Popular Posts

Wednesday, December 9, 2020

پیراگراف نمبر6 سبق ملمع


 سبق: ملمع 

پیراگراف نمبر6
اقتباس: 
اب کیا ہو، وہ سوچتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نقاب نہ کھلنے پائے۔ 
حوالۂ متن: 
سبق کا عنوان:  ملمع
مصنفہ کا نام:  ہاجرہ مسرور
صنف: افسانہ
ماخذ:   سب افسانے میرے
خط کشیدہ الفاظ کے معانی:
سوچنا ۔۔۔۔ غوروفکر کرنا۔
زنانہ ۔۔۔۔ عورتوں کا۔
کاؤں کاؤں ۔۔۔۔ شورشرابہ، کل کل۔
جھنکار ۔۔۔۔ چھن چھن کی آواز۔
عادی ۔۔۔۔ پکے، پختہ طبیعت کے۔
مجرم ۔۔۔۔ جرم کرنے والے۔
ہائے ہائے ۔۔۔۔ آہ و بکا۔
ہتھکڑیاں ۔۔۔۔ مجرم کے ہاتھ میں پہنائے گئےآہنی کڑے۔
بیڑیاں ۔۔۔۔ مجرم  کے پاؤں میں ڈالے گئے آہنی کڑے۔
تال ۔۔۔۔ سُر ، ساز۔
طرفہ ۔۔۔۔ عجیب بات، انوکھی بات۔
گلا پھاڑ پھاڑ کر ۔۔۔۔ چیخ چیخ کر۔
خبردار ۔۔۔۔ باخبر رہنا، ہوشیار رہنا۔
نقاب ۔۔۔۔ حجاب، پردہ۔
سیاق و سباق: 
               تشریح طلب اقتباس درسی سبق " ملمع" کے درمیان سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا سیاق و سباق یہ ہے کہ ایک لڑکی اپنے بیمار چچا کی عیادت کرنے کی غرض سے جانے کےلیے  ریل گاڑی کے ذریعے سفر کرنا چاہ رہی تھی۔ ریلوے سٹیشن پر اس کا سامنا ایک امیر زادے سے ہوا۔ وہ اس سے متاثر ہوکر  اپنی اصلیت اور خریدا گیا تھرڈ کلاس کا ٹکٹ  چھپانا چاہتی تھی۔ٹکٹ خریدتے وقت تو لڑکا اسے کہیں نظر نہ آیا اور اس نے ٹکٹ خرید کر اسے  لڑکے سے چھپا لیا مگر ریل گاڑی پر سوار ہوتے وقت لڑکا اس کو دیکھ رہا تھا۔لڑکی کا قلی سامان رکھنے کےلیے دروازے پر اڑے مردوں کے درمیان سے نکل کر ڈبے میں داخل ہونے کی فکر کر رہا تھا جبکہ لڑکی عورتوں اور مردوں کے ہجوم میں پھنس کر رہ گئی تھی۔
تشریح:  
         ہاجرہ مسرور اردو ادب کی نامور مصنفہ اور افسانہ نگار تھیں۔ ان کے افسانوں میں خواتین کے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر معاشرتی مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ " ملمع " بھی ان کا تحریر کردہ ایسا افسانہ ہے جس میں وہ معاشرتی رویوں میں پائی  جانے والی ملمع کاری،  دکھاوے اور نمودونمائش سے پردہ اٹھاتی ہیں۔
                تشریح طلب اقتباس میں مصنفہ ہاجرہ مسرور  اس لڑکی کے متعلق آگاہ کرتی ہے جو اپنے بیمار چچا کی عیادت کی غرض سے سفر کرنے کےلیے ریلوے سٹیشن پر موجود تھی۔  وہاں وہ ایک امیرزادے سے متاثر ہوکر  اس سے اپنا تھرڈ کلاس کا ٹکٹ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئی تھی لیکن ریل گاڑی میں سوار ہونے کےلیے جب وہ ویٹنگ روم سے نکلی تو وہ لڑکا بڑی شان و شوکت سے سگریٹ منھ میں دبائے اسے دیکھ رہا تھا۔لڑکی ہر صورت میں لڑکے سے اپنے غریب ہونے کی اصلیت چھپانا چاہ رہی تھی۔اب تھرڈ کلاس ڈبے میں سوار ہوتے وقت اس کی اصلیت لڑکے کے سامنے بےنقاب ہونے کا امکان پیدا ہوگیا تھا۔اس لیے لڑکی سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اب وہ کیا کرے اور کس طرح اپنی اصلیت کو اس لڑکے سے چھپائے؟ وہ یہ سوچتے ہوئے تیز قدموں  سے آگے بڑھ رہی تھی۔وہ ریل گاڑی کے اس ڈبے کے عین نزدیک پہنچ گئی جو عورتوں کے لیے مختص تھا۔ ڈبے کے اندر بہت سی عورتیں شور مچائے ہوئے تھیں۔ ان عورتوں کی کل کل کے ساتھ ان کے زیورات کے کھنکنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔جس طرح بڑا  اور پختہ کار جرائم پیشہ افراد گرفتاری کے بعد خود کو بچانے کےلیے اور اپنی گرفتاری کے خلاف آہ و بکا اور شور کرتے ہیں اور ساتھ میں ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں ڈالے گئے آہنی کڑوں کی کھنک کی آوازیں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ڈبے میں عورتوں کا شور اور ان کے زیورات کی کھنک  سنائی دے رہی تھی۔ بقول اسمٰعیل میرٹھی 
   ؎ اے بارِ خدا یہ شوروغوغا کیا ہے
      کیا چیز طلب ہے  اور تمنا کیا ہے
            غرض ڈبے میں شورشرابہ اور زیورات کے کھنکنے کی آوازیں تو اپنی جگہ موجود تھیں مگر سب سے زیادہ عجب معاملا یہ تھا کہ اس شورشرابے میں ان عورتوں کے ساتھ آئے ہوئے مرد اپنی عورتوں کو نصیحتیں اور ہدایتیں جاری کر رہے تھے۔ ایک اپنی عورت سے مخاطب ہوکر کہ رہا تھا کہ منی کی ماں اپنے سامان کی حفاظت لازمی کرنا کہیں اسے گم نہ کر بیٹھنا۔  دوسرا شخص اس بےہنگم شورشرابے میں اپنی خاتون کو خبردار کرتے ہوئے کہ رہا تھا کہ حجاب اور پردے کا خاص خیال رکھنا تمھاری  بےپردگی ہرگز نہ ہونے پائے۔

No comments:

Post a Comment

پیراگراف4 اردو ادب میں عیدالفطر

                                                   سبق:       اردو ادب میں عیدالفطر                                                مصنف:    ...