھائی میں تیاری اچھی نہ ہو تو وہ پرچوں کی الٹ پھیر اور امتحانی کمرے میں کتاب کے سہارے سے کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔پرچوں کی الٹ پھیر کے حوالے سے کچھ معمولی درجے کے شریف ملازم بھی مل جاتے ہیں جو انعام کی امید سے پرچہ دوسرے طالب علم کے ساتھ بدل دیتے ہیں۔اس طرح کے کام کرنے سے ایک ایماندار اور محنت سے پڑھنے والے کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا حق سلب ہوجاتا ہے۔
"دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا ظلم ہے"۔
اس اقدام سے محنت کرنے والے کو اس کی محنت کا حقیقی اجر نہیں ملتا۔اس طرح کی سوچ سے کام کرنے والے کی تدبیر اگر کامیاب ہوجائے تو وہ کھرا ہوجاتا ہے لیکن اگر اس کے مقدر میں ایسا ہونا نہ لکھا ہو تو وہ اپنا سا منھ لے کے رہ جاتا ہے۔ قسمت اچھی ہو تو یہ کام آسانی سے ہو جاتا ہے اور اگر قسمت اچھی نہ ہو تو ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ بقول شاعر
جو چل جائے تدبیر بنے جو ٹل جائے تقدیر بنے
اس بات کو اصغر کیا سمجھیں یہ بات نہیں سمجھانے کی
مصنف کہتا ہے کہ امتحان میں پرچوں کی الٹ پھیر اور کتاب کے سہارے کے علاؤہ اور بھی کئی طریقے ہوسکتے ہیں مگر ان پر توکل کرکے امتحان میں جانا سراسر نادانی کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔ بقول شاعر
نہیں آساں منزل تک رسائی
پیراگراف نمبر8
اقتباس:
بعض کم حیثیت ملازم ..............ان پر بھروسا کرنا نادانی ہے۔
حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کا نام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت
خط کشیدہ الفاظ کے معانی
بعض.......کچھ، چند
حیثیت........درجہ، رتبہ،مقام
باامید.........امید رکھتے ہوئے،آس کے ساتھ
تدبیر.........سوچ بچار،فہم و فراست
تقدیر.....قسمت،نصیب
مسئلہ.......معاملہ
کارروائی.......کارگزاری
صورت......شکل
بھروسا......اعتماد
نادانی......بےوقوفی
سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے امتحانات کے دوران امداد غیبی یا پرچوں کی الٹ پھیر سے کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ بعض شریف ملازم بھی انعام کی لالچ میں پرچہ بدل دیتے ہیں۔اسی امید کے ساتھ مصنف جب امتحانی کمرے میں داخل ہوا تو وہاں اسے ہنس مکھ نگران کار ملے۔
تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو ادب کے نامور مصنف تھے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات اور اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں.
تشریح طلب اقتباس میں مصنف امتحانات کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ امتحان میں شریک ہونے والے کی اگر پڑھائی میں تیاری اچھی نہ ہو تو وہ پرچوں کی الٹ پھیر اور امتحانی کمرے میں کتاب کے سہارے سے کامیاب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔پرچوں کی الٹ پھیر کے حوالے سے کچھ معمولی درجے کے شریف ملازم بھی مل جاتے ہیں جو انعام کی امید سے پرچہ دوسرے طالب علم کے ساتھ بدل دیتے ہیں۔اس طرح کے کام کرنے سے ایک ایماندار اور محنت سے پڑھنے والے کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کا حق سلب ہوجاتا ہے۔
"دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا ظلم ہے"۔
اس اقدام سے محنت کرنے والے کو اس کی محنت کا حقیقی اجر نہیں ملتا۔اس طرح کی سوچ سے کام کرنے والے کی تدبیر اگر کامیاب ہوجائے تو وہ کھرا ہوجاتا ہے لیکن اگر اس کے مقدر میں ایسا ہونا نہ لکھا ہو تو وہ اپنا سا منھ لے کے رہ جاتا ہے۔ قسمت اچھی ہو تو یہ کام آسانی سے ہو جاتا ہے اور اگر قسمت اچھی نہ ہو تو ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ بقول شاعر
جو چل جائے تدبیر بنے جو ٹل جائے تقدیر بنے
اس بات کو اصغر کیا سمجھیں یہ بات نہیں سمجھانے کی
مصنف کہتا ہے کہ امتحان میں پرچوں کی الٹ پھیر اور کتاب کے سہارے کے علاؤہ اور بھی کئی طریقے ہوسکتے ہیں مگر ان پر توکل کرکے امتحان میں جانا سراسر نادانی کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔ بقول شاعر
نہیں آساں منزل تک رسائی
گھاتیا ہے یہ بہت ہی گھاتیا ہے
ReplyDelete
ReplyDeleteآپ کا لکھا سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر تو آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے تو اس کےلیے لفظ گھٹیا لکھاجاتا ہے نا کہ گھاتیا۔ آپ کو جو چیز ناپسند لگی اس کی وضاحت کر دیتے تاکہ ہم اصلاح کر سکتے کیونکہ اصلاح کی گنجائش تو ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteجو کامٹس آپ نے لکھ کر ڈیلیٹ کیا اس کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ سب کچھ کھل کر کہنے کا کھلا حق رکھتے ہیں۔ جو کامنٹس ڈیلیٹ کیا گزارش ہے وہی دوبارہ لکھ دیں بلاجھجک۔
ReplyDeleteاردو کے حوالے کوئی نوٹس یا مواد وٹس ایپ کر سکتے ہیں ؟
ReplyDelete03065976174
ReplyDeleteپر وٹس ایپ کریں۔