Popular Posts

Sunday, November 17, 2019

جماعت نہم اردو سبق ملکی پرندے اور دوسرے جانور تشریح پیراگراف نمبر7


سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

پیراگراف نمبر7


اقتباس:

بھینس اگر ورزش کرتی.............. وہ انسان سے زیادہ خوش نصیب ہے۔


حوالہ متن: 

سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور

مصنف کانام: شفیق الرحمن

صنف: مضمون

ماخذ: مزید حماقتیں


خط کشیدہ الفاظ کے معانی

ورزش......کثرت کرنا

چھریری.....دبلی پتلی

بعض......کچھ، چند

احتیاط..... بچاؤ، محتاط ہونا

مشغلہ......شغل، شوق

جگالی.....چارہ چباتے رہنا

نیم باز ......آدھی کھلی

افق...... آسمان کا کنارہ جو زمین سے ملتا دکھائی دیتا ہے

تکنا......غور سے دیکھنا، گھورنا

قیاس آرائیاں کرنا.......اندازے لگانا، گمان کرنا

حافظہ......یادداشت

خوش نصیب.....خوش قسمت


سیاق و سباق:

 تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بھینس کے بارے میں بتاتا ہے کہ بھینس بھدی ہوتی ہے اور اس کا دور سے پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ آرہی ہے یا جارہی ہے۔ بھینس غذا کا خیال نہیں رکھتی۔ بھینسوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہےاور بھینس کا مذکر بھینسا بالکل نکما ہوتا ہے۔



تشریح: 

اردوکے ممتاز افسانہ نگار اور مزاح نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری سے کام لینے کی بجائے سادہ مگر مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے ۔

      تشریح طلب اقتباس میں مصنف بھینسوں کے متعلق بڑے واضح اور مفصل اور مزاحیہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ بھینس اگر اپنی صحت کے متعلق سوچتی، اپنی صحت کا خیال رکھتی ،ورزش کرتی اور دیگر جسمانی سرگرمیاں انجام دیتی اور اپنی خوراک کا بھی مناسب خیال رکھتی تو موٹی ہونے کی بجائے دبلی پتلی ہوسکتی تھی۔ طبیبوں کا بھی  قول ہے کہ


" خوراک کی کثرت اور بداحتیاطی جسم کو فربا کر دیتی ہے".


چونکہ بھینس اپنی صحت کے متعلق کچھ کر نہیں سکتی اس لیے وہ پتلی نہیں ہوسکتی اور اگر وہ خود کو دبلا پتلا رکھنے کےلیے کچھ کرتی بھی تب بھی کچھ واضح نہیں کہا جاسکتا کہ وہ خود کو دبلا پتلا کرنے میں کامیاب ہوپاتی یا نہیں کیونکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی صحت کے حوالے سے مکمل  احتیاط کرتے رہتے ہیں پھر بھی وہ موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی احتیاط کوئی فائدہ نہیں دیتی۔

     مصنف بھینس کے متعلق مزید کہتا ہے کہ جگالی کرنا یعنی ہروقت خوراک کو چباتے رہنا اور پانی کے تالاب میں پڑے رہنا بھینس کا مشغلہ اور شوق ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی ادیب نے مزاقا بجا ہی کہا ہے:


" شادی والے گھر سے اپنی عورت اور پانی کے تالاب سے بھینس کو نکالنا بڑا مشکل ہوتا ہے".


بھینس آدھی کھلی آنکھوں سے آسمان کو گھورتی رہتی ہے۔ اس پر کچھ لوگ گمان کرتے ہیں کہ بھینس کچھ سوچتی رہتی ہے حالانکہ یہ ان کا گمان ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ بھینس کچھ نہیں سوچتی۔ اگر بھینس نے اپنے بارے میں خود سوچنا ہوتا تو ہمیں اس کی فکر کرنے اور ہروقت اس کی ضروریات کا خیال رکھنے کا رونا رونے کی کیا ضرورت تھی۔ 

    بھینس کی صحت مندی کی ایک وجہ اس کی یادداشت کی کمزوری بھی ہے کیونکہ اسے کل کی بات اگلے دن یاد نہیں رہتی اور نہ ہی وہ اس بارے کچھ فکر کرتی ہے اس لیے یہ اس لحاظ سے انسان سے بہت زیادہ خوش قسمت ہے کیونکہ انسان کو نہ تو فکر چھوڑتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی تلخ یادوں کو بھلا  پاتا ہے بلکہ ساری زندگی سوچ سوچ کر کڑھتا ہے ۔ بقول شاعر


یاد ماضی عذاب ہے یارب 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...