Popular Posts

Saturday, November 16, 2019

جماعت نہم اردو سبق ملکی پرندے اور دوسرے جانور تشریح پیراگراف نمبر6


سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر6


اقتباس:

بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے........اس طرف جا رہی ہے۔


حوالہ متن:

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کا نام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

محبت......الفت،لگاؤ

شکایت......گلہ، شکوہ

گیراج......گاڑی کھڑی کرنے کی عمارت

بھدی....بدصورت، بری

مشکل......دشوار، کٹھن


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور  کے درمیان سے اخذ کیاگیا ہے۔اس کا سیاق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے اور اس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال اور ددھیال دونوں پر جاتے ہیں۔ بھینس سے ہماری محبت پرانی ہے۔ دور سے بھینس کا پتا نہیں چلتا کہ وہ آ رہی ہےیا جا رہی ہے۔ بھینس اگر ورزش کرے تو چھریری ہوسکتی ہے۔


تشریح:

اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔

         تشریح طلب اقتباس میں مصنف بھینس کے بارے میں دلچسپ انداز میں بتاتا ہے کہ بھینس ایک ایسا جانور ہے جس سے ہم انسانوں کی دلچسپی اور محبت بہت پرانی ہے۔ یہ محبت اس وقت سے ہے جب دور بہت سادہ ہوتا تھا اور کھیتی باڑی کرکے روزی روٹی حاصل کی جاتی تھی اور دودھ جیسی نعمت کےلیے بھینسوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:


" ہم نے جانوروں کو انسان کے فائدے کےلیے پیدا کیا ہے".


         بھینسوں سے یہ محبت تب سے چلی آرہی ہے۔ اب یہ حالت آگئی ہے کہ ہمارا بھینس کے بغیر گزارا ہو ہی نہیں سکتا۔ بھینس چونکہ محبت اور احساس جیسے جذبوں سے بےنیاز ہوتی ہے اس لیے وہ ہمارے بغیرتو گزارہ کرسکتی ہے اور ہمارے بغیر رہ سکتی ہے لیکن ہم اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

         آج کل لوگوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ اگر شہر میں گھر لیا جائے تو ایسی جگہ ضرور ہونی چاہیے جہاں پر بھینس باندھی جاسکے اس لیے ایسے گھر پسند ہی نہیں کیے جاتے جہاں بھینس کو باندھنے کی جگہ نہ ہو۔

        مصنف بھینسوں کی وضع قطع اور بناوٹ کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اتنی موٹی اور حجم میں بڑی ہوتی ہے کہ اس کے جسم اور چہرے کا پتا نہیں چلتا اور دور سے اسے دیکھا جائے تو معلوم ہی نہیں پڑتا کہ بھینس ہماری طرف آ رہی ہے یا دوسری طرف جارہی ہے۔ جیسا کہ داغ دہلوی کہتے ہیں:


رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...