Popular Posts

Tuesday, November 5, 2019

جماعت نہم اردو سبق" لہو اور قالین" تشریح پیراگراف نمبر7


سبق: لہو اور قالین

پیراگراف نمبر7


اقتباس:

جس طرح بڑی دکانوں کے دروازوں پر.........میرے فن کا استعمال کر رہے تھے۔



حوالہ متن:

سبق کا عنوان: لہو اور قالین

مصنف کا نام: میرزا ادیب

صنف: ڈرامہ

ماخذ: لہو اور قالین


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

 شفاف.......صاف ستھرا

حسین و جمیل.....خوب صورت

اعلی ذوق........عمدہ شوق

شان و شوکت........ قدرومنزلت

مرعوب ہونا ........رعب دبدبے میں آنا، اثر لینا

امارت......امیری، دولت مندی

شخصیت.......ذات

نمائش....... دکھاوا، نمود

فن........ہنر، کاری گری


سیاق و سباق:

تشریح طلب اقتباس درسی سبق " لہو اور قالین  کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصور اختر نے تجمل کے تمام تر احسانات کا ذکر کے بعد اس کی اصلیت بتاتے ہوئے کہا کہ تم نے اپنی ذاتی تشہیر کےلیے میری مفلسی اور غربت کو ذریعہ بنایا اور تم معاشرے کو دکھانا چاہتے تھے کہ میں غریب نواز ہوں۔تمھارے اس کردار سے میری اہلیتوں پر برف کی تہ جم گئی۔


تشریح:

میرزا ادیب کا شمار اردو ادب کے نامور ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے تحریر کردہ ڈراموں میں زندگی کے  تمام اہم پہلوؤں کو اجاگر کیاگیا ہے۔" لہو اور قالین ان کا تحریر کردہ ایسا ڈرامہ ہے جس میں معاشرتی ناہمواری اور ریاکاری جیسے عوامل بےنقاب ہوتے ہیں۔

   تشریح طلب اقتباس میں مصنف کہتا ہے کہ اختر تجمل کے سامنے اپنی ساری روداد رکھتا ہے کہ کس طرح  تجمل اسے اپنے ہاں مصوری کےلیے لے آیا تھا۔اختر تجمل کو باور کراتا ہے کہ تم نے معاشرے میں اپنے نام اور مقام کےلیے میرا اور میرے فن کا استعمال کیا۔تم نے اپنی ذاتی تشہیر اور ناموری کےلیے مجھے جس طرح استعمال کیا اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جس طرح شہروں میں بڑی بڑی کپڑے کی دکانوں پر انسانی مجسموں کو خوب صورت اور عمدہ ملبوسات سے مزین کرکے شیشے کی خوب صورت الماریوں میں سجاوٹ کے طور پر رکھا جاتا ہے جولوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ جس سے لوگ اس خوب صورتی کو دیکھ کر خریداری کےلیے کھینچے چلے آتے ہیں کیونکہ  ان مجسموں کو سجانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ لوگ ان خوب صورت اور اعلی پہناوں  سے مزین مجسموں کو دیکھ کر،دکان اور دکانداروں کے عمدہ ذوق و شوق اور انکی شاندار قدرومنزلت سے متاثر ہوکر اس طرف کھینچے جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح میری ذات کی حیثیت بھی ایک سجے سجائے مجسمے جیسی تھی جسے آپ نے اپنے گھر کے کمرے میں لاکر سجا رکھا تھا اور اس کا مقصد تجمل صاحب, محض اتنا تھا کہ آپ اپنی امیری،دولت مندی اور عیش و عشرت سے مزین ذات کی نمودونمائش اور دکھاوے کےلیے میرا اور میرے فن کا استعمال کر رہے تھے۔

بقول شاعر

میری غربت نے اڑایا ہے میرے فن کا مذاق

تیری دولت نے تیرے عیب چھپا رکھے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...