Popular Posts

Monday, November 4, 2019

جماعت نہم اردو سبق "امتحان" تشریح پیراگراف نمبر7

سبق: امتحان

پیراگراف نمبر7


اقتباس: 

شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک..........تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: امتحان

مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ

صنف: مضمون

ماخذ: مضامین فرحت


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

شریک......شامل ہونا

مضمون......موضوع، عنوان

وضاحت.....تفصیل

عرض کرنا......کہنا

ذرا......تھوڑا

امداد غیبی.......غیب سے ملنے والی مدد

اصطلاح...... کسی لفظ کا خاص مفہوم

مدد......امداد، سہارا

نیک ذات...... شریف آدمی

عندالمواقع.......عین موقع پر

الٹ پھیر.........بدلنا،تبدیل کرنا، 

بظاہر......ظاہرا، دیکھنے میں

مشکل.....دشوار، کٹھن

تقدیر...... قسمت


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق "امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کو " لاکلاس " کے امتحان میں امداد غیبی اور پرچوں کی الٹ پھیر سے ہی کامیابی کی توقع تھی اور اس کے ساتھ ساتھ بعض شریف اور کم حیثیت ملازم کے ذریعے پرچہ بدلنے کی آس لیے بیٹھا تھا۔

   

تشریح:

مرزا فرحت اللہ بیگ کا شمار اردو کے نامور ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا ہے۔" امتحان "ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔

    تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ جب وہ قانون کے امتحان کےلیے مقام امتحان پہنچا تو امتحان کی تیاری نہ ہونے کے سبب اسے امتحان میں کامیابی کی امید دو طرح سے تھی۔ ایک غیبی امداد اور دوسری پرچوں کی الٹ پھیر۔

     مصنف کہتا ہے کہ جن لوگوں کو امتحانات سے واسطہ نہیں پڑا اور جنھوں نے کبھی امتحانات دیئے ہی نہیں وہ میری امدادغیبی اور پرچوں کی الٹ پھیر والی بات کو نہ سمجھ سکیں گے۔اس لیے ان لوگوں کی آسانی کےلیے اپنی بات وضاحت سے کہتا ہوں کہ " امداد غیبی" امتحانی نکتہ نگاہ سے وہ مدد ہوتی ہے  جو پرچہ حل کرنے والوں کو ایک دوسرے سے یا کسی اچھی صفت کے حامل نگران سے یا عین موقع کے اوپر کتاب مل جانے سے پہنچ جاتی ہے۔ جس سے سارا پرچہ حل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

   مصنف کہتا ہے کہ امتحان کے دوران اگر پرچوں کی الٹ پھیر سے ہی کام چلانا ہو تو ظاہری طور پر یہ کام بہت مشکل دکھائی دیتا ہے کہ نگران ایسا آسانی  سے ہونے نہیں دیتے لیکن جب انسان کی قسمت اچھی ہو اور تقدیر اس کا ساتھ دے رہی ہو تو یہ کام بھی آسان ہونا ہے ورنہ انسان اپنی بدنصیبی کو روتا ہے۔ بقول شاعر


جو چل جائے تدبیر بنے،جو ٹل جائے تقدیر بنے

اس بات کو اصغر کیا سمجھیں یہ بات نہیں سمجھانے کی۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...