Popular Posts

Monday, November 4, 2019

جماعت نہم اردو سبق " امتحان" تشریح پیراگراف نمبر10

سبق: " امتحان"
پیراگراف نمبر10

اقتباس:
میں نے قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا..........سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔

حوالہ متن:
سبق کا عنوان: امتحان
مصنف کانام: مرزا فرحت اللہ بیگ
صنف: مضمون
ماخذ: مضامین فرحت

خط کشیدہ الفاظ کے معانی
اصول........قاعدہ، قانون
رائے......تجویز
مقنن.......قانون بنانے والا، قانون دان
تجویز.......رائے
پابند کرنا.........لاگو کرنا، عائد کرنا،لازم کرنا
نگاہ.......نظر، دید
تاڑ گئے........تاک گئے،جان گئے
بلا.......مصیبت
ناگہانی.......اچانک آنے والی
بلائے ناگہانی......اچانک آنے والی مصیبت

سیاق وسباق:
تشریح طلب اقتباس درسی سبق" امتحان" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔اس اقتباس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ مصنف کہتا ہے کہ امتحانی کمرے میں پرچہ حل کرتے وقت مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ کس چیز کا پرچہ ہے۔گارڈ صاحب نے پرچے کے عنوان پر انگلی رکھی تو معلوم ہوا کہ " اصول قانون" کا پرچہ ہے۔میں نے پرچے کو برابر والے سے پوچھ کر حل کرنے کی کوشش کی جو گارڈ کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ بالآخر میں نے براہ راست گارڈ صاحب سے ہی پوچھنے کا فیصلہ کرلیا۔
 
تشریح:
مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے نامور ادیب تھے۔ ان کا طرز تحریر سادہ اور پرلطف ہوتا تھا۔" امتحان" ان کا تحریر کردہ ایسا مضمون ہے جس میں وہ امتحان کے اثرات،اس کی اہمیت اور دوران امتحان پیش آنے والے واقعات کو خوش اسلوبی سے بیان کرتے ہیں۔
   تشریح طلب اقتباس میں مصنف اپنے " لاکلاس " کے امتحان کے وقت امتحانی کمرے کے اندر کی صورتحال بیان کرتا ہے کہ جب مجھے پتا چلا کہ پرچہ " اصول قانون" کا ہے تو میں نے اپنا قلم اٹھایا اور بلا سوچے سمجھے لکھنا شروع کردیا کیونکہ "اصول" کا موضوع ایسا ہے کہ اس کےلیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس مضمون پر ہر شخص اپنی تجویز اور رائے دے سکتا ہے کہ اصول کیوں اور کیسے ہونے چاہییں  اور یہ کہ اصول بنتے ہی ٹوٹنے کےلیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قانون دان ایک اصول معاشرے میں قائم کرکے اسے لاگو کراتا ہے تو دوسرا شخص اسے من و عن تسلیم نہیں کرتا اور اس اصول کو توڑ دیتا ہے اور اس پر اپنی الگ رائے قائم کر لیتا ہے۔
    چناں چہ اسی وجہ سے ہم اپنی تجویز کو کسی دوسرے کی رائے یا تجویز کا پابند نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے میں نے " اصول" کے متعلق خود سے لکھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ والے سے بھی کچھ پوچھنے کی جسارت کی اور نگرانوں اور گارڈ کی نظروں سے محفوظ رہنے کے لیے ادھر ادھر بھی نظر گھماتا رہا۔ کسی دانا کا قول ہے:
"دوسروں کو دھوکا دینے والا درحقیقت خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے".
     وہاں موجود گارڈ صاحب میری تمام کیفیت سے اچھی طرح واقف ہوگئے اوروہ میرے سر پر ایسے کھڑے ہوگئے جیسے بن بلائی مصیبت اچانک ہمارے گلے پڑ گئی ہو۔اس نے ذرا بھی ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش ناکام بنادی اورمیں مصیبت میں پڑگیا۔
 بقول شاعر
یونہی وقت سو سو کے ہیں جوگنواتے
وہ خرگوش, کچھوؤں سے ہیں زک اٹھاتے۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...