Popular Posts

Thursday, November 7, 2019

جماعت نہم اردو سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" تشریح پیراگراف نمبر3


سبق: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
پیراگراف نمبر3

اقتباس:
بلبل ایک روایتی پرندہ ہے.........کوہ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں ہوتے

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: ملکی پرندے اور دوسرے جانور
مصنف: شفیق الرحمن
صنف: مضمون
ماخذ: مزید حماقتیں

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
روایتی..... قدیم، رسمی
خوش گلو......اچھی آواز والا
یقیناً........سچ مچ،واقعی
قصور.......جرم، خطا،غلطی
اصلی......حقیقی
کوہ ہمالیہ.......ہمالیہ کے پہاڑ
دامن......گود، جھولی

سیاق و سباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" ملکی پرندے اور دوسرے جانور" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف بلبل کی خصوصیات سے آگاہ کرنے سے پہلے کوے کے متعلق بتاتا ہے کہ اگر آپ کوؤں سے نالاں ہیں تو وہ بھی آپ سے نالاں ہوتے ہیں جبکہ بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جسے آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور اسے رونے پیٹنے پر اکسایا جاتا ہے۔

تشریح:
اردو کے ممتاز مزاح نگار اور افسانہ نگار شفیق الرحمن کے مضامین بہت ہلکے پھلکے اور نہایت شائستہ ہوتے ہیں۔ وہ الفاظ کی بازی گری کی بجائے سادہ اور مؤثر انداز میں لکھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں جو پڑھنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔
         تشریح طلب اقتباس میں مصنف ایک ننھے پرندے بلبل کی اہمیت اور اس کی خصوصیات کے متعلق ہمیں آگاہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بلبل ایک قدیم دور کا پرندہ ہے جس کے بارے میں ہم بہت پہلے سے سنتے آئے ہیں۔یہ ایسا عجیب پرندہ ہے جو پایا تو ہر جگہ جاتا ہے مگر ہمیں دیکھنے کو بہت کم ملتا ہے اور یہ ایسی جگہ موجود ہوتا ہی نہیں جہاں ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ موجود ہو اور ہم اس کو دیکھیں۔اس لیے اسے جہاں ہونا چاہیے وہاں یہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ میں سے کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس نے چڑیا گھر یا باہر کہیں بلبل کو دیکھا ہوا ہے تو وہ بالکل غلط سمجھتا ہے کیونکہ اس نے ضرور بلبل کی بجائے کوئی اور چیز دیکھی ہوگی۔ بلبل کا دکھائی دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور کسی خوش قسمت ہی کو دکھائی دیتی ہے۔
          ہم کسی بھی اچھی آواز والے پرندے کی خوب صورت آواز سنتے ہیں تو اسے بلبل سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ ہی بلبل ہو۔ اس میں غلطی ہماری نہیں بلکہ ہمارے ادب کی ہے کیونکہ ہمیں ادب ہی سے معلوم ہوا ہے کہ بلبل اچھی آواز میں گاتی ہے اور ہمارے ادبی شعرا کرام اپنی شاعری میں بھی بلبل کے نغموں کو اکثر بیان کرتے رہتے ہیں حالانکہ انھوں نے بھی نہ بلبل دیکھی ہوتی ہے اور نہ کبھی اس کی آواز سنی ہوتی ہے پھر بھی اس کی خوب صورت آواز کو اپنی شاعری کا حصہ بنائے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

وہ نغمہ بلبل رنگیں نوا اک بار ہوجائے
کلی کی آنکھ کھل جائے،چمن بیدار ہوجائے

      مصنف کا خیال ہے کہ اصلی بلبل تو ہمارے ملک میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی کہیں دکھائی دیتی ہے لیکن ہمارے شعرا کرام نے اسے دیکھے سنے بغیر ہی اپنی شاعری کا حصہ بنا لیا۔
      سننے میں آیا ہے کہ شمالی پہاڑی علاقے کوہ ہمالیہ کی وادیوں میں کہیں کہیں بلبل تو پائی جاتی ہے لیکن وہاں شعرا موجود نہیں ہوتے۔اس لیے بلبل کے متعلق شعرا کے خیالات فرضی ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...